حدثنا ابو كامل ، حدثنا زهير ، حدثنا الاسود بن قيس ، حدثنا ثعلبة بن عباد العبدي من اهل البصرة , قال: شهدت يوما خطبة لسمرة بن جندب ، فذكر في خطبته حديثا , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: بينا انا وغلام من الانصار نرمي في غرضين لنا على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى إذا كانت الشمس قيد رمحين او ثلاثة في عين الناظر اسودت حتى آضت كانها تنومة، قال: فقال احدنا لصاحبه: انطلق بنا إلى المسجد، فوالله ليحدثن شان هذه الشمس لرسول الله صلى الله عليه وسلم في امته حدثا , قال: فدفعنا إلى المسجد، فإذا هو بارز، قال: ووافقنا رسول الله صلى الله عليه وسلم حين خرج إلى الناس فاستقدم، " فقام بنا كاطول ما قام بنا في صلاة قط، لا نسمع له صوتا، ثم ركع كاطول ما ركع بنا في صلاة قط، لا نسمع له صوتا، ثم فعل في الركعة الثانية مثل ذلك، فوافق تجلي الشمس جلوسه في الركعة الثانية قال زهير حسبته قال: فسلم فحمد الله واثنى عليه، وشهد انه عبد الله ورسوله، ثم قال:" ايها الناس، انشدكم بالله إن كنتم تعلمون اني قصرت عن شيء من تبليغ رسالات ربي عز وجل لما اخبرتموني ذاك، فبلغت رسالات ربي كما ينبغي لها ان تبلغ، وإن كنتم تعلمون اني بلغت رسالات ربي لما اخبرتموني ذاك" قال: فقام رجال فقالوا: نشهد انك قد بلغت رسالات ربك، ونصحت لامتك، وقضيت الذي عليك، ثم سكتوا , ثم قال:" اما بعد، فإن رجالا يزعمون ان كسوف هذه الشمس، وكسوف هذا القمر، وزوال هذه النجوم عن مطالعها، لموت رجال عظماء من اهل الارض، وإنهم قد كذبوا، ولكنها آيات من آيات الله تبارك وتعالى يعتبر بها عباده، فينظر من يحدث له منهم توبة , وايم الله، لقد رايت منذ قمت اصلي ما انتم لاقون في امر دنياكم وآخرتكم، وإنه والله لا تقوم الساعة حتى يخرج ثلاثون كذابا آخرهم الاعور الدجال، ممسوح العين اليسرى، كانها عين ابي تحيى لشيخ حينئذ من الانصار بينه وبين حجرة عائشة، وإنها متى يخرج او قال: متى ما يخرج فإنه سوف يزعم انه الله، فمن آمن به وصدقه واتبعه، لم ينفعه صالح من عمله سلف، ومن كفر به وكذبه، لم يعاقب بشيء من عمله , وقال حسن الاشيب: بسيئ من عمله سلف، وإنه سيظهر , او قال سوف يظهر على الارض كلها إلا الحرم , وبيت المقدس، وإنه يحصر المؤمنين في بيت المقدس، فيزلزلون زلزالا شديدا، ثم يهلكه الله تبارك وتعالى وجنوده، حتى إن جذم الحائط او قال: اصل الحائط، وقال حسن الاشيب: واصل الشجرة، لينادي او قال: يقول: يا مؤمن او قال: يا مسلم، هذا يهودي او قال: هذا كافر تعال فاقتله" قال:" ولن يكون ذلك كذلك حتى تروا امورا يتفاقم شانها في انفسكم، وتساءلون بينكم , هل كان نبيكم ذكر لكم منها ذكرا؟ وحتى تزول جبال على مراتبها، ثم على اثر ذلك القبض" , قال: ثم شهدت خطبة لسمرة ذكر فيها هذا الحديث، فما قدم كلمة ولا اخرها عن موضعها.حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ قَيْسٍ ، حَدَّثَنَا ثَعْلَبَةُ بْنُ عَبَّادٍ الْعَبْدِيُّ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ , قَالَ: شَهِدْتُ يَوْمًا خُطْبَةً لِسَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ ، فَذَكَرَ فِي خُطْبَتِهِ حَدِيثًا , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بَيْنَا أَنَا وَغُلَامٌ مِنَ الْأَنْصَارِ نَرْمِي فِي غَرَضَيْنِ لَنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَتْ الشَّمْسُ قِيدَ رُمْحَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ فِي عَيْنِ النَّاظِرِ اسْوَدَّتْ حَتَّى آضَتْ كَأَنَّهَا تَنُّومَةٌ، قَالَ: فَقَالَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِهِ: انْطَلِقْ بِنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَوَاللَّهِ لَيُحْدِثَنَّ شَأْنُ هَذِهِ الشَّمْسِ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أُمَّتِهِ حَدَثًا , قَالَ: فَدَفَعْنَا إِلَى الْمَسْجِدِ، فَإِذَا هُوَ بَارِزٌ، قَالَ: وَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَرَجَ إِلَى النَّاسِ فَاسْتَقْدَمَ، " فَقَامَ بِنَا كَأَطْوَلِ مَا قَامَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ، لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ رَكَعَ كَأَطْوَلِ مَا رَكَعَ بِنَا فِي صَلَاةٍ قَطُّ، لَا نَسْمَعُ لَهُ صَوْتًا، ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ مِثْلَ ذَلِكَ، فَوَافَقَ تَجَلِّيَ الشَّمْسِ جُلُوسُهُ فِي الرَّكْعَةِ الثَّانِيَةِ قَالَ زُهَيْرٌ حَسِبْتُهُ قَالَ: فَسَلَّمَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَشَهِدَ أَنَّهُ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَيُّهَا النَّاسُ، أَنْشُدُكُمْ بِاللَّهِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي قَصَّرْتُ عَنْ شَيْءٍ مِنْ تَبْلِيغِ رِسَالَاتِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ لَمَا أَخْبَرْتُمُونِي ذَاكَ، فَبَلَّغْتُ رِسَالَاتِ رَبِّي كَمَا يَنْبَغِي لَهَا أَنْ تُبَلَّغَ، وَإِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُونَ أَنِّي بَلَّغْتُ رِسَالَاتِ رَبِّي لَمَا أَخْبَرْتُمُونِي ذَاكَ" قَالَ: فَقَامَ رِجَالٌ فَقَالُوا: نَشْهَدُ أَنَّكَ قَدْ بَلَّغْتَ رِسَالَاتِ رَبِّكَ، وَنَصَحْتَ لِأُمَّتِكَ، وَقَضَيْتَ الَّذِي عَلَيْكَ، ثُمَّ سَكَتُوا , ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ رِجَالًا يَزْعُمُونَ أَنَّ كُسُوفَ هَذِهِ الشَّمْسِ، وَكُسُوفَ هَذَا الْقَمَرِ، وَزَوَالَ هَذِهِ النُّجُومِ عَنْ مَطَالِعِهَا، لِمَوْتِ رِجَالٍ عُظَمَاءَ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ، وَإِنَّهُمْ قَدْ كَذَبُوا، وَلَكِنَّهَا آيَاتٌ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَعْتَبِرُ بِهَا عِبَادُهُ، فَيَنْظُرُ مَنْ يُحْدِثُ لَهُ مِنْهُمْ تَوْبَةً , وَايْمُ اللَّهِ، لَقَدْ رَأَيْتُ مُنْذُ قُمْتُ أُصَلِّي مَا أَنْتُمْ لَاقُونَ فِي أَمْرِ دُنْيَاكُمْ وَآخِرَتِكُمْ، وَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَخْرُجَ ثَلَاثُونَ كَذَّابًا آخِرُهُمْ الْأَعْوَرُ الدَّجَّالُ، مَمْسُوحُ الْعَيْنِ الْيُسْرَى، كَأَنَّهَا عَيْنُ أَبِي تحْيَى لِشَيْخٍ حِينَئِذٍ مِنَ الْأَنْصَارِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ حُجْرَةِ عَائِشَةَ، وَإِنَّهَا مَتَى يَخْرُجُ أَوْ قَالَ: مَتَى مَا يَخْرُجُ فَإِنَّهُ سَوْفَ يَزْعُمُ أَنَّهُ اللَّهُ، فَمَنْ آمَنَ بِهِ وَصَدَّقَهُ وَاتَّبَعَهُ، لَمْ يَنْفَعْهُ صَالِحٌ مِنْ عَمَلِهِ سَلَفَ، وَمَنْ كَفَرَ بِهِ وَكَذَّبَهُ، لَمْ يُعَاقَبْ بِشَيْءٍ مِنْ عَمَلِهِ , وَقَالَ حَسَنٌ الْأَشْيَبُ: بِسَيِّئٍ مِنْ عَمَلِهِ سَلَفَ، وَإِنَّهُ سَيَظْهَرُ , أَوْ قَالَ سَوْفَ يَظْهَرُ عَلَى الْأَرْضِ كُلِّهَا إِلَّا الْحَرَمَ , وَبَيْتَ الْمَقْدِسِ، وَإِنَّهُ يَحْصُرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي بَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَيُزَلْزَلُونَ زِلْزَالًا شَدِيدًا، ثُمَّ يُهْلِكُهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى وَجُنُودَهُ، حَتَّى إِنَّ جِذْمَ الْحَائِطِ أَوْ قَالَ: أَصْلَ الْحَائِطِ، وَقَالَ حَسَنٌ الْأَشْيَبُ: وَأَصْلَ الشَّجَرَةِ، لَيُنَادِي أَوْ قَالَ: يَقُولُ: يَا مُؤْمِنُ أَوْ قَالَ: يَا مُسْلِمُ، هَذَا يَهُودِيٌّ أَوْ قَالَ: هَذَا كَافِرٌ تَعَالَ فَاقْتُلْهُ" قَالَ:" وَلَنْ يَكُونَ ذَلِكَ كَذَلِكَ حَتَّى تَرَوْا أُمُورًا يَتَفَاقَمُ شَأْنُهَا فِي أَنْفُسِكُمْ، وَتَسَاءَلُونَ بَيْنَكُمْ , هَلْ كَانَ نَبِيُّكُمْ ذَكَرَ لَكُمْ مِنْهَا ذِكْرًا؟ وَحَتَّى تَزُولَ جِبَالٌ عَلَى مَرَاتِبِهَا، ثُمَّ عَلَى أَثَرِ ذَلِكَ الْقَبْضُ" , قَالَ: ثُمَّ شَهِدْتُ خُطْبَةً لِسَمُرَةَ ذَكَرَ فِيهَا هَذَا الْحَدِيثَ، فَمَا قَدَّمَ كَلِمَةً وَلَا أَخَّرَهَا عَنْ مَوْضِعِهَا.
ثعلبہ بن عباد عبدی کہتے ہیں کہ ایک دن میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کے خطبے میں حاضر ہوا تو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے اپنے خطبے میں یہ حدیث ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دن میں اور ایک انصاری لڑکا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں نشانہ بازی کررہے تھے جب دیکھنے والوں کی نظر میں سورج دو تین نیزوں کے برابر بلند ہوگیا تو وہ اس طرح تاریک ہوگیا جیسے تنومہ گھاس سیاہ ہوتی ہے یہ دیکھ کر ہم میں سے ایک نے دوسرے سے کہا آؤ مسجد چلتے ہیں واللہ سورج کی یہ کیفیت بتارہی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں کوئی اہم واقعہ رونما ہونے والا ہے۔ ہم لوگ مسجد پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس وقت تک باہر تشریف لا چکے تھے لوگ آرہے تھے اس دوران ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے رہے پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور ہمیں اتناطویل قیام کرایا کہ اس سے پہلے کبھی کسی نماز میں اتناطویل قیام نہیں کیا تھا لیکن ہم آپ کی قرأت نہیں سن پا رہے تھے کیونکہ قرأت سری تھی پھر اتنا طویل رکوع کیا کہ اس سے پہلے کبھی کسی نماز میں اتنا طویل رکوع نہیں کیا تھا اور ہمیں آپ کی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی اور دوسری رکعت بھی اسی طرح پڑھائی دوسری رکعت کے قعدہ میں پہنچنے تک سورج روشن ہوگیا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا اور اللہ کی حمدوثناء بیان کی اور خود کے بندہ اللہ اور رسول ہونے کی گواہی دے کر فرمایا اے لوگو میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر تم سمجھتے ہو کہ میں نے اپنے پروردگار کے کسی پیغام کو تم تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی کی ہو تو مجھے بتادو کیونکہ میں نے اپنی طرف سے اپنے رب کا پیغام اس طرح پہنچادیا ہے جیسے پہنچانے کا حق ہے اور اگر تم سمجھتے ہو کہ میری طرف سے میرے رب کے پیغام تم تک پہنچ گئے ہیں تب بھی مجھے بتادو اس پر کچھ لوگ کھڑے ہوگئے اور کہنے لگے ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ نے اپنے رب کا پیغام پہنچادیا، اپنی امت کی خیرخواہی کی اور اپنی ذمہ داری پوری کردی ہے پھر وہ لوگ خاموش ہوگئے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اما بعد کہہ کر فرمایا کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس چاند اور سورج کو گہن لگنا اور ان ستاروں کا اپنے مطلع سے ہٹ جانا اہل زمین میں سے کسی بڑے آدمی کی موت کی وجہ سے ہوتا ہے۔ لیکن وہ غلط کہتے ہیں یہ تو اللہ کی نشانیاں ہیں جن سے اللہ اپنے بندوں کو درس عبرت دیتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ان میں سے کون توبہ کرتا ہے اللہ کی قسم میں جب نماز پڑھانے کے لئے کھڑا ہوا تو میں نے وہ تمام چیزیں دیکھ لیں جن سے دنیا اور آخرت میں تمہیں سابقہ پیش آئے گا واللہ قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کذاب لوگوں کا خروج نہ ہوجائے جن میں سے سب سے آخر میں کانا دجال ہوگا اس کی بائیں آنکھ پونچھ دی گئی ہوگی جیسے ابویحیی کی آنکھ ہے یہ ایک انصاری کی طرف اشارہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حجرہ عائشہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ جب بھی خروج کرے گا تو خود کو اللہ سمجھے گا جو شخص ایمان لائے گا اس پر اس کی تصدیق اور اتباع کرے گا اسے ماضی کا کوئی عمل فائدہ نہیں دے سکے گا۔ جو اس کا انکار کرکے اس کی تکذیب کرے گا اس کے کسی عمل پر اس کا مواخذہ نہیں کیا جائے گا دجال ساری زمین پر غالب آجائے گا سوائے حرم شریف اور بیت المقدس کے اور وہ بیت المقدس میں مسلمانوں کا محاصرہ کرلے گا اور ان پر ایک سخت زلزلہ آئے بالآخر اللہ دجال اور اس کے لشکروں کو ہلاک کردے گا حتی کہ درخت کی جڑ میں سے آواز آئے گی کہ اے مسلمان یہ یہودی یا کافر یہاں چھپا ہوا ہے آکر اسے قتل کردو اور ایسا وقت تک نہیں ہوگا جب تک تم ایسے امور نہ دیکھ لو جن کی اہمیت تمہارے دلوں میں ہو اور تم آپس میں ایک دوسرے سے سوال کرو کہ کیا تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا کوئی تذکرہ کیا ہے اور جب تک پہاڑ اپنی جڑوں سے نہ ہل جائیں اس کے فورا بعد اٹھانے کا عمل شروع ہوجائے گا۔ ثعلبہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر میں حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ کے ایک خطبے میں شریک ہوا انہوں نے اس میں جب یہی حدیث دوبارہ بیان کی تو ایک لفظ بھی اپنی جگہ سے آگے پیچھے نہیں کیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة ثعلبة بن عباد، ولبعضه شواهد