مسند الحميدي کل احادیث 1337 :حدیث نمبر

مسند الحميدي
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے منقول روایات
حدیث نمبر: 1269
Save to word اعراب
1269 - قال سفيان: ثم سمعت ابن المنكدر يحدث، انه سمع جابر بن عبد الله، يقول مثله، إلا انه قال: فحثي لي ثلاثا، وزاد ابن المنكدر، قال جابر: ثم اتيت ابا بكر بعد، فقلت له: اعطني فلم يعطني، ثم اتيته، فقلت: اعطني، فلم يعطني، ثم اتيته، فقلت: اعطني، فلم يعطني، فقلت: يا ابا بكر إني سالتك ان تعطيني فلم تعطني، ثم سالتك ان تعطيني، فلم تعطني، فإما ان تعطيني، وإما ان تبخل عني، فقال: «قلت تبخل عني، واي الداء ادوا من البخل؟ فما منعتك من مرة إلا وانا اريد ان اعطيك» 1269 - قَالَ سُفْيَانُ: ثُمَّ سَمِعْتُ ابْنَ الْمُنْكَدِرِ يُحَدَّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ مِثْلَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: فَحَثَي لِي ثَلَاثًا، وَزَادَ ابْنُ الْمُنْكَدِرِ، قَالَ جَابِرٌ: ثُمَّ أَتَيْتُ أَبَا بَكْرٍ بَعْدُ، فَقُلْتُ لَهُ: أَعْطِنِي فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: أَعْطِنِي، فَلَمْ يُعْطِنِي، ثُمَّ أَتَيْتُهُ، فَقُلْتُ: أَعْطِنِي، فَلَمْ يُعْطِنِي، فَقُلْتُ: يَا أَبَا بَكْرٍ إِنِّي سَأَلْتُكَ أَنْ تُعْطِيَنِي فَلَمْ تُعْطِنِي، ثُمَّ سَأَلْتُكَ أَنْ تُعْطِيَنِي، فَلَمْ تُعْطِنِي، فَإِمَّا أَنْ تُعْطِيَنِي، وَإِمَّا أَنْ تَبْخَلَ عَنِّي، فَقَالَ: «قُلْتُ تَبْخَلُ عَنِّي، وَأَيُّ الدَّاءِ أَدْوَأُ مِنَ الْبُخْلِ؟ فَمَا مَنَعْتُكَ مِنْ مَرَّةٍ إِلَّا وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ أُعْطِيَكَ»
1269-یہی روایت ایک اور سند کے ہمراہ منقول ہے، تاہم اس میں یہ الفاظ ہیں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دونوں ہتھیلیاں ملا کر تین مرتبہ مجھے دیا۔
ابن منکدرنامی راوی نے یہ الفاظ نقل کیے ہیں۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: اس کے بعد میں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا میں نے ان سے کہا: مجھے کچھ دیجئے، تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا، میں پھران کے پاس آیا اور انہیں کہا: امجھے کچھ دیجئے، تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا میں پھر ان کے پاس آیا میں نے ان سے کہا: مجھے کچھ دیجئے، تو انہوں نے مجھے کچھ نہیں دیا میں نے کہا: اے سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ! میں نے آپ سے کچھ مانگا ہے، آپ مجھے کچھ دیں لیکن آپ نے مجھے کچھ نہیں دیا پھر میں نے آپ سے مانگا کہ آپ مجھے کچھ دیں لیکن آپ نے مجھے کچھ نہیں دیا، یاتو آپ مجھے کچھ دیں گے یا پھر آپ میرے حوالے سے بخل سے کام لیں گے، تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بولے: تم یہ کہہ رہے ہو کہ تم میرے حوالے سے بخل سے کام لو گے؟ کنجوسی سے زیادہ قابل علاج بیماری اور کون سی ہے؟ میں نے ایک مرتبہ تمہیں منع اس لیے کیا ہے کیونکہ میں تمہیں دینا چاہتا ہوں۔


تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2296، 2598، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 2314، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 4498، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7448، 12869، 13120، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14522، 14550، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1268، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 1961، 1966، 2019، 2020»

   صحيح البخاري2683جابر بن عبد اللهوعدني رسول الله أن يعطيني هكذا وهكذا
   صحيح البخاري2296جابر بن عبد اللهلو قد جاء مال البحرين قد أعطيتك هكذا وهكذا وهكذا
   صحيح البخاري3164جابر بن عبد اللهلو قد جاءني مال البحرين لقد أعطيتك هكذا وهكذا وهكذا
   صحيح البخاري2598جابر بن عبد اللهلو جاء مال البحرين أعطيتك هكذا ثلاثا
   صحيح البخاري4383جابر بن عبد اللهلو قد جاء مال البحرين لقد أعطيتك هكذا وهكذا ثلاثا
   صحيح مسلم6023جابر بن عبد اللهلو قد جاءنا مال البحرين لقد أعطيتك هكذا وهكذا وهكذا
   مسندالحميدي1268جابر بن عبد اللهيا جابر لو قد جاء مال البحرين لأعطيتك هكذا، وهكذا، وهكذا
   مسندالحميدي1269جابر بن عبد اللهقلت تبخل عني، وأي الداء أدوأ من البخل؟ فما منعتك من مرة إلا وأنا أريد أن أعطيك

مسند الحمیدی کی حدیث نمبر 1269 کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1269  
فائدہ:
قوم کا امیر بہت دانا ہوتا ہے، اگر امیر کسی وقت کسی شخص سے تعاون روک دے اور دوسرے سے تعاون کر دے اور اس کی نیت ہو کہ کسی اور موقع پر اس سے تعاون کر دوں گا، تو اس کا مقصود حوصلہ شکنی نہیں ہوتا، انسان حریص ہے لیکن سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ بخیل نہیں تھے، اگر بخیل ہوتے تو اپنا سارا مال صدقہ نہ کرتے، اور آپ کی خدمات ایک مکمل تاریخ ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1268   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:1268  
1268-امام محمد الباقر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: میں نے سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو یہ بیان کرتے ہوئے سنا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے جابر! جب اگر ہمارے پاس بحر ین کا مال آئے گا تو میں تمہیں اتنا اتنا اور اتنا دوں گا۔‏‏‏‏ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوگیا، بحرین کا مال نہیں آیا، وہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں آیا، تو سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اعلان کرنے کے لیے کہا: کہ جس شخص کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ادائیگی کرنی ہو، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے ساتھ کوئی وعدہ کیا ہو، تو وہ آجائے۔ سیدنا جاب۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:1268]
فائدہ:
اس حدیث میں ایک پیش گوئی اور معجزہ ہے کہ بحرین سے مال آئے گا، اور آیا، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دیکھا اور تقسیم کیا گیا، اس سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا چکے ہیں، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی وعدہ کرتے تھے اور کئی وعدوں کی پاسداری نہ کر سکے اور دنیا سے کوچ کر گئے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 1266   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4383  
4383. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اگر بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا دوں گا۔ یہ تین مرتبہ فرمایا، لیکن بحرین سے جب مال آیا تو رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو چکی تھی۔ جب حضرت ابوبکر ؓ کے پاس وہ مال پہنچا تو انہوں نے ایک منادی کے ذریعے سے اعلان کیا کہ جس شخص کا نبی ﷺ کے ذمے قرض ہو یا آپ نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہو تو وہ میرے پاس آئے۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور انہیں بتایا کہ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا: اگر بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا دوں گا۔ آپ نے تین مرتبہ ایسا فرمایا تھا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر نے مجھے مال دیا۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر ؓ سے ملا اور ان سے مال طلب کیا لیکن انہوں نے مجھے کچھ نہ دیا۔ میں دوبارہ ان کے پاس گیا پھر بھی کچھ نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4383]
حدیث حاشیہ:
حضرت صدیق ؓ کے فرمانے کا یہ مطلب تھا کہ میں اپنے حصے یعنی خمس میں سے دینا چاہتاہوں۔
خمس خاص خلیفہ اسلام کو ملتا ہے پھر وہ مختار ہیں جسے چاہیں دیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4383   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2296  
2296. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے (مجھ سے) فرمایا: اگر بحرین کا خراج آیا تو میں تجھے اس طرح (دونوں لپ بھر کر) دوں گا لیکن بحرین کا خراج آنے سے پہلے ہی نبی ﷺ وفات پا گئے۔ جب بحرین کا خراج آیا تو حضرت ابو بکر ؓ نے منادی کرائی کہ نبی ﷺ نے جس سے کوئی وعدہ کیا ہویا اس کا آپ پر قرض ہوتو وہ ہمارے پاس آئے، چنانچہ میں آپ کے پاس گیا اور عرض کیا: نبی ﷺ نے مجھے اتنا اتنا دینے کا وعدہ کیا تھا تو انھوں نے مجھے لپ بھر روپے دیے۔ میں نے انھیں گنا تو پانچ سو تھے۔ انھوں نے فرمایا: اس سے دوگنا (مزید) لےلو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2296]
حدیث حاشیہ:
سب تین لپ ہو گئے۔
آنحضرت ﷺ نے تین لپ کا وعدہ فرمایا تھا جیسے دوسری روایت میں ہے جس کو امام بخاری ؒ نے شہادات میں نکالا، اس کی تصریح ہے۔
باب کا مطلب اس سے یوں نکالا کہ حضرت ابوبکر ؓ جب آنحضرت ﷺ کے خلیفہ اور جانشین ہوئے تو گویا آپ کے سب معاملات اور وعدوں کے وہ کفیل ٹھہرے اور ان کو ان وعدوں کا پورا کرنا لازم ہوا۔
(قسطلانیؒ)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2296   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2598  
2598. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا اور اتنا دوں گا۔ لیکن بحرین سے مال آنے سے پہلے ہی نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی۔ پھر حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے منادی کرائی کہ نبی کریم ﷺ نے جس سے کوئی وعدہ کیا ہویا آپ پر اس کا کوئی قرض ہوتو وہ ہمارے پاس آئے۔ چنانچہ میں گیا اوربتایا کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے وعدہ کیا تھا تو انھوں نے مجھے تین لپ بھر کردیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2598]
حدیث حاشیہ:
حضرت امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ گویا آنحضرت ﷺ نے جابر کو مشروط طور پر بحرین کے مال آنے پر تین لپ مال ہبہ فرمادیا، مگر نہ مال آیا اور نہ آپ پورا کرسکے۔
بعد میں حضرت صدیق اکبر ؓ نے آپ کا وعدہ پورا فرمایا۔
اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2598   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2683  
2683. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: جب نبی کریم ﷺ فوت ہوئے تو حضرت ابوبکر ؓ کے پاس حضرت علاء بن حضرمی ؓ کی طرف سے مال آیا۔ حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا: جس شخص کا نبی کریم ﷺ کے ذمے قرض ہو یا اس سے آپ نے کوئی وعدہ کیا ہوتو وہ ہمارے پاس آئے۔ حضرت جابر ؓ نے کہا: میں نے حضرت ابوبکر ؓ سے عرض کیا: مجھ سے رسول اللہ ﷺ نے وعدہ کیا تھا کہ آپ مجھے اتنا اتنا مال دیں گے، آپ نے اپنے دونوں ہاتھ تین مرتبہ پھیلائے۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے میرے ہاتھ میں پانچ سو، پھر پانچ سو، پھر پانچ سو درہم دیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2683]
حدیث حاشیہ:
گویا حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے عہد نبوی کو پورا کر دکھایا، اس سے بھی یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ وعدہ کو پورا کرنا ہی ہوگا۔
خواہ بذریعہ عدالت ہی ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2683   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2296  
2296. حضرت جابر بن عبد اللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے (مجھ سے) فرمایا: اگر بحرین کا خراج آیا تو میں تجھے اس طرح (دونوں لپ بھر کر) دوں گا لیکن بحرین کا خراج آنے سے پہلے ہی نبی ﷺ وفات پا گئے۔ جب بحرین کا خراج آیا تو حضرت ابو بکر ؓ نے منادی کرائی کہ نبی ﷺ نے جس سے کوئی وعدہ کیا ہویا اس کا آپ پر قرض ہوتو وہ ہمارے پاس آئے، چنانچہ میں آپ کے پاس گیا اور عرض کیا: نبی ﷺ نے مجھے اتنا اتنا دینے کا وعدہ کیا تھا تو انھوں نے مجھے لپ بھر روپے دیے۔ میں نے انھیں گنا تو پانچ سو تھے۔ انھوں نے فرمایا: اس سے دوگنا (مزید) لےلو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2296]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر ؓ خلیفہ منتخب ہوئے تو انھوں نے اس بات کا التزام کیا کہ رسول اللہ ﷺ کے ذمے جو اشیاء انھیں ادا کرنا ہے، خواہ وعدے کی شکل میں ہوں یا قرض کی صورت میں۔
اس التزام سے وہ آپ کے ذمہ لازم ہوگئے۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ ایفائے عہد کو پسند کرتے تھے، اس لیے سیدنا ابو بکر ؓ نے اسے بدستور نافذ کیا۔
چونکہ رسول اللہ ﷺ نے تین دفعہ ہاتھ پھیلا کردینے کا وعدہ کیا تھا، اس لیے ابوبکر ؓ نے تین لپ بھر کردیے، یعنی آپ کے وعدے کو پوراپورا ادا کیا۔
(فتح الباري: 599/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2296   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2598  
2598. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھ سے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا اور اتنا دوں گا۔ لیکن بحرین سے مال آنے سے پہلے ہی نبی کریم ﷺ کی وفات ہوگئی۔ پھر حضرت ابو بکرصدیق ؓ نے منادی کرائی کہ نبی کریم ﷺ نے جس سے کوئی وعدہ کیا ہویا آپ پر اس کا کوئی قرض ہوتو وہ ہمارے پاس آئے۔ چنانچہ میں گیا اوربتایا کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ نے وعدہ کیا تھا تو انھوں نے مجھے تین لپ بھر کردیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2598]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت جابر ؓ سے مشروط طور پر ہبہ کا وعدہ کیا تھا کہ اگر بحرین سے مال آیا تو تجھے اتنا دوں گا، مگر مال نہ آیا اور نہ آپ اسے پورا کر سکے حتیٰ کہ آپ وفات پا گئے، بعد میں سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے آپ کا وعدہ پورا فرمایا۔
رسول اللہ ﷺ وعدہ پورا کرنے کی تلقین کرتے تھے اور خود بھی اس پر عمل پیرا تھے، اس لیے حضرت ابوبکر ؓ نے آپ کے طریقے کی اقتدا کرتے ہوئے آپ کا وعدہ پورا کیا۔
(2)
امام بخاری ؒ کا مقصد اس بات پر تنبیہ کرنا ہے کہ اگر کسی نے کوئی ہبہ یا وعدۂ ہبہ کیا ہو تو مکارم اخلاق کا تقاضا ہے کہ اسے پورا کیا جائے، اگرچہ شرعی اعتبار سے اس کا پورا کرنا واجب نہیں ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2598   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3164  
3164. حضرت جابر بن عبداللہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: اگرہمارے پاس بحرین سے مال آیا تو میں تمھیں اتنا اتنا اور اتنا دوں گا۔ پھر جب رسول اللہ ﷺ وفات پاگئے تو اس کے بعد بحرین کا مال آیا۔ تب حضرت ابو بکر ؓ نے فرمایا: جس کسی سے رسول اللہ ﷺ نے کوئی وعدہ کیا ہو وہ میرے پاس آئے (میں وعدہ پورا کروں گا)، چنانچہ میں حضرت ابو بکرؓکے پاس گیا اورعرض کی کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے وعدہ کیا تھا کہ اگربحرین کا مال آیا تو میں تجھے اتنا، اتنا اور اتنا دوں گا۔ حضرت ابو بکر ؓ نے مجھ سے فرمایا: تم اس سے لپ بھرلو۔ میں نے ایک لپ بھری تو انھوں نے مجھے فرمایا کہ اب اسے شمار کرو۔ میں نے انھیں شمار کیا تو وہ پانچ سو ہوئے۔ پھر انھوں نے مجھے ایک ہزار پانچ سودیے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3164]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے امام بخاری ؒنے عنوان کا دوسرا جز ثابت کیا ہے کہ بحرین کے مال فے اور جزیے سے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن وعدہ پورا کرنے سے پہلے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔
دراصل بحرین سے جزیے کا مال آیا تھا اورجزیہ بھی فے میں سے ہے جو جنگ کے بغیر حاصل ہوتا ہے۔

امام بخاری ؒ کا موقف ہے کہ مال فے جزیہ اور خراج وغیرہ امام کی صوابدید پر موقوف ہے، وہ جہاں چاہے جیسے چاہے خرچ کرسکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صوابدیدی اختیارات کی وجہ سے حضرت جابر ؓ کو کچھ دینے کا وعدہ کیا تھا جسے حضرت ابوبکر ؓ نے پورا کیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3164   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4383  
4383. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے مجھ سے فرمایا: اگر بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا دوں گا۔ یہ تین مرتبہ فرمایا، لیکن بحرین سے جب مال آیا تو رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو چکی تھی۔ جب حضرت ابوبکر ؓ کے پاس وہ مال پہنچا تو انہوں نے ایک منادی کے ذریعے سے اعلان کیا کہ جس شخص کا نبی ﷺ کے ذمے قرض ہو یا آپ نے کسی سے کوئی وعدہ کیا ہو تو وہ میرے پاس آئے۔ حضرت جابر کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر ؓ کے پاس آیا اور انہیں بتایا کہ نبی ﷺ نے مجھ سے فرمایا تھا: اگر بحرین سے مال آیا تو میں تجھے اتنا اتنا دوں گا۔ آپ نے تین مرتبہ ایسا فرمایا تھا۔ اس کے بعد حضرت ابوبکر نے مجھے مال دیا۔ حضرت جابر ؓ کہتے ہیں کہ میں حضرت ابوبکر ؓ سے ملا اور ان سے مال طلب کیا لیکن انہوں نے مجھے کچھ نہ دیا۔ میں دوبارہ ان کے پاس گیا پھر بھی کچھ نہ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4383]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں بحرین کا کوئی قصہ نہیں اور عمان ہی کا ذکر ہے البتہ اس حدیث میں بحرین سے مال آنے کا ذکر ہے۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اہل بحرین کی طرف کسی کو بھیجا تھا، چنانچہ حضرت مسور بن مخرمہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بادشاہوں کی طرف وفود بھیجے۔
اس ضمن میں عمان کے بادشاہ جلندی کے دو بیٹوں جیفر اور عیاذ کی طرف حضرت عمرو بن عاص ؓ کو بھیجا، باقی حضرات رسول اللہ ﷺ کی وفات سے پہلے واپس آگئے لیکن عمرو بن عاص ؓ ابھی بحرین میں تھے۔
کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات ہو گئی۔
وہ آپ کی وفات کے بعد مدینہ طیبہ آئے۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمان اور بحرین قریب قریب تھے اور آپ نے وفات سے تھوڑا عرصہ پہلے بادشاہوں کی طرف وفود روانہ کیےتھے۔
(فتح الباري: 120/8)

ایک روایت میں حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ حضرت علاء بن حضرمی ؓ کی طرف سے بحرین کا مال آیا تو حضرت ابو بکر ؓ نے مجھے بلایا اور حکم دیا کہ دونوں ہاتھوں سے لپ بھرو، پھر اسے شمار کرو، وہ پانچ صد تھے۔
آپ نے حضرت جابر ؓ کو دو دفعہ مزید پانچ پانچ سودرہم دیے۔
(صحیح البخاري، الشهادات، حدیث: 2683)
ایک دوسری روایت میں صراحت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ نے مجھے ایک ہزار پانچ سو درہم دیے۔
(صحیح البخاري، الجزیة والموادعة، حدیث: 3146)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4383   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.