(حديث مرفوع) حدثنا بهز بن اسد ، قال: حدثنا عكرمة بن عمار ، قال: حدثنا إياس بن سلمة بن الاكوع ، عن ابيه ، قال: غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم هوازن، وغطفان فبينما نحن كذلك إذ جاء رجل على جمل احمر، فانتزع شيئا من حقب البعير، فقيد به البعير، ثم جاء يمشي حتى قعد معنا يتغدى، قال: فنظر في القوم، فإذا ظهرهم فيه قلة، واكثرهم مشاة، فلما نظر إلى القوم، خرج يعدو، قال: فاتى بعيره، فقعد عليه، قال: فخرج يركضه، وهو طليعة للكفار، فاتبعه رجل منا من اسلم على ناقة له ورقاء، قال إياس: قال ابي: فاتبعته اعدو على رجلي، قال: وراس الناقة عند ورك الجمل، قال: ولحقته فكنت عند ورك الناقة، وتقدمت حتى كنت عند ورك الجمل، ثم تقدمت حتى اخذت بخطام الجمل، فقلت له: اخ، فلما وضع ركبته الجمل إلى الارض اخترطت سيفي، فضربت راسه، فندر، ثم جئت براحلته اقودها، فاستقبلني رسول الله صلى الله عليه وسلم مع الناس، قال:" من قتل هذا الرجل؟"، قالوا: ابن الاكوع، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" له سلبه اجمع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَوَازِنَ، وَغَطَفَانَ فَبَيْنَمَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ، فَانْتَزَعَ شَيْئًا مِنْ حَقَبِ الْبَعِيرِ، فَقَيَّدَ بِهِ الْبَعِيرَ، ثُمَّ جَاءَ يَمْشِي حَتَّى قَعَدَ مَعَنَا يَتَغَدَّى، قَالَ: فَنَظَرَ فِي الْقَوْمِ، فَإِذَا ظَهْرُهُمْ فِيهِ قِلَّةٌ، وَأَكْثَرُهُمْ مُشَاةٌ، فَلَمَّا نَظَرَ إِلَى الْقَوْمِ، خَرَجَ يَعْدُو، قَالَ: فَأَتَى بَعِيرَهُ، فَقَعَدَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَخَرَجَ يُرْكُضُهُ، وَهُوَ طَلِيعَةٌ لِلْكُفَّارِ، فَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ مِنَّا مِنْ أَسْلَمَ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ وَرْقَاءَ، قَالَ إِيَاسٌ: قَالَ أَبِي: فَاتَّبَعْتُهُ أَعْدُو عَلَى رِجْلَيَّ، قَالَ: وَرَأْسُ النَّاقَةِ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ، قَالَ: وَلَحِقْتُهُ فَكُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ النَّاقَةِ، وَتَقَدَّمْتُ حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ، فَقُلْتُ لَهُ: أخْ، فَلَمَّا وَضْعَ ركبتَهُ الْجَمَلُ إِلَى الْأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَيْفِي، فَضَرَبْتُ رَأْسَهُ، فَنَدَرَ، ثُمَّ جِئْتُ بِرَاحِلَتِهِ أَقُودُهَا، فَاسْتَقْبَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ النَّاسِ، قَالَ:" مَنْ قَتَلَ هَذَا الرَّجُلَ؟"، قَالُوا: ابْنُ الْأَكْوَعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَهُ سَلَبُهُ أَجْمَعُ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں ہوازن کے خلاف جہاد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مقام پر پڑاؤ کیا، مشرکین کا ایک جاسوس خبر لینے کے لئے آیا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے، انہوں نے اسے بھی مہمان ظاہر کر کے کھانے کی دعوت دے دی، جب وہ آدمی کھانے سے فارغ ہوا تو اپنی سواری پر سوار ہو کر واپس روانہ ہوا تاکہ اپنے ساتھیوں کو خبردار کر سکے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے قبیلہ اسلم کا ایک آدمی بہترین قسم کی خاکستیری اونٹنی پر سوار ہو کر اس کے پیچھے لگ گیا، میں بھی دوڑتا ہوا نکلا اور اسے پکڑ لیا، اونٹنی کا سر اونٹ کے سرین کے پاس تھا اور میں اونٹنی کے سرین کے پاس، میں تھوڑا سا آگے بڑھ کر اونٹ کے سرین کے قریب ہو گیا، پھر تھوڑا سا قریب ہو کر اس کے اونٹ کی لگام پکڑ لی، میں نے اس کی سواری کو بٹھایا اور جب وہ بیٹھ گئی تو میں نے اس کی گردن اڑادی، میں اس کی سواری اور اس کے سازوسامان کو لے کر ہانکتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوا، راستہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آمنا سامنا ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو کس نے قتل کیا؟ لوگوں نے کہا ابن اکوع نے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا سازوسامان بھی اسی کا ہو گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، قال: حدثنا عكرمة ، قال: حدثنا إياس بن سلمة بن الاكوع ، عن ابيه ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم ابا بكر رضي الله عنه إلى فزارة، وخرجت معه، حتى إذا دنونا من الماء عرس ابو بكر، حتى إذا صلينا الصبح، امرنا فشننا الغارة، فوردنا الماء، فقتل ابو بكر من قتل ونحن معه، قال سلمة: فرايت عنقا من الناس فيهم الذراري، فخشيت ان يسبقوني إلى الجبل، فادركتهم، فرميت بسهم بينهم وبين الجبل، فلما راوا السهم قاموا، فإذا امراة من فزارة عليها قشع من ادم معها ابنة من احسن العرب، فجئت اسوقهن إلى ابي بكر، فنفلني ابو بكر ابنتها، فلم اكشف لها ثوبا حتى قدمت المدينة، ثم باتت عندي، فلم اكشف لها ثوبا حتى لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم في السوق، فقال:" يا سلمة، هب لي المراة"، قال: يا رسول الله، لقد اعجبتني، وما كشفت لها ثوبا، قال: فسكت حتى إذا كان الغد، لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم في السوق، ولم اكشف لها ثوبا، فقال:" يا سلمة، هب لي المراة، لله ابوك"، قال: قلت: هي لك يا رسول الله، قال: فبعث بها رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اهل مكة، ففدى بها اسراء من المسلمين كانوا في ايدي المشركين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: بَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ إِلَى فَزَارَةَ، وَخَرَجْتُ مَعَهُ، حَتَّى إِذَا دَنَوْنَا مِنَ الْمَاءِ عَرَّسَ أَبُو بَكْرٍ، حَتَّى إِذَا صَلَّيْنَا الصُّبْحَ، أَمَرَنَا فَشَنَنَّا الْغَارَةَ، فَوَرَدْنَا الْمَاءَ، فَقَتَلَ أَبُو بَكْرٍ مَنْ قَتَلَ وَنَحْنُ مَعَهُ، قَالَ سَلَمَةُ: فَرَأَيْتُ عُنُقًا مِنَ النَّاسِ فِيهِمْ الذَّرَارِيُّ، فَخَشِيتُ أَنْ يَسْبِقُونِي إِلَى الْجَبَلِ، فَأَدْرَكْتُهُمْ، فَرَمَيْتُ بِسَهْمٍ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْجَبَلِ، فَلَمَّا رَأَوْا السَّهْمَ قَامُوا، فَإِذَا امْرَأَةٌ مِنْ فَزَارَةَ عَلَيْهَا قَشْعٌ مِنْ أَدَمٍ مَعَهَا ابْنَةٌ مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ، فَجِئْتُ أَسُوقُهُنَّ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَنَفَّلَنِي أَبُو بَكْرٍ ابْنَتَهَا، فَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، ثُمَّ بَاتَتْ عِنْدِي، فَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا حَتَّى لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ:" يَا سَلَمَةُ، هَبْ لِي الْمَرْأَةَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ أَعْجَبَتْنِي، وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، قَالَ: فَسَكَتَ حَتَّى إِذَا كَانَ الْغَدُ، لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، وَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا، فَقَالَ:" يَا سَلَمَةُ، هَبْ لِي الْمَرْأَةَ، لِلَّهِ أَبُوكَ"، قَالَ: قُلْتُ: هِيَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَبَعَثَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، فَفَدَى بِهَا أُسَرَاءَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ كَانُوا فِي أَيْدِي الْمُشْرِكِينَ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا صدیق اکبر کے ساتھ نکلے جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا، ہم بنو فزارہ سے جہاد کے لئے جا رہے تھے، جب ہم ایسی جگہ پر پہنچے جو پانی کے قریب تھی تو سیدنا صدیق اکبر نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے پڑاؤ ڈال دیا، فجر کی نماز پڑھ کر انہوں نے ہمیں دشمن پر حملہ کا حکم دیا اور ہم ان پر ٹوٹ پڑے اور اس ندی کے قریب بیشمار لوگوں کو قتل کر دیا، اچانک میری نظر ایک تیز رفتار گروہ پر پڑی جو پہاڑ کی طرف چلا جا رہا تھا اس میں عورتیں اور بچے تھے، میں ان کے پیچھے روانہ ہو گیا، لیکن پھر خطرہ ہوا کہ کہیں وہ مجھ سے پہلے ہی پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں اس لئے میں نے ان کی طرف ایک تیر پھینکا جو ان کے اور پہاڑ کے درمیان جا گرا۔ پھر میں انہیں ہانکتا ہوا سیدنا صدیق اکبر کے پہ اس لے آیا اور اسی ندی کے پاس پہنچ گیا، ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت بھی تھی جس نے چمڑے کی پوستین پہن رکھی تھی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو عرب کی انتہائی حسین و جمیل لڑکی تھی، اس کی وہ بیٹی سیدنا صدیق اکبر نے مجھے انعام کے طور پر بخش دی، میں نے مدینہ منورہ پہنچنے تک اس کا گھونگھٹ بھی کھول کر نہیں دیکھا، پھر رات ہوئی تب بھی میں نے اس کا گھونگھٹ نہیں ہٹایا، اگلے دن سر بازار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہو گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمانے لگے سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور مجھے چھوڑ کر چلے گئے، اگلے دن پھر سر بازار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات دہرائی اور مجھے میرے باپ کی قسم دی، میں نے قسم کھا کر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں نے اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا ہے، لیکن یا رسول اللہ!! اب میں وہ آپ کو دیتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لڑکی اہل مکہ کے پاس بھجوادی جن کے قبضے میں بہت سے مسلمان قیدی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فدیئے میں اس لڑکی کو پیش کر کے ان سے قیدیوں کو چھڑا لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو النضر ، قال: حدثنا عكرمة ، قال: حدثني إياس ابن سلمة ، قال: اخبرني ابي ، قال: بارز عمي يوم خيبر مرحبا اليهودي، فقال مرحب: قد علمت خيبر اني مرحب شاكي السلاح بطل مجرب إذا الحروب اقبلت تلهب، فقال عمي عامر: قد علمت خيبر اني عامر شاكي السلاح بطل مغامر فاختلفا ضربتين، فوقع سيف مرحب في ترس عامر، وذهب يسفل له، فرجع السيف على ساقه، فقطع اكحله، فكانت فيها نفسه، قال: سلمة بن الاكوع فلقيت ناسا من صحابة النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: بطل عمل عامر، قتل نفسه، قال سلمة: فجئت إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم ابكي، قلت: يا رسول الله، بطل عمل عامر، قال:" من قال ذاك؟"، قلت: ناس من اصحابك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كذب من قال ذاك، بل له اجره مرتين"، إنه حين خرج إلى خيبر، جعل يرجز باصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، وفيهم النبي صلى الله عليه وسلم يسوق الركاب، وهو يقول: تالله لولا الله ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا إن الذين قد بغوا علينا إذا ارادوا فتنة ابينا ونحن عن فضلك ما استغنينا فثبت الاقدام إن لاقينا وانزلن سكينة علينا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من هذا؟"، قال عامر، يا رسول الله، قال:" غفر لك ربك"، قال: وما استغفر لإنسان قط يخصه إلا استشهد، فلما سمع ذلك عمر بن الخطاب، قال: يا رسول الله، لو متعتنا بعامر، فقدم فاستشهد، قال سلمة: ثم إن نبي الله صلى الله عليه وسلم ارسلني إلى علي، فقال:" لاعطين الراية اليوم رجلا يحب الله ورسوله، او يحبه الله ورسوله"، قال: فجئت به اقوده ارمد، فبصق نبي الله صلى الله عليه وسلم في عينه، ثم اعطاه الراية، فخرج مرحب يخطر بسيفه، فقال: قد علمت خيبر اني مرحب شاكي السلاح بطل مجرب إذا الحروب اقبلت تلهب، فقال علي بن ابي طالب رضي الله عنه: انا الذي سمتني امي حيدره كليث غابات كريه المنظره اوفيهم بالصاع كيل السندره، ففلق راس مرحب بالسيف، وكان الفتح على يديه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِيَاسُ ابْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، قَالَ: بَارَزَ عَمِّي يَوْمَ خَيْبَرَ مَرْحَبًا الْيَهُودِيُّ، فَقَالَ مَرْحَبٌ: قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ، فَقَالَ عَمِّي عَامِرٌ: قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي عَامِرُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُغَامِرُ فَاخْتَلَفَا ضَرْبَتَيْنِ، فَوَقَعَ سَيْفُ مَرْحَبٍ فِي تُرْسِ عَامِرٍ، وَذَهَبَ يَسْفُلُ لَهُ، فَرَجَعَ السَّيْفُ عَلَى سَاقِهِ، فقَطَعَ أَكْحَلَهُ، فَكَانَتْ فِيهَا نَفْسُهُ، قَالَ: سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ فلَقِيتُ نَاسًا مِنْ صَحَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ، قَتَلَ نَفْسَهُ، قَالَ سَلَمَةُ: فَجِئْتُ إِلَى نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبْكِي، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَطَلَ عَمَلُ عَامِرٍ، قَالَ:" مَنْ قَالَ ذَاكَ؟"، قُلْتُ: نَاسٌ مِنْ أَصْحَابِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَذَبَ مَنْ قَالَ ذَاكَ، بَلْ لَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ"، إِنَّهُ حِينَ خَرَجَ إِلَى خَيْبَرَ، جَعَلَ يَرْجُزُ بِأَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسُوقُ الرِّكَابَ، وَهُوَ يَقُولُ: تَالَلَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا إِنَّ الَّذِينَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا إِذَا أَرَادُوا فِتْنَةً أَبَيْنَا وَنَحْنُ عَنْ فَضْلِكَ مَا اسْتَغْنَيْنَا فَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ هَذَا؟"، قَالَ عَامِرٌ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" غَفَرَ لَكَ رَبُّكَ"، قَالَ: وَمَا اسْتَغْفَرَ لِإِنْسَانٍ قَطُّ يَخُصُّهُ إِلَّا اسْتُشْهِدَ، فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْ مَتَّعْتَنَا بِعَامِرٍ، فَقَدِمَ فَاسْتُشْهِدَ، قَالَ سَلَمَةُ: ثُمَّ إِنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرْسَلَنِي إِلَى عَلِيٍّ، فَقَالَ:" لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، أَوْ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ"، قَالَ: فَجِئْتُ بِهِ أَقُودُهُ أَرْمَدَ، فَبَصَقَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنِهِ، ثُمَّ أَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَخَرَجَ مَرْحَبٌ يَخْطِرُ بِسَيْفِهِ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمَتْ خَيْبَرُ أَنِّي مَرْحَبُ شَاكِي السِّلَاحِ بَطَلٌ مُجَرَّبُ إِذَا الْحُرُوبُ أَقْبَلَتْ تَلَهَّبُ، فَقَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضي الله عنه: أَنَا الَّذِي سَمَّتْنِي أُمِّي حَيْدَرَهْ كَلَيْثِ غَابَاتٍ كَرِيهِ الْمَنْظَرَهْ أُوفِيهِمُ بِالصَّاعِ كَيْلَ السَّنْدَرَهْ، فَفَلَقَ رَأْسَ مَرْحَبٍ بِالسَّيْفِ، وَكَانَ الْفَتْحُ عَلَى يَدَيْهِ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر میرے چچا نے مرحب یہو دی کو مقابلے کی دعوت دی، مرحب کہنے لگا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر، تجربہ کار ہوں جس وقت جنگ کی آگ بھڑکنے لگتی ہے، میرے چچا عامر نے بھی یہ رجزیہ اشعار پڑھے خیبر جانتا ہے کہ میں عامر ہوں اسلحہ سے مسلح اور بےخوف جنگ میں گھسنے والا ہوں۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ عامر اور مرحب دونوں ضربیں مختلف طور پر پڑنے لگیں۔ مرحب کی تلوار عامر کی ڈھال پر لگی اور عامر نے نیچے سے مرحب کو تلوار ماری تو سیدنا عامر کی اپنی تلوار خود انہی کو لگ گئی جس سے ان کی شہ رگ کٹ گئی اور اس کے نتیجہ میں وہ شہید ہو گئے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں نکلا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کر یم کے چند صحابہ کو دیکھا وہ کہنے لگے سیدنا عامر کا عمل ضائع ہو گیا۔ انہوں نے اپنے آپ کو خود مار ڈالا ہے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں روتا ہوا آیا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! عامر کا عمل ضائع ہو گیا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کس نے کہا ہے؟ میں نے عرض کیا: آپ کے صحابہ میں سے کچھ لوگوں نے کہا ہے۔ آپ نے فرمایا: جس نے بھی کہا ہے غلط کہا ہے بلکہ عامر کے لئے دگنا اجر ہے۔ جس وقت عامر، رسول اللہ کے ساتھ خیبر کی طرف نکل پڑے، انہوں نے رجزیہ اشعار پڑھنے شروع کر دیئے۔ اللہ کی قسم! اگر اللہ کی مدد نہ ہو تی تو ہمیں ہدایت نہ ملتی اور نہ ہم صدقہ کرتے اور نہ ہی ہم نماز پڑھتے، یہ لوگ ہم پر سرکشی کا ارادہ رکھتے ہیں، لیکن یہ جب بھی کسی فتنے کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اس کا حصہ بننے سے انکار کر دیتے ہیں۔ اور ہم (اے اللہ) تیرے فضل سے مستغنی نہیں ہیں اور تو ہمیں ثابت قدم رکھ جب ہم دشمن سے ملیں اور (اے اللہ) ہم پر سکینت نازل فرما۔ (جب یہ رجزیہ اشعار سنے) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! میں عامر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا رب تیری مغفت فرمائے، راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ جب کسی انسان کے لئے خاص طور پر مغفرت کی دعا فرماتے تو وہ ضرور شہادت کا درجہ حاصل کرتا، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب اپنے اونٹ پر تھے انہوں نے یہ سن کر بلند آواز سے پکارا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ہمیں عامر سے کیوں نہ فائدہ حاصل کرنے دیا، پھر عامر آگے بڑھ کر شہید ہو گئے۔ پھر آپ نے مجھے سیدنا علی کی طرف بھیجا۔ آپ نے فرمایا: میں جھنڈا ایک ایسے آدمی کو دوں گا کہ جو اللہ اور اس کے رسول سے محبت رکھتا ہواور اللہ اور اس کے رسول اس سے محبت رکھتے ہوں۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں علی کو پکڑ کر (سہارا دے کر) آپ کی خدمت میں لے آیا کیونکہ علی کی آنکھیں دکھ رہی تھیں، آپ نے سیدنا علی کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا تو ان کی آنکھیں اسی وقت ٹھیک ہو گئیں۔ آپ نے ان کو جھنڈا عطا فرمایا: اور مرحب یہ کہتا ہوا نکلا۔ خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ سے مسلح، بہادر، تجربہ کار ہوں جب جنگ کی آگ بھڑک اٹھتی ہے۔ پھر سیدنا علی نے بھی جواب میں کہا کہ میں وہ ہوں کہ میری ماں نے میرا نام حیدر رکھا ہے اس شیر کی طرف جو جنگلوں میں ڈرانی صورت ہوتا ہے میں لوگوں کو ایک صاع کے بدلہ، اس سے بڑا پیمانہ دیتا ہوں۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ پھر سیدنا علی نے مرحب کے سر پر ایک ضرب لگائی تو وہ قتل ہو گیا اور خیبر سیدنا علی کے ہاتھوں فتح ہو گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، حدثنا عكرمة بن عمار ، قال: حدثنا إياس بن سلمة بن الاكوع ، عن ابيه ، قال: قدمنا المدينة زمن الحديبية مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرجنا انا ورباح غلام رسول الله صلى الله عليه وسلم، بظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم وخرجت بفرس لطلحة بن عبيد الله كنت اريد ان ابديه مع الإبل، فلما كان بغلس غار عبد الرحمن بن عيينة على إبل رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقتل راعيها، وخرج يطردها هو واناس معه في خيل، فقلت: يا رباح، اقعد على هذا الفرس فالحقه بطلحة، واخبر رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قد اغير على سرحه، قال: وقمت على تل فجعلت وجهي من قبل المدينة، ثم ناديت ثلاث مرات يا صباحاه، ثم اتبعت القوم معي سيفي ونبلي، فجعلت ارميهم، واعقر بهم، وذلك حين يكثر الشجر، فإذا رجع إلي فارس جلست له في اصل شجرة، ثم رميت، فلا يقبل علي فارس إلا عقرت به، فجعلت ارميهم وانا اقول: انا ابن الاكوع واليوم يوم الرضع فالحق برجل منهم، فارميه، وهو على راحلته، فيقع سهمي في الرجل حتى انتظمت كتفه، فقلت خذها وانا ابن الاكوع واليوم يوم الرضع فإذا كنت في الشجر احرقتهم بالنبل، فإذا تضايقت الثنايا علوت الجبل، فرديتهم بالحجارة، فما زال ذاك شاني وشانهم اتبعهم فارتجز، حتى ما خلق الله شيئا من ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم إلا خلفته وراء ظهري، فاستنقذته من ايديهم، ثم لم ازل ارميهم حتى القوا اكثر من ثلاثين رمحا، واكثر من ثلاثين بردة يستخفون منها، ولا يلقون من ذلك شيئا إلا جعلت عليه حجارة، وجمعت على طريق رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا امتد الضحى، اتاهم عيينة بن بدر الفزاري مددا لهم، وهم في ثنية ضيقة، ثم علوت الجبل، فانا فوقهم، فقال عيينة: ما هذا الذي ارى؟، قالوا: لقينا من هذا البرح، ما فارقنا بسحر حتى الآن، واخذ كل شيء في ايدينا، وجعله وراء ظهره، قال عيينة: لولا ان هذا يرى ان وراءه طلبا لقد ترككم، ليقم إليه نفر منكم، فقام إليه نفر منهم اربعة، فصعدوا في الجبل، فلما اسمعتهم الصوت، قلت: اتعرفوني؟، قالوا: ومن انت؟، قلت: انا ابن الاكوع، والذي كرم وجه محمد صلى الله عليه وسلم لا يطلبني منكم رجل فيدركني، ولا اطلبه فيفوتني، قال رجل منهم: إن اظن، قال: فما برحت مقعدي ذلك حتى نظرت إلى فوارس رسول الله صلى الله عليه وسلم يتخللون الشجر، وإذا اولهم الاخرم الاسدي، وعلى اثره ابو قتادة فارس رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعلى اثر ابي قتادة المقداد الكندي، فولى المشركون مدبرين، وانزل من الجبل، فاعرض للاخرم فآخذ عنان فرسه، فقلت: يا اخرم، ائذن القوم يعني احذرهم فإني لا آمن ان يقطعوك، فاتئد حتى يلحق رسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه، قال: يا سلمة، إن كنت تؤمن بالله واليوم الآخر، وتعلم ان الجنة حق والنار حق، فلا تحل بيني وبين الشهادة، قال: فخليت عنان فرسه، فيلحق بعبد الرحمن بن عيينة، ويعطف عليه عبد الرحمن، فاختلفا طعنتين، فعقر الاخرم بعبد الرحمن، وطعنه عبد الرحمن فقتله، فتحول عبد الرحمن على فرس الاخرم، فيلحق ابو قتادة بعبد الرحمن فاختلفا طعنتين، فعقر بابي قتادة، وقتله ابو قتادة، وتحول ابو قتادة على فرس الاخرم، ثم إني خرجت اعدو في اثر القوم حتى ما ارى من غبار صحابة النبي صلى الله عليه وسلم شيئا، ويعرضون قبل غيبوبة الشمس إلى شعب فيه ماء يقال له ذو قرد، فارادوا ان يشربوا منه، فابصروني اعدو وراءهم، فعطفوا عنه، واشتدوا في الثنية ثنية ذي نثر وغربت الشمس، فالحق رجلا، فارميه، فقلت: خذها وانا ابن الاكوع واليوم يوم الرضع، قال: فقال: يا ثكل ام، اكوع بكرة، قلت: نعم، اي عدو نفسه، وكان الذي رميته بكرة، فاتبعته سهما آخر، فعلق به سهمان، ويخلفون فرسين، فجئت بهما اسوقهما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو على الماء الذي حليتهم عنه ذو قرد، فإذا بنبي الله صلى الله عليه وسلم في خمس مئة، وإذا بلال قد نحر جزورا مما خلفت، فهو يشوي لرسول الله صلى الله عليه وسلم من كبدها وسنامها، فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، خلني فانتخب من اصحابك مئة فآخذ على الكفار عشوة، فلا يبقى منهم مخبر إلا قتلته، قال:" اكنت فاعلا ذلك يا سلمة؟"، قال: نعم، والذي اكرمك، فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى رايت نواجذه في ضوء النار، ثم قال: إنهم يقرون الآن بارض غطفان، فجاء رجل من غطفان، فقال: مروا على فلان الغطفاني فنحر لهم جزورا، قال: فلما اخذوا يكشطون جلدها راوا غبرة، فتركوها وخرجوا هرابا، فلما اصبحنا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" خير فرساننا اليوم ابو قتادة، وخير رجالتنا سلمة"، فاعطاني رسول الله صلى الله عليه وسلم سهم الراجل والفارس جميعا، ثم اردفني وراءه على العضباء راجعين إلى المدينة، فلما كان بيننا وبينها قريبا من ضحوة، وفي القوم رجل من الانصار كان لا يسبق جعل ينادي هل من مسابق؟ الا رجل يسابق إلى المدينة؟ فاعاد ذلك مرارا، وانا وراء رسول الله صلى الله عليه وسلم مردفي، قلت له: اما تكرم كريما، ولا تهاب شريفا؟، قال: لا، إلا رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلت: يا رسول الله، بابي انت وامي، خلني فلاسابق الرجل، قال:" إن شئت"، قلت: اذهب إليك، فطفر عن راحلته، وثنيت رجلي فطفرت عن الناقة، ثم إني ربطت عليها شرفا او شرفين، يعني استبقيت نفسي، ثم إني عدوت حتى الحقه، فاصك بين كتفيه بيدي، قلت سبقتك والله او كلمة نحوها، قال: فضحك، وقال: إن اظن، حتى قدمنا المدينة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ زَمَنَ الْحُدَيْبِيَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجْنَا أَنَا وَرَبَاحٌ غُلَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَخَرَجْتُ بِفَرَسٍ لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ كُنْتُ أُرِيدُ أَنْ أُبْدَِّيَهُ مَعَ الْإِبِلِ، فَلَمَّا كَانَ بِغَلَسٍ غَارَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُيَيْنَةَ عَلَى إِبِلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَتَلَ رَاعِيَهَا، وَخَرَجَ يَطْرُدُهَا هُوَ وَأُنَاسٌ مَعَهُ فِي خَيْلٍ، فَقُلْتُ: يَا رَبَاحُ، اقْعُدْ عَلَى هَذَا الْفَرَسِ فَأَلْحِقْهُ بِطَلْحَةَ، وَأَخْبِرْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَدْ أُغِيرَ عَلَى سَرْحِهِ، قَالَ: وَقُمْتُ عَلَى تَلٍّ فَجَعَلْتُ وَجْهِي مِنْ قِبَلِ الْمَدِينَةِ، ثُمَّ نَادَيْتُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ يَا صَبَاحَاهْ، ثُمَّ اتَّبَعْتُ الْقَوْمَ مَعِي سَيْفِي وَنَبْلِي، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ، وَأَعْقِرُ بِهِمْ، وَذَلِكَ حِينَ يَكْثُرُ الشَّجَرُ، فَإِذَا رَجَعَ إِلَيَّ فَارِسٌ جَلَسْتُ لَهُ فِي أَصْلِ شَجَرَةٍ، ثُمَّ رَمَيْتُ، فَلَا يُقْبِلُ عَلَيَّ فَارِسٌ إِلَّا عَقَرْتُ بِهِ، فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ وَأَنَا أَقُولُ: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ فَأَلْحَقُ بِرَجُلٍ مِنْهُمْ، فَأَرْمِيهِ، وَهُوَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَيَقَعُ سَهْمِي فِي الرَّجُلِ حَتَّى انْتَظَمْتُ كَتِفَهُ، فَقُلْتُ خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ فَإِذَا كُنْتُ فِي الشَّجَرِ أَحْرَقْتُهُمْ بِالنَّبْلِ، فَإِذَا تَضَايَقَتْ الثَّنَايَا عَلَوْتُ الْجَبَلَ، فَرَدَيْتُهُمْ بِالْحِجَارَةِ، فَمَا زَالَ ذَاكَ شَأْنِي وَشَأْنَهُمْ أَتَّبَعُهُمْ فَأَرْتَجِزُ، حَتَّى مَا خَلَقَ اللَّهُ شَيْئًا مِنْ ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا خَلَّفْتُهُ وَرَاءَ ظَهْرِي، فَاسْتَنْقَذْتُهُ مِنْ أَيْدِيهِمْ، ثُمَّ لَمْ أَزَلْ أَرْمِيهِمْ حَتَّى أَلْقَوْا أَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ رُمْحًا، وَأَكْثَرَ مِنْ ثَلَاثِينَ بُرْدَةً يَسْتَخِفُّونَ مِنْهَا، وَلَا يُلْقُونَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا إِلَّا جَعَلْتُ عَلَيْهِ حِجَارَةً، وَجَمَعْتُ عَلَى طَرِيقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا امْتَدَّ الضُّحَى، أَتَاهُمْ عُيَيْنَةُ بْنُ بَدْرٍ الْفَزَارِيُّ مَدَدًا لَهُمْ، وَهُمْ فِي ثَنِيَّةٍ ضَيِّقَةٍ، ثُمَّ عَلَوْتُ الْجَبَلَ، فَأَنَا فَوْقَهُمْ، فَقَالَ عُيَيْنَةُ: مَا هَذَا الَّذِي أَرَى؟، قَالُوا: لَقِينَا مِنْ هَذَا الْبَرْحَ، مَا فَارَقَنَا بِسَحَرٍ حَتَّى الْآنَ، وَأَخَذَ كُلَّ شَيْءٍ فِي أَيْدِينَا، وَجَعَلَهُ وَرَاءَ ظَهْرِهِ، قَالَ عُيَيْنَةُ: لَوْلَا أَنَّ هَذَا يَرَى أَنَّ وَرَاءَهُ طَلَبًا لَقَدْ تَرَكَكُمْ، لِيَقُمْ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْكُمْ، فَقَامَ إِلَيْهِ نفرٌ مِنْهُمْ أَرْبَعَةٌ، فَصَعِدُوا فِي الْجَبَلِ، فَلَمَّا أَسْمَعْتُهُمُ الصَّوْتَ، قُلْتُ: أَتَعْرِفُونِي؟، قَالُوا: وَمَنْ أَنْتَ؟، قُلْتُ: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ، وَالَّذِي كَرَّمَ وَجْهَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَطْلُبُنِي مِنْكُمْ رَجُلٌ فَيُدْرِكُنِي، وَلَا أَطْلُبُهُ فَيَفُوتُنِي، قَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: إِنْ أَظُنُّ، قَالَ: فَمَا بَرِحْتُ مَقْعَدِي ذَلِكَ حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى فَوَارِسِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَخَلَّلُونَ الشَّجَرَ، وَإِذَا أَوَّلُهُمُ الْأَخْرَمُ الْأَسَدِيُّ، وَعَلَى أَثَرِهِ أَبُو قَتَادَةَ فَارِسُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَلَى أَثَرِ أَبِي قَتَادَةَ الْمِقْدَادُ الْكِنْدِيُّ، فَوَلَّى الْمُشْرِكُونَ مُدْبِرِينَ، وَأَنْزِلُ مِنَ الْجَبَلِ، فَأَعْرِضُ لِلْأَخْرَمِ فَآخُذُ ِعِنَانِ فَرَسِهِ، فَقُلْتُ: يَا أَخْرَمُ، ائْذَنْ الْقَوْمَ يَعْنِي احْذَرْهُمْ فَإِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَقْطَعُوكَ، فَاتَّئِدْ حَتَّى يَلْحَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ، قَالَ: يَا سَلَمَةُ، إِنْ كُنْتَ تُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَتَعْلَمُ أَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَالنَّارَ حَقٌّ، فَلَا تَحُلْ بَيْنِي وَبَيْنَ الشَّهَادَةِ، قَالَ: فَخَلَّيْتُ عِنَانَ فَرَسِهِ، فَيَلْحَقُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عُيَيْنَةَ، وَيَعْطِفُ عَلَيْهِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ، فَعَقَرَ الْأَخْرَمُ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَطَعَنَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ فَقَتَلَه، ُفَتَحَوَّلَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ عَلى فَرَسِ الْأَخْرَمِ، فَيَلْحَقُ أَبُو قَتَادَةَ بِعَبْدِ الرَّحْمَنِ فَاخْتَلَفَا طَعْنَتَيْنِ، فَعُقرَ بِأَبِي قَتَادَةَ، وَقَتَلَهُ أَبُو قَتَادَةَ، وَتَحَوَّلَ أَبُو قَتَادَةَ عَلَى فَرَسِ الْأَخْرَمِ، ثُمَّ إِنِّي خَرَجْتُ أَعْدُو فِي أَثَرِ الْقَوْمِ حَتَّى مَا أَرَى مِنْ غُبَارِ صَحَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا، وَيُعْرِضُونَ قَبْلَ غَيْبُوبَةِ الشَّمْسِ إِلَى شِعْبٍ فِيهِ مَاءٌ يُقَالُ لَهُ ذُو قَرَدٍ، فَأَرَادُوا أَنْ يَشْرَبُوا مِنْهُ، فَأَبْصَرُونِي أَعْدُو وَرَاءَهُمْ، فَعَطَفُوا عَنْهُ، وَاشْتَدُّوا فِي الثَّنِيَّةِ ثَنِيَّةِ ذِي نثرٍ وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ، فَأَلْحَقُ رَجُلًا، فَأَرْمِيهِ، فَقُلْتُ: خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمُ الرُّضَّعِ، قَالَ: فَقَالَ: يَا ثُكْلَ أُمِّ، أَكْوَعُ بَكْرَةً، قُلْتُ: نَعَمْ، أَيْ عَدُوَّ نَفْسِهِ، وَكَانَ الَّذِي رَمَيْتُهُ بَكْرَةً، فَأَتْبَعْتُهُ سَهْمًا آخَرَ، فَعَلِقَ بِهِ سَهْمَانِ، وَيَخْلُفُونَ فَرَسَيْنِ، فَجِئْتُ بِهِمَا أَسُوقُهُمَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ عَلَى الْمَاءِ الَّذِي حَلَّيْتُهُمْ عَنْهُ ذُوْ قَرَدٍ، فَإِذَا بِنَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَمْسِ مِئَةٍ، وَإِذَا بِلَالٌ قَدْ نَحَرَ جَزُورًا مِمَّا خَلَّفْتُ، فَهُوَ يَشْوِي لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ كَبِدِهَا وَسَنَامِهَا، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَلِّنِي فَأَنْتَخِبَ مِنْ أَصْحَابِكَ مِئَةً فَآخُذَ عَلَى الْكُفَّارِ عَشْوَةً، فَلَا يَبْقَى مِنْهُمْ مُخْبِرٌ إِلَّا قَتَلْتُهُ، قَالَ:" أَكُنْتَ فَاعِلًا ذَلِكَ يَا سَلَمَةُ؟"، قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِي أَكْرَمَكَ، فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى رَأَيْتُ نَوَاجِذَهُ فِي ضُوءِ النَّارِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّهُمْ يُقْرَوْنَ الْآنَ بِأَرْضِ غَطَفَانَ، فَجَاءَ رَجُلٌ مِنْ غَطَفَانَ، فَقَالَ: مَرُّوا عَلَى فُلَانٍ الْغَطَفَانِيِّ فَنَحَرَ لَهُمْ جَزُورًا، قَالَ: فَلَمَّا أَخَذُوا يَكْشِطُونَ جِلْدَهَا رَأَوْا غَبَرَةً، فَتَرَكُوهَا وَخَرَجُوا هُرّاَبًا، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خَيْرُ فُرْسَانِنَا الْيَوْمَ أَبُو قَتَادَةَ، وَخَيْرُ رَجَّالَتِنَا سَلَمَةُ"، فَأَعْطَانِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهْمَ الرَّاجِلِ وَالْفَارِسِ جَمِيعًا، ثُمَّ أَرْدَفَنِي وَرَاءَهُ عَلَى الْعَضْبَاءِ رَاجِعِينَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَلَمَّا كَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهَا قَرِيبًا مِنْ ضَحْوَةٍ، وَفِي الْقَوْمِ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ كَانَ لَا يُسْبَقُ جَعَلَ يُنَادِي هَلْ مِنْ مُسَابِقٍ؟ أَلَا رَجُلٌ يُسَابِقُ إِلَى الْمَدِينَةِ؟ فَأَعَادَ ذَلِكَ مِرَارًا، وَأَنَا وَرَاءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرْدِفِي، قُلْتُ لَهُ: أَمَا تُكْرِمُ كَرِيمًا، وَلَا تَهَابُ شَرِيفًا؟، قَالَ: لَا، إِلَّا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، خَلِّنِي فَلَأُسَابِقَ الرَّجُلَ، قَالَ:" إِنْ شِئْتَ"، قُلْتُ: أَذْهَبْ إِلَيْكَ، فَطَفَرَ عَنْ رَاحِلَتِهِ، وَثَنَيْتُ رِجْلَيَّ فَطَفَرْتُ عَنِ النَّاقَةِ، ثُمَّ إِنِّي رَبَطْتُ عَلَيْهَا شَرَفًا أَوْ شَرَفَيْنِ، يَعْنِي اسْتَبْقَيْتُ نَفْسِي، ثُمَّ إِنِّي عَدَوْتُ حَتَّى أَلْحَقَهُ، فَأَصُكَّ بَيْنَ كَتِفَيْهِ بِيَدَيَّ، قُلْتُ سَبَقْتُكَ وَاللَّهِ أَوْ كَلِمَةً نَحْوَهَا، قَالَ: فَضَحِكَ، وَقَالَ: إِنْ أَظُنُّ، حَتَّى قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ حدیبیہ کے زمانے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آرہے تھے، میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلام رباح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے روانہ ہوئے، میں سیدنا طلحۃ بن عبیداللہ کا گھوڑا لے کر نکلا، ارادہ یہ تھا کہ اسے اونٹ کے ساتھ شامل کر دوں گا، لیکن منہ اندھیرے عبدالرحمن بن عیینہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹوں پر حملہ کیا اور چرواہے کو قتل کر دیا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ گھوڑے پر سوار ہو کر ان اونٹوں کو بھگا کر لے گیا، سیدنا سلمہ کہتے ہیں میں نے کہا اے رباح! یہ گھوڑا پکڑ اور اسے سیدنا طلحہ بن عبیداللہ کو پہنچا دے اور رسول اللہ کو خبر دے کہ مشرکوں نے آپ کے اونٹوں کو لوٹ لیا ہے، پھر میں ایک ٹیلے پر کھڑا ہوا اور میں نے اپنا رخ مدینہ منورہ کی طرف کر کے بہت بلند آواز سے پکارا، ' یا صباحاہ ' پھر (اس کے بعد) میں ان لٹیروں کے پیچھے ان کو تیر مارتا ہوا اور رجز پڑھتے ہوئے نکلا: میں اکوع کا بیٹا ہوں اور آج کا دن ان ذلیلوں کی بربادی کا دن ہے۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ اللہ کی قسم! میں ان کو لگاتار تیر مارتا رہا اور ان کو زخمی کرتا رہا تو جب ان میں سے کوئی سوار میری طرف لوٹتا تو میں درخت کے نیچے آ کر اس درخت کی جڑ میں بیٹھ جاتا پھر میں اس کو ایک تیر مارتا جس کی وجہ سے وہ زخمی ہو جاتا۔ یہاں تک کہ وہ لوگ پہاڑ کے تنگ راستہ میں گھسے اور میں پہاڑ پر چڑھ گیا اور وہاں سے میں نے ان کو پتھر مارنے شروع کر دیئے۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں لگاتار ان کا پیچھا کرتا رہا یہاں تک کہ کوئی اونٹ جو اللہ نے پیدا کیا اور وہ رسول اللہ کی سواری کا ہوایسا نہیں ہوا کہ جسے میں نے اپنی پشت کے پیچھے نہ چھوڑ دیا ہو، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے پھر ان کے پیچھے تیر پھینکے یہاں تک کہ ان لوگوں نے ہلکا ہو نے کی خاطر تیس چادریں اور تیس نیزوں سے زیادہ پھینک دیئے، سوائے اس کے کہ وہ لوگ جو چیز بھی پھینکتے میں پتھروں سے میل کی طرح اس پر نشان ڈال دیتا کہ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ پہچان لیں یہاں تک کہ وہ ایک تنگ گھاٹی پر آ گئے اور عیینہ بن بدر فزاری بھی ان کے پاس آگیا، سب لوگ دوپہر کا کھانا کھانے کے لئے بیٹھ گئے اور میں پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھ گیا، فزاری کہنے لگا کہ یہ کون آدمی ہمیں دیکھ رہا ہے؟ لوگوں نے کہا: اس آدمی نے ہمیں بڑا تنگ کر رکھا ہے، اللہ کی قسم! اندھیری رات سے ہمارے پاس جو کچھ بھی تھا اس نے سب کچھ چھین لیا ہے۔ فزاری کہنے لگا کہ تم میں سے چار آدمی اس کی طرف کھڑے ہوں اور اسے ماردیں، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ (یہ سنتے ہیں) ان میں سے چار آدمی میری طرف پہاڑ پر چڑھے تو جب وہ اتنی دور تک پہنچ گئے جہاں میری بات سن سکیں، تو میں نے ان سے کہا: کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ انہوں نے کہا تم کون ہو؟ میں نے جواب میں کہا: میں سلمہ بن اکوع ہوں اور قسم ہے اس ذات کی جس نے سیدنا محمد کے چہرہ اقدس کو بزرگی عطا فرمائی ہے میں تم میں سے جسے چاہوں ماردو اور تم میں سے کوئی مجھے مار نہیں سکتا، ان میں سے ایک آدمی کہنے لگا کہ ہاں لگتا تو ایسے ہی ہے، (پھر وہ سب وہاں سے لوٹ پڑے اور) میں ابھی تک اپنی جگہ سے چلا نہیں تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سواروں کو دیکھ لیا جو کہ درختوں میں گھس گئے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ ان میں سب سے آگے سیدنا اخرم اسدی تھے اور ان کے پیچھے سیدنا ابوقتاد تھے اور ان کے پیچھے سیدنا مقداد بن اسود کندی تھے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے جا کر اخرم کے گھوڑے کی لگام پکڑی (یہ دیکھتے ہی) وہ لٹیرے بھاگ پڑے، میں نے کہا اے اخرم ان سے ذرا بچ کے رہنا ایسا نہ ہو کہ وہ تمہیں مار ڈالیں جب تک کہ رسول اللہ اور آپ کے صحابہ نہ آجائیں، اخرم کہنے لگے اے ابوسلمہ! اگر تم اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہواور اس بات کا یقین رکھتے ہو کہ جنت حق ہے اور دوزخ حق ہے تو تم میرے اور میری شہادت کے درمیان رکاوٹ نہ ڈالو، میں نے ان کو چھوڑ دیا اور پھر اخرم کا مقابلہ عبدالرحمن فزاری سے ہوا، اخرم نے عبدالرحمن کے گھوڑے کو زخمی کر دیا اور عبدالرحمن نے اخرم کو برچھی مار کر شہید کر دیا اور اخرم کے گھوڑے پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ اسی دوران رسول اللہ کے شہسوار سیدنا ابوقتادہ آ گئے (جب انہوں نے یہ منظر دیکھا) تو سیدنا ابوقتادہ نے عبدالرحمن فزاری کو بھی برچھی مار کر قتل کر دیا میں ان کے تعاقب میں لگا رہا اور میں اپنے پاؤں سے ایسے بھاگ رہا تھا کہ مجھے اپنے پیچھے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی صحابی بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا اور نہ ہی ان کا گردو غبار، یہاں تک کہ وہ لٹیرے سورج غروب ہو نے سے پہلے ایک گھاٹی کی طرف آئے جس میں پانی تھا، اس گھاٹی کو ذی قرد کہا جاتا تھا تاکہ وہ لوگ اس گھاٹی سے پانی پئیں کیو کہ وہ پیاسے تھے، سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ انہو
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب نماز عشاء اور ات کا کھانا جمع ہو جائیں تو پہلے کھانا کھالیا کر و۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أيوب بن عتبة
(حديث مرفوع) حدثنا حماد بن مسعدة ، عن يزيد ، عن سلمة ، انه كان يتحرى موضع المصحف، وذكر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يتحرى ذلك المكان، وكان بين المنبر والقبلة ممر شاة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ سَلَمَةَ ، أَنَّهُ كَانَ يَتَحَرَّى مَوْضِعَ الْمُصْحَفِ، وَذَكَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَتَحَرَّى ذَلِكَ الْمَكَانَ، وَكَانَ بَيْنَ الْمِنْبَرِ وَالْقِبْلَةِ مَمَرُّ شَاةٍ".
یزید بن ابوعبید کہتے ہیں کہ میں سیدنا سلمہ بن اکوع کے ساتھ مسجد میں آتا تھا، وہ اس ستون کے پاس نماز پڑھتے تھے جو مصحف کے قریب تھا اور فرماتے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہتمام کے ساتھ اس ستون کے قریب نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اس وقت منبر اور قبلہ کے درمیان سے بکری گزر سکتی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا حماد بن مسعدة ، عن يزيد ، عن سلمة ، قال:" غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم سبع غزوات، فذكر الحديبية، ويوم حنين، ويوم القرد، ويوم خيبر"، قال يزيد: ونسيت بقيتهن.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ سَلَمَةَ ، قَالَ:" غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْعَ غَزَوَاتٍ، فَذَكَرَ الْحُدَيْبِيَةَ، وَيَوْمَ حُنَيْنٍ، وَيَوْمَ الْقَرَدِ، وَيَوْمَ خَيْبَرَ"، قَالَ يَزِيدُ: وَنَسِيتُ بَقِيَّتَهُنَّ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سات غزوات میں شرکت کی ہے، پھر انہوں نے حدیبیہ، ذات قرد اور غزوہ خیبر کا تذکر ہ کیا، راوی کہتے ہیں کہ بقیہ غزوات کے نام میں بھول گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا حماد بن مسعدة ، عن يزيد يعني ابن ابي عبيد ، عن سلمة ، قال: جاءني عمي عامر، فقال: اعطني سلاحك، قال: فاعطيته، قال: فجئت إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، ابغني سلاحك، قال:" اين سلاحك؟"، قال: قلت: اعطيته عمي عامرا، قال:" ما اجد شبهك إلا الذي قال: هب لي اخا احب إلي من نفسي"، قال: فاعطاني قوسه ومجانه، وثلاثة اسهم من كنانته.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ ، قَالَ: جَاءَنِي عَمِّي عَامِرٌ، فَقَالَ: أَعْطِنِي سِلَاحَكَ، قَالَ: فَأَعْطَيْتُهُ، قَالَ: فَجِئْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَبْغِنِي سِلَاحَكَ، قَالَ:" أَيْنَ سِلَاحُكَ؟"، قَالَ: قُلْتُ: أَعْطَيْتُهُ عَمِّي عَامِرًا، قَالَ:" مَا أَجِدُ شَبَهَكَ إِلَّا الَّذِي قَالَ: هَبْ لِي أَخًا أَحَبَّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي"، قَالَ: فَأَعْطَانِي قَوْسَهُ وَمَجَانَّهُ، وَثَلَاثَةَ أَسْهُمٍ مِنْ كِنَانَتِهِ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے پاس میرے چچا عامر آئے اور کہنے لگے کہ اپنا ہتھیار مجھے دے دو، میں نے انہیں وہ دے دیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ!! مجھے ہتھیار مہیا کیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارا اپنا ہتھیار کہا گیا؟ میں نے عرض کیا: کہ میں نے اپنے چچا عامر کو دے دیا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے علاوہ مجھے تمہارے متعلق کوئی تشبیہ نہیں یاد آرہی کہ ایک آدمی نے دوسرے سے کہا کہ مجھے اپنا بھائی دے دو جو مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ محبوب ہے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کمان، ڈھال اور اپنے ترکش سے تین تیر نکال کر مرحمت فرما دیئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا حماد بن مسعدة ، عن يزيد ، عن سلمة ، انه" استاذن النبي صلى الله عليه وسلم في البدو، فاذن له".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ سَلَمَةَ ، أَنَّهُ" اسْتَأْذَنَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْبَدْوِ، فَأَذِنَ لَهُ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگل میں رہنے کی اجازت مانگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔