اخبرنا روح بن عبادة، نا حماد وهو ابن سلمة، عن عمار بن ابي عمار، عن ابي هريرة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يلقى في النار اهلها وتقول هل من مزيد؟ حتى ياتيها تبارك وتعالى فيضع فيها قدمه فتبرد او تقول: قط قط".أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ، نا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يُلْقَى فِي النَّارِ أَهْلُهَا وَتَقُولُ هَلْ مِنْ مَزِيدٍ؟ حَتَّى يَأْتِيَهَا تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَيَضَعَ فِيهَا قَدَمَهُ فَتَبْرَدَ أَوْ تَقُولَ: قَطْ قَطْ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جہنمیوں کو جہنم میں ڈالا جائے گا، تو وہ یہی کہے گی، کیا کچھ اور ہے؟ حتیٰ کہ اس کے پاس اللہ تبارک وتعالیٰ آئے گا تو وہ اپنا قدم اس میں رکھے گا تو وہ سمٹ جائے گی اور کہے گی، کافی ہے، کافی ہے۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب التفسير، باب قوله (وتقول هل من مزيد)، رقم: 4849. مسلم، كتاب الجنة وصفة، باب النار يدخلها الجبارون الخ، رقم: 2848.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 960 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 960
فوائد: مذکورہ حدیث سے جہنم کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں انسان اور جن داخل کر دئیے جائیں گے، اس کے باوجود وہ نہیں بھرے گی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے ہر ہزار میں سے نو سو ننانوے آدمی جہنم میں جائیں گے۔ اور جہنم نہیں بھرے گی تو اللہ ذوالجلال نے وعدہ کیا، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿لَاَمْلَئَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الجنة وَ النَّاسِ اَجْمَعِیْنَ﴾(السجدة: 13)”میں جہنم کو انسانوں اور جنوں سے بھر دوں گا۔“ لیکن جب جن وانس جہنم میں جائیں گے، اس کے بعد اللہ ذوالجلال پوچھے گا: تو بھر گئی ہے یا نہیں؟ وہ جواب دے گی: کیا کچھ اور بھی ہے؟ یعنی اگرچہ میں بھر گئی ہوں، لیکن یا اللہ تیرے دشمنوں کے لیے میرے دامن میں اب بھی گنجائش ہے۔ تو اللہ ذوالجلال اس کے بعد اپنا قدم رکھیں گے تو جہنم پکار اٹھے گی: کافی ہے، کافی ہے۔