صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح البخاري تفصیلات

صحيح البخاري
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book of As-Salat (The Prayer)
83. بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ فِي الْمَسَاجِدِ:
83. باب: مساجد میں آواز بلند کرنا کیسا ہے؟
(83) Chapter. Raising the voice in the mosque.
حدیث نمبر: 470
Save to word اعراب English
(موقوف) حدثنا علي بن عبد الله، قال: حدثنا يحيى بن سعيد، قال: حدثنا الجعيد بن عبد الرحمن، قال: حدثني يزيد بن خصيفة، عن السائب بن يزيد، قال: كنت قائما في المسجد فحصبني رجل فنظرت، فإذا عمر بن الخطاب، فقال: اذهب فاتني بهذين، فجئته بهما، قال: من انتما او من اين انتما؟ قالا: من اهل الطائف، قال:" لو كنتما من اهل البلد لاوجعتكما ترفعان اصواتكما في مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم".(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْجُعَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ خُصَيْفَةَ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، قَالَ: كُنْتُ قَائِمًا فِي الْمَسْجِدِ فَحَصَبَنِي رَجُلٌ فَنَظَرْتُ، فَإِذَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَأْتِنِي بِهَذَيْنِ، فَجِئْتُهُ بِهِمَا، قَالَ: مَنْ أَنْتُمَا أَوْ مِنْ أَيْنَ أَنْتُمَا؟ قَالَا: مِنْ أَهْلِ الطَّائِفِ، قَالَ:" لَوْ كُنْتُمَا مِنْ أَهْلِ الْبَلَدِ لَأَوْجَعْتُكُمَا تَرْفَعَانِ أَصْوَاتَكُمَا فِي مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ہم سے علی بن عبداللہ بن جعفر نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے جعید بن عبدالرحمٰن نے بیان کیا، انہوں نے کہا مجھ سے یزید بن خصیفہ نے بیان کیا، انہوں نے سائب بن یزید سے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ میں مسجد نبوی میں کھڑا ہوا تھا، کسی نے میری طرف کنکری پھینکی۔ میں نے جو نظر اٹھائی تو دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سامنے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ یہ سامنے جو دو شخص ہیں انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ۔ میں بلا لایا۔ آپ نے پوچھا کہ تمہارا تعلق کس قبیلہ سے ہے یا یہ فرمایا کہ تم کہاں رہتے ہو؟ انہوں نے بتایا کہ ہم طائف کے رہنے والے ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ اگر تم مدینہ کے ہوتے تو میں تمہیں سزا دئیے بغیر نہ چھوڑتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں آواز اونچی کرتے ہو؟

Narrated Al-Sa'ib bin Yazid: I was standing in the mosque and somebody threw a gravel at me. I looked and found that he was `Umar bin Al-Khattab. He said to me, "Fetch those two men to me." When I did, he said to them, "Who are you? (Or) where do you come from?" They replied, "We are from Ta'if." `Umar said, "Were you from this city (Medina) I would have punished you for raising your voices in the mosque of Allah's Apostle."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 1, Book 8, Number 459


صحیح بخاری کی حدیث نمبر 470 کے فوائد و مسائل
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:470  
حدیث حاشیہ:

مذکورہ احادیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ سندھی لکھتے ہیں کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دونوں روایات کو ذکر کر کے تفصیل کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر آواز کا بلند کرنا بلا ضرورت ہو تو جائز نہیں اور اگر کسی ضرورت کے پیش نظر ہو تو جائز ہے۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان مطلق طور پر ممانعت کی طرف ہو کیونکہ جس روایت میں آواز بلند کرنے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے انکار نہ کرنے کی بات معلوم ہو رہی ہے اس میں یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھگڑا ختم کرنے کے لیے فوراًمسئلہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور وہ جھگڑا ختم کردیا جس کی وجہ سے مسجد میں آواز یں بلند ہو رہی تھیں۔
اس طرز عمل سےیہ سمجھا جا سکتا ہے کہ آپ نے اپنے عمل کے ذریعے سے یعنی مسئلہ ختم کرنے کے لیے فوری خلت فرما کر مسجد میں آواز بلند کرنے کی ممانعت واضح فرما دی(حاشیہ سندھی(1/93)
لیکن ہمارے نزدیک علامہ سندھی کا پہلا احتمال زیادہ قرین قیاس ہےکیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے طرز عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس مسئلے میں تفصیل کرنا چاہتے ہیں اور اس میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے ذوق کی رعایت بھی ہے کہ وہ دونوں روایات جمع کرکے یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ مسجد میں آواز بلند کرنے کی ضرورت ہو اور اعتدال قائم رہے تو اس کی اجازت ہے اور اگر ضرورت نہ ہو یا آواز حد اعتدال سے اونچی ہو جائے اور شورو غوغاکی صورت پیدا ہو جائے تو اس کی اجازت نہیں۔
آپ نے اس عنوان کے تحت دو روایات ذکر کی ہیں اور دونوں سے متضاد باتیں سمجھ میں آتی ہیں پہلی روایت سے ممانعت معلوم ہوتی ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز بلند کرنے پر سخت تنبیہ فرمائی بلکہ جلد از جلد معاملے کا فیصلہ فرما کر بات ختم کردی۔
اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلے میں تفصیل کی طرف مائل ہیں جیسا کہ ہم نے بیان کیا ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے عنوان کی وضاحت کرتےہوئے لکھتے ہیں کہ آپ مسجد میں آواز بلند کرنے کی کراہت بیان کرنا چاہتے ہیں کہ یہ عمل اہل تقوی کے شایان شان نہیں۔

پہلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان سے سزا دینے میں درگزر فرمایا کیونکہ انھیں اس مسئلے کاعلم نہیں تھا بعض روایات میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
میں تمھیں کوڑے مارنے کی سزا دیتا کہ تم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بڑی بے باکی سے بلا ضرورت شور و غل کر رہے ہو۔
ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت مرفوع حدیث کا درجہ حاصل ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوڑوں کی سزا دینے پر آمادہ تھے۔
اس قسم کی سزا کی دھمکی صرف ایسے امر کی مخالفت پر دی جا سکتی ہے جو توفیقی ہو۔
(فتح الباری: 1/726۔
)


دوسری حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ قرض خواہ مقروض کو جس قدر رعایت دے سکتا ہو اس سے بخل نہیں کرنا چاہیے ارشاد باری تعالیٰ ہے:
)

وَإِن كَانَ ذُو عُسْرَةٍ فَنَظِرَةٌ إِلَىٰ مَيْسَرَةٍ ۚ وَأَن تَصَدَّقُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ)
\\\"اور اگر مقروض تنگ دست ہو تو اسے آسودہ حالی تک مہلت دو، اگر (راس المال)
صدقہ کردو تو یہ تمھارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم سمجھ سکو۔
\\\"(البقرۃ: 2/280۔
)

مگر مقروض کا بھی فرض ہے کہ جہاں تک ہو سکے پورا قرض ادا کرکے خود کو اس بوجھ سے آزاد کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دانستہ ٹال مٹول کو ظلم قراردیا ہے اس کی وجہ سے اس کی بے عزتی بلکہ اسے سزا دی جا سکتی ہے۔ w
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 470   


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.