(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: سمعت رجلا من مزينة يسال رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا رسول الله، جئت اسالك عن الضالة من الإبل؟ قال:" معها حذاؤها وسقاؤها، تاكل الشجر، وترد الماء، فدعها حتى ياتيها باغيها"، قال: الضالة من الغنم؟ قال:" لك او لاخيك او للذئب، تجمعها حتى ياتيها باغيها"، قال: الحريسة التي توجد في مراتعها؟ قال:" فيها ثمنها مرتين وضرب نكال، وما اخذ من عطنه ففيه القطع، إذا بلغ ما يؤخذ من ذلك ثمن المجن"، قال: يا رسول الله، فالثمار، وما اخذ منها في اكمامها؟ قال:" من اخذ بفمه، ولم يتخذ خبنة، فليس عليه شيء، ومن احتمل، فعليه ثمنه مرتين وضربا ونكالا، وما اخذ من اجرانه، ففيه القطع، إذا بلغ ما يؤخذ من ذلك ثمن المجن"، قال: يا رسول الله، واللقطة نجدها في سبيل العامرة؟ قال:" عرفها حولا، فإن وجد باغيها، فادها إليه، وإلا فهي لك"، قال: ما يوجد في الخرب العادي؟ قال:" فيه وفي الركاز الخمس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَجُلًا مِنْ مُزَيْنَةَ يَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، جِئْتُ أَسْأَلُكَ عَنِ الضَّالَّةِ مِنَ الْإِبِلِ؟ قَالَ:" مَعَهَا حِذَاؤُهَا وَسِقَاؤُهَا، تَأْكُلُ الشَّجَرَ، وَتَرِدُ الْمَاءَ، فَدَعْهَا حَتَّى يَأْتِيَهَا بَاغِيهَا"، قَالَ: الضَّالَّةُ مِنَ الْغَنَمِ؟ قَالَ:" لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ، تَجْمَعُهَا حَتَّى يَأْتِيَهَا بَاغِيهَا"، قَالَ: الْحَرِيسَةُ الَّتِي تُوجَدُ فِي مَرَاتِعِهَا؟ قَالَ:" فِيهَا ثَمَنُهَا مَرَّتَيْنِ وَضَرْبُ نَكَالٍ، وَمَا أُخِذَ مِنْ عَطَنِهِ فَفِيهِ الْقَطْعُ، إِذَا بَلَغَ مَا يُؤْخَذُ مِنْ ذَلِكَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَالثِّمَارُ، وَمَا أُخِذَ مِنْهَا فِي أَكْمَامِهَا؟ قَالَ:" مَنْ أَخَذَ بِفَمِهِ، وَلَمْ يَتَّخِذْ خُبْنَةً، فَلَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ، وَمَنْ احْتَمَلَ، فَعَلَيْهِ ثَمَنُهُ مَرَّتَيْنِ وَضَرْبًا وَنَكَالًا، وَمَا أَخَذَ مِنْ أَجْرَانِهِ، فَفِيهِ الْقَطْعُ، إِذَا بَلَغَ مَا يُؤْخَذُ مِنْ ذَلِكَ ثَمَنَ الْمِجَنِّ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللُّقَطَةُ نَجِدُهَا فِي سَبِيلِ الْعَامِرَةِ؟ قَالَ:" عَرِّفْهَا حَوْلًا، فَإِنْ وُجِدَ بَاغِيهَا، فَأَدِّهَا إِلَيْهِ، وَإِلَّا فَهِيَ لَكَ"، قَالَ: مَا يُوجَدُ فِي الْخَرِبِ الْعَادِيِّ؟ قَالَ:" فِيهِ وَفِي الرِّكَازِ الْخُمُسُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے قبیلہ مزینہ کے ایک آدمی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ سوال کرتے ہوئے سنا کہ یا رسول اللہ! میں آپ کے پاس یہ پوچھنے کے لئے آیا ہوں کہ گمشدہ اونٹ کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے ساتھ اس کا " سم " اور اس کا " مشکیزہ " ہوتا ہے وہ خود ہی درختوں کے پتے کھاتا اور وادیوں کا پانی پیتا اپنے مالک کے پاس پہنچ جائے گا اس لئے تم اسے چھوڑ دو تاکہ وہ اپنی منزل پر خود ہی پہنچ جائے اس نے پوچھا کہ گمشدہ بکر ی کا کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا تم اسے لے جاؤ گے یا تمہارا کوئی بھائی لے جائے گا یا کوئی بھیڑیا لے جائے گا تم اسے اپنی بکر یوں میں شامل کرو تاکہ وہ اپنے مقصد پر پہنچ جائے۔ اس نے پوچھا وہ محفوظ بکر ی جو اپنی، چراگاہ میں ہو اسے چوری کر نے والے کے لئے کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی دوگنی قیمت اور سزا اور جسے باڑے سے چرایا گیا ہو تو اس میں ہاتھ کاٹ دیا جائے گا اس نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص خوشوں سے توڑ کر پھل چوری کر لے تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جو پھل کھالیے اور انہیں چھپا کر نہیں ان پر تو کوئی چیز واجب نہیں ہو گی لیکن جو پھل وہ اٹھا کر لے جائے تو اس کی دوگنی قیمت اور پٹائی اور سزا واجب ہو گی اور اگر وہ پھلوں کو خشک کر نے کی جگہ سے چوری کئے گئے اور ان کی مقدارکم ازکم ایک ڈھال کی قیمت کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ اس نے پوچھا یا رسول اللہ!! اس گری پڑی چیز کا کیا حکم ہے جو ہمیں کسی آبادعلاقے کے راستے میں ملے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورے ایک سال تک اس کی تشہیر کر اؤ اگر اس کا مالک آ جائے تو وہ اس کے حوالے کر دو ورنہ وہ تمہاری ہے اس نے کہا کہ اگر یہی چیز کسی ویرانے میں ملے تو؟ فرمایا: ”اس میں اور رکاز میں خمس واجب ہے۔