مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 16624
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا المبارك ، قال: حدثنا الحسن ، ان شيخا من بني سليط اخبره، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم اكلمه في سبي اصيب لنا في الجاهلية، فإذا هو قاعد وعليه حلقة قد اطافت به، وهو يحدث القوم، عليه إزار قطر له غليظ، قال: سمعته يقول وهو يشير باصبعه:" المسلم اخو المسلم لا يظلمه ولا يخذله، التقوى هاهنا، التقوى هاهنا"، يقول: اي في القلب.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُبَارَكُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ ، أَنَّ شَيْخًا مِنْ بَنِي سَلِيطٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُكَلِّمُهُ فِي سَبْيٍ أُصِيبَ لَنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَإِذَا هُوَ قَاعِدٌ وَعَلَيْهِ حَلْقَةٌ قَدْ أَطَافَتْ بِهِ، وَهُوَ يُحَدِّثُ الْقَوْمَ، عَلَيْهِ إِزَارٌ قِطْرٌ لَهُ غَلِيظٌ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ وَهُوَ يُشِيرُ بِأُصْبَعِهِ:" الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ، التَّقْوَى هَاهُنَا، التَّقْوَى هَاهُنَا"، يَقُولُ: أَيْ فِي الْقَلْبِ.
بنوسلیط کے ایک شیخ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اپنے ان قیدیوں کے متلعق گفتگو کرنے کے لئے حاضر ہوا جو زمانہ جاہلیت میں پکڑ لئے گئے تھے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے اور لوگوں نے حلقہ بنا کر آپ کو گھیر رکھا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موٹی تہبند باندھ رکھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلیوں سے اشارہ فرما رہے تھے، میں نے آپ کو یہ فرماتے ہوئے کہ مسلمان، مسلمان کا بھائی ہوتا ہے، وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بےیارو مددگار چھوڑتا ہے، تقوی یہاں ہوتا ہے، تقوی یہاں ہوتا ہے یعنی دل میں۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 16625
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عمر بن سعد ابو داود الحفري ، قال: حدثنا يحيى بن زكريا يعني بن ابي زائدة ، قال: حدثني سعد بن طارق ، عن بلال بن يحيى ، عن عمران بن حصين ، قال: اخبرني اعرابي ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" ما اخاف على قريش إلا انفسها"، قلت: ما لهم؟، قال:" اشحة بجرة، وإن طال بك عمر، لتنظرن إليهم يفتنون الناس حتى ترى الناس بينهم كالغنم بين الحوضين، إلى هذا مرة، وإلى هذا مرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ سَعْدٍ أَبُو دَاوُدَ الْحَفَرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا يعني بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَعْدُ بْنُ طَارِقٍ ، عَنْ بِلَالِ بْنِ يَحْيَى ، عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَيْنٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَعْرَابِيٌّ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" مَا أَخَافُ عَلَى قُرَيْشٍ إِلَّا أَنْفُسَهَا"، قُلْتُ: مَا لَهُمْ؟، قَالَ:" أَشِحَّةٌ بَجَرَةٌ، وَإِنْ طَالَ بِكَ عُمْرٌ، لَتَنْظُرَنَّ إِلَيْهِمْ يَفْتِنُونَ النَّاسَ حَتَّى تَرَى النَّاسَ بَيْنَهُمْ كَالْغَنَمِ بَيْنَ الْحَوْضَيْنِ، إِلَى هَذَا مَرَّةً، وَإِلَى هَذَا مَرَّةً".
ایک دیہاتی صحابی سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے قریش کے متعلق خود انہی سے خطرہ ہے، میں نے پوچھا: یا رسول اللہ!! کیا مطلب؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری عمر لمبی ہوئی تو تم انہیں یہاں دیکھو گے اور عام لوگوں کو ان کے درمیان ایسے پاؤ گے جیسے دو حوضوں کے درمیان بکریاں ہوں جو کبھی ادھر جاتی ہیں اور کبھی ادھر۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة عمران بن حصين
حدیث نمبر: 16626
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا الزبيري ، قال: حدثنا إسرائيل ، عن سماك ، عن معبد ابن قيس ، عن عبد الله بن عمير او عميرة ، قال: حدثني زوج ابنة ابي لهب ، قال: دخل علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم حين تزوجت ابنة ابي لهب، فقال:" هل من لهو؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا الزُّبَيْرِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنْ مَعْبَدِ ابْنِ قَيْسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَيْرٍ أَوْ عَمِيرَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي زَوْجُ ابْنَةِ أَبِي لَهَبٍ ، قَالَ: دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تَزَوَّجْتُ ابْنَةَ أَبِي لَهَبٍ، فَقَالَ:" هَلْ مِنْ لَهْوٍ؟".
بنت ابولہب کے شوہر کہتے ہیں کہ جب میں نے ابولہب کی بیٹی سے نکاح کیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا کہ تفریح کا کوئی سامان ہے؟

حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة معبد بن قيس، قشيخه عبدالله
حدیث نمبر: 16627
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو عامر ، قال: حدثنا علي ، عن يحيى يعني ابن ابي كثير قال: حدثني حية التميمي ، ان اباه اخبره، انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول:" لا شيء في الهام، والعين حق، واصدق الطير الفال".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيٌّ ، عَنْ يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ قَالَ: حَدَّثَنِي حَيَّةُ التَّمِيمِيُّ ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَا شَيْءَ فِي الْهَامِ، وَالْعَيْنُ حَقٌّ، وَأَصْدَقُ الطِّيَرِ الْفَأْلُ".
حیہ تیمی کے والد کہتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا مردے کی کھوپڑی میں کسی چیز کے ہو نے کی کوئی حقیقت نہیں، نظر لگ جانا برحق ہے اور سب سے سچا شگون فال ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، حية التميمي مجهول
حدیث نمبر: 16628
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يونس بن محمد ، قال: حدثنا ابان ، وعبد الصمد ، قال: حدثنا هشام ، عن يحيى ، عن ابي جعفر ، عن عطاء بن يسار ، عن بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: بينما رجل يصلي وهو مسبل إزاره، إذ قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اذهب فتوضا"، قال: فذهب فتوضا، ثم جاء، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اذهب فتوضا"، قال: فذهب فتوضا، ثم جاء، فقال: يا رسول الله، ما لك امرته يتوضا ثم سكت؟، قال:" إنه كان يصلي وهو مسبل إزاره، وإن الله عز وجل لا يقبل صلاة عبد مسبل إزاره".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ ، وَعَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ، إِذْ قَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ"، قَالَ: فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اذْهَبْ فَتَوَضَّأْ"، قَالَ: فَذَهَبَ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ أَمَرْتَهُ يَتَوَضَّأُ ثُمَّ سَكَتَّ؟، قَالَ:" إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ مُسْبِلٌ إِزَارَهُ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا يَقْبَلُ صَلَاةَ عَبْدٍ مُسْبِلٍ إِزَارَهُ".
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ جا کر دوبارہ وضو کر و، دو مرتبہ یہ حکم دیا اور وہ ہر مرتبہ وضو کر کے آگیا، لوگوں نے پوچھا: یا رسول اللہ!! کیا بات ہے کہ پہلے آپ نے اسے وضو کا حکم دیا پھر خاموش ہو گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی نماز قبول نہیں فرماتا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى جعفر
حدیث نمبر: 16629
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) قال عبد الله بن احمد: حدثنا عمرو بن محمد الناقد ، قال: حدثنا عبيدة بن حميد الضبي ، عن عبد الله بن عبد الله ، عن عبد الرحمن بن ابي ليلى ، عن ذي الغرة ، قال: عرض اعرابي رسول الله صلى الله عليه وسلم، ورسول الله صلى الله عليه وسلم يسير، فقال: يا رسول الله، تدركنا الصلاة ونحن في اعطان الإبل، افنصلي فيها؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا"، قال: افنتوضا من لحومها؟، قال:" نعم"، قال: افنصلي في مرابض الغنم؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم"، قال: افنتوضا من لحومها؟، قال:" لا".(حديث مرفوع) قال عَبْد اللَّهِ بن أحمد: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ النَّاقِدُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدَةُ بْنُ حُمَيْدٍ الضَّبِّيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى ، عَنْ ذِي الْغُرَّةِ ، قَالَ: عَرَضَ أَعْرَابِيٌّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسِيرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُدْرِكُنَا الصَّلَاةُ وَنَحْنُ فِي أَعْطَانِ الْإِبِلِ، أَفَنُصَلِّي فِيهَا؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا"، قَالَ: أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِهَا؟، قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَ: أَفَنُصَلِّي فِي مَرَابِضِ الْغَنَمِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ"، قَالَ: أَفَنَتَوَضَّأُ مِنْ لُحُومِهَا؟، قَالَ:" لَا".
سیدنا ذی الغرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت چہل قدمی فرما رہے تھے، اس نے پوچھا: یا رسول اللہ!! بعض اوقات ابھی ہم لوگ اونٹوں کے باڑے میں ہوتے ہیں کہ نماز کا وقت ہو جاتا ہے تو کیا ہم وہیں پر نماز پڑھ سکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اس نے پوچھا: کیا اونٹ کا گوشت کھانے کے بعد ہم نیا وضو کر یں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اس نے پوچھا: کیا ہم بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھ سکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں! اس نے پوچھا: کیا بکری کا گوشت کھانے کے بعد ہم نیا وضو کر یں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔

حكم دارالسلام: هو صحيح لكن من حديث البراء بن عازب لا من حديث ذي الغرة هذا
حدیث نمبر: 16630
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) قال عبد الله بن احمد: حدثنا يحيى بن معين ، قال: حدثنا ابو عبيدة يعني الحداد ، قال: حدثنا عبد العزيز بن مسلم ، عن يزيد بن ابي منصور ، عن ذي اللحية الكلابي ، انه قال: يا رسول الله، انعمل في امر مستانف، او امر قد فرغ منه؟، قال:" لا، بل في امر قد فرغ منه"، قال: ففيم نعمل إذا؟، قال:" اعملوا فكل ميسر لما خلق له".(حديث مرفوع) قال عَبْد اللَّهِ بن أحمد: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مَعِينٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ يَعْنِي الْحَدَّادَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَنْصُورٍ ، عَنْ ذِي اللِّحْيَةِ الْكِلَابِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَعْمَلُ فِي أَمْرٍ مُسْتَأْنَفٍ، أَوْ أَمْرٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ؟، قَالَ:" لَا، بَلْ فِي أَمْرٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ"، قَالَ: فَفِيمَ نَعْمَلُ إِذًا؟، قَالَ:" اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ".
سیدنا ذی اللحیہ کلابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ!! کیا ہم ابتداء کوئی عمل کرتے ہیں یا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پہلے سے لکھا جاچکا ہوتا ہے، عرض کیا: پھر عمل کا کیا فائدہ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم عمل کرتے رہو کیونکہ ہر شخص کے لئے وہی اعمال آسان ہوں گے جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 16631
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) قال عبد الله بن احمد: حدثنا ابو عبد الله البصري ، حدثنا سهل بن اسلم العدوي ، قال: حدثنا يزيد بن ابي منصور ، عن ذي اللحية الكلابي ، قال: قلت: يا رسول الله، انعمل في امر مستانف، او في امر قد فرغ منه؟، قال:" بل في امر قد فرغ منه"، قال: ففيم العمل؟، فقال:" اعملوا فكل ميسر لما خلق له".(حديث مرفوع) قال عَبْد اللَّهِ بن أحمد: حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْبَصْرِيُّ ، حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَسْلَمَ الْعَدَوِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي مَنْصُورٍ ، عَنْ ذِي اللِّحْيَةِ الْكِلَابِيِّ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَعْمَلُ فِي أَمْرٍ مُسْتَأْنَفٍ، أَوْ فِي أَمْرٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ؟، قَالَ:" بَلْ فِي أَمْرٍ قَدْ فُرِغَ مِنْهُ"، قَالَ: فَفِيمَ الْعَمَلُ؟، فَقَالَ:" اعْمَلُوا فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ لِمَا خُلِقَ لَهُ".
سیدنا ذی اللحیہ کلابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ!! کیا ہم ابتداء کوئی عمل کرتے ہیں یا وہ پہلے سے لکھا جا چکا ہوتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پہلے سے لکھا جاچکا ہوتا ہے، عرض کیا: پھر عمل کا کیا فائدہ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم عمل کرتے رہو کیونکہ ہر شخص کے لئے وہی اعمال آسان ہوں گے جن کے لئے اسے پیدا کیا گیا ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبو عبدالله البصري ضعيف، لكنه توبع
حدیث نمبر: 16632
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) قال عبد الله بن احمد: حدثني ابو صالح الحكم بن موسى ، قال: حدثنا ضمرة بن ربيعة ، عن عثمان بن عطاء ، عن ابي عمران ، عن ذي الاصابع ، قال: قلت: يا رسول الله، إن ابتلينا بعدك بالبقاء اين تامرنا؟، قال:" عليك ببيت المقدس، فلعله ان ينشا لك ذرية يغدون إلى ذلك المسجد ويروحون".(حديث مرفوع) قال عَبْد اللَّهِ بن أحمد: حدثني أَبُو صَالِحٍ الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، قَالَ: حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ بْنُ رَبِيعَةَ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَطَاءٍ ، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ ، عَنْ ذِي الْأَصَابِعِ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ ابْتُلِينَا بَعْدَكَ بِالْبَقَاءِ أَيْنَ تَأْمُرُنَا؟، قَالَ:" عَلَيْكَ بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ، فَلَعَلَّهُ أَنْ يَنْشَأَ لَكَ ذُرِّيَّةٌ يَغْدُونَ إِلَى ذَلِكَ الْمَسْجِدِ وَيَرُوحُونَ".
سیدنا ذی الاصابع سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ!! اگر آپ کے بعد ہمیں مزید زندگی کے ذریعے آزمایا گیا تو آپ ہمیں کہاں رہنے کا حکم دیتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت المقدس کو اپنے اوپر لازم کر لینا، ہو سکتا ہے کہ تمہارے یہاں کوئی نسل ایسی پیدا ہو جو صبح وشام اس مسجد میں آنا جانا رکھے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عثمان بن عطاء، وقد اختلف عليه فيه
حدیث نمبر: 16633
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) قال عبد الله بن احمد حدثني ابو صالح الحكم بن موسى ، حدثنا عيسى بن يونس ، قال: ابي اخبرنا، عن ابيه ، عن ذي الجوشن الضبابي ، قال: اتيت النبي صلى الله عليه وسلم بعد ان فرغ من اهل بدر بابن فرس لي يقال لها: القرحاء، فقلت: يا محمد، إني قد جئتك بابن القرحاء لتتخذه، قال:" لا حاجة لي فيه، وإن اردت ان اقيضك به المختارة من دروع بدر فعلت، فقلت: ما كنت لاقيضه اليوم بعدة، قال:" لا حاجة لي فيه"، ثم قال:" يا ذا الجوشن، الا تسلم، فتكون من اول اهل هذا الامر؟"، فقلت: لا، قال:" لم"، قلت: إني رايت قومك ولعوا بك، قال:" فكيف بلغك عن مصارعهم ببدر؟"، قلت: قد بلغني، قال:" فإنا نهدي لك"، قلت: إن تغلب على الكعبة وتقطنها، قال:" لعلك إن عشت ترى ذلك"، ثم قال:" يا بلال خذ حقيبة الرجل، فزوده من العجوة" فلما ادبرت، قال:" اما إنه من خير فرسان بني عامر"، قال: فوالله إني باهلي بالغور إذ اقبل راكب، فقلت: ما فعل الناس؟، قال: والله قد غلب محمد على الكعبة وقطنها، فقلت: هبلتني امي، ولو اسلم يومئذ ثم اساله الحيرة لاقطعنيها.(حديث مرفوع) قَالَ عبد الله بن أحمد حَدَّثَنِي أَبُو صَالِحٍ الْحَكَمُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، قَالَ: أَبِي أَخْبَرَنَا، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ ذِي الْجَوْشَنِ الضِّبَابِيِّ ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ فَرَغَ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ بِابْنِ فَرَسٍ لِي يُقَالُ لَهَا: الْقَرْحَاءُ، فَقُلْتُ: يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي قَدْ جِئْتُكَ بِابْنِ الْقَرْحَاءِ لِتَتَّخِذَهُ، قَالَ:" لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ، وَإِنْ أَرَدْتَ أَنْ أَقِيضَكَ به الْمُخْتَارَةَ مِنْ دُرُوعِ بَدْرٍ فَعَلْتُ، فَقُلْتُ: مَا كُنْتُ لِأَقِيضَهُ الْيَوْمَ بِعُدَّةٍ، قَالَ:" لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ"، ثُمَّ قَالَ:" يَا ذَا الْجَوْشَنِ، أَلَا تُسْلِمُ، فَتَكُونَ مِنْ أَوَّلِ أَهْلِ هَذَا الْأَمْرِ؟"، فَقُلْتُ: لَا، قَالَ:" لِمَ"، قُلْتُ: إِنِّي رَأَيْتُ قَوْمَكَ وَلِعُوا بِكَ، قَالَ:" فَكَيْفَ بَلَغَكَ عَنْ مَصَارِعِهِمْ بِبَدْرٍ؟"، قُلْتُ: قَدْ بَلَغَنِي، قَالَ:" فَإِنَّا نُهْدِي لَكَ"، قُلْتُ: إِنْ تَغْلِبْ عَلَى الْكَعْبَةِ وَتَقْطُنْهَا، قَالَ:" لَعَلَّكَ إِنْ عِشْتَ تَرَى ذَلِكَ"، ثُمَّ قَالَ:" يَا بِلَالُ خُذْ حَقِيبَةَ الرَّجُلِ، فَزَوِّدْهُ مِنَ الْعَجْوَةِ" فَلَمَّا أَدْبَرْتُ، قَالَ:" أَمَا إِنَّهُ مِنْ خَيْرِ فُرْسَانِ بَنِي عَامِرٍ"، قَالَ: فَوَاللَّهِ إِنِّي بِأَهْلِي بِالْغَوْرِ إِذْ أَقْبَلَ رَاكِبٌ، فَقُلْتُ: مَا فَعَلَ النَّاسُ؟، قَالَ: وَاللَّهِ قَدْ غَلَبَ مُحَمَّدٌ عَلَى الْكَعْبَةِ وَقَطَنَهَا، فَقُلْتُ: هَبِلَتْنِي أُمِّي، وَلَوْ أُسْلِمُ يَوْمَئِذٍ ثُمَّ أَسْأَلُهُ الْحِيرَةَ لَأَقْطَعَنِيهَا.
سیدنا ذی الجوشن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبول اسلام سے قبل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ اہل بدر سے فراغت پاچکے تھے، میں اپنے ساتھ اپنے گھوڑے کا بچہ لے کر آیا تھا، میں نے آ کر کہا کہ اے محمد! میں آپ کے پاس اپنے گھوڑے قرحاء کا بچہ لے کر آیا ہوں تاکہ آپ اسے خرید لیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فی الحال مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، البتہ اگر تم چاہو تو میں اس کے بدلے میں تمہیں بدر کی منتخب زرہیں دے سکتا ہوں، میں نے کہا کہ آج تو میں کسی غلام کے بدلے میں بھی یہ گھوڑا نہیں دوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے بھی اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر فرمایا: اے ذی الجوشن! تم مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے کہ اس دین کے ابتدائی لوگوں میں تم بھی شامل ہو جاؤ، میں نے عرض کیا: کہ نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں؟ میں نے عرض کیا: کہ میں نے دیکھا کہ آپ کی قوم نے آپ کا حق مارا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہیں اہل بدر کے مقتولین کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہوا؟ میں نے عرض کیا: کہ مجھے معلوم ہے، کیا آپ مکہ مکر مہ پر غالب آ کر اسے جھکا سکیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم زندہ رہے تو وہ دن ضرور دیکھو گے۔ پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ بلال! ان کا تھیلا لے کر عجوہ کھجور سے بھردو تاکہ زارد راہ رہے، جب میں پشت پھیر کر واپس جانے لگا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ بنو عامر کے شہسواروں میں سب سے بہتر ہے، میں ابھی اپنے اہل خانہ کے ساتھ غور میں ہی تھا کہ ایک سوار آیا، میں نے اس سے پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو؟ اس نے کہا مکہ مکر مہ سے، میں نے پوچھا کہ لوگوں کے کیا حالات ہیں؟ اس نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان پر غالب آ گئے ہیں، میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا اگر میں اسی دن مسلمان ہو جاتا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حیرہ نامی شہر بھی مانگتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھی مجھے دے دیتے۔ سیدنا ذی الجوشن رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبول اسلام سے قبل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوا جب آپ اہل بدر سے فراغت پاچکے تھے، میں اپنے ساتھ اپنے گھوڑے کا بچہ لے کر آیا تھا، میں نے آ کر کہا کہ اے محمد! میں آپ کے پاس اپنے گھوڑے قرحاء کا بچہ لے کر آیا ہوں تاکہ آپ اسے خرید لیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فی الحال مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے، البتہ اگر تم چاہو تو میں اس کے بدلے میں تمہیں بدر کی منتخب زرہیں دے سکتا ہوں، میں نے کہا کہ آج تو میں کسی غلام کے بدلے میں بھی یہ گھوڑا نہیں دوں گا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر مجھے بھی اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پھر فرمایا: اے ذی الجوشن! تم مسلمان کیوں نہیں ہو جاتے کہ اس دین کے ابتدائی لوگوں میں تم بھی شامل ہو جاؤ، میں نے عرض کیا: کہ نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں؟ میں نے عرض کیا: کہ میں نے دیکھا کہ آپ کی قوم نے آپ کا حق مارا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تمہیں اہل بدر کے مقتولین کے حوالے سے کچھ معلوم نہیں ہوا؟ میں نے عرض کیا: کہ مجھے معلوم ہے، کیا آپ مکہ مکر مہ پر غالب آ کر اسے جھکا سکیں گے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم زندہ رہے تو وہ دن ضرور دیکھو گے۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه عن ابيه هو ابو اسحاق السبيعي، لم يسمع من ذي الجوشن

Previous    51    52    53    54    55    56    57    58    59    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.