لقوله: {ومن لم يحكم بما انزل الله فاولئك هم الظالمون}. ومدح النبي صلى الله عليه وسلم صاحب الحكمة حين يقضي بها ويعلمها، لا يتكلف من قبله، ومشاورة الخلفاء وسؤالهم اهل العلم.لِقَوْلِهِ: {وَمَنْ لَمْ يَحْكُمْ بِمَا أَنْزَلَ اللَّهُ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ}. وَمَدَحَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَاحِبَ الْحِكْمَةِ حِينَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا، لاَ يَتَكَلَّفُ مِنْ قِبَلِهِ، وَمُشَاوَرَةِ الْخُلَفَاءِ وَسُؤَالِهِمْ أَهْلَ الْعِلْمِ.
اللہ پاک نے فرمایا «ومن لم يحكم بما أنزل الله فأولئك هم الظالمون» جو لوگ اللہ کے اتارے موافق فیصلہ نہ کریں وہی لوگ ظالم ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس علم والے کی تعریف کی جو علم (قرآن و حدیث) کے موافق فیصلہ کرتا ہے اور لوگوں کو قرآن و حدیث سکھلاتا ہے اور اپنی طرف سے کوئی بات نہیں بتاتا۔ اس بات میں یہ بھی بیان کیا ہے کہ خلفاء نے اہل علم سے مشورے لیے ہیں۔
(مرفوع) حدثنا شهاب بن عباد، حدثنا إبراهيم بن حميد، عن إسماعيل، عن قيس، عن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا حسد إلا في اثنتين: رجل آتاه الله مالا فسلط على هلكته في الحق، وآخر آتاه الله حكمة فهو يقضي بها ويعلمها".(مرفوع) حَدَّثَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ حُمَيْدٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَآخَرُ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا".
ہم سے شہاب بن عباد نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن حمید نے بیان کیا، ان سے اسماعیل بن ابی خالد نے، ان سے قیس بن ابی حازم نے، ان سے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”رشک دو ہی آدمیوں پر ہو سکتا ہے، ایک وہ جیسے اللہ نے مال دیا اور اسے (مال کو) راہ حق میں لٹانے کی پوری طرح توفیق ملی ہوتی ہے اور دوسرا وہ جسے اللہ نے حکمت دی ہے اور اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔“
Narrated `Abdullah: Allah's Apostle said, "Do not wish to be like anybody except in two cases: The case of a man whom Allah has given wealth and he spends it in the right way, and that of a man whom Allah has given religious wisdom (i.e., Qur'an and Sunna) and he gives his verdicts according to it and teaches it." (to others i.e., religious knowledge of Qur'an and Sunna (Prophet's Traditions)). "
USC-MSA web (English) Reference: Volume 9, Book 92, Number 419
لا تنافس بينكم إلا فى اثنتين : رجل أعطاه الله عز وجل القرآن فهو يقوم به الليل والنهار ، فيتتبع ما فيه ، فيقول الرجل لو أعطاني الله مثل ما أعطى فلانا ، فأقوم به مثل ما يقوم فلان ، ورجل أعطاه الله مالا ينفق ويتصدق ، فيقول رجل مثل ذلك
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7316
حدیث حاشیہ: حکمت سے قرآن وحدیث کا پختہ علم مراد ہے جیسے حدیث میں فقاہت کہا گیا ہے۔ من یرد اللہ به خیرا یفقهه في الدین قرآن وحدیث کی فقاہت مراد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7316
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7316
حدیث حاشیہ: اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صاحب حکمت کو قابل رشک ٹھہرایا ہے اور حکمت سے قرآن وحدیث کا علم مراد ہے جسے ایک دوسری حدیث میں فقاہت قرار دیا گیا ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ خیروبرکت کا ارادہ کرتا ہے اسے دین میں سمجھ عطا کر دیتا ہے۔ “(صحیح البخاري، العلم، حدیث: 71) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الاحکام میں اس حدیث پر ان الفاظ میں عنوان قائم کیا ہے: (باب أجر من قضى بالحكمة) ”جوحکمت کے مطابق فیصلے کرے اس کے اجروثواب کا بیان۔ “(صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 3) بہرحال حکمت کے مطابق فیصلے کرنے والا حاکم اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل تعریف ہے حتی کہ قابل رشک قرار دیا گیا ہے۔ واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7316
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث مشكوة المصابيح 202
´رشک کی جائز صورت` «. . . وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ رَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ وَرَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ - [71] - الْحِكْمَة فَهُوَ يقْضِي بهَا وَيعلمهَا) . . .» ”. . . سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو شخصوں پر دو اچھی عادت کی وجہ سے حسد کرنا یعنی غبطہ و رشک کرنا درست ہے۔ ایک وہ شخص جس کو اللہ نے مال دے رکھا ہے اور اس کو راہ حق میں خرچ کرنے کی توفیق دے رکھی ہے اور دوسرا وہ جس کو اللہ تعالیٰ نے حکمت اور علم دے رکھا ہے وہ اسی علم کے موافق فیصلہ کرتا اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔“ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے۔ . . .“[مشكوة المصابيح/كِتَاب الْعِلْمِ: 202]
تخریج الحدیث: [صحيح بخاري 73]، [صحيح مسلم 1896]
فقہ الحدیث: ➊ کسی شخص کی خوشحالی یا نیکی سے متاثر ہو کر اپنے لیے ویسی خواہش و تمنا کرنا «غبطه»(رشک) کہلاتا ہے اور حدیث مذکور میں حسد سے مراد «غبطه» ہے۔ ➋ وہ انسان افضل ہے جسے اللہ تعالیٰ نے کتاب و سنت کا علم عطا فرمایا ہے اور وہ اسے تحریر، تدریس اور تقریر وغیرہ کے ذریعے سے لوگوں میں پھیلا رہا ہے۔ ➌ خوش قسمت ہے وہ امیر آدمی جو خلوص نیت اور اتباع سنت سے اپنے مال و دولت کو کتاب و سنت کی دعوت پھیلانے اور غرباء و مساکین کی مدد کرنے میں صرف کر رہا ہے۔ ➍ حسد حرام اور رشک جائز ہے، بشرطیکہ دوسرے شخص کی نعمت کے زوال اور خاتمے کی خواہش نہ ہو۔ ➎ ہر وقت کتاب و سنت کا علم سیکھنے، اس پر عمل کرنے اور اسے لوگوں میں حسب استطاعت پھیلانے میں مصروف رہنا چاہئیے۔ ➏ اگر شرعی عذر مانع نہ ہو تو سارے مال کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دینا جائز ہے۔
فائدہ: سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو اُس وقت میرے پاس مال تھا، میں نے کہا: اگر میں ابوبکر (صدیق رضی اللہ عنہ) سے کبھی آگے بڑھ سکتا ہوں تو آج بڑھ جاؤں گا۔ میں اپنا آدھا مال لے آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: آپ نے اپنے گھر والوں کے لئے کیا چھوڑا ہے؟ میں نے کہا: آدھا مال گھر چھوڑ آیا ہوں۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنا سارا مال لے آئے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا: اے ابوبکر! آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ انہوں نے فرمایا: میں ان کے لیے اللہ اور رسول (کی محبت) کو چھوڑ آیا ہوں۔ میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں کبھی ابوبکر (رضی اللہ عنہ) پر سبقت نہیں لے سکوں گا۔ [سنن ترمذي: 3675، وقال: \"هذا حديث حسن صحيح\" وسنده حسن وصححه الحاكم على شرط مسلم 414/1 ووافقه الذهبي] نیز دیکھئے: سنن ابی داود [1678] اور اضواء المصابیح [6021] ◄ اس حدیث کے جملے «أبقيت لهم الله ورسوله» کی تشریح میں ملا علی قاری (حنفی) نے کہا: «أى رضاهما» یعنی ”اللہ اور رسول کی رضامندی چھوڑ کر آیا ہوں۔“ دیکھئے: مرقاۃ المفاتیح [ج1۔ ص379 ح6۔ 3۔] ◄ معلوم ہوا کہ عند الضرورت اور شرعی عذر کے ساتھ سارا مال بھی اللہ کے راستے میں قربان کیا جا سکتا ہے۔
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 73
´کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے` «. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 73]
� تشریح: شارحین حدیث لکھتے ہیں: «اعلم ان المراد بالحسد، ههنا الغبطة فان الحسد مذموم قدبين الشرع باوضح بيان وقد يجي الحسد بمعني الغبطة وان كان قليلا» یعنی حدیث 73 میں حسد کے لفظ سے غبطہ یعنی رشک کرنا مراد ہے کیونکہ حسد بہرحال مذموم ہے۔ جس کی شرع نے کافی مذمت کی ہے۔ کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بہت سے نافہم لوگ حضرت امام بخاری سے حسد کر کے ان کی توہین و تخفیف کے درپے ہیں، ایسا حسد کرنا مومن کی شان نہیں۔ «اللهم احفظنا آمين»
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 73
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1409
1409. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:”قابل رشک تودوہی آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا ہواور اسے حق کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی ہواور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے علم و دانش کی نعمت سے نوازا، وہ اس کے ساتھ فیصلے کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1409]
حدیث حاشیہ: امیر اور عالم ہردو اللہ کے ہاں مقبول بھی ہیں اور مردود بھی۔ مقبول وہ جو اپنی دولت کو اللہ کی راہ میں خرچ کریں‘ زکوٰۃ اور صدقات سے مستحقین کی خبر گیری کریں اور اس بارے میں ریا نمود سے بھی بچیں‘ یہ مالدار اس قابل ہیں کہ ہر مسلمان کو ان جیسا مالدار بننے کی تمنا کرنی جائز ہے۔ اسی طرح عالم جو اپنے علم پر عمل کریں اور لوگوں کو علمی فیض پہنچائیں اور ریا نمود سے دور رہیں‘ خشیت ومحبت الٰہی بہر حال مقدم رکھیں‘ یہ عالم بھی قابل رشک ہیں۔ امام بخاری کا مقصد یہ کہ اللہ کے لیے خرچ کرنے والوں کا بڑا درجہ ہے، ایسا کہ ان پر رشک کرنا جائز ہے جب کہ عام طورپر حسد کرنا جائز نہیں، مگر نیک نیتی کے ساتھ ان پر حسد کرنا جائز ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1409
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7141
7141. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قابل رشک دو آدمی ہیں: ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا وہ اسے حق کے راستے میں بے دریغ خرچ کرے اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالٰی نے علم وحکمت سے سرفراز کیا وہ اس کے مطابق فیصلے کرے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7141]
حدیث حاشیہ: یعنی اور لوگ رشک کے قابل ہی نہیںہیں یہ دو شخص البتہ رشک کے قابل ہیںکیوں کہ ان دونوں شخصوں نے دین اور دنیا دونوں حاصل کرلیے، دنیامیں نیک نام ہوئے اور آخرت میں شاد کام۔ بعضے بندے اللہ تعالیٰ کے ایسے بھی گزرے ہیں جن کو یہ دونوں نعمتیں سرفراز ہوئی ہیں ان پر بے حد رشک ہوتا ہے۔ نواب سید محمد صدیق حسن خاں صاحب کو اللہ تعالیٰ نے دین کا علم بھی دیا تھا اور دولت بھی عنایت فرمائی تھی۔ انہوں نے اپنی دولت بہت سے نیک کاموں میں جیسے اشاعت کتب حدیث وغیرہ میں صرف کی۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجے بلند کرے اور ان کی نیکیاں قبول فرمائے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7141
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 73
73. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا ہے: ”رشک جائز نہیں مگر دو (آدمیوں کی) خصلتوں پر: ایک اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہو۔ اور دوسرے اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ نے (قرآن و حدیث کا) علم دے رکھا ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:73]
حدیث حاشیہ: شارحین حدیث لکھتے ہیں: إعلم أن المراد بالحسد، ههنا الغبطة فإن الحسد مذموم قد بین الشرع بأوضح بیان وقد یجی الحسد بمعنی الغبطة و إن کان قليلا۔ یعنی حدیث (73) میں حسد کے لفظ سے غبطہ یعنی رشک کرنا مراد ہے کیونکہ حسد بہرحال مذموم ہے۔ جس کی شرع نے کافی مذمت کی ہے۔ کبھی حسد غبطہ رشک کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے بہت سے نافہم لوگ حضرت امام بخاری سے حسد کر کے ان کی توہین وتخفیف کے درپے ہیں، ایسا حسد کرنا مومن کی شان نہیں۔ اللهم احفظنا آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 73
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 73
´علم اور حکمت کی باتوں پر رشک کرنا` «. . . قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ، رَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا فَسُلِّطَ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الْحَقِّ، وَرَجُلٌ آتَاهُ اللَّهُ الْحِكْمَةَ فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا . . .» ”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ حسد صرف دو باتوں میں جائز ہے۔ ایک تو اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے دولت دی ہو اور وہ اس دولت کو راہ حق میں خرچ کرنے پر بھی قدرت رکھتا ہو اور ایک اس شخص کے بارے میں جسے اللہ نے حکمت (کی دولت) سے نوازا ہو اور وہ اس کے ذریعہ سے فیصلہ کرتا ہو اور (لوگوں کو) اس حکمت کی تعلیم دیتا ہو . . .“[صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 73]
باب اور حدیث میں مناسبت: امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا ہے کہ علم اور حکمت کی باتوں پر رشک کرنا چاہئیے اور حدیث لائیں ہیں کہ دو آدمیوں کے علاوہ کسی پر حسد نہیں کرنا چاہیے، لہٰذا حدیث میں جو «حسد» کے الفاظ ہیں اس سے مراد رشک کرنے کے ہی ہیں کیوں کہ حسد کرنا بہت بڑی خرابی اور گناہ ہے، گویا حدیث سے رشک کرنا مراد لیا جائے گا اور باب میں بھی یہی مذکور ہے۔ مزید اگر غور کیا جائے تو اس باب سے قبل امام بخاری رحمہ اللہ نے باب «الفهم فى العلم» قائم فرمایا تھا اور اب «باب الاغتباط فى العلم والحكمة» قائم فرمایا ہے دونوں میں مناسبت ظاہر ہے کہ جتنا کسی شخص کے فہم علم میں اضافہ ہو گا اسی قدر اس کی خوشی اور غبطہ میں اضافہ ہو گا کیونکہ جب کسی شخص کے فہم میں اضافہ ہو گا تو اس کی نظر آگے بڑھتی جائے گی اور اس شخص کو پیش نظر رکھے گا جو فہم کے اعتبار سے قوی ہو اس کی خواہش ہو گی کہ وہ اس جیسا ہو جائے۔ یہی غبطہ ہے۔ [عمدة القاري ج2 ص 54، الكواكب الدراري ج 1 ص 43]
◈حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «والذي يظهرلي أن مراد البخاري: ان الرياسة وان كانت مما يغبط بها صاحبها فى العادة لكن الحديث دل على ان الغبطة لا تكون الابأحد أمرين . . . . .» ”میرے نزدیک مطابقت یوں ہے کہ ریاست اگرچہ عادۃ غبطہ کا سبب بنتی ہے (یعنی رشک کا) لیکن حدیث اس مسئلے پر دال ہے کہ غبطہ کی بنیاد دو ہی چیزیں ہیں ایک علم اور ایک جود، پھر جود بھی اس وقت محمود ہے جب علم کے ساتھ ہو، گویا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان کہ حصول ریاست و سیادت سے پہلے علم حاصل کر لو جب تک کہ تم پر رشک کیا جائے تو یہ رشک کرنا برحق ہو گا۔“[فتح الباري ج1 ص444]
◈ علامہ محمود حسن صاحب فرماتے ہیں: ”سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا مطلب یہ ہے کہ قبل السیادۃ علم حاصل کرنے میں سعی ضروری ہے۔ یہ غرض نہیں کہ اگر کوئی قبل سیادت تحصیل علم سے محروم رہا، تو وہ بعد سیادت تحصیل نہ کرے، دیکھ لو خود سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور علی العموم حضرات صحابہ نے بڑے ہو کر علم حاصل کیا۔“[الابواب التراج، ص48]
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4208
´حسد کا بیان۔` عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رشک و حسد کے لائق صرف دو لوگ ہیں: ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا، اور پھر اس کو راہ حق میں لٹا دینے کی توفیق دی، دوسرا وہ جس کو علم و حکمت عطا کی تو وہ اس کے مطابق عمل کرتا ہے اور لوگوں کو سکھاتا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4208]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) حسد کا اصل مفہوم یہ ہے کہ کسی کو اللہ کی طرف سے نعمت ملی ہو تو اسے دیکھ کر یہ خواہش پیدا ہوکہ اس کی یہ نعمت ختم ہوجائے۔ یہ جذبہ رکھنا بہت بڑا گناہ ہے۔ اس حدیث میں حسد سے مراد رشک ہے یعنی یہ خواہش کرنا کہ جیسی نعمت اس کے پاس ہے ویسے مجھے بھی مل جائے یہ جائز ہے۔
(2) حسد تو کسی پر بھی جائز نہیں۔ رشک بھی دنیا کی دولت، شہرت اور حکومت پر نہیں ہونا چاہیے بلکہ کسی کا نیک عمل ہی اس قابل ہے کہ اس طرح کا عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔
(3) خوبیوں میں سب سے زیادہ قابل رشک دو خوبیاں ہیں: سخاوت اور علم۔ یہ عمل بھی تب خوبیوں میں شمار ہوسکتے ہیں جب اللہ کی رضا کے لیے خلوص کے ساتھ انجام دیے جائیں ورنہ شہرت کے لیے حاصل کیا جانے والا علم اور خرچ کیا جانے والا مال سخت ترین سزا اور شدید عذاب کا باعث ہوگا۔ اللہ محفوظ رکھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4208
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:99
99- سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”حسد (یعنی رشک صرف دو طرح کے آدمیوں پر کیا جاسکتا ہے) ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا ہو اور پھر اس شخص کو وہ مال حق کی راہ میں خرچ کرنے کی توفیق دی ہو، یا ایک وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت عطا کی ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلہ دیتا ہو یا وہ اس کی تعلیم دیتا ہو۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:99]
فائدہ: حسد کی تعریف یہ ہے کہ ”کسی کی خوشحالی پر جلنا اور اس کی تمنا کرنا کہ اس کی نعمت و خوشحالی اس سے دور ہو کر اسے مل جائے۔“(الـقـامـوس الوحيد: 336) اس حدیث میں حسد سے مراد ”رشک کرنا“ ہے، یعنی یہ خواہش اور تمنا کرنا کہ جو اچھی خصلت فلاں میں ہے، وہ مجھ میں بھی پیدا ہو جائے اور یہ جائز ہے۔ بلکہ جس کی وجہ سے نیکی کا جذبہ پیدا ہوا ہے، اس کو بھی برابر کا ثواب ملے گا۔ سب سے اچھی خو بیاں دو ہیں سخاوت اور علم۔ یہ تب اچھی ہیں جب ان میں اخلاص ہو اور ریا کاری نہ ہو۔ سخاوت اور علم کی فضیات پر بہت زیادہ دلائل مروی ہیں، اللہ تعالیٰ ان دونوں چیزوں سے محبت عطا فرماۓ، آمین۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 100
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1896
0 [صحيح مسلم، حديث نمبر:1896]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: حکمت کا معنی ہے ہر چیز کو اس کے موقع اور محل پر رکھنا اور غیر صحیح محل سے روکنا اور اشیاء کی صحیح اور اصل حقیقت کو جاننا اور اس کے مطابق عمل کرنا عادلانہ اور منصفانہ فیصلہ کرنا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1896
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:73
73. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا ہے: ”رشک جائز نہیں مگر دو (آدمیوں کی) خصلتوں پر: ایک اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا ہو اور وہ اسے راہ حق میں خرچ کرتا ہو۔ اور دوسرے اس شخص (کی عادت) پر جسے اللہ نے (قرآن و حدیث کا) علم دے رکھا ہو اور وہ اس کے مطابق فیصلے کرتا ہو اور لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:73]
حدیث حاشیہ: 1۔ رشک یہ ہے کہ کسی میں اچھی صفت یا نعمت دیکھ کر انسان خوش ہو اور اپنے لیے اس کی تمنا کرے۔ اگر مقصود یہ ہو کہ اس سے وہ نعمت چھن جائے اور مجھے مل جائے تو اسے حسد کہتے ہیں اور یہ قابل مذمت ہے نیز حسد ہمیشہ کسی خوبی اور کمال ہی پر ہوا کرتا ہے خواہ کمال علمی ہو یا عملی۔ حدیث کے پہلے جملے کا تعلق کمال عملی سے ہے اور دوسرے کا کمال علمی سے۔ اسی طرح فضائل بھی دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ظاہری اور باطنی، ظاہری فضائل میں اصل اصول مالداری ہے اور باطنی فضائل میں اصل اصول علم ہے۔ 2۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں لفظ غبطہ بڑھا دیا جس کے معنی رشک کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث میں لفظ حسد اپنے معنی میں استعمال نہیں ہوا بلکہ وہ غبطہ کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اس حدیث میں یہ اضافہ موجود ہے کہ جب اس کا پڑوسی اس کا قرآن پڑھنا پڑھانا دیکھتا ہے تو کہتا ہے۔ کاش! مجھے بھی قرآن کی یہ دولت ملے تو میں بھی اسی طرح کروں، جس طرح وہ کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، فضائل القرآن، حدیث: 5026) اور جب اس کی جود وسخا کو دیکھتا ہے تو کہتا ہے کہ مجھے بھی اس جیسی مال کی فراوانی ملے تو میں بھی اسی طرح خرچ کروں جس طرح وہ خرچ کرتا ہے۔ (صحیح البخاري، التمني، حدیث: 7232) اس حدیث میں جس طرح پڑوسی نے اپنی تمنا کا اظہار کیا ہے یہ صرف غبطے میں ہو سکتا ہے حسد میں یہ انداز نہیں ہوتا۔ (فتح الباري: 220/1) 3۔ حدیث میں حسد کو اپنے حقیقی معنی میں رکھا جا سکتا ہے۔ اس صورت میں مستثنیٰ منقطع ہوگا یعنی اگر کوئی چیز قابل حسد ہو سکتی تو وہ صرف دو تھیں۔ ایک کمال علمی اور دوسرا کمال عملی جو جودوسخا سے متعلق ہے جب یہ بھی جائز نہیں تو باقی چیزوں میں تو یقینی طور پر حرام ہے۔ (فتح الباري: 220/1) 4۔ حسد حرام اور ناجائز ہے لیکن علمائے امت نے ایک مقام پر حسد جائز رکھا ہے وہ یہ کہ اگر کسی کافر یا فاسق کے پاس علم اور مال کی دولت ہو اور وہ اسے اللہ کی نافرمانی میں استعمال کرتا ہو اور لوگوں کو ان کے ذریعے سے گمراہ کرتا ہو تو ایسے حالات میں اس سے اس نعمت کے چھن جانے کی تمنا جائز ہی نہیں بلکہ باعث ثواب بھی ہے۔ (فتح الباري: 219/1) 5۔ مال دار کا عموماً یہ حال ہوتا ہے کہ مال اس کے دل پر حاوی ہو جاتا ہے بلکہ بعض اوقات اس کی کمزوری بن جاتا ہے، لیکن اگر وہ اسے پورے طور پر خرچ کرتا ہے تو دنیا و آخرت میں اس کی عزت کا باعث ہے۔ اس میں(فِي الْحَقِّ) کی قید اس لیے لگائی ہے تاکہ اسراف و تبذیر کا گمان نہ ہو۔ (فتح الباري: 219/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 73
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1409
1409. حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:میں نے نبی ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:”قابل رشک تودوہی آدمی ہیں۔ ایک وہ جسے اللہ نے مال دیا ہواور اسے حق کے راستے میں خرچ کرنے کی توفیق بھی دی ہواور دوسرا وہ جسے اللہ تعالیٰ نے علم و دانش کی نعمت سے نوازا، وہ اس کے ساتھ فیصلے کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1409]
حدیث حاشیہ: (1) اس حدیث میں لفظ حسد، رشک کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ رشک یہ ہے کہ انسان کسی میں اچھی صفت دیکھ کر اپنے لیے اس کی تمنا کرے۔ اگر مقصود یہ ہو کہ اس سے یہ نعمت چھن جائے اور مجھے حاصل ہو جائے تو اسے حسد کہا جاتا ہے اور یہ قابل مذمت ہے۔ (2) امام بخاری ؒ اس حدیث سے یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مطلق طور پر مال جمع کرنا مذموم نہیں بلکہ قابل مذمت وہ جمع شدہ مال ہے جس کی زکاۃ ادا نہ کی جائے۔ مال جمع کرنا اگرچہ جائز ہے، لیکن اسے جمع کرنے والا قیامت کے دن اس کی باز پرس سے محفوظ نہیں رہ سکے گا۔ اور جن احادیث میں مال جمع کرنے اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی ترغیب ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ حلال ذرائع سے مال جمع کیا جائے اور اس کے حقوق کا بھی خیال رکھا جائے۔ (3) زین بن منیر نے کہا ہے کہ اللہ کی راہ میں تمام مال خرچ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ کسی وارث کو محروم کرنے کی نیت نہ ہو، اگر کسی وارث کو محروم کرنے کی نیت ہے تو شرعا ایسا کرنا جائز نہیں۔ (فتح الباري: 349/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1409
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7141
7141. سیدنا عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”قابل رشک دو آدمی ہیں: ایک وہ جسے اللہ تعالیٰ نے مال دیا وہ اسے حق کے راستے میں بے دریغ خرچ کرے اور دوسرا وہ جسے اللہ تعالٰی نے علم وحکمت سے سرفراز کیا وہ اس کے مطابق فیصلے کرے اور لوگوں کو اس کی تعلیم دے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:7141]
حدیث حاشیہ: 1۔ اس حدیث میں حسد سے مراد رشک ہے۔ کچھ حضرات کا خیال ہے کہ اس میں حسد کی حلال قسم کابیان ہے کیونکہ حسد اگرچہ حرام ہے لیکن دینی مصلحت کے پیش نظر ان دوخصلتوں میں جائز ہے،نیز اس میں لوگوں کو صحیح فیصلے کرنے کی رغبت دلانا مقصود ہے بشرط یہ کہ اس میں فیصلہ کرنے کی شرائط پائی جائیں اور وہ اعمال حق کی قدرت بھی رکھتا ہو۔ 2۔ ان صلاحیتوں سے متصف انسان مظلوموں کی مدد کرسکتا ہے حقداروں کو ان کا حق پہنچا سکتا ہے،نیز ظالم کو ظلم سے روک کر ان کی اصلاح کرسکتا ہے اور یہ تمام امور عبادت میں شامل ہیں،نیز حدیث میں ہے: \"اللہ تعالیٰ قاضی کے ساتھ ہے بشرط یہ کہ وہ ظلم نہ کرے،اگروہ ظلم پر اترآئے تو اسے اس کے نفس کے حوالے کردیا جاتا ہے۔ \"(سنن ابن ماجہ الاحکام حدیث 2312) w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7141