الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3799
3799. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابوبکر اور حضرت عباس ؓ کا گزر انصار کی مجلس سے ہوا جبکہ وہ رو رہے تھے۔ ان دونوں حضرات نے رونے کی وجہ پوچھی تو انصار کہنے لگے: ہمیں نبی ﷺ کا اپنے پاس بیٹھنا یاد آ رہا ہے۔ (آپ بیمار تھے) یہ سن کر وہ نبی ﷺ کے پاس گئے اور آپ کو اس بات کی اطلاع دی۔ پھر نبی ﷺ باہر تشریف لائے جبکہ چادر کے کنارے سے اپنا سر مبارک باندھا ہوا تھا۔ پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے۔ یہ آخری مرتبہ آپ کا منبر پر جلوہ افروز ہونا تھا۔ آپ نے اللہ تعالٰی کی حمد و ثنا کی، پھر فرمایا: ”لوگو! میں تمہیں انصار کی بابت وصیت کرتا ہوں کیونکہ یہ میری جان اور جگر ہیں۔ انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا ہے، البتہ ان کا حق باقی رہ گیا ہے، لہذا تم ان کے نیکوکار کی نیکی قبول کرو اور ان کے خطا کار سے درگزر کرو۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3799]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ ﷺ نے انصار کو کرش اور علیہ قراردیا ہے۔
کرش معدے کو کہتے ہیں جو غذا کے ٹھہرنے کی جگہ ہے جس کے باعث حیوان نشو ونما پاتا ہے اور علیہ وہ صندوقچی ہے جس میں انسان نفیس اور عمدہ چیز بطور حفاظت رکھتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کو اپنے قابل اعتماد رازدان اور صاحب امانت قراردیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ کو جگہ دینا اور آپ کی بھر پور مدد کرنا انصار کی ذمہ داری تھی جو انھوں نے پوری کردی ہے ان کے ذمے جو نصرت اسلام کا فریضہ تھا وہ بھی انھوں نے انجام دے دیا ہے۔
اب تمھاری باری ہے کہ تم ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔
انھیں کسی قسم کی اذیت سے دو چار نہ کرو۔
ان میں سے جو نیکو کار ہیں ان کی اچھی باتیں قبول کرو اور جو خطا کار ہیں ان کی خطاؤں سے درگزر کرو۔
یہی اب ان کے حقوق کی ادائیگی ہے جو تم نے پوری کرنی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3799
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3801
3801. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”انصار میرے معدے اور زنبیل کے درجے میں ہیں۔ عنقریب لوگ بہت ہو جائیں گے اور انصار کم ہوتے جائیں گے، لہذا ان کی خوبیوں کو قبول کرنا اور ان کی برائیوں سے چشم پوشی کرنا۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3801]
حدیث حاشیہ:
1۔
انصار نے رسول اللہ ﷺ کو رہنے کے لیے جگہ دی اور اسلام کی مدد کی۔
ان کا یہ وقت گزرچکا ہے کوئی دوسرا اس سعادت میں ان کے ساتھ شریک نہیں ہے اور نہ کوئی ان سے سبقت کر سکتا ہے۔
ان میں سے جو بھی فوت ہو گا اس کی جگہ کبھی پر نہ ہوگی لہٰذا وہ کم ہوتے رہیں گے اور دوسرے لوگ زیادہ ہوتے جائیں گے حتی کہ انصار کھانے میں نمک کے برابر رہ جائیں گے۔
ان کے مقابلے میں مہاجرین حکمران ہوں گے انھیں آپ نے وصیت فرمائی کہ انصار سے احسان کرتے رہنا اور انھیں تکلیف پہنچانے سے گریز کرنا۔
بعض لوگوں نے اس حدیث سے یہ اخذ کیا ہے کہ انصار کو کبھی حکومت نہیں ملے گی لیکن یہ موقف واضح نہیں ہے۔
2۔
واقعہ یہ حدیث رسول اللہ ﷺ کا ایک عظیم معجزہ ہے کہ انصار دن بدن کم ہو رہے ہیں اگرچہ اس کا دعوی کرنے والے بہت ہیں لیکن دعوی کرنے والوں کے پاس انصار ہونے کی کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ المستعان۔
نوٹ:
۔
امام بخاری ؒ نے ان احادیث کے ذریعے سے انصار کے مجموعی کردار کو نمایاں کیا ہے اس سے یہ انداز ہ کیا جا سکتا ہے کہ انصار نے کسی طرح بڑھ چڑھ کر اپنے مہاجرین بھائیوں کا احترام کیا اور کس قدر محبت خلوص ایثار اور قربانی سے کام لیا۔
نیز مہاجرین بھی اس نوازش و اکرام کی کتنی قدر کرتے تھے چنانچہ انھوں نے بھی انصار کی پیش کش سے کوئی غلط فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ ان سے صرف اتنا ہی حاصل کیا جس سے وہ اپنی ٹوٹی ہوئی معیشت کو سہارا دے سکتے تھے۔
واقعی رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ سلسلہ مؤاخات سے دور جاہلیت کے جانبدار نہ رویے رنگ و نسل اور وطن کے امتیازات مٹ گئے بلندی و پستی کا معیار انسانیت و تقوی کے علاوہ اور کوئی چیز نہ تھا۔
واقعی یہ بھائی چارہ رسول اللہ ﷺ کی ایک نادر حکمت عملی حکیمانہ سیاست اور مسلمانوں کو درپیش مسائل کا حل تھا۔
اس سلسلے میں انصار کا تعاون ایک ایسی مثال ہے جس کی مثال تاریخ عالم پیش کرنے سے قاصر ہے۔
اللہ تعالیٰ ان پاکیزہ ہستیوں کو اپنے ہاں بلند مقام عطا فرمائے اور قیامت کے دن ہمیں ان کی رفاقت نصیب کرے۔
آمین۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3801