(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، اخبرني عبد العزيز بن عمر ، عن الربيع بن سبرة ، عن ابيه , قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم من المدينة في حجة الوداع، حتى إذا كنا بعسفان , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن العمرة قد دخلت في الحج" , فقال له سراقة بن مالك او مالك بن سراقة شك عبد العزيز اي رسول الله، علمنا تعليم قوم كانما ولدوا اليوم، عمرتنا هذه لعامنا هذا ام لابد؟ قال:" بل لابد" , فلما قدمنا مكة طفنا بالبيت وبين الصفا والمروة، ثم امرنا بمتعة النساء، فرجعنا إليه، فقلنا يا رسول الله، إنهن قد ابين إلا إلى اجل مسمى، قال:" فافعلوا" , قال: فخرجت انا وصاحب لي علي برد , وعليه برد، فدخلنا على امراة , فعرضنا عليها انفسنا، فجعلت تنظر إلى برد صاحبي، فتراه اجود من بردي، وتنظر إلي فتراني اشب منه، فقالت: برد مكان برد، واختارتني فتزوجتها عشرا ببردي، فبت معها تلك الليلة، فلما اصبحت غدوت إلى المسجد، فسمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو على المنبر يخطب يقول:" من كان منكم تزوج امراة إلى اجل، فليعطها ما سمى لها، ولا يسترجع مما اعطاها شيئا، وليفارقها، فإن الله تعالى قد حرمها عليكم إلى يوم القيامة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عُمَرَ ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ سَبْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمَدِينَةِ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِعُسْفَانَ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْعُمْرَةَ قَدْ دَخَلَتْ فِي الْحَجِّ" , فَقَالَ لَهُ سُرَاقَةُ بْنُ مَالِكٍ أَوْ مَالِكُ بْنُ سُرَاقَةَ شَكَّ عَبْدُ الْعَزِيزِ أَيْ رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنَا تَعْلِيمَ قَوْمٍ كَأَنَّمَا وُلِدُوا الْيَوْمَ، عُمْرَتُنَا هَذِهِ لِعَامِنَا هَذَا أَمْ لْأَبَدِ؟ قَالَ:" بَلْ لْأَبَدِ" , فَلَمَّا قَدِمْنَا مَكَّةَ طُفْنَا بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَمَرَنَا بِمُتْعَةِ النِّسَاءِ، فَرَجَعْنَا إِلَيْهِ، فَقُلْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُنَّ قَدْ أَبَيْنَ إِلَّا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، قَالَ:" فَافْعَلُوا" , قَالَ: فَخَرَجْتُ أَنَا وَصَاحِبٌ لِي عَلَيَّ بُرْدٌ , وَعَلَيْهِ بُرْدٌ، فَدَخَلْنَا عَلَى امْرَأَةٍ , فَعَرَضْنَا عَلَيْهَا أَنْفُسَنَا، فَجَعَلَتْ تَنْظُرُ إِلَى بُرْدِ صَاحِبِي، فَتَرَاهُ أَجْوَدَ مِنْ بُرْدِي، وَتَنْظُرُ إِلَيَّ فَتَرَانِي أَشَبَّ مِنْهُ، فَقَالَتْ: بُرْدٌ مَكَانَ بُرْدٍ، وَاخْتَارَتْنِي فَتَزَوَّجْتُهَا عَشْرًا بِبُرْدِي، فَبِتُّ مَعَهَا تِلْكَ اللَّيْلَةَ، فَلَمَّا أَصْبَحْتُ غَدَوْتُ إِلَى الْمَسْجِدِ، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ يَخْطُبُ يَقُولُ:" مَنْ كَانَ مِنْكُمْ تَزَوَّجَ امْرَأَةً إِلَى أَجَلٍ، فَلْيُعْطِهَا مَا سَمَّى لَهَا، وَلَا يَسْتَرْجِعْ مِمَّا أَعْطَاهَا شَيْئًا، وَلْيُفَارِقْهَا، فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى قَدْ حَرَّمَهَا عَلَيْكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
سیدنا سبرہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ حجتہ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ سے نکلے جب ہم لوگ مقام غسان میں پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمرہ حج میں داخل ہو گیا ہے اس پر سیدنا سراقہ بن مالک نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں ان لوگوں کی طرح تعلیم دیجیے جو گویا آج ہی پیدا ہوئے ہوں یہ ہمارے اس عمرے کا حکم ہے یا ہمیشہ کے لئے یہی حکم ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں بلکہ ہمیشہ کا یہی حکم ہے۔ پھر جب ہم مکہ مکر مہ پہنچے تو ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا مروہ کے درمیان سعی کی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عورتوں کے پاس جانے کی اجازت دیدی ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس واپس آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! عورتیں ایک وقت مقررہ کے علاوہ کسی اور صورت میں راضی ہی نہیں ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایسا ہی کر لو چنانچہ میں اور میرا ساتھی نکلے میرے پاس بھی ایک چادر تھی اور اس کے پاس بھی ایک چادر تھی ہم ایک عورت کے پاس پہنچے اور اس کے سامنے اپنے آپ کو پیش کیا جب وہ میرے ساتھی کی چادر کو دیکھتی تو وہ اسے میری چادر سے اچھی معلوم ہو تی اور جب مجھے دیکھتی تو مجھے میرے ساتھی سے زیادہ جوان محسوس کر تی بالآخر کہنے لگی کہ چادر چادر کے بدلے میں ہو گی اور یہ کہہ کر اس نے مجھے پسند کر لیا اور میں نے اس سے اپنی چادر کے عوض دس دن کے لئے نکاح کر لیا۔ وہ رات میں نے اسی کے ساتھ گزاری جب صبح ہوئی تو مسجد کی طرف میں روانہ ہوا وہاں پہنچ کر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ آپ فرما رہے تھے تم میں جس شخص نے کسی عورت کے ساتھ ایک متعین وقت کے لئے نکاح کیا ہے اسے چاہیے کہ اس نے جو چیز مقرر کی ہے وہ اسے دیدے اور اپنی دی ہوئی چیز کو اس سے واپس نہ مانگے اور خود اس سے علیحدگی اختیار کر لے کیونکہ اللہ نے اب اس کام کو قیامت تک کے لئے تم پر حرام قرار دے دیا ہے۔