حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن عبد الله بن جعفر ، عن عبد الواحد بن ابي عون ، عن جدته ، عن ابن ابي حدرد الاسلمي ، انه ذكر انه تزوج امراة، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم يستعينه في صداقها، فقال: " كم اصدقت؟" قال: قلت: مائتي درهم، قال:" لو كنتم تغرفون الدراهم من واديكم هذا ما زدتم، ما عندي ما اعطيك"، قال: فمكثت ثم دعاني رسول الله صلى الله عليه وسلم فبعثني في سرية بعثها نحو نجد، فقال:" اخرج في هذه السرية لعلك ان تصيب شيئا فانفلكه" قال: قال:" فخرجنا حتى جئنا الحاضر ممسين، قال: فلما ذهبت فحمة العشاء، بعثنا اميرنا رجلين رجلين، قال: فاحطنا بالعسكر، وقال: إذا كبرت وحملت، فكبروا واحملوا، وقال حين بعثنا رجلين: لا تفترقا، ولاسالن واحدا منكما عن خبر صاحبه فلا اجده عنده، ولا تمعنوا في الطلب، قال: فلما اردنا ان نحمل سمعت رجلا من الحاضر صرخ: يا خضرة، فتفاءلت بانا سنصيب منهم خضرة، قال: فلما اعتمنا، كبر اميرنا وحمل، وكبرنا وحملنا، قال: فمر بي رجل في يده السيف فاتبعته، فقال لي صاحبي: إن اميرنا قد عهد إلينا ان لا نمعن في الطلب فارجع، فلما رايت إلا ان اتبعه، قال: والله لترجعن او لارجعن إليه، ولاخبرنه انك ابيت، قال: فقلت: والله لاتبعنه، قال: فاتبعته حتى إذا دنوت منه رميته بسهم على جريداء متنه فوقع، فقال: ادن يا مسلم إلى الجنة، فلما رآني لا ادنو إليه ورميته بسهم آخر فاثخنته رماني بالسيف فاخطاني، واخذت السيف فقتلته به، واحتززت به راسه، وشددنا نعما كثيرة وغنما، قال: ثم انصرفنا، قال: فاصبحت فإذا بعيري مقطور به بعير عليه امراة جميلة شابة، قال: فجعلت تلتفت خلفها فتكبر، فقلت لها: إلى اين تلتفتين؟ قالت: إلى رجل والله إن كان حيا خالطكم، قال: قلت وظننت انه صاحبي الذي قتلت: قد والله قتلته، وهذا سيفه، وهو معلق بقتب البعير الذي انا عليه، قال: وغمد السيف ليس فيه شيء معلق بقتب بعيرها، فلما قلت ذلك لها قالت: فدونك هذا الغمد فشمه فيه إن كنت صادقا، قال: فاخذته فشمته فيه فطبقه، قال: فلما رات ذلك بكت، قال: فقدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم فاعطاني من ذلك النعم الذي قدمنا به" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ أَبِي عَوْنٍ ، عَنْ جَدَّتِهِ ، عَنِ ابْنِ أَبِي حَدْرَدٍ الْأَسْلَمِيِّ ، أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّهُ تَزَوَّجَ امْرَأَةً، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَعِينُهُ فِي صَدَاقِهَا، فَقَالَ: " كَمْ أَصْدَقْتَ؟" قَالَ: قُلْتُ: مِائَتَيْ دِرْهَمٍ، قَالَ:" لَوْ كُنْتُمْ تَغْرِفُونَ الدَّرَاهِمَ مِنْ وَادِيكُمْ هَذَا مَا زِدْتُمْ، مَا عِنْدِي مَا أُعطِيك"، قَالَ: فَمَكَثْتُ ثُمَّ دَعَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَبَعَثَنِي فِي سَرِيَّةٍ بَعَثَهَا نَحْوَ نَجْدٍ، فَقَالَ:" اخْرُجْ فِي هَذِهِ السَّرِيَّةِ لَعَلَّكَ أَنْ تُصِيبَ شَيْئًا فَأُنَفِّلَكَهُ" قَالَ: قَالَ:" فَخَرَجْنَا حَتَّى جِئْنَا الْحَاضِرَ مُمْسِينَ، قَالَ: فَلَمَّا ذَهَبَتْ فَحْمَةُ الْعِشَاءِ، بَعَثَنَا أَمِيرُنَا رَجُلَيْنِ رَجُلَيْنِ، قَالَ: فَأَحَطْنَا بِالْعَسْكَرِ، وَقَالَ: إِذَا كَبَّرْتُ وَحَمَلْتُ، فَكَبِّرُوا وَاحْمِلُوا، وَقَالَ حِينَ بَعَثَنَا رَجُلَيْنِ: لَا تَفْتَرِقَا، وَلَأَسْأَلَنَّ وَاحِدًا مِنْكُمَا عَنْ خَبَرِ صَاحِبِهِ فَلَا أَجِدُهُ عِنْدَهُ، وَلَا تُمْعِنُوا فِي الطَّلَبِ، قَالَ: فَلَمَّا أَرَدْنَا أَنْ نَحْمِلَ سَمِعْتُ رَجُلًا مِنَ الْحَاضِرِ صَرَخَ: يَا خَضْرَةُ، فَتَفَاءَلْتُ بِأَنَّا سَنُصِيبُ مِنْهُمْ خَضْرَةً، قَالَ: فَلَمَّا أَعْتَمْنَا، كَبَّرَ أَمِيرُنَا وَحَمَلَ، وَكَبَّرْنَا وَحَمَلْنَا، قَالَ: فَمَرَّ بِي رَجُلٌ فِي يَدِهِ السَّيْفُ فَاتَّبَعْتُهُ، فَقَالَ لِي صَاحِبِي: إِنَّ أَمِيرَنَا قَدْ عَهِدَ إِلَيْنَا أَنْ لَا نُمْعِنَ فِي الطَّلَبِ فَارْجِعْ، فَلَمَّا رَأَيْتُ إِلَّا أَنْ أَتَّبِعَهُ، قَالَ: وَاللَّهِ لَتَرْجِعَنَّ أَوْ لَأَرْجِعَنَّ إِلَيْهِ، وَلَأُخْبِرَنَّهُ أَنَّكَ أَبَيْتَ، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَأَتَّبِعَنَّهُ، قَالَ: فَاتَّبَعْتُهُ حَتَّى إِذَا دَنَوْتُ مِنْهُ رَمَيْتُهُ بِسَهْمٍ عَلَى جُرَيْدَاءِ مَتْنِهِ فَوَقَعَ، فَقَالَ: ادْنُ يَا مُسْلِمُ إِلَى الْجَنَّةِ، فَلَمَّا رَآنِي لَا أَدْنُو إِلَيْهِ وَرَمَيْتُهُ بِسَهْمٍ آخَرَ فَأَثْخَنْتُهُ رَمَانِي بِالسَّيْفِ فَأَخْطَأَنِي، وَأَخَذْتُ السَّيْفَ فَقَتَلْتُهُ به، وَاحْتَزَزْتُ بِهِ رَأْسَهُ، وَشَدَدْنَا نَعَمًا كَثِيرَةً وَغَنَمًا، قَالَ: ثُمَّ انْصَرَفْنَا، قَالَ: فَأَصْبَحْتُ فَإِذَا بَعِيرِي مَقْطُورٌ بِهِ بَعِيرٌ عَلَيْهِ امْرَأَةٌ جَمِيلَةٌ شَابَّةٌ، قَالَ: فَجَعَلَتْ تَلْتَفِتُ خَلْفَهَا فَتُكَبِّرُ، فَقُلْتُ لَهَا: إِلَى أَيْنَ تَلْتَفِتِينَ؟ قَالَتْ: إِلَى رَجُلٍ وَاللَّهِ إِنْ كَانَ حَيًّا خَالَطَكُمْ، قَالَ: قُلْتُ وَظَنَنْتُ أَنَّهُ صَاحِبِي الَّذِي قَتَلْتُ: قَدْ وَاللَّهِ قَتَلْتُهُ، وَهَذَا سَيْفُهُ، وَهُوَ مُعَلَّقٌ بِقَتَبِ الْبَعِيرِ الَّذِي أَنَا عَلَيْهِ، قَالَ: وَغِمْدُ السَّيْفِ لَيْسَ فِيهِ شَيْءٌ مُعَلَّقٌ بِقَتَبِ بَعِيرِهَا، فَلَمَّا قُلْتُ ذَلِكَ لَهَا قَالَتْ: فَدُونَكَ هَذَا الْغِمْدَ فَشِمْهُ فِيهِ إِنْ كُنْتَ صَادِقًا، قَالَ: فَأَخَذْتُهُ فَشِمْتُهُ فِيهِ فَطَبَقَهُ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَتْ ذَلِكَ بَكَتْ، قَالَ: فَقَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي مِنْ ذَلِكَ النَّعَمِ الَّذِي قَدِمْنَا بِهِ" .
حضرت عبداللہ بن ابی حدر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک عورت سے شادی کی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر مہر کی ادائیگی میں ان سے مدد کی درخواست کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا تم نے اس کا مہر کیا مقرر کیا تھا؟ میں نے عرض کیا دو سو درہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس وادی سے دراہم کنکریوں کی طرح اٹھا رہے ہوتے تب بھی اتنا زیادہ مہر مقرر نہیں کرنا چاہئے تھا میرے پاس تو اس وقت تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیں ہے۔
کچھ عرصے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا اور نجد کی طرف جانے والے ایک دستے میں شامل کر کے مجھے بھی وہاں بھیج دیا اور فرمایا کہ اس دستے کے ساتھ جاؤ شاید تمہیں کچھ مل جائے اور وہ میں تم ہی کو انعام میں دے دوں چناچہ ہم لوگ روانہ ہوگئے اور شام کے وقت شہر کے قریب پہنچ گئے جب رات کی سیاہی دور ہوگئی (اور چاندنی ہوگئی) تو ہمارے امیر نے ہمیں دو دو آدمی کر کے بھیجنا شروع کردیا ہم نے لشکر کو گھیر لیا ہمارے امیر نے کہا تھا کہ جب میں تکبیر کہہ کر حملہ کروں تو تم بھی تکبیر کہہ کر حملہ کردینا ایک دوسرے سے جدا نہ ہونا اور میں تم میں سے ہر ایک سے اس کے ساتھی کے متعلق پوچھوں گا یہ نہ ہو کہ وہ مجھے اپنے ساتھی کے پاس نہ ملے اور دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے بہت زیادہ آگے نہ بڑھ جانا۔
جب ہم نے حملے کا ارادہ کیا تو میں نے شہر سے ایک آدمی کی آواز سنی جو چیخ رہا تھا اے شادابی! میں نے اس سے یہ فال لی کہ ہمیں ان کی جانب سے شادابی نصیب ہوگی رات گہری ہوئی تو ہمارے امیر نے تکبیر کہہ کر حملہ کردیا اس کے پیچھے ہم نے بھی تکبیر کہتے ہوئے حملہ کردیا اچانک میرے پاس سے ایک آدمی گذرا جس کے ہاتھ میں تلوار تھی میں اس کے پیچھے لپکا تو میرا ساتھی کہنے لگا کہ ہمارے امیر نے ہمیں یہ تلقین کی تھی کہ ہم دشمن کا پیچھا کرتے ہوئے زیادہ آگے نہ بڑھیں اس لئے واپس آجاؤ جب میں اس کا پیچھاکر نے سے باز نہ آیا تو اس نے کہا کہ بخدایاتم واپس آجاؤور نہ میں انہیں جا کر بتادوں گا کہ تم نے ان کی بات نہیں مانی میں نے کہا کہ اللہ کی قسم! میں اس کا پیچھا ضرور کروں گا اور میں اس کا پیچھا کرتا رہاحتیٰ کہ اس کے قریب پہنچ کر میں نے اس کی کمر پر ایک تیرمارا وہ گرپڑا اور کہنے لگا اے مسلمان! جنت کے قریب آجا لیکن میں اس کے قریب نہیں گیا اور اسے دوسراتیر بھی دے مارا اور اسے ڈھیلا کردیا یہ دیکھ کر اس نے گھما کر اپنی تلوار مجھے دی ماری۔ لیکن اس کانشانہ خطا گیا اور میں نے وہ تلوار پکڑ کر اسی سے اسے قتل کردیا اور اس کا سر قلم کردیا چونکہ ہمارا حملہ بڑا شدید تھا (اس لئے دشمن بھاگ گیا) اور ہمیں بہت سے جانور اور بکریاں مال غنیمت میں ملیں اور ہم واپس روانہ ہوگئے۔ صبح ہوئی تو میرے اونٹ کے قریب ایک دوسرا اونٹ کھڑا تھا جس پر ایک خوبصورت جوان عورت سوار تھی وہ بارباربڑی کثرت کے ساتھ پیچھے مڑمڑ کر دیکھ رہی تھی میں نے اس سے پوچھا کہ تم کسے دیکھ رہی ہو؟ اس نے کہا کہ ایک آدمی کو تلاش کررہی ہوں بخدا! اگر وہ زندہ ہوتا تو وہ تمہیں آپکڑتا میں سمجھ گیا کہ یہ اسی شخص کی بات کررہی ہے جسے میں نے قتل کیا تھا چناچہ میں نے اسے بتایا کہ اسے تو میں قتل کرچکا ہوں ' اور اس کی تلواریہ ہے وہ تلوار میرے اونٹ کے پالان کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی جبکہ تلوار کے نیام میں جو اس کے اونٹ کے پالان کے ساتھ لٹکا ہوا تھا کچھ نہیں تھا جب میں نے اسے یہ بات بتائی تو وہ کہنے لگی کہ یہ نیام پکڑو اور اگر سچے ہو تو اس سے اندازہ کرو میں نے اس کے ہاتھ سے نیام پکڑا اور دونوں کا موازنہ کیا تو وہ ایک دوسرے کے برابرنکلے یہ دیکھ کر وہ عورت رونے لگی اور ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آگئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان جانوروں میں سے مجھے بھی حصہ دیا جو ہم لے کر آئے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام جدة عبدالواحد بن أبى عون