(حديث قدسي) حدثنا روح ، حدثنا حماد ، عن علي بن زيد ، عن يوسف بن مهران ، عن ابن عباس ، قال: لما نزلت آية الدين، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم" إن اول من جحد آدم عليه الصلاة والسلام، قالها ثلاث مرات، إن الله لما خلق آدم عليه الصلاة والسلام، مسح ظهره، فاخرج منه ما هو ذارئ إلى يوم القيامة، فجعل يعرضهم عليه، فراى فيهم رجلا يزهر، فقال: اي رب، اي بني هذا؟ قال: هذا ابنك داود. قال: اي رب، كم عمره؟ قال: ستون سنة. قال: اي رب، زد في عمره. قال: لا، إلا ان تزيده انت من عمرك. فكان عمر آدم الف عام، فوهب له من عمره اربعين عاما، فكتب الله عز وجل عليه كتابا، واشهد عليه الملائكة، فلما حضر آدم عليه السلام، اتته الملائكة لتقبض روحه، فقال: إنه لم يحضر اجلي، قد بقي من عمري اربعون سنة. فقالوا: إنك قد وهبتها لابنك داود. قال: ما فعلت، ولا وهبت له شيئا. وابرز الله عز وجل عليه الكتاب، فاقام عليه الملائكة".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ يُوسُفَ بْنِ مِهْرَانَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ آيَةُ الدَّيْنِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِنَّ أَوَّلَ مَنْ جَحَدَ آدَمُ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ، قَالَهَا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، إِنَّ اللَّهَ لَمَّا خَلَقَ آدَمَ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ، مَسَحَ ظَهْرَهُ، فَأَخْرَجَ مِنْهُ مَا هُوَ ذَارِئٌ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَجَعَلَ يَعْرِضُهُمْ عَلَيْهِ، فَرَأَى فِيهِمْ رَجُلًا يَزْهَرُ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، أَيُّ بَنِيَّ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا ابْنُكَ دَاوُدُ. قَالَ: أَيْ رَبِّ، كَمْ عُمْرُهُ؟ قَالَ: سِتُّونَ سَنَةً. قَالَ: أَيْ رَبِّ، زِدْ فِي عُمْرِهِ. قَالَ: لَا، إِلَّا أَنْ تَزِيدَهُ أَنْتَ مِنْ عُمْرِكَ. فَكَانَ عُمْرُ آدَمَ أَلْفَ عَامٍ، فَوَهَبَ لَهُ مِنْ عُمْرِهِ أَرْبَعِينَ عَامًا، فَكَتَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ كِتَابًا، وَأَشْهَدَ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةَ، فَلَمَّا حُضِرَ آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَام، أَتَتْهُ الْمَلَائِكَةُ لِتَقْبِضَ رُوحَهُ، فَقَالَ: إِنَّهُ لَمْ يَحْضُرْ أَجَلِي، قَدْ بَقِيَ مِنْ عُمْرِي أَرْبَعُونَ سَنَةً. فَقَالُوا: إِنَّكَ قَدْ وَهَبْتَهَا لِابْنِكَ دَاوُدَ. قَالَ: مَا فَعَلْتُ، وَلَا وَهَبْتُ لَهُ شَيْئًا. وَأَبْرَزَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ الْكِتَابَ، فَأَقَامَ عَلَيْهِ الْمَلَائِكَةَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ جب آیت دین نازل ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سب سے پہلے نادانستگی میں بھول کر کسی بات سے انکار کرنے والے حضرت آدم علیہ السلام ہیں اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق فرمایا تو کچھ عرصے بعد ان کی پشت پر ہاتھ پھیر کر قیامت تک ہونے والی ان کی ساری اولاد کو باہر نکالا اور ان کی اولاد کو ان کے سامنے پیش کرنا شروع کر دیا، حضرت آدم علیہ السلام نے ان میں ایک آدمی کو دیکھا جس کا رنگ کھلتا ہوا تھا، انہوں نے پوچھا: پروردگار! یہ کون ہے؟ فرمایا: ”یہ آپ کے بیٹے داوؤد ہیں“، انہوں نے پوچھا کہ پروردگار! ان کی عمر کتنی ہے؟ فرمایا: ”ساٹھ سال“، انہوں نے عرض کیا کہ پروردگار! ان کی عمر میں اضافہ فرما، ارشاد ہوا کہ ”یہ نہیں ہوسکتا، البتہ یہ بات ممکن ہے کہ میں تمہاری عمر میں سے کچھ کم کر کے اس کی عمر میں اضافہ کر دوں“، حضرت آدم علیہ السلام کی عمر ایک ہزار سال تھی، اللہ تعالیٰ نے اس میں سے چالیس سال لے کر حضرت داؤد علیہ السلام کی عمر میں چالیس سال کا اضافہ کر دیا اور اس مضمون کی تحریر لکھ کر فرشتوں کو اس پر گواہ بنا لیا۔ جب حضرت آدم علیہ السلام کی وفات کا وقت قریب آیا اور ملائکہ ان کی روح قبض کرنے کے لئے آئے تو حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا کہ ابھی تو میری زندگی کے چالیس سال باقی ہیں؟ ان سے عرض کیا گیا کہ آپ وہ چالیس سال اپنے بیٹے داوؤد کو دے چکے ہیں، لیکن وہ کہنے لگے کہ میں نے تو ایسا نہیں کیا، اس پر اللہ تعالیٰ نے وہ تحریر ان کے سامنے کر دی اور فرشتوں نے اس کی گواہی دی۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد، ويوسف بن مهران