وبهذا، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((بادروا بالعمل قبل ست، الدابة وطلوع الشمس من مغربها، والدجال والدخان، وخويصة احدكم، وامر العامة))، قال كلثوم: وخويصة احدكم الموت وامر العامة الفتنة.وَبِهَذَا، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: ((بَادِرُوا بِالْعَمَلِ قَبْلَ سِتٍ، الدَّابَّةِ وَطُلُوعِ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا، وَالدَّجَّالِ وَالدُّخَانِ، وَخُوَيْصَةِ أَحَدِكُمْ، وَأَمْرِ الْعَامَّةِ))، قَالَ كُلْثُومٌ: وَخُوَيْصَةُ أَحَدِكُمُ الْمَوْتُ وَأَمْرُ الْعَامَّةِ الْفِتْنَةُ.
اسی سند سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”چھ چیزوں کے وقوع پذیر ہونے سے پہلے پہلے نیک اعمال کرنے میں جلدی کر لو: جانور کا نکلنا، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا، دجال اور دھوئیں کا نکلنا اور موت آنے سے پہلے اور فتنوں کے ظہور سے پہلے پہلے۔“
تخریج الحدیث: «مسلم، كتاب الفتن، باب فى بقية من احاديث الدجال، رقم: 2947. مسند احمد: 324/2. صحيح ابن حبان، رقم: 6790.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 852 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 852
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا مذکورہ چھ چیزوں کے آنے سے قبل انسان کو نیک عمل کر لینے چاہیے۔ دابۃ الارض، سورج کا مغرب کی جانب سے طلوع ہونا، دجال کا نکلنا اس کے متعلق دیکھئے شرح حدیث نمبر 220۔ دھواں: دھوئیں کے نکلنے کے بعد کسی کا نیک عمل یا ایمان لانا یا توبہ کرنا فائدہ نہیں دے گا۔ اور یہ دھواں پوری زمین کو اپنی لپیٹ میں لے گا، مسلمانوں کو صرف گھٹن، نزلہ اور زکام کی تکلیف ہوگی جبکہ کفار بے ہوش ہو جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿نَارْتَقِبْ یَومَ تَأتِی السَّمآءُ بِدُخَانٍ مُبِیْنٍ() یَغْشٰی النَّاسَ هٰذَا عَذَابٌ اَلِیْمٌ() رَبَّنَآ اکْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ اِِنَّا مُؤْمِنُوْنَ﴾(الدخان: 10۔ 11۔12) .... ”پس انتظار کرو اس دن کا جب آسمان صریح دھواں لیے ہوئے آئے گا اور وہ لوگوں پر چھا جائے گا یہ دردناک عذاب ہے....“ موت سے قبل توبہ:.... مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا موت آنے سے قبل انسان کو نیک عمل کر لینے چاہئیں، کیونکہ بعد کا پچھتاوا کام نہیں آئے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنَاکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلَا اَخَّرْتَنِی اِلٰی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِنْ الصَّالِحِیْنَ() وَلَنْ یُّؤَخِّرَ اللّٰهُ نَفْسًا اِِذَا جَاءَ اَجَلُہَا وَاللّٰهُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾(المنافقون: 10۔11) ”اور جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے اس میں سے (ہماری راہ میں) اس سے پہلے خرچ کرو کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے تو کہنے لگے: اے میرے پروردگار! مجھے تو تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا؟ اور جب کسی کا مقررہ وقت آجاتا ہے، پھر اسے اللہ تعالیٰ ہرگز مہلت نہیں دیتا۔“ ڈوبتے وقت تو فرعون نے بھی ایمان لانے کا اقرار کیا۔ اللہ ذوالجلال نے فرمایا: ﴿آٰلْئٰنَ وَ قَدْ عَصَیْتَ قَبْلُ وَ کُنْتَ مِنَ الْمُفْسِدِیْنَ﴾(یونس:91).... ”اب ایمان لاتا ہے؟ اور پہلے سرکشی کرتا رہا اور مفسدوں میں داخل رہا۔“ فتنوں کے ظہور کے وقت:.... معلوم ہوا فتنوں کے ظہور سے قبل نیکیاں کر لینی چاہئیں، کیونکہ فتنوں کے بعد نیکیاں کرنا مشکل ہو جاتی ہیں۔