حدثنا يعقوب ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، قال: اخبرني عبد الرحمن بن هرمز ، عن عبد الله ابن بحينة ، وكان من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" هل قرا احد منكم معي آنفا؟"، قالوا: نعم، قال:" إني اقول: ما لي انازع القرآن!" ، فانتهى الناس عن القراءة معه حين قال ذلك.حَدَّثَنَا يَعْقُوب ، حَدَّثَنَا ابنُ أَخِي ابنِ شِهَاب ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: أَخْبرَنِي عَبدُ الرَّحْمَنِ بنُ هُرْمُزَ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ ابنِ بحَيْنَةَ ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَاب رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" هَلْ قَرَأَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مَعِي آنِفًا؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" إِنِّي أَقُولُ: مَا لِي أُنَازَعُ الْقُرْآنَ!" ، فَانْتَهَى النَّاسُ عَنِ الْقِرَاءَةِ مَعَهُ حِينَ قَالَ ذَلِكَ.
حضرت ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا کیا ابھی نماز میں تم میں سے کسی نے میرے ساتھ قرأت کی تھی؟ لوگوں نے کہا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب ہی تو میں کہوں کہ مجھ سے جھگڑا کیوں ہو رہا ہے؟ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا تو لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں قرأت کرنے سے باز آگئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح لكن من حديث الزهري، عن ابن أكيمة، عن أبى هريرة. واخطافيه ابن اخي ابن شهاب، فجعله من مسند ابن بحينة