(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا العوام بن حوشب ، عن عبد الله بن السائب ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الصلاة المكتوبة إلى الصلاة التي بعدها كفارة لما بينهما"، قال" والجمعة إلى الجمعة، والشهر إلى الشهر يعني رمضان إلى رمضان كفارة لما بينهما"، قال: ثم قال بعد ذلك:" إلا من ثلاث"، قال: فعرفت ان ذلك الامر حدث:" إلا من الإشراك بالله، ونكث الصفقة، وترك السنة"، قال: اما نكث الصفقة: ان تبايع رجلا ثم تخالف إليه تقاتله بسيفك، واما ترك السنة، قال: قلت: يا رسول الله، اما الإشراك بالله فقد عرفناه، فما نكث الصفقة؟ قال:" فان تبايع رجلا ثم تخالف إليه تقاتله بسيفك، واما ترك السنة، فالخروج من الجماعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ بْنُ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الصَّلَاةُ الْمَكْتُوبَةُ إِلَى الصَّلَاةِ الَّتِي بَعْدَهَا كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا"، قَالَ" وَالْجُمُعَةُ إِلَى الْجُمُعَةِ، وَالشَّهْرُ إِلَى الشَّهْرِ يَعْنِي رَمَضَانَ إِلَى رَمَضَانَ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا"، قَالَ: ثُمَّ قَالَ بَعْدَ ذَلِكَ:" إِلَّا مِنْ ثَلَاثٍ"، قَالَ: فَعَرَفْتُ أَنَّ ذَلِكَ الْأَمْرَ حَدَثَ:" إِلَّا مِنَ الْإِشْرَاكِ بِاللَّهِ، وَنَكْثِ الصَّفْقَةِ، وَتَرْكِ السُّنَّةِ"، قَالَ: أَمَّا نَكْثُ الصَّفْقَةِ: أَنْ تُبَايِعَ رَجُلًا ثُمَّ تُخَالِفَ إِلَيْهِ تُقَاتِلُهُ بِسَيْفِكَ، وَأَمَّا تَرْكُ السُّنَّةِ، قال: قلتُ: يا رسولَ الله، أما الإشراكُ بالله فقد عَرَفْناهُ، فما نَكْثُ الصَّفْقةِ؟ قال:" فأن تُبايعَ رجلاً ثم تخالِفَ إليهِ تُقاتِلُه بسَيْفكَ، وأَما تَرْكُ السُّنةِ، فََالْخُرُوجُ مِنَ الْجَمَاعَةِ".
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک فرض نماز اگلی نماز تک درمیان میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہوتی ہے، اسی طرح ایک جمعہ دوسرے جمعہ تک، ایک مہینہ (رمضان) دوسرے مہینے (رمضان) تک بھی درمیان میں ہونے والے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔“ اس کے بعد فرمایا: ”سوائے تین گناہوں کے۔“ میں سمجھ گیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ جملہ کسی خاص وجہ کی بناء پر فرمایا ہے۔ (بہرحال! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا) سوائے اللہ کے ساتھ شرک کرنے کے، معاملہ توڑنے کے اور سنت چھوڑنے کے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اللہ کے ساتھ شرک کرنے کا مطلب تو ہم سمجھ گئے، معاملہ توڑنے سے کیا مراد ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معاملہ توڑنے سے مراد یہ ہے کہ تم کسی شخص کے ہاتھ پر بیعت کرو، پھر اس کی مخالفت پر کمربستہ ہو جاؤ اور تلوار پکڑ کر اس سے قتال شروع کر دو اور سنت چھوڑنے سے مراد جماعت مسلمین سے خروج ہے۔“
حكم دارالسلام: صحيح دون قوله: «إلا من ثلاث ....» إلى آخر الحديث، أخرجه مسلم: 233 مختصرا، وإسناده ضعيف لجهالة الرجل الراوي عن أبى هريرة، كما روى يزيد بن هارون وسيأتي بزيادة رجل مبهم بين عبدالله وبين أبى هريرة، وقال الدارقطني : قول يزيد أشبه بالصواب من قول هشيم .