حدثنا يونس بن محمد ، قال: حدثنا حماد يعني ابن سلمة ، عن داود يعني ابن ابي هند ، عن الشعبي ، عن فاطمة بنت قيس : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء ذات يوم مسرعا، فصعد المنبر، ونودي في الناس:" الصلاة جامعة" , فاجتمع الناس، فقال:" يا ايها الناس، إني لم ادعكم لرغبة نزلت، ولا لرهبة، ولكن تميما الداري اخبرني ان نفرا من اهل فلسطين ركبوا البحر، فقذفتهم الريح إلى جزيرة من جزائر البحر، فإذا هم بدابة اشعر، ما يدرى اذكر هو ام انثى لكثرة شعره، قالوا: من انت؟ فقالت: انا الجساسة، فقالوا: فاخبرينا، فقالت: ما انا بمخبرتكم، ولا مستخبرتكم، ولكن في هذا الدير رجل فقير إلى ان يخبركم، وإلى ان يستخبركم، فدخلوا الدير، فإذا رجل اعور، مصفد في الحديد، فقال: من انتم؟ قلنا نحن العرب، فقال: هل بعث فيكم النبي؟ قالوا: نعم، قال: فهل اتبعته العرب؟ قالوا: نعم، قال: ذلك خير لهم، قال: ما فعلت فارس، هل ظهر عليها؟ قالوا: لم يظهر عليها بعد، فقال: اما إنه سيظهر عليها، ثم قال: ما فعلت عين زغر؟ قالوا: هي تدفق ملاى، قال: فما فعل نخل بيسان، هل اطعم؟ قالوا: قد اطعم اوائله، قال: فوثب وثبة حتى ظننا انه سيفلت، فقلنا: من انت؟ قال: انا الدجال، اما إني ساطا الارض كلها غير مكة وطيبة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ابشروا يا معشر المسلمين , هذه طيبة لا يدخلها" , يعني: الدجال.حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ سَلَمَةَ ، عَنْ دَاوُدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي هِنْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَاءَ ذَاتَ يَوْمٍ مُسْرِعًا، فَصَعِدَ الْمِنْبَرَ، وَنُودِيَ فِي النَّاسِ:" الصَّلَاةُ جَامِعَةٌ" , فَاجْتَمَعَ النَّاس، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، إِنِّي لَمْ أَدْعُكُمْ لِرَغْبَةٍ نَزَلَتْ، وَلَا لِرَهْبَةٍ، وَلَكِنَّ تَمِيمًا الدَّارِيَّ أَخْبَرَنِي أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَهْلِ فِلَسْطِينَ رَكِبُوا الْبَحْرَ، فَقَذَفَتْهُمْ الرِّيحُ إِلَى جَزِيرَةٍ مِنْ جَزَائِرِ الْبَحْرِ، فَإِذَا هُمْ بِدَابَّةٍ أَشْعَرَ، مَا يُدْرَى أَذَكَرٌ هُوَ أَمْ أُنْثَى لِكَثْرَةِ شَعْرِهِ، قَالُوا: مَنْ أَنْتَ؟ فَقَالَتْ: أَنَا الْجَسَّاسَةُ، فَقَالُوا: فَأَخْبِرِينَا، فَقَالَتْ: مَا أَنَا بِمُخْبِرَتِكُمْ، وَلَا مُسْتَخْبِرَتِكُمْ، وَلَكِنْ فِي هَذَا الدَّيْرِ رَجُلٌ فَقِيرٌ إِلَى أَنْ يُخْبِرَكُمْ، وَإِلَى أَنْ يَسْتَخْبِرَكُمْ، فَدَخَلُوا الدَّيْرَ، فَإِذَا رَجُلٌ أَعْوَرُ، مُصَفَّدٌ فِي الْحَدِيدِ، فَقَالَ: مَنْ أَنْتُمْ؟ قُلْنَا نَحْنُ الْعَرَبُ، فَقَالَ: هَلْ بُعِثَ فِيكُمْ النَّبِيُّ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: فَهَلْ اتَّبَعَتْهُ الْعَرَبُ؟ قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: ذَلِكَ خَيْرٌ لَهُمْ، قَالَ: مَا فَعَلَتْ فَارِسُ، هَلْ ظَهَرَ عَلَيْهَا؟ قَالُوا: لَمْ يَظْهَرْ عَلَيْهَا بَعْدُ، فَقَالَ: أَمَا إِنَّهُ سَيَظْهَرُ عَلَيْهَا، ثُمَّ قَال: مَا فَعَلَتْ عَيْنُ زُغَرَ؟ قَالُوا: هِيَ تَدْفُقُ مَلْأَى، قَالَ: فَمَا فَعَلَ نَخْلُ بَيْسَانَ، هَلْ أَطْعَمَ؟ قَالُوا: قَدْ أَطْعَمَ أَوَائِلُهُ، قَالَ: فَوَثَبَ وَثْبَةً حَتَّى ظَنَنَّا أَنَّهُ سَيَفْلِتُ، فَقُلْنَا: مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا الدَّجَّالُ، أَمَا إِنِّي سَأَطَأُ الْأَرْضَ كُلَّهَا غَيْرَ مَكَّةَ وَطَيْبَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبْشِرُوا يَا مَعْشَرَ الْمُسْلِمِينَ , هَذِهِ طَيْبَةُ لَا يَدْخُلُهَا" , يَعْنِي: الدَّجَّالَ.
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے اور ظہر کی نماز پڑھائی، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز پوری کر لی تو فرمایا کہ بیٹھے رہو! (آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) منبر پر تشریف فرما ہوئے، لوگ حیران ہوئے تو فرمایا: ”لوگو! اپنی نماز کی جگہ پر ہی بیٹھے رہو! میں نے تمہیں کسی بات کی ترغیب یا اللہ سے ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا۔ میں نے تمہیں صرف اس لئے جمع کیا ہے کہ تمیم داری میرے پاس آئے اور اسلام پر بیعت کی اور مسلمان ہو گئے اور مجھے ایک بات بتائی کہ وہ اپنے چچا زاد بھائیوں کے ساتھ ایک بحری کشتی میں سوار ہوئے، اچانک سمندر میں طوفان آ گیا، وہ سمندر میں ایک نامعلوم جزیرے کی طرف پہنچے یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو وہ چھوٹی چھوٹی کشتیوں میں بیٹھ کر جزیرے کے اندر داخل ہوئے، تو انہیں وہاں ایک جانور ملا جو موٹے اور گھنے بالوں والا تھا، انہیں سمجھ نہ آئی کہ وہ مرد ہے یا عورت انہوں نے اسے سلام کیا، اس نے جواب دیا، انہوں نے کہا: تو کون ہے؟ اس نے کہا: اے قوم! اس آدمی کی طرف گرجے میں چلو کیونکہ وہ تمہاری خبر کے بارے میں بہت شوق رکھتا ہے، ہم نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اس نے بتایا کہ میں جساسہ ہوں، چنانچہ وہ چلے یہاں تک کہ گرجے میں داخل ہو گئے وہاں ایک انسان تھا جسے انتہائی سختی کے ساتھ باندھا گیا تھا، اس نے پوچھا: تم کون ہو؟ انہوں نے کہا: ہم عرب کے لوگ ہیں، اس نے پوچھا کہ اہل عرب کا کیا بنا؟ کیا ان کے نبی کا ظہور ہو گیا؟ انہوں نے کہا: ہاں! اس نے پوچھا: پھر اہل عرب نے کیا کیا؟ انہوں نے بتایا کہ اچھا کیا، ان پر ایمان لے آئے اور ان کی تصدیق کی اس نے کہا کہ انہوں نے اچھا کیا، پھر اس نے پوچھا کہ اہل فارس کا کیا بنا؟ کیا وہ ان پر غالب آ گئے؟ انہوں نے کہا کہ وہ ابھی تک تو اہل فارس پر غالب نہیں آئے، اس نے کہا کہ یاد رکھو! عنقریب وہ ان پر غالب آ جائیں گے، اس نے کہا: مجھے زغر کے چشمہ کے بارے میں بتاؤ، ہم نے کہا: یہ کثیر پانی والا ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی باڑی کرتے ہیں، پھر اس نے کہا: نخل بیسان کا کیا بنا؟ کیا اس نے پھل دینا شروع کیا؟ انہوں نے کہا کہ اس کا ابتدائی حصہ پھل دینے لگا ہے، اس پر وہ اتنا اچھلا کہ ہم سجھے یہ ہم پر حملہ کر دے گا، ہم نے اس سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اس نے کہا کہ میں مسیح (دجال) ہوں، عنقریب مجھے نکلنے کی اجازت دیدی جائے گی، پس میں نکلوں گا تو زمین میں چکر لگاؤں گا اور چالیس راتوں میں ہر ہر بستی پر اتروں گا مکہ اور طیبہ کے علاوہ کیونکہ ان دونوں پر داخل ہونا میرے لئے حرام کر دیا گیا ہے“، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانو! خوش ہو جاؤ کہ طیبہ یہی مدینہ ہے، اس میں دجال داخل نہ ہو سکے گا۔“