اخبرنا جرير، عن عمارة، عن ابي زرعة، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((اول زمرة من امتي يدخلون الجنة على صورة القمر ليلة البدر، ثم الذين يلونهم على صورة اشد كوكب دري في السماء إضاءة، لا يبولون ولا يتغوطون ولا يتفلون ولا يمتخطون، امشاطهم الذهب ورشحهم المسك، ومجامرهم الالوة وازواجهم الحور واخلاقهم على خلق رجل واحد على صورة ابيهم آدم ستون ذراعا)).أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ، عَنْ عُمَارَةَ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((أَوَّلُ زُمْرَةٍ مِنْ أُمَّتِي يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ عَلَى صُورَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ عَلَى صُورَةِ أَشَدِّ كَوْكَبٍ دُرِّيٍّ فِي السَّمَاءِ إِضَاءَةً، لَا يَبُولُونَ وَلَا يَتَغَوَّطُونَ وَلَا يَتْفُلُونَ وَلَا يَمْتَخِطُونَ، أَمْشَاطُهُمُ الذَّهَبُ وَرَشْحُهُمُ الْمِسْكُ، وَمَجَامِرُهُمُ الَأَلُوَّةُ وَأَزْوَاجُهُمُ الْحُورُ وَأَخَلَاقُهُمْ عَلَى خَلْقِ رَجُلٍ وَاحِدٍ عَلَى صُورَةِ أَبِيهِمْ آدَمَ سُتُّونَ ذِرَاعًا)).
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سے جنت میں جانے والا پہلا گروہ چودھویں رات کے چاند کی صورت پر ہو گا، پھر جو ان کے بعد داخل ہو گا وہ آسمان پر سب سے زیادہ چمکنے والے ستارے کی صورت پر ہو گا، نہ انہیں بول و براز کی حاجت ہو گی نہ وہ تھوکیں گے اور نہ وہ ناک صاف کریں گے، ان کی کنگھیاں سونے کی ہوں گی اور پسینہ کستوری کا ہو گا، ان کے دھونی دان اگر بتی (عود) کے ہوں گے، ان کی ازواج حوریں ہوں گی، اور ان کی تخلیق ایک جیسی ہو گی اپنے باپ آدم علیہ السلام کی طرح ساٹھ ساٹھ (لمبے ہوں گے)۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، رقم: 3327. مسلم، كتاب الجنة، باب اول زمرة تدخل الجنة الخ، رقم: 2834. سنن ترمذي، رقم: 2535. مسند احمد: 230/2.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 961 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 961
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ جنت میں جانے والوں کے حسن وجمال میں فرق ہوگا، جتنے اعمال زیادہ ہوں گے اس حساب سے حسن بھی زیادہ ہوگا۔ لیکن قد وقامت میں سب برابر ہوں گے وہ ساٹھ ہاتھ (تقریباً نوے فٹ بنتا) ہے اور اسی طرح ان کی عمریں بھی برابر ہوں گی تیس تینتیس برس، جیسا کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنتی لوگ جنت میں داخل ہوں گے تو ان کے بدن پر بال نہیں ہوں گے، نہ ہی (چہرے پر) داڑھی اور مونچھ ہوگی، آنکھیں سرمگیں ہوں گی اور عمر تیس یا تینتیس سال ہوگی۔ “(سنن ترمذي، ابواب صفة الجنة، باب ماجاء فی سنن اهل الجنة) معلوم ہوا جنت میں پیشاب پاخانے کی بھی ضرورت نہیں ہوگی، اور نہ ہی تھوک، ناک کی رینٹ اور کان کی میل وغیرہ الائشیں ہوں گی۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ جنت کی نعمتوں کی طرح حوریں بھی جنتی مردوں کے لیے ایک نعمت ہوں گی۔ حوروں سے مراد وہ عورتیں ہیں جو اللہ ذوالجلال نے اپنی قدرت سے جنت میں مومنوں کے لیے پیدا کی ہیں۔ جو خوبصورت، سرمگیں آنکھوں والی، لؤلؤ کی طرح سفید اور شفاف رنگت والی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَحُورٌ عِیْنٌ() کَاَمْثَالِ اللُّؤْلُؤِ الْمَکْنُوْنِ() جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾(الواقعة: 22۔24).... ”اہل جنت کے لیے خوبصورت آنکھوں والی حوریں ہوں گی، ایسی حوریں جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی یہ سب کچھ انہیں ان اعمال کے بدلے میں ملے گا جو وہ دنیا میں کرتے رہے تھے۔“ یہ بھی معلوم ہوا ان کے اخلاق بھی ایک دوسرے کے مشابہ ہوں گے، کیونکہ جو لوگ اخلاق و عادات اور پسند و ناپسند میں جس قدر ہم خیال ہوتے ہیں، تو ان لوگوں کی اتنی ہی زیادہ گہری دوستی ہوتی ہے اور جنت میں لوگ ہم خیال اور ہم ذہن ہوں گے۔ کسی کے دل میں ایک دوسرے کے متعلق حسد و کینہ وغیرہ نہیں ہوگا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰی سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِیْنَ﴾(الحجر: 47) ”ان کے دلوں میں جو کچھ رنجش وکینہ تھا ہم سب کچھ نکال دیں گے، وہ بھائی بھائی بنے ہوئے ایک دوسرے کے آمنے سامنے تختوں پر بیٹھے ہوں گے۔“