الادب المفرد کل احادیث 1322 :حدیث نمبر

الادب المفرد
كتاب
288. بَابُ دَعَوَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
288. نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کا بیان
حدیث نمبر: 669
Save to word اعراب
حدثنا علي، قال: حدثنا سفيان، قال: حدثنا سمي، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يتعوذ من جهد البلاء، ودرك الشقاء، وسوء القضاء، وشماتة الاعداء. قال سفيان: في الحديث ثلاث، زدت انا واحدة، لا ادري ايتهن.حَدَّثَنَا عَلِيٌّ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُمَيٌّ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَعَوَّذُ مِنْ جَهْدِ الْبَلاءِ، وَدَرْكِ الشَّقَاءِ، وَسُوءِ الْقَضَاءِ، وَشَمَاتَةِ الأَعْدَاءِ. قَالَ سُفْيَانُ: فِي الْحَدِيثِ ثَلاثٌ، زِدْتُ أَنَا وَاحِدَةً، لا أَدْرِي أَيَّتُهُنَّ.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آزمائش اور مصیبت کی شدت، بدنصیبی کے پہنچنے، بری تقدیر اور دشمنوں کے خوش ہونے سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ سفیان کہتے ہیں: حدیث میں تین باتیں تھیں، ایک کا میں نے اضافہ کیا لیکن معلوم نہیں وہ کون سی ہے۔

تخریج الحدیث: «صحيح: أخرجه البخاري، كتاب الدعوات، باب التعوذ من جهد البلاء: 6347، 6616 و مسلم: 2707 و النسائي: 5491»

قال الشيخ الألباني: صحيح

الادب المفرد کی حدیث نمبر 669 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عثمان منيب حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، الادب المفرد: 669  
فوائد ومسائل:
(۱)ہر وہ مصیبت جس کا انسان متحمل نہ ہو اور اسے دور کرنے کی طاقت نہ رکھے وہ جہد البلاء ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے منقول ہے کہ اس کا مطلب مال کی کمی اور اہل و عیال کی کثرت ہے۔ مراد اس سے ہر شدید مصیبت ہے۔ (فضل الله الصمد)
(۲) سعادت و خوش بختی کی ضد بدبختی ہے۔ دنیا و آخرت کے معاملات میں ایسی صورت حال سے دور چار ہونا کہ بے بس ہو جانا اور آنے والی آزمائش میں ناکام ہو جانا بدبختی ہے۔ اور پر مشقت زندگی کی انتہا اور اس کا آخری سٹیج ہے۔
(۳) بری تقدیر کا مطلب ہے کہ ایسا فیصلہ جو انسان کی دنیا و آخرت کے نقصان کا باعث ہو، اس کا تعلق مال سے ہو یا ایمان سے۔ اسے برا بندوں کی نسبت سے کہا گیا ہے ورنہ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم حسن پر مبنی ہے۔
(۴) راوی نے جس لفظ کا اضافہ کیا وہ شماتة الاعداء ہے جیسا کہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباري ۱۱؍۱۴۸ میں وضاحت فرمائی ہے۔ اور یہ ایک دوسری حدیث سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے دیکھیے:(الصحیحة للالباني، حدیث:۱۵۴۱)اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کلمہ راوی کا اپنا نہیں بلکہ انہوں نے حدیث سے لیا ہے۔
(۵) اس سے رواۃ حدیث کی دیانت داری کا بھی پتا چلتا ہے کہ انہوں نے کس قدر دیانت سے احادیث جمع کیں۔
   فضل اللہ الاحد اردو شرح الادب المفرد، حدیث/صفحہ نمبر: 669   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.