وعن ابن المسيب قال: وقعت الفتنة الاولى-يعني مقتل عثمان-فلم يبق من اصحاب بدر احد ثم وقعت الفتنة الثانية-يعني الحرة-فلم يبق من اصحاب الحديبية احد ثم وقعت الفتنة الثالثة فلم ترتفع وبالناس طباخ. رواه البخاري وَعَن ابْن الْمسيب قَالَ: وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ الْأُولَى-يَعْنِي مَقْتَلَ عُثْمَانَ-فَلَمْ يَبْقَ مِنْ أَصْحَابٍ بَدْرٍ أَحَدٌ ثُمَّ وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ الثَّانِيَةُ-يَعْنِي الْحَرَّةَ-فَلَمْ يَبْقَ مِنْ أَصْحَابِ الْحُدَيْبِيَةِ أَحَدٌ ثُمَّ وَقَعَتِ الْفِتْنَةُ الثَّالِثَةُ فَلَمْ تَرْتَفِعْ وَبِالنَّاسِ طَبَاخٌ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
ابن مسیّب ؒ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ”پہلا فتنہ، یعنی عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کا واقعہ، رونما ہوا تو غزوۂ بدر میں شریک ہونے والا کوئی صحابی باقی نہیں تھا، پھر دوسرا فتنہ یعنی واقعہ حرہ (یزید کے دور میں مدینہ پر حملہ ہوا) تو صلح حدیبیہ میں شریک کوئی صحابی باقی نہیں تھا، پھر تیسرا فتنہ رونما ہوا تو وہ ختم نہ ہوا جبکہ لوگوں میں عقل نہ رہی۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (4024)»