(حديث مقطوع) حدثنا هارون بن معاوية، عن ابي سفيان، عن معمر، عن قتادة، قال: "إذا ابتاع المكاتبان احدهما الآخر: هذا هذا من سيده، وهذا هذا من سيده، فالبيع للاول. ويقول اهل المدينة: الولاء لسيد البائع، ويقولون: إنما ابتاع هذا ما على المكاتب، فالولاء للسيد.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مُعَاوِيَةَ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: "إِذَا ابْتَاعَ الْمُكَاتَبَانِ أَحَدُهُمَا الْآخَرَ: هَذَا هَذَا مِنْ سَيِّدِهِ، وَهَذَا هَذَا مِنْ سَيِّدِهِ، فَالْبَيْعُ لِلْأَوَّلِ. وَيَقُولُ أَهْلُ الْمَدِينَةِ: الْوَلَاءُ لِسَيِّدِ الْبَائِعِ، وَيَقُولُونَ: إِنَّمَا ابْتَاعَ هَذَا مَا عَلَى الْمُكَاتَبِ، فَالْوَلَاءُ لِلسَّيِّدِ.
قتاده رحمہ اللہ نے کہا: جب دو مکاتب آپس میں ایک دوسرے کو خرید لیں، یہ اس کے مالک سے اور وہ اس کے مالک سے، تو (ایسی صورت میں) پہلے جس نے خریدا ہے اس کی بیع کا اعتبار ہو گا (اور دوسرے کی بیع لغو ہو گی)، اور اہل مدینہ کا قول ہے کہ ولاء (حق وراثت) بیچنے والے مالک کو حاصل ہو گا، وہ کہتے ہیں: اس نے (جس نے خریدا) وہ چیز خریدی جو مکاتب پر واجب الاداء تھی، اس لئے ولاء ما لک کو ہی حاصل ہو گا۔
وضاحت: (تشریح احادیث 3161 سے 3167) مکاتب اس غلام کو کہتے ہیں جس نے اپنے مالک سے آزادی کے لئے لکھا پڑھی کی ہو کہ اتنی رقم ادا کرے گا تو آزاد ہو جائے گا، اگر کوئی غلام آزاد ہونے کے لئے پیش کش کرے اور مقررہ رقم دینا منظور کرے تو مالک کو اخلاقاً اس کی پیشکش قبول کرنا مستحب ہے۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے: « ﴿فَكَاتِبُوهُمْ إِنْ عَلِمْتُمْ فِيهِمْ خَيْرًا .....﴾[النور: 33] » اور ایسے غلام کا حقِ وراثت بھی آزاد شده غلام کی طرح اس کے مالک اور سید کا ہی ہوگا کیوں کہ اس نے اس غلام پر مہربانی کی تو ولاء اسی کا رہے گا۔ مذکورہ بالا اثر کی شرح مسألہ (2009) «و إذا اشترى المكاتبان كل واحد منهما صح شراء الاول و بطل شراء الآخر» کے تحت ابن قدامہ نے [المغنى 564/14] میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ نیز دیکھئے: [الكافي 600/2]، [الانصاف 471/7] و [المبدع 355/6] ۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى قتادة، [مكتبه الشامله نمبر: 3176]» اس اثر کی سند قتادہ رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ اور ابوسفیان کا نام محمد بن حمید المعمری الیشکری ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 15810]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى قتادة