(حديث مرفوع) حدثنا مكي ، قال: حدثنا يزيد بن ابي عبيد ، قال: كنت آتي مع سلمة المسجد، فيصلي مع الاسطوانة التي عند المصحف، فقلت: يا ابا مسلم، اراك تتحرى الصلاة عند هذه الاسطوانة؟، قال:" فإني رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يتحرى الصلاة عندها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَكِّيٌّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ: كُنْتُ آتِي مَعَ سَلَمَةَ الْمَسْجِدَ، فَيُصَلِّي مَعَ الْأُسْطُوَانَةِ الَّتِي عِنْدَ الْمُصْحَفِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا مُسْلِمٍ، أَرَاكَ تَتَحَرَّى الصَّلَاةَ عِنْدَ هَذِهِ الْأُسْطُوَانَةِ؟، قَالَ:" فَإِنِّي رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَحَرَّى الصَّلَاةَ عِنْدَهَا".
یزید بن ابوعبید رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کے ساتھ مسجد میں آتا تھا، وہ اس ستون کے پاس نماز پڑھتے تھے جو مصحف کے قریب تھا، میں نے پوچھا: اے ابومسلم! میں آپ کو اس ستون کا خاص اہتمام کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اہتمام کے ساتھ اس ستون کے قریب نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قبیلہ اسلم کو اللہ سلامت رکھے اور قبیلہ غفار کی اللہ بخشش فرمائے، بخدا! میں یہ نہیں کہتا، یہ اللہ کا کہنا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف عمر بن راشد
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، قال: حدثنا عكرمة ، قال: حدثنا إياس ، قال: حدثني ابي ، قال: قدمنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الحديبية، ونحن اربع عشرة مئة وعليها خمسون شاة لا ترويها، فقعد رسول الله صلى الله عليه وسلم على جبالها، فإما دعا وإما بسق، فجاشت فسقينا واستقينا، قال: ثم إن رسول الله صلى الله عليه وسلم دعا بالبيعة في اصل الشجرة، فبايعه اول الناس، وبايع وبايع، حتى إذا كان في وسط من الناس، قال:" يا سلمة، بايعني"، قلت: قد بايعتك في اول الناس يا رسول الله، قال:" وايضا فبايع" ورآني اعزلا، فاعطاني حجفة، او درقة، ثم بايع وبايع، حتى إذا كان في آخر الناس، قال:" الا تبايعني؟"، قال: قلت: يا رسول الله، بايعت اول الناس واوسطهم وآخرهم، قال:" وايضا فبايع" فبايعته، ثم قال:" اين درقتك او حجفتك التي اعطيتك؟"، قال: قلت: يا رسول الله، لقيني عمي عامر اعزلا، فاعطيته إياها، قال: فقال:" إنك كالذي، قال: اللهم ابغني حبيبا هو احب إلي من نفسي" وضحك، ثم إن المشركين راسلونا الصلح، حتى مشى بعضنا إلى بعض، قال: وكنت تبيعا لطلحة بن عبيد الله احس فرسه، واسقيه، وآكل من طعامه، وتركت اهلي ومالي مهاجرا إلى الله ورسوله، فلما اصطلحنا نحن واهل مكة، واختلط بعضنا ببعض، اتيت الشجرة، فكسحت شوكها، واضطجعت في ظلها، فاتاني اربعة من اهل مكة، فجعلوا وهم مشركون يقعون في رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتحولت عنهم إلى شجرة اخرى، وعلقوا سلاحهم، واضطجعوا، فبينما هم كذلك إذ نادى مناد من اسفل الوادي: يا آل المهاجرين، قتل ابن زنيم، فاخترطت سيفي، فشددت على الاربعة، فاخذت سلاحهم، فجعلته ضغثا، ثم قلت: والذي اكرم محمدا، لا يرفع رجل منكم راسه إلا ضربت الذي يعني فيه عيناه فجئت اسوقهم إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، وجاء عمي عامر بابن مكرز يقود به فرسه يقود سبعين، حتى وقفناهم، فنظر إليهم، فقال:" دعوهم، يكون لهم بدو الفجور" وعفا عنهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، وانزلت: وهو الذي كف ايديهم عنكم وايديكم عنهم سورة الفتح آية 24 ثم رجعنا إلى المدينة، فنزلنا منزلا، يقال له: لحي جمل، فاستغفر رسول الله صلى الله عليه وسلم لمن رقي الجبل في تلك الليلة، كانه طليعة لرسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه، فرقيت تلك الليلة مرتين او ثلاثة، ثم قدمنا المدينة، وبعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بظهره مع غلامه رباح وانا معه، وخرجت بفرس طلحة انديه على ظهره، فلما اصبحنا إذا عبد الرحمن بن عيينة الفزاري قد اغار على ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم فانتسفه اجمع، وقتل راعيه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: قَدِمْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْحُدَيْبِيَةَ، وَنَحْنُ أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِئَةً وَعَلَيْهَا خَمْسُونَ شَاةً لَا تُرْوِيهَا، فَقَعَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى جَبَالهَا، فَإِمَّا دَعَا وَإِمَّا بَسَقَ، فَجَاشَتْ فَسَقَيْنَا وَاسْتَقَيْنَا، قَالَ: ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا بِالْبَيْعَةِ فِي أَصْلِ الشَّجَرَةِ، فَبَايَعْهُ أَوَّلَ النَّاسِ، وَبَايَعَ وَبَايَعَ، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي وَسَطٍ مِنَ النَّاسِ، قَالَ:" يَا سَلَمَةُ، بَايِعْنِي"، قَلتُ: قَدْ بَايَعْتُكَ فِي أَوَّلِ النَّاسِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" وَأَيْضًا فَبَايِعْ" وَرَآنِي أَعْزَلًا، فَأَعْطَانِي حَجَفَةً، أَوْ دَرَقَةً، ثُمَّ بَايَعَ وَبَايَعَ، حَتَّى إِذَا كَانَ فِي آخِرِ النَّاسِ، قَالَ:" أَلَا تُبَايِعُنِي؟"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَايَعْتُ أَوَّلَ النَّاسِ وَأَوْسَطَهُمْ وَآخِرَهُمْ، قَالَ:" وَأَيْضًا فَبَايِعْ" فَبَايَعْتُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ دَرَقَتُكَ أَوْ حَجَفَتُكَ الَّتِي أَعْطَيْتُكَ؟"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقِيَنِي عَمِّي عَامِرٌ أَعْزَلًا، فَأَعْطَيْتُهُ إِيَّاهَا، قَالَ: فَقَالَ:" إِنَّكَ كَالَّذِي، قَالَ: اللَّهُمَّ ابْغِنِي حَبِيبًا هُوَ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ نَفْسِي" وَضَحِكَ، ثُمَّ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ رَاسَلُونَا الصُّلْحَ، حَتَّى مَشَى بَعْضُنَا إِلَى بَعْضٍ، قَالَ: وَكُنْتُ تَبِيعًا لِطَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ أَحُسُّ فَرَسَهُ، وَأَسْقِيهِ، وَآكُلُ مِنْ طَعَامِهِ، وَتَرَكْتُ أَهْلِي وَمَالِي مُهَاجِرًا إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ، فَلَمَّا اصْطَلَحْنَا نَحْنُ وَأَهْلُ مَكَّةَ، وَاخْتَلَطَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ، أَتَيْتُ الشَّجَرَةَ، فَكَسَحْتُ شَوْكَهَا، وَاضْطَجَعْتُ فِي ظِلِّهَا، فَأَتَانِي أَرْبَعَةٌ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، فَجَعَلُوا وَهُمْ مُشْرِكُونَ يَقَعُونَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَحَوَّلْتُ عَنْهُمْ إِلَى شَجَرَةٍ أُخْرَى، وَعَلَّقُوا سِلَاحَهُمْ، وَاضْطَجَعُوا، فَبَيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ إِذْ نَادَى مُنَادٍ مِنْ أَسْفَلِ الْوَادِي: يَا آلَ الْمُهَاجِرِينَ، قُتِلَ ابْنُ زُنَيْمٍ، فَاخْتَرَطْتُ سَيْفِي، فَشَدَدْتُ عَلَى الْأَرْبَعَةِ، فَأَخَذْتُ سِلَاحَهُمْ، فَجَعَلْتُهُ ضِغْثًا، ثُمَّ قُلْتُ: وَالَّذِي أَكْرَمَ مُحَمَّدًا، لَا يَرْفَعُ رَجُلٌ مِنْكُمْ رَأْسَهُ إِلَّا ضَرَبْتُ الَّذِي يَعْنِي فِيهِ عَيْنَاهُ فَجِئْتُ أَسُوقُهُمْ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَجَاءَ عَمِّي عَامِرٌ بِابْنِ مِكْرَزٍ يَقُودُ بِهِ فَرَسَهُ يَقُودُ سَبْعِينَ، حَتَّى وَقَفْنَاهُمْ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ:" دَعُوهُمْ، يَكُونُ لَهُمْ بُدُوُّ الْفُجُورِ" وَعَفَا عَنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأُنْزِلَتْ: وَهُوَ الَّذِي كَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ عَنْهُمْ سورة الفتح آية 24 ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، يُقَالُ لَهُ: لَحْيُ جَمَلٍ، فَاسْتَغْفَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِمَنْ رَقِيَ الْجَبَلَ فِي تِلْكَ اللَّيْلَةِ، كَأنهَ طَلِيعَةُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابِهِ، فَرَقِيتُ تِلْكَ اللَّيْلَةِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، ثُمَّ قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ، وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِظَهْرِهِ مَعَ غُلَامِهِ رَبَاحٍ وَأَنَا مَعَهُ، وَخَرَجْتُ بِفَرَسِ طَلْحَةَ أُنَدِّيهِ عَلَى ظَهْرِهِ، فَلَمَّا أَصْبَحْنَا إِذَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُيَيْنَةَ الْفَزَارِيُّ قَدْ أَغَارَ عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَانتسَْفَهُ أَجْمَعَ، وَقَتَلَ رَاعِيَهُ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ کے ساتھ حدیبیہ کے مقام پر آئے اور ہم چودہ سو کی تعداد میں تھے اور ہمارے پاس پچاس بکریاں تھیں وہ سیراب نہیں ہو رہی تھیں راوی کہتے ہیں کہ رسول اللہ کنوئیں کے کنارے بیٹھ گئے اور بیٹھ کر یا تو آپ نے دعا فرمائی اور یا اس میں آپ نے اپنا لعاب دہن ڈالا۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر اس کنوئیں میں جوش آگیا۔ پھر ہم نے اپنے جانوروں کو بھی سیراب کیا اور خود ہم بھی سیراب ہو گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں درخت کی جڑ میں بیٹھ کر بیعت کے لئے بلایا۔ راوی کہتے ہیں کہ لوگوں میں سے سب سے پہلے میں نے بیعت کی پھر اور لوگوں نے بیعت کی یہاں تک کہ جب آدھے لوگوں نے بیعت کر لی تو آپ نے فرمایا: سلمہ بیعت کر و۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تو سب سے پہلے بیعت کر چکا ہوں آپ نے فرمایا: پھر دوبارہ کر لو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا کہ میرے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے ایک ڈھال عطا فرمائی (اس کے بعد) پھر بیعت کا سلسلہ شروع ہو گیا جب سب لوگوں نے بیعت کر لی تو آپ نے فرمایا: اے سلمہ! کیا تو نے بیعت نہیں کی؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! لوگوں میں سب سے پہلے تو میں نے بیعت کی اور لوگوں کے درمیان میں بھی میں نے بیعت کی۔ آپ نے فرمایا: پھر کر لو۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے تیسری مرتبہ بیعت کی پھر آپ نے مجھے فرمایا: اے سلمہ! وہ ڈھال کہاں ہے جو میں نے تجھے دی تھی؟ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میرے چچا عامر کے پاس کوئی اسلحہ وغیرہ نہیں تھا وہ ڈھال میں نے ان کو دے دی۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا پڑے اور فرمایا کہ تو بھی اس آدمی کی طرح ہے کہ جس نے سب سے پہلے دعا کی تھی، اے اللہ! مجھے وہ دوست عطا فرما جو مجھے میری جان سے زیادہ پیارا ہو پھر مشرکوں نے ہمیں صلح کا پیغام بھیجا یہاں تک کہ ہر ایک جانب کا آدمی دوسری جانب جانے لگا اور ہم نے صلح کر لی۔ سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں سیدنا طلحہ بن عبیداللہ کی خدمت میں تھا اور میں ان کے گھوڑے کو پانی پلاتا تھا اور اسے چرایا کرتا اور ان کی خدمت کرتا اور کھانا بھی ان کے ساتھ ہی کھاتا کیونکہ میں اپنے گھروالوں اور اپنے مال و اسباب کو چھوڑ کر اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہجرت کر آیا تھا۔ پھر جب ہماری اور مکہ والوں کی صلح ہو گئی اور ایک دوسرے سے میل جول ہو نے لگا تو میں ایک درخت کے پاس آیا اور اس کے نیچے سے کانٹے وغیرہ صاف کر کے اس کی جڑ میں لیٹ گیا اسی دوران مکہ کے مشرکوں میں سے چار آدمی آئے اور رسول اللہ کو برا بھلا کہنے لگا۔ مجھے ان مشرکوں پر بڑا غصہ آیا پھر میں دوسرے درخت کی طرف آگیا اور انہوں نے اپنا اسلحہ لٹکایا اور لیٹ گئے، وہ لوگ اس حال میں تھے کہ اسی دوران وادی کے نشیب میں سے ایک پکارنے والے نے پکارا اے مہاجرین! ابن زنیم شہید کر دئیے گئے، میں نے یہ سنتے ہی اپنی تلوار سیدھی کی اور پھر میں نے ان چاروں پر اس حال میں حملہ کیا کہ وہ سو رہے تھے اور ان کا اسلحہ میں نے پکڑ لیا اور ان کا ایک گٹھا بنا کر اپنے ہاتھ میں رکھا پھر میں نے کہا قسم ہے اس ذات کی کہ جس نے سیدنا محمد کے چہرہ اقدس کو عزت عطا فرمائی تم میں سے کوئی اپنا سر نہ اٹھائے ورنہ میں تمہارے اس حصہ میں ماروں گا کہ جس میں دونوں آنکھیں ہیں۔ راوی کہتے ہیں کہ پھر میں ان کو کھینچتا ہوا رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرے چچا سیدنا عامر بھی ابن مکر ز کے ساتھ مشرکوں کے ستر آدمیوں کو گھسیٹ کر رسول اللہ کی خدمت میں لائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا: ان کو چھوڑ دو کیونکہ جھگڑے کی ابتداء بھی انہی کی طرف سے ہوئی اور تکرار بھی انہی کی طرف سے، الغرض رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو معاف فرما دیا اور اللہ تعالیٰ نے یہ (آیت مبارکہ) نازل فرمائی اور وہ اللہ کہ جس نے ان کے ہاتھوں کو تم سے روکا اور تمہارے ہاتھوں کو ان سے روکا مکہ کی وادی میں اس کے بعد تم کو ان پر فتح اور کامیابی دے دی تھی، پھر ہم مدینہ منورہ کی طرف نکلے، راستہ میں ہم ایک جگہ اترے جس جگہ ہمارے اور بنی لحیان کے مشرکوں کے درمیان ایک پہاڑ حائل تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے لئے مغفرت کی دعا فرمائی جو آدمی اس پہاڑ پر چڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کے لئے پہرہ دے، سیدنا سلمہ فرماتے ہیں کہ میں اس پہاڑ پر دو یا تین مرتبہ چڑھا پھر ہم مدینہ منورہ پہنچ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ رباح کے ساتھ بھیج دیئے جو کہ رسول اللہ کا غلام تھا، میں بھی ان اونٹوں کے ساتھ سیدنا ابوطلحہ کے گھوڑے پر سوار ہو کر نکلا، جب صبح ہوئی تو عبدالرحمن فزاری نے رسول
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن يزيد ، قال: حدثنا عكرمة بن عمار ، قال: حدثنا إياس بن سلمة بن الاكوع ، عن ابيه ، قال:" نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم منزلا، فجاء عين المشركين، ورسول الله صلى الله عليه وسلم واصحابه يتصبحون، فدعوه إلى طعامهم، فلما فرغ الرجل ركب على راحلته ذهب مسرعا لينذر اصحابه، قال سلمة: فادركته، فانخت راحلته، وضربت عنقه، فغنمني رسول الله صلى الله عليه وسلم سلبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْزِلًا، فَجَاءَ عَيْنُ الْمُشْرِكِينَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ يَتَصَبَّحُونَ، فَدَعَوْهُ إِلَى طَعَامِهِمْ، فَلَمَّا فَرَغَ الرَّجُلُ رَكِبَ عَلَى رَاحِلَتِهِ َذَهَبَ مُسْرِعًا لِيُنْذِرَ أَصْحَابَهُ، قَالَ سَلَمَةُ: فَأَدْرَكْتُهُ، فَأَنَخْتُ رَاحِلَتَهُ، وَضَرَبْتُ عُنُقَهُ، فَغَنَّمَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَلَبَهُ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مقام پر پڑاؤ کیا، مشرکین کا ایک جاسوس خبر لینے کے لئے آیا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے، انہوں نے اسے بھی (مہمان ظاہر کر کے) کھانے کی دعوت دے دی، جب وہ آدمی کھانے سے فارغ ہوا تو اپنی سواری پر سوار ہو کر واپس روانہ ہو تاکہ اپنے ساتھیوں کو خبردار کر سکے، میں نے اس کا پیچھا کر کے اس کی سواری کو بٹھایا اور اس کی گردن اڑادی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا سازوسامان مجھے بطور انعام کے دے دیا۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کہ بعض اوقات میں شکار میں مشغول ہوتا ہوں، کیا میں اپنی قمیص میں ہی نماز پڑھ سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے بٹن لگالیا کر و اگرچہ کانٹا ہی ملے۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب نماز عشاء اور رات کا کھانا جمع ہو جائیں تو پہلے کھانا کھالیا کر و۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أيوب بن عتبة
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: کہ بعض اوقات میں شکار میں مشغول ہوتا ہوں، کیا میں اپنی قمیص میں ہی نماز پڑھ سکتا ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے بٹن لگالیا کر و، اگرچہ کانٹا ہی ملے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هاشم بن القاسم ، قال: حدثنا عكرمة ، قال: حدثني إياس بن سلمة بن الاكوع ، قال: حدثني ابي ، قال: غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم هوازن، قال: فبينما نحن نتضحى، وعامتنا مشاة فينا ضعفة، إذ جاء رجل على جمل احمر، فانتزع طلقا من حقبه، فقيد به جمله رجل شاب، ثم جاء يتغدى مع القوم، فلما راى ضعفهم، ورقة ظهرهم، خرج إلى جمله، فاطلقه، ثم اناخه، فقعد عليه، فخرج يركض، واتبعه رجل من اسلم من صحابة النبي صلى الله عليه وسلم على ناقة ورقاء هي امثل ظهر القوم، فاتبعه، قال: وخرجت اعدو، فادركته وراس الناقة عند ورك الجمل، وكنت عند ورك الناقة، ثم تقدمت حتى كنت عند ورك الجمل، ثم تقدمت حتى اخذت بخطام الجمل، فانخته، فلما وضع ركبته إلى الارض اخترطت سيفي، فاضرب به راسه، فندر، فجئت براحلته وما عليها اقوده، فاستقبلني رسول الله صلى الله عليه وسلم مقبلا، قال:" من قتل الرجل؟"، قالوا: ابن الاكوع، قال:" له سلبه اجمع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَوَازِنَ، قَالَ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَتَضَحَّى، وَعَامَّتُنَا مُشَاةٌ فِينَا ضَعْفَةٌ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ، فَانْتَزَعَ طَلَقًا مَنْ حَقَبِهِ، فَقَيَّدَ بِهِ جَمَلَهُ رَجُلٌ شَابٌّ، ثُمَّ جَاءَ يَتَغَدَّى مَعَ الْقَوْمِ، فَلَمَّا رَأَى ضَعْفَهُمْ، وَرِقَّةَ ظَهْرِهِمْ، خَرَجَ إِلَى جَمَلِهِ، فَأَطْلَقَهُ، ثُمَّ أَنَاخَهُ، فَقَعَدَ عَلَيْهِ، فَخَرَجَ يَرْكُضُ، وَاتَبِعَهُ رَجُلٌ مِنْ أَسْلَمَ مِنْ صَحَابَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى نَاقَةٍ وَرْقَاءَ هِيَ أَمْثَلُ ظَهْرِ الْقَوْمِ، فَأَتْبَعَهُ، قَالَ: وَخَرَجْتُ أَعْدُو، فَأَدْرَكْتُهُ وَرَأْسُ النَّاقَةِ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ، وَكُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ النَّاقَةِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ، فَأَنَخْتُهُ، فَلَمَّا وَضَعَ رُكْبَتَهُ إِلَى الْأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَيْفِي، فَأَضْرِبُ بِهِ رَأْسَهُ، فَنَدَرَ، فَجِئْتُ بِرَاحِلَتِهِ وَمَا عَلَيْهَا أَقُودُهُ، فَاسْتَقْبَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُقْبِلًا، قَالَ:" مَنْ قَتَلَ الرَّجُلَ؟"، قَالُوا: ابْنُ الْأَكْوَعِ، قَالَ:" لَهُ سَلَبُهُ أَجْمَعُ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں ہوازن کے خلاف جہاد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مقام پر پڑاؤ کیا، مشرکین کا ایک جاسوس خبر لینے کے لئے آیا، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ صبح کا ناشتہ کر رہے تھے، انہوں نے اسے بھی مہمان ظاہر کر کے کھانے کی دعوت دے دی، جب وہ آدمی کھانے سے فارغ ہوا تو اپنی سواری پر سوار ہو کر واپس روانہ ہوا تاکہ اپنے ساتھیوں کو خبردار کر سکے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے قبیلہ اسلم کا ایک آدمی بہترین قسم کی خاکستیری اونٹنی پر سوار ہو کر اس کے پیچھے لگ گیا، میں بھی دوڑتا ہوا نکلا اور اسے پکڑ لیا، اونٹنی کا سر اونٹ کے سرین کے پاس تھا اور میں اونٹنی کے سرین کے پاس، میں تھوڑا سا آگے بڑھ کر اونٹ کے سرین کے قریب ہو گیا، پھر تھوڑا سا قریب ہو کر اس کے اونٹ کی لگام پکڑ لی، میں نے اس کی سواری کو بٹھایا اور جب وہ بیٹھ گئی تو میں نے اس کی گردن اڑادی، میں اس کی سواری اور اس کے سازوسامان کو لے کر ہانکتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف روانہ ہوا راستہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آمنا سامنا ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو کس نے قتل کیا؟ لوگوں نے کہا ابن اکوع نے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا سازوسامان بھی اسی کا ہو گیا۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹی بات کی نسبت کرتا ہے، اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لینا چاہیے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن يزيد بن ابي عبيد ، قال: حدثنا سلمة بن الاكوع ، قال: خرجنا إلى النبي صلى الله عليه وسلم إلى خيبر، فقال رجل من القوم: اي عامر، لو اسمعتنا من هنياتك، قال: فنزل يحدو بهم، ويذكر: تالله لولا الله ما اهتدينا وذكر شعرا غير هذا، ولكن لم احفظ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من هذا السائق؟" قالوا: عامر بن الاكوع، فقال:" يرحمه الله"، فقال رجل من القوم: يا نبي الله، لولا متعتنا به، فلما اصاف القوم، قاتلوهم، فاصيب عامر بن الاكوع بقائم سيف نفسه، فمات، فلما امسوا اوقدوا نارا كثيرة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما هذه النار، على اي شيء توقد؟"، قالوا: على حمر إنسية، قال:" اهريقوا ما فيها وكسروها"، فقال رجل: الا نهريق ما فيها ونغسلها؟، قال:" او ذاك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: خَرَجْنَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى خَيْبَرَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَيْ عَامِرُ، لَوْ أَسْمَعْتَنَا مِنْ هُنَيَّاتِكَ، قَالَ: فَنَزَلَ يَحْدُو بِهِمْ، وَيَذْكُرُ: تَالَلَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَذَكَرَ شِعْرًا غَيْرَ هَذَا، وَلَكِنْ لَمْ أَحْفَظْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ هَذَا السَّائِقُ؟" قَالُوا: عَامِرُ بْنُ الْأَكْوَعِ، فَقَالَ:" يَرْحَمُهُ اللَّهُ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، لَوْلَا مَتَّعْتَنَا بِهِ، فَلَمَّا اصَّافَّ الْقَوْمُ، قَاتَلُوهُمْ، فَأُصِيبَ عَامِرُ بْنُ الْأَكْوَعِ بِقَائِمِ سَيْفِ نَفْسِهِ، فَمَاتَ، فَلَمَّا أَمْسَوْا أَوْقَدُوا نَارًا كَثِيرَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا هَذِهِ النَّارُ، عَلَى أَيِّ شَيْءٍ تُوقَدُ؟"، قَالُوا: عَلَى حُمُرٍ إِنْسِيَّةٍ، قَالَ:" اَهْرِيقُوا مَا فِيهَا وَكَسِّرُوهَا"، فَقَالَ رَجُلٌ: أَلَا نُهَرِيقُ مَا فِيهَا وَنَغْسِلُهَا؟، قَالَ:" أَوْ ذَاكَ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ خیبر کی طرف روانہ ہوئے، لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا اے عامر! ہمیں حدی کے اشعار تو سناؤ، وہ اتر کر اشعار پڑھنے لگے اور یہ شعر پڑھا واللہ اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے، اس کے علاوہ بھی انہوں نے اشعار پڑھے جو مجھے یاد نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حدی خوان کون ہے؟ لوگوں نے بتایا عامر بن اکوع، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس پر رحم کر ے، تو ایک آدمی نے کہا اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ہمیں اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا؟ بہرحال! جب لوگوں نے لڑائی کے لئے صف بندی کی تو دوران جنگ عامر کو اپنی ہی تلوار کی دھار لگ گئی اور وہ اس سے جاں بحق ہو گئے، جب رات ہوئی تو لوگوں نے بہت زیادہ آگ جلائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کیسی آگ ہے اور کس چیز پر جلائی گئی ہے؟ لوگوں نے بتایا پالتو گدھوں پر؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں جو کچھ ہے سب بہادو اور ہنڈیاں توڑ دو، ایک آدمی نے پوچھا کہ برتن میں جو کچھ ہے، اسے بہا کر برتن دوھ نہ لیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اور کیا؟