(حديث مرفوع) حدثنا حماد بن مسعدة ، عن يزيد يعني ابن ابي عبيد ، عن سلمة بن الاكوع ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" امر رجلا من اسلم ان يؤذن في الناس يوم عاشوراء من كان صائما، فليتم صومه، ومن كان اكل، فلا ياكل شيئا، وليتم صومه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَ رَجُلًا مِنْ أَسْلَمَ أَنْ يُؤَذِّنَ فِي النَّاسِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ مَنْ كَانَ صَائِمًا، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، وَمَنْ كَانَ أَكَلَ، فَلَا يَأْكُلْ شَيْئًا، وَلِيُتِمَّ صَوْمَهُ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن قبیلہ اسلم کے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کر دے کہ جس شخص نے آچ کا روزہ رکھا ہوا ہو، اسے اپنا روزہ پورا کرنا چاہئے اور جس نے کچھ کھاپی لیا ہو، وہ اب کچھ نہ کھائے اور روزے کا وقت ختم ہو نے تک اسی طرح مکمل کر ے۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگل میں رہنے کی اجازت مانگی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا حماد بن مسعدة ، عن يزيد بن ابي عبيد ، عن سلمة بن الاكوع ، قال: بايعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، مع الناس في الحديبية، ثم قعدت متنحيا، فلما تفرق الناس عن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" يا ابن الاكوع، الا تبايع؟"، قال: قلت: قد بايعت يا رسول الله، قال:" ايضا"، قلت: علام بايعتم؟، قال:" على الموت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مَعَ النَّاسِ فِي الْحُدَيْبِيَةِ، ثُمَّ قَعَدْتُ مُتَنَحِّيًا، فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ، أَلَا تُبَايِعُ؟"، قَالَ: قُلْتُ: قَدْ بَايَعْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" أَيْضًا"، قُلْتُ: عَلَامَ بَايَعْتُمْ؟، قَالَ:" عَلَى الْمَوْتِ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حدیبیہ کے موقع پر دوسرے لوگوں کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست حق پرست پر بیعت کی اور ایک طرف کو ہو کر بیٹھ گیا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے لوگ چھٹ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابن اکوع! تم کیوں نہیں بیعت کر رہے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! میں بیعت کر چکا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دوبارہ سہی، راوی نے پوچھا کہ اس دن آپ نے کس چیز پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی تھی؟ انہوں نے فرمایا: موت پر۔
(حديث مرفوع) حدثنا حماد بن مسعدة ، عن يزيد يعني ابن ابي عبيد ، عن سلمة ، قال: كنت جالسا مع النبي صلى الله عليه وسلم، فاتي بجنازة، فقال:" هل ترك من دين؟"، قالوا: لا، قال:" هل ترك من شيء؟"، قالوا: لا، قال: فصلى عليه، ثم اتي باخرى، فقال:" هل ترك من دين؟"، قالوا: لا، قال:" هل ترك من شيء؟"، قالوا: نعم، ثلاثة دنانير، قال: فقال باصابعه: ثلاث كيات، قال: ثم اتي بالثالثة، فقال:" هل ترك من دين؟"، قالوا: نعم، قال:" هل ترك من شيء؟"، قالوا: لا، قال:" صلوا على صاحبكم"، فقال رجل من الانصار: علي دينه يا رسول الله، قال: فصلى عليه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ مَسْعَدَةَ ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأُتِيَ بِجِنَازَةٍ، فَقَالَ:" هَلْ تَرَكَ مِنْ دَيْنٍ؟"، قَالُوا: لَا، قَالَ:" هَلْ تَرَكَ مِنْ شَيْءٍ؟"، قَالُوا: لَا، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِأُخْرَى، فَقَالَ:" هَلْ تَرَكَ مِنْ دَيْنٍ؟"، قَالُوا: لَا، قَالَ:" هَلْ تَرَكَ مِنْ شَيْءٍ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، ثَلَاثَة دَنَانِيرَ، قَالَ: فَقَالَ بأصابعه: ثَلَاثَ كَيَّاتٍ، قَالَ: ثُمَّ أُتِيَ بِالثَّالِثَةِ، فَقَالَ:" هَلْ تَرَكَ مِنْ دَيْنٍ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" هَلْ تَرَكَ مِنْ شَيْءٍ؟"، قَالُوا: لَا، قَالَ:" صَلُّوا عَلَى صَاحِبِكُمْ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: عَلَيَّ دَيْنُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَصَلَّى عَلَيْهِ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ایک جنازہ لایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اس نے اپنے پیچھے کوئی قرض چھوڑا ہے؟ لوگوں نے بتایا نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اس نے کوئی ترکہ چھوڑا ہے؟ لوگوں نے بتایا نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی، پھر دوسرا جنازہ آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق بھی یہی پوچھا کہ اس نے کوئی قرض چھوڑا ہے؟ لوگوں نے بتایا نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا اس نے ترکہ میں کچھ چھوڑا ہے؟ لوگوں نے بتایا جی ہاں! تین دینار، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا: جہنم کے تین داغ ہیں، پھر تیسرا جنازہ لایا گیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسب سابق پوچھا کہ اس نے کوئی قرض چھوڑا ہے؟ لوگوں نے بتایا جی ہاں! پھر پوچھا کہ ترکہ میں کچھ چھوڑا ہے؟ لوگوں نے بتایا جی ہاں! پھر پوچھا کہ ترکہ میں کچھ چھوڑا ہے؟ لوگوں نے بتایا نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو پھر اپنے ساتھی کی نماز جنازہ خود ہی پڑھ لو، اس پر ایک انصاری نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کا قرض میرے ذمے ہے، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی بھی نماز جنازہ پڑھا دی۔
(حديث مرفوع) حدثنا حماد ، عن يزيد ، عن سلمة ، قال: كان عامر رجلا شاعرا، فنزل يحدو، قال: ويقول: اللهم لولا انت ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا فاغفر فدى لك ما اتينا وثبت الاقدام إن لاقينا والقين سكينة علينا إنا إذا صيح بنا اتينا وبالصياح عولوا علينا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من هذا الحادي؟"، قالوا: ابن الاكوع، قال:" يرحمه الله"، قال: فقال رجل: وجبت يا رسول الله، لولا امتعتنا به، قال: فاصيب ذهب يضرب رجلا يهوديا من إل، فاصاب ذباب السيف عين ركبته، فقال الناس: حبط عمله قتل نفسه، قال: فجئت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ان قدم المدينة وهو في المسجد، فقلت: يا رسول الله، يزعمون ان عامرا حبط عمله، قال:" ومن يقوله؟"، قال: قلت: رجال من الانصار منهم فلان وفلان، قال:" كذب من قاله، إن له لاجرين بإصبعيه وإنه لجاهد مجاهد، وقل عربي مشى بها يريدك عليه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ يَزِيدَ ، عَنْ سَلَمَةَ ، قَالَ: كَانَ عَامِرٌ رَجُلًا شَاعِرًا، فَنَزَلَ يَحْدُو، قَالَ: وَيَقُولُ: اللَّهُمَّ لَوْلَا أَنْتَ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا فَاغْفِرْ فِدًى لَكَ مَا أَتَيْنَا وَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَأَلْقِيَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا إِنَّا إِذَا صِيحَ بِنَا أَتَيْنَا وَبِالصِّيَاحِ عَوَّلُوا عَلَيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ هَذَا الْحَادِي؟"، قَالُوا: ابْنُ الْأَكْوَعِ، قَالَ:" يَرْحَمُهُ اللَّهُ"، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ: وَجَبَتْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَوْلَا أَمْتَعْتَنَا بِهِ، قَالَ: فَأُصِيبَ ذَهَبَ يَضْرِبُ رَجُلًا يَهُودِيًّا من إل، فَأَصَابَ ذُبَابُ السَّيْفِ عَيْنَ رُكْبَتِهِ، فَقَالَ النَّاسُ: حَبِطَ عَمَلُهُ قَتَلَ نَفْسَهُ، قَالَ: فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ أَنْ قَدِمَ الْمَدِينَةَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَزْعُمُونَ أَنَّ عَامِرًا حَبِطَ عَمَلُهُ، قَالَ:" وَمَنْ يَقُولُهُ؟"، قَالَ: قُلْتُ: رِجَالٌ مِنَ الْأَنْصَارِ مِنْهُمْ فُلَانٌ وَفُلَانٌ، قَالَ:" كَذَبَ مَنْ قَالَهُ، إِنَّ لَهُ لَأَجْرَيْنِ بِإِصْبَعَيْهِ وَإِنَّهُ لَجَاهِدٌ مُجَاهِدٌ، وَقَلَّ عَرَبِيٌّ مَشَى بِهَا يُرِيدُكَ عَلَيْهِ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ (میرا بھائی) عامر ایک شاعر آدمی تھا، وہ ایک مقام پر پڑاؤ کر کے حدی کے یہ اشعار پڑھنے لگے اے اللہ! اگر تو نہ ہوتا تو ہم ہدایت یافتہ نہ ہوتے، ہم صدقہ و خیرات کرتے اور نہ ہی نماز پڑھتے، ہم تیرے لئے قربان ہوں جب ہم آ گئے ہیں تو ہماری مغفرت فرما اور دشمن سے آمنا سامنا ہو نے پر ہمیں ثابت قدمی عطاء فرما اور ہم پر سکینہ نازل فرما، جب ہمیں آواز دے کر بلایا جاتا ہے تو ہم آجاتے ہیں اور لوگ صرف آواز دے کر ہم پر اعتماد اور بھروسہ کر لیتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ حدی خان کون ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ ابن اکوع ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ اس پر رحم کر ے، یہ سن کر ایک آدمی نے کہا واجب ہو گئی، یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ہمیں اس سے فائدہ کیوں نہ اٹھانے دیا؟ راوی کہتے ہیں کہ اسی غزوے میں عامر شہید ہو گئے، وہ ایک یہو دی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے تھے کہ ان کی تلوار کی دھار اچٹ کر انہیں کے گھٹنے پر آلگی اور وہ شہید ہو گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا صفوان بن عيسى ، قال: اخبرنا يزيد يعني ابن ابي عبيد ، عن سلمة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم" امر مناديه يوم عاشوراء ان من كان اصطبح فليمسك، ومن لم يكن يصطبح فليتم صومه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَزِيدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَمَرَ مُنَادِيَهُ يَوْمَ عَاشُورَاءَ أَنَّ مَنْ كَانَ اصْطَبَحَ فَلْيُمْسِكْ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ يصْطَبَحُ فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دن قبیلہ اسلم کے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں میں منادی کر دے کہ جس شخص نے آج کا روزہ رکھا ہوا ہو، اسے اپنا روزہ پورا کرنا چاہیے اور جس نے کچھ کھا پی لیا ہو، وہ اب کچھ نہ کھائے اور روزے کا وقت ختم ہو نے تک اسی طرح مکمل کر ے۔
(حديث مرفوع) حدثنا صفوان ، عن يزيد بن ابي عبيد ، عن سلمة ، قال: لما قدمنا خيبر، راى رسول الله صلى الله عليه وسلم نيرانا توقد، فقال:" علام توقد هذه النيران؟"، قالوا: على لحوم الحمر الاهلية، قال:" كسروا القدور، واهريقوا ما فيها"، قال: فقام رجل من القوم، فقال: يا رسول الله، انهريق ما فيها، ونغسلها؟، قال:" اوذاك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا صَفْوَانُ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ ، قَالَ: لَمَّا قَدِمْنَا خَيْبَرَ، رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نِيرَانًا تُوقَدُ، فَقَالَ:" عَلَامَ تُوقَدُ هَذِهِ النِّيرَانُ؟"، قَالُوا: عَلَى لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ، قَالَ:" كَسِّرُوا الْقُدُورَ، وَأَهْرِيقُوا مَا فِيهَا"، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنُهْرِيقُ مَا فِيهَا، وَنَغْسِلُهَا؟، قَالَ:" أَوَذَاكَ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب ہم خیبر سے واپس آرہے تھے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے متفرق مقامات پر کچھ آگ روشن دیکھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ آگ کس مقصد کے لئے جلا رکھی ہے؟ لوگوں نے بتایا پالتو گدھوں کا گوشت پکانے کے لئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہانڈیاں الٹ دو اور جو کچھ اس میں ہے سب بہا دو، لوگوں میں سے ایک آدمی نے پوچھا: یا رسول اللہ!! کیا اس میں جو کچھ ہے، اسے بہا کر برتن کو بھی دھوئیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اور کیا؟
(حديث مرفوع) حدثني مكي بن إبراهيم ، قال: حدثنا يزيد بن ابي عبيد ، عن سلمة بن الاكوع ، انه اخبره، قال: خرجت من المدينة ذاهبا نحو الغابة، حتى إذا كنت بثنية الغابة، لقيني غلام لعبد الرحمن بن عوف، قال: قلت: ويحك، ما لك؟، قال: اخذت لقاح رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلت: من اخذها، قال: غطفان، وفزارة، قال: فصرخت ثلاث صرخات اسمعت من بين لابتيها: يا صباحاه! يا صباحاه! ثم اندفعت حتى القاهم، وقد اخذوها، قال: فجعلت ارميهم، واقول: انا ابن الاكوع واليوم يوم اقرع، قال: فاستنقذتها منهم قبل ان يشربوا، فاقبلت بها اسوقها، فلقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، إن القوم عطاش، وإني اعجلتهم قبل ان يشربوا، فاذهب في اثرهم؟، فقال:" يا ابن الاكوع، ملكت فاسجح، إن القوم يقرون في قومهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنِي مَكِّيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، قَالَ: خَرَجْتُ مِنَ الْمَدِينَةِ ذَاهِبًا نَحْوَ الْغَابَةِ، حَتَّى إِذَا كُنْتُ بِثَنِيَّةِ الْغَابَةِ، لَقِيَنِي غُلَامٌ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، قَالَ: قُلْتُ: وَيْحَكَ، مَا لَكَ؟، قَالَ: أُخِذَتْ لِقَاحُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُ: مَنْ أَخَذَهَا، قَالَ: غَطَفَانُ، وفَزَارَةُ، قَالَ: فَصَرَخْتُ ثَلَاثَ صَرَخَاتٍ أَسْمَعَتُ مَنْ بَيْنَ لَابَتَيْهَا: يَا صَبَاحَاهْ! يَا صَبَاحَاهْ! ثُمَّ انْدَفَعْتُ حَتَّى أَلْقَاهُمْ، وَقَدْ أَخَذُوهَا، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَرْمِيهِمْ، وَأَقُولُ: أَنَا ابْنُ الْأَكْوَعِ وَالْيَوْمُ يَوْمٌ أَقْرَعُ، قَالَ: فَاسْتَنْقَذْتُهَا مِنْهُمْ قَبْلَ أَنْ يَشْرَبُوا، فَأَقْبَلْتُ بِهَا أَسُوقُهَا، فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ الْقَوْمَ عِطَاشٌ، وَإِنِّي أَعْجَلْتُهُمْ قَبْلَ أَنْ يَشْرَبُوا، فَاذْهَبُ فِي أَثَرِهِمْ؟، فَقَالَ:" يَا ابْنَ الْأَكْوَعِ، مَلَكْتَ فَأَسْجِحْ، إِنَّ الْقَوْمَ يَقِرُّونَ فِي قَوْمِهِمْ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں " غابہ " جانے کے لئے مدینہ منورہ سے نکلا، جب میں اس کی چوٹی پر پہنچا تو مجھے سیدنا عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کا ایک غلام ملا، میں نے اس سے پوچھا: ارے کیا بات ہے؟ (کیوں گھبرائے ہوئے ہو؟) اس نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیاں چھین لی گئی ہیں، میں نے پوچھا کہ کس نے چھینی ہیں؟ اس نے بتایا کہ ابوغطفان اور بنو فزارہ نے، اس پر میں نے تین مرتبہ اتنی بلند آواز سے " یا صباحاہ " کا نعرہ لگایا کہ مدینہ منورہ کے دونوں کانوں تک میری آواز پہنچ گئی۔ پھر میں وہاں سے ان کے پیچھے روانہ ہوا یہاں تک کہ انہیں جا لیا، انہوں نے واقعتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹیاں پکڑ لی تھیں، میں ان پر تیروں کی بارش کرنے اور یہ شعر پڑھنے لگا کہ میں ہوں اکوع کا بیٹا، آج کا دشمنوں کو کھٹکھٹانے کا دن ہے، بالآخر میں نے ان سے وہ انٹیاں بازیاب کرا لیں، جبکہ ان لوگوں نے ابھی تک پانی بھی نہیں پیا تھا۔ پھر انہیں ہانکتا ہوا لے کر واپس روانہ ہو گیا، راستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم وہ لوگ ابھی پیاسے ہی تھے کہ میں نے ان کے پانی پینے سے قبل تیزی سے انہیں جالیا، اس لئے آپ ان کے پیچھے روانہ ہو جائیے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن اکوع! تم نے ان پر قابو پالیا (اور اپنی چیز واپس لے لی) اب ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کر و، اب اپنی قوم میں ان لوگوں کی مہمان نوازی ہو رہی ہو گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا مكي ، قال: حدثنا يزيد بن ابي عبيد ، قال: رايت اثر ضربة في ساق سلمة ، فقلت:" يا ابا مسلم، ما هذه الضربة؟، قال: هذه ضربة اصابتها يوم خيبر، قال: يوم اصبتها قال الناس: اصيب سلمة، فاتي بي رسول الله صلى الله عليه وسلم فنفث فيه ثلاث نفثات، فما اشتكيتها حتى الساعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَكِّيٌّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي عُبَيْدٍ ، قَالَ: رَأَيْتُ أَثَرَ ضَرْبَةٍ فِي سَاقِ سَلَمَةَ ، فَقُلْتُ:" يَا أَبَا مُسْلِمٍ، مَا هَذِهِ الضَّرْبَةُ؟، قَالَ: هَذِهِ ضَرْبَةٌ أَصَابَتُهَا يَوْمَ خَيْبَرَ، قَالَ: يَوْمَ أُصِبْتُهَا قَالَ النَّاسُ: أُصِيبَ سَلَمَةُ، فَأُتِيَ بِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَنَفَثَ فِيهِ ثَلَاثَ نَفَثَاتٍ، فَمَا اشْتَكَيْتُهَا حَتَّى السَّاعَةِ".
یزید بن ابوعبید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا سلمہ بن اکوع کی پنڈلی میں ضرب کا ایک نشان دیکھا، میں نے ان سے پوچھا کہ اے ابومسلم! یہ نشان کیسا ہے، انہوں نے بتایا کہ مجھے یہ ضرب غزوہ خیبر کے موقع پر لگی تھی، جب مجھے یہ ضرب لگی تو لوگ کہنے لگے کہ سلمہ تو گئے، لیکن پھر مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر تین مرتبہ پھونک ماری اور اب تک مجھے دوبارہ اس کی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔