وبهذا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" راى عيسى ابن مريم رجلا يسرق، فقال له: اسرقت؟ قال: لا والذي لا إله إلا هو، فقال عيسى: آمنت بالله وكذبت البصر".وَبِهَذَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" رَأَى عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ رَجُلًا يَسْرِقُ، فَقَالَ لَهُ: أَسْرَقْتَ؟ قَالَ: لَا وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ، فَقَالَ عِيسَى: آمَنْتُ بِاللَّهِ وَكَذَّبْتُ الْبَصَرَ".
اسی سند سے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام نے ایک آدمی کو چوری کرتے ہوئے دیکھا تو اسے فرمایا: کیا تم نے چوری کی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں، تو عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: میں اللہ پر ایمان لاتا ہوں اور نظر کو جھوٹا کہتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «بخاري، احاديث الانبياء، رقم: 3444. مسلم، كتاب الفضائل، باب فضائل عيسيٰ عليه السلام، رقم: 2368. سنن نسائي، رقم: 5427. سنن ابن ماجه، رقم: 2102. مسند احمد: 383/2.»
مسند اسحاق بن راہویہ کی حدیث نمبر 564 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافظ عبدالشكور ترمذي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مسند اسحاق بن راهويه 564
فوائد: مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا جس کو اللہ ذوالجلال کی قسم کھا کر کچھ بتایا جائے تو اسے تسلیم کر لینا چاہیے، لیکن اگر کوئی جھوٹی قسم اٹھائے گا تو گناہ گار قسم اٹھانے والا ہوگا، اگرچہ دوسراآدمی دیکھ بھی رہا ہو، پھر بھی قسم اٹھانے والے کی قسم کا اعتبار ہوگا۔ مذکورہ بالا حدیث سے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی عظمت کا اثبات بھی ہوتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام نے اس کو دیکھا، لیکن اللہ ذوالجلال کی قسم کے سبب اپنے مشاہدے اور رؤیت عینی کا انکار کر دیا۔مذکورہ حدیث کے پیش نظر فقہائے مالکیہ اور حنابلہ یہ رائے دیتے ہیں کہ قاضی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ محض اپنے علم کی بنیاد پر کوئی فیصلہ کرے۔ البتہ فقہائے شافعیہ کے نزدیک سوائے حدود کے بقیہ مقدمات ومعاملات میں قاضی کو فیصلہ کرنے کا اختیار ہے۔ (ارشاد الساری: 5؍ 417)