حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 388
´وصیت کا وجوب منسوخ ہے`
«. . . 249- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”ما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه يبيت ليلتين إلا ووصيته عنده مكتوبة.“ . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر کسی مسلمان کے پاس وصیت والی کوئی چیز ہے تو اس کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے پاس لکھنے (یا لکھوانے) کے بغیر دو راتیں بھی گزارے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 388]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 2738، ومسلم 1627، من حديث مالك به]
تفقه: ➊ اس حدیث سے وصیت کا وجوب ثابت ہوتا ہے لیکن دوسری صحیح حدیث نے اس حکم کو منسوخ کردیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فلا وصیة لوارث» پس وارث کے لئے کوئی وصیت نہیں ہے۔ [سنن الترمذي: 2120 وسنده حسن وقال الترمذي: ”هذا حديث حسن“ ورواه ابوداود: 2870 وابن ماجه: 2713]
➋ جو شخص وارثوں کے علاوہ کسی دوسرے کے بارے میں ثلث (ایک تہائی) میں سے وصیت کرنا چاہتا ہے تو اس کے لکھنے میں جلدی کرے۔ اس جلدی کے مستحب ہونے پر اجماع ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 14/292]
➌ قرآن مجید میں والدین اور رشتہ داروں کے بارے میں وصیت کا حکم ہے جسے «لا وصية لوارث» والی حدیث نے منسوخ کردیا ہے لہٰذا معلوم ہوا کہ حدیث کے ساتھ نسخِ قرآن جائز ہے۔
➍ اگر کسی شخص کا بیٹا فوت ہو جائے تو بہتر یہ ہے کہ وہ اپنے پوتوں پوتیوں کے بارے میں وصیت لکھ دے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 249