ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے متعلق حکم دیا کہ اسے مکہ اور مدینہ کے درمیان رجم کر دیا جائے، جب اسے پتھر لگے تو وہ بھاگنے لگا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ بات معلوم ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ تم نے اسے چھوڑ کیوں نہ دیا؟
حكم دارالسلام: حسن لغيره غير أن قوله: «بين مكة والمدينة» فيه نظر، وهذا إسناد ضعيف لجهالة حال عبدالعزيز، فقد انفرد بالرواية عنه سماك بن حرب، وقد اختلف على سماك باسمه
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرازق ، قال: اخبرنا داود بن قيس الصنعاني ، قال: حدثني عبد الله بن وهب ، عن ابيه ، قال: حدثني فنج ، قال: كنت اعمل في الدينباد، واعالج فيه، فقدم يعلي بن امية اميرا على اليمن، وجاء معه رجال من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، فجاءني رجل ممن قدم معه وانا في الزرع اصرف الماء في الزرع ومعه في كمه جوز، فجلس على ساقية من الماء، وهو يكسر من ذلك الجوز وياكله، ثم اشار إلى فنج، فقال: يا فارسي، هلم، قال: فدنوت منه، فقال الرجل لفنج: اتضمن لي غرس هذا الجوز على هذا الماء؟، فقال له فنج: ما ينفعني ذلك؟، فقال الرجل : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول باذني هاتين:" من نصب شجرة، فصبر على حفظها والقيام عليها حتى تثمر، كان له في كل شيء يصاب من ثمرتها صدقة عند الله عز وجل"، فقال له فنج: آنت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، قال: نعم، قال فنج: فانا اضمنها، قال: فمنها جوز الدينباد.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّازَّقِ ، قال: أَخْبَرَنَا دَاوُدُ بْنُ قَيْسٍ الصَّنْعَانِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي فَنَّجُ ، قَالَ: كُنْتُ أَعْمَلُ فِي الدِّيْنَبَاد، وَأُعَالِجُ فِيهِ، فَقَدِمَ يَعْلَي بْنُ أُمَيَّةَ أَمِيرًا عَلَى الْيَمَنِ، وَجَاءَ مَعَهُ رِجَالٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَنِي رَجُلٌ مِمَّنْ قَدِمَ مَعَهُ وَأَنَا فِي الزَّرْعِ أُصَرَّفُ الْمَاءَ فِي الزَّرْعِ وَمَعَهُ فِي كُمِّهِ جَوْزٌ، فَجَلَسَ عَلَى سَاقِيَةٍ مِنَ الْمَاءِ، وَهُوَ يَكْسِرُ مِنْ ذَلِكَ الْجَوْزِ وَيَأْكُلُه، ثُمَّ أَشَارَ إِلَى فَنَّجَ، فَقَالَ: يَا فَارِسِيُّ، هَلُمَّ، قَالَ: فَدَنَوْتُ مِنْهُ، فَقَالَ الرَّجُلُ لِفَنَّجَ: أَتَضْمَنُ لِي غَرْسَ هَذَا الْجَوْزِ عَلَى هذا الْمَاءِ؟، فَقَالَ لَهُ فَنَّجُ: مَا يَنْفَعُنِي ذَلِكَ؟، فَقَالَ الرَّجُلُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ بِأُذُنَيَّ هَاتَيْنِ:" مَنْ نَصَبَ شَجَرَةً، فَصَبَرَ عَلَى حِفْظِهَا وَالْقِيَامِ عَلَيْهَا حَتَّى تُثْمِرَ، كَانَ لَهُ فِي كُلِّ شَيْءٍ يُصَابُ مِنْ ثَمَرَتِهَا صَدَقَةٌ عِنْدَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ"، فَقَالَ له فَنَّجُ: آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ فَنَّجُ: فَأَنَا أَضْمَنُهَا، قَالَ: فَمِنْهَا جَوْزُ الدِّيْنَبَادِ.
فنج کہتے ہیں کہ میں ' دینباذ ' (علاقے کا نام) میں کام کاج کرتا تھا اس دوران یعلی بن امیہ یمن کے گورنر بن کر آ گئے، ان کے ساتھ کچھ صحابہ کرام بھی آئے تھے، ان میں سے ایک آدمی میرے پاس آیا، میں اس وقت اپنے کھیت میں پانی لگا رہا تھا، اس آدمی کی جیب میں اخروٹ تھے، وہ پانی کی نالی پر بیٹھ گیا اور اخروٹ توڑ توڑ کر کھانے لگا، پھر اس شخص نے اشارے سے مجھے اپنے پاس بلایا کہ اے فارسی! ادھر آؤ میں قریب چلا گیا تو وہ کہنے لگا کہ کیا تم مجھے اس بات کی ضمانت دے سکتے ہو کہ اس پانی کے قریب اخروٹ کے درخت لگائے جا سکتے ہیں؟ میں نے کہا کہ مجھے اس ضمانت سے کیا فائدہ ہو گا؟ اس شخص نے کہا کہ میں نے اپنے ان دونوں کانوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کوئی درخت لگائے اور اس کی نگہداشت اور ضروریات کا خیال رکھتا رہے تاآنکہ اس پر پھل آ جائے تو جس چیز کو بھی اس کا پھل ملے گا، وہ اللہ کے نزدیک اس کے لئے صدقہ بن جائے گا۔ فنج نے پوچھا کہ کیا واقعی آپ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ اس شخص نے جواب دیا جی ہاں! اس پر فنج نے انہیں ضمانت دے دی اور اب تک وہاں کے اخروٹ مشہو ر ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة حال فنج، وهذا الحديث من منكراته، وعبدالله بن وهب مستور الحال
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن حميد الاعرج ، عن محمد بن إبراهيم التيمي ، عن عبد الرحمن بن معاذ ، عن رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: خطب النبي صلى الله عليه وسلم الناس بمنى، ونزلهم منازلهم، وقال:" لينزل المهاجرون هاهنا" واشار إلى ميمنة القبلة،" والانصار هاهنا" واشار إلى ميسرة القبلة،" ثم لينزل الناس حولهم"، قال: وعلمهم مناسكهم، ففتحت اسماع اهل منى حتى سمعوه في منازلهم، قال: فسمعته، يقول:" ارموا الجمرة بمثل حصى الخذف".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ حُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مُعَاذٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: خَطَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِمِنًى، وَنَزَّلَهُمْ مَنَازِلَهُمْ، وَقَالَ:" لِيَنْزِلْ الْمُهَاجِرُونَ هَاهُنَا" وَأَشَارَ إِلَى مَيْمَنَةِ الْقِبْلَةِ،" وَالْأَنْصَارُ هَاهُنَا" وَأَشَارَ إِلَى مَيْسَرَةِ الْقِبْلَةِ،" ثُمَّ لِيَنْزِلْ النَّاسُ حَوْلَهُمْ"، قَالَ: وَعَلَّمَهُمْ مَنَاسِكَهُمْ، فَفُتِحَتْ أَسْمَاعُ أَهْلِ مِنًى حَتَّى سَمِعُوهُ فِي مَنَازِلِهِمْ، قَالَ: فَسَمِعْتُهُ، يَقُولُ:" ارْمُوا الْجَمْرَةَ بِمِثْلِ حَصَى الْخَذْفِ".
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان منیٰ میں لوگوں کو ان کی جگہوں پر بٹھا کر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: مہاجرین یہاں اتریں اور قبلہ کی دائیں جانب اشارہ فرمایا:: اور انصار یہاں اتریں اور قبلہ کی بائیں جانب اشارہ فرمایا:: پھر لوگ ان کے آس پاس اتریں، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مناسک حج کی تعلیم دی، جس نے اہل منیٰ کے کان کھول دیئے اور سب کو اپنے اپنے پڑاؤ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنائی دیتی رہی، میں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ٹھیکر ی کی کنکر ی جیسی کنکر یوں سے جمرات کی رمی کر و۔
مروی ہے کہ ابوطلحہ واعظ نامی ایک شخص امام مالک کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اے ابوعبداللہ! لوگ مجھے یہ حدیث بیان کرنے سے روکتے ہیں کہ صلی اللہ علیہ علی ابراہیم انک حمید مجید وعلی محمد وعلی اہل بیتہ وعلی ازواجہ، امام مالک نے فرمایا: تم یہ حدیث بیان کر سکتے ہواور اپنے وعظ میں اسے ذکر کر سکتے ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف دون قوله: «ارموا الجمرة......الخذف» فهو صحيح لغيره، عامة أحاديث محمد بن إبراهيم عن سائر الصحابة مراسيل، ثم إنه اختلف فيه على حميد الأعرج
قال عبد الله بن احمد: سمعت مصعبا الزبيري، يقول: جاء ابو طلحة القاص إلى مالك بن انس، فقال: يا ابا عبد الله، إن قوما قد نهوني ان اقص هذا الحديث، صلى الله على إبراهيم، إنك حميد مجيد، وعلى محمد وعلى اهل بيته، وعلى ازواجه، فقال مالك: حدث به، وقص به، وقولهقال عَبْد اللَّهِ بن أحمد: سَمِعْتُ مُصْعَبًا الزُّبَيْرِيَّ، يَقُولُ: جَاءَ أَبُو طَلْحَةَ الْقَاصُّ إِلَى مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، إِنَّ قَوْمًا قَدْ نَهَوْنِي أَنْ أَقُصَّ هَذَا الْحَدِيثَ، صَلَّى اللَّهُ عَلَى إِبْرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ، وَعَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى أَهْلِ بَيْتِهِ، وَعَلَى أَزْوَاجِهِ، فَقَالَ مَالِكٌ: حَدِّثْ بِهِ، وَقُصَّ بِهِ، وَقُولَهُ
سیدنا عبدالرحمن بن معاذ صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میدان منیٰ میں لوگوں کو ان کی جگہوں پر بٹھا کر ہمیں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا:۔۔۔۔۔۔ پھر راوی نے پوری حدیث ذکر کی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عامة أحاديث محمد بن إبراهيم عن سائر الصحابة مراسيل، ثم إنه اختلف فيه على حميد الأعرج
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا الاشجعي ، عن سفيان ، عن الاعمش ، عن هلال بن يساف ، عن رجل ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال:" سيكون قوم لهم عهد، فمن قتل رجلا منهم لم يرح رائحة الجنة، وإن ريحها ليوجد من مسيرة سبعين عاما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَشْجَعِيُّ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يِسَافٍ ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:" سَيَكُونُ قَوْمٌ لَهُمْ عَهْدٌ، فَمَنْ قَتَلَ رَجُلًا مِنْهُمْ لَمْ يَرَحْ رَائِحَةَ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ عَامًا".
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عنقریب ذمیوں کی ایک قوم ہو گی، جو شخص ان میں سے کسی کو قتل کر ے گا وہ جنت کی مہک بھی نہ سونگھ سکے گا، حالانکہ جنت کی مہک تو ستر سال کی مسافت سے بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا عبد الله بن المبارك ، عن عبد الحميد بن صيفي ، عن ابيه ، عن جده ، قال: إن صهيبا قدم على النبي صلى الله عليه وسلم وبين يديه تمر وخبز، فقال:" ادن فكل"، قال: فاخذ ياكل من التمر، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" إن بعينك رمدا"، فقال: يا رسول الله، إنما آكل من الناحية الاخرى، قال: فتبسم النبي صلى الله عليه وسلم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ صَيْفِيٍّ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: إِنَّ صُهَيْبًا قَدِمَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ تَمْرٌ وَخُبْزٌ، فَقَالَ:" ادْنُ فَكُلْ"، قَالَ: فَأَخَذَ يَأْكُلُ مِنَ التَّمْرِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ بِعَيْنِكَ رَمَدًا"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا آكُلُ مِنَ النَّاحِيَةِ الْأُخْرَى، قَالَ: فَتَبَسَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبدالحمید بن صیفی کے دادا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں سیدنا صہیب رومی حاضر ہوئے اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھجوریں اور روٹی رکھی ہوئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صہیب سے فرمایا کہ قریب آجاؤ اور کھاؤ، چنانچہ وہ کھجوریں کھانے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہیں تو آشوب چشم ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! میں دوسری جانب سے کھا رہا ہوں، اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے۔
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس امت کے آخر میں ایک قوم ایسی بھی آئے گی جنہیں پہلے لوگوں کی طرح اجر دیا جائے گا، یہ وہ لوگ ہوں گے جو گناہ کی برائی کو بیان کر یں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالرحمن بن الحضرمي لم يوجد له ترجمة ، وزيد بن الحباب ثقة إلا أنه يخطىء فى حديث سفيان الثوري
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، قال: حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن حارثة بن مضرب ، عن بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لاصحابه:" إن منكم رجالا لا اعطيهم شيئا، اكلهم، منهم فرات بن حيان"، قال: من بني عجل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ حَارِثَةَ بْنِ مُضَرِّبٍ ، عَنْ بَعْضِ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَصْحَابِهِ:" إِنَّ مِنْكُمْ رِجَالًا لَا أُعْطِيهِمْ شَيْئًا، أَكِلُهُمْ، مِنْهُمْ فُرَاتُ بْنُ حَيَّانٍ"، قَالَ: مِنْ بَنِي عِجْل.
ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہیں میں کچھ بھی نہیں دیتا، بلکہ انہیں ان کے ایمان کے حوالے کر دیتا ہوں انہی میں فرات بن حیان ہے، ان کا تعلق بنوعجل سے تھا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: «لا أعطيهم شيئا» ففي زيادتها نظر، تفرد بها إسرائيل