سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے بنو ہوازن پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی معیت میں شب خون مارا انہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا۔
سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جس رات ہم نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی معیت میں " جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا " بنو ہوازن پر حملہ کیا، اس میں باہم پہچاننے کے لئے ہماری شناخت کی علامت یہ لفظ تھا امت امت، اس رات میں نے اپنے ہاتھ سے سات گھرانے والوں کو قتل کیا تھا۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، قال: حدثنا عكرمة بن عمار اليمامي ، قال: حدثنا إياس بن سلمة بن الاكوع ، ان اباه حدثه، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول لرجل، يقال له: بسر ابن راعي العير ابصره ياكل بشماله، فقال:" كل بيمينك"، فقال: لا استطيع، فقال:" لا استطعت"، قال: فما وصلت يمينه إلى فمه بعد، وقال ابو النضر في حديثه: ابن راعي العير من اشجع.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ الْيَمَامِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ لِرَجُلٍ، يُقَالُ لَهُ: بُسْرُ ابْنُ رَاعِي الْعِيرِ أَبْصَرَهُ يَأْكُلُ بِشِمَالِهِ، فَقَالَ:" كُلْ بِيَمِينِكَ"، فَقَالَ: لَا أَسْتَطِيعُ، فَقَالَ:" لَا اسْتَطَعْتَ"، قَالَ: فَمَا وَصَلَتْ يَمِينُهُ إِلَى فَمِهِ بَعْدُ، وقَالَ أَبُو النَّضْرِ فِي حَدِيثِهِ: ابْنُ رَاعِي الْعَيْرِ مِنْ أَشْجَعَ.
سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو " جس کا نام بسر بن راعی العیر تھا " بائیں ہاتھ سے کھانا کھاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: دائیں ہاتھ سے کھاؤ، اس نے کہا کہ میں دائیں ہاتھ سے کھانے کی طاقت نہیں رکھتا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تجھے اس کی توفیق نہ ہو، چنانچہ اس کے بعد اس کا داہنا ہاتھ اس کے منہ تک نہیں جاسکا۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، عن عكرمة بن عمار ، قال: حدثنا إياس بن سلمة بن الاكوع ، قال: حدثني ابي ، قال: كنت قاعدا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فعطس رجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يرحمك الله" ثم عطس اخرى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الرجل مزكوم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: كُنْتُ قَاعِدًا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَطَسَ رَجُلٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرْحَمُكَ اللَّهُ" ثُمَّ عَطَسَ أُخْرَى، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الرَّجُلُ مَزْكُومٌ".
سیدنا سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک مرتبہ میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی کو چھینک آئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یرحمک اللہ کہہ کر اسے جواب دیا، اس نے دوبارہ چھینک ماری تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس شخص کو زکام ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثنا إياس بن سلمة ، قال: حدثني ابي ، قال: خرجنا مع ابي بكر بن ابي قحافة، امره رسول الله صلى الله عليه وسلم علينا، قال: غزونا فزارة، فلما دنونا من الماء امرنا ابو بكر فعرسنا، قال: فلما صلينا الصبح، امرنا ابو بكر فشننا الغارة، فقتلنا على الماء من قتلنا، قال سلمة: ثم نظرت إلى عنق من الناس فيه الذرية والنساء نحو الجبل، وانا اعدو في آثارهم، فخشيت ان يسبقوني إلى الجبل، فرميت بسهم، فوقع بينهم وبين الجبل، قال: فجئت بهم اسوقهم إلى ابي بكر رضي الله عنه حتى اتيته على الماء، وفيهم امراة من فزارة عليها قشع من ادم، ومعها ابنة لها من احسن العرب، قال: فنفلني ابو بكر ابنتها، قال: فما كشفت لها ثوبا حتى قدمت المدينة، ثم بت فلم اكشف لها ثوبا، قال: فلقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم في السوق، فقال لي:" يا سلمة، هب لي المراة"، قال: فقلت: يا رسول الله، والله لقد اعجبتني، وما كشفت لها ثوبا، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم وتركني، حتى إذا كان من الغد لقيني رسول الله صلى الله عليه وسلم في السوق، فقال:" يا سلمة، هب لي المراة لله ابوك"، قال: قلت: يا رسول الله، والله اعجبتني، ما كشفت لها ثوبا، وهي لك يا رسول الله، قال: فبعث بها رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى اهل مكة، وفي ايديهم اسارى من المسلمين، ففداهم رسول الله صلى الله عليه وسلم بتلك المراة.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي قُحَافَةَ، َأَمَّرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيْنَا، قَالَ: غَزَوْنَا فَزَارَةَ، فَلَمَّا دَنَوْنَا مِنَ الْمَاءِ أَمَرَنَا أَبُو بَكْرٍ فَعَرَّسْنَا، قَالَ: فَلَمَّا صَلَّيْنَا الصُّبْحَ، أَمَرَنَا أَبُو بَكْرٍ فَشَنَنَّا الْغَارَةَ، فَقَتَلْنَا عَلَى الْمَاءِ مَنْ قَتَلْنَا، قَالَ سَلَمَةُ: ثُمَّ نَظَرْتُ إِلَى عُنُقٍ مِنَ النَّاسِ فِيهِ الذُّرِّيَّةُ وَالنِّسَاءُ نَحْوَ الْجَبَلِ، وَأَنَا أَعْدُو فِي آثَارِهِمْ، فَخَشِيتُ أَنْ يَسْبِقُونِي إِلَى الْجَبَلِ، فَرَمَيْتُ بِسَهْمٍ، فَوَقَعَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْجَبَلِ، قَالَ: فَجِئْتُ بِهِمْ أَسُوقُهُمْ إِلَى أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ حَتَّى أَتَيْتُهُ عَلَى الْمَاءِ، وَفِيهِمْ امْرَأَةٌ مِنْ فَزَارَةَ عَلَيْهَا قَشْعٌ مِنْ أَدَمٍ، وَمَعَهَا ابْنَةٌ لَهَا مِنْ أَحْسَنِ الْعَرَبِ، قَالَ: فَنَفَّلَنِي أَبُو بَكْرٍ ابْنَتَهَا، قَالَ: فَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا حَتَّى قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ، ثُمَّ بِتُّ فَلَمْ أَكْشِفْ لَهَا ثَوْبًا، قَالَ: فَلَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ لِي:" يَا سَلَمَةُ، هَبْ لِي الْمَرْأَةَ"، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ أَعْجَبَتْنِي، وَمَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرَكَنِي، حَتَّى إِذَا كَانَ مِنَ الْغَدِ لَقِيَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السُّوقِ، فَقَالَ:" يَا سَلَمَةُ، هَبْ لِي الْمَرْأَةَ لِلَّهِ أَبُوكَ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ أَعْجَبَتْنِي، مَا كَشَفْتُ لَهَا ثَوْبًا، وَهِيَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَبَعَثَ بِهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ، وَفِي أَيْدِيهِمْ أُسَارَى مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَفَدَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتِلْكَ الْمَرْأَةِ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلے جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امیر مقرر کیا تھا، ہم بنو فزارہ سے جہاد کے لئے جا رہے تھے، جب ہم ایسی جگہ پر پہنچے جو پانی کے قریب تھی تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ہمیں حکم دیا اور ہم نے پڑاؤ ڈال دیا، فجر کی نماز پڑھ کر انہوں نے ہمیں دشمن پر حملہ کا حکم دیا اور ہم ان پر ٹوٹ پڑے اور اس ندی کے قریب بیشمار لوگوں کو قتل کر دیا، اچانک میری نظر ایک تیز رفتار گروہ پر پڑی جو پہاڑ کی طرف چلا جا رہا تھا، اس میں عورتیں اور بچے تھے، میں ان کے پیچھے روانہ ہو گیا، لیکن پھر خطرہ ہوا کہ کہیں وہ مجھے سے پہلے ہی پہاڑ تک نہ پہنچ جائیں اس لئے میں نے ان کی طرف ایک تیر پھینکا جو ان کے اوپر پہاڑ کے درمیان جاگرا۔ پھر میں انہیں ہانکتا ہوا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس لے آیا اور اسی ندی کے پاس پہنچ گیا، ان میں بنو فزارہ کی ایک عورت بھی تھی جس نے چمڑے کی پوستین پہن رکھی تھی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی جو عرب کی انتہائی حسین و جمیل لڑکی تھی، اس کی وہ بیٹی سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے مجھے انعام کے طور پر بخش دی، میں نے مدینہ منورہ پہنچنے تک اس کا گھونگھٹ بھی کھول کر نہیں دیکھا، پھر رات ہوئی تب بھی میں نے اس کا گھونگھٹ نہیں ہٹایا، اگلے دن سر بازار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میری ملاقات ہو گئی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمانے لگے سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں نے اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور مجھے چھوڑ کر چلے گئے، اگلے دن پھر سر بازار نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات دہرائی اور مجھے میرے باپ کی قسم دی، میں نے قسم کھا کر عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے وہ اچھی لگی ہے اور میں نے اب تک اس کا گھونگھٹ بھی نہیں ہٹایا، لیکن یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! اب میں وہ آپ کو دیتا ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لڑکی اہل مکہ کے پاس بھجوادی جن کے قبضے میں بہت سے مسلمان قیدی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فدیئے میں اس لڑکی کو پیش کر کے ان قیدیوں کو چھڑا لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، قال: اخبرنا ابن جريج ، قال ابن شهاب : اخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك الانصاري ، ان سلمة بن الاكوع ، قال: لما كان يوم خيبر قاتل اخي قتالا شديدا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارتد عليه سيفه فقتله، فقال اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم في ذلك، وشكوا فيه: رجل مات بسلاحه، شكوا في بعض امره، قال سلمة: فقفل رسول الله صلى الله عليه وسلم من خيبر، فقلت: يا رسول الله، اتاذن لي ان ارجز بك، فاذن له رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له عمر: اعلم ما تقول؟، قال: فقلت: والله لولا الله ما اهتدينا ولا تصدقنا ولا صلينا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صدقت" فانزلن سكينة علينا وثبت الاقدام إن لاقينا والمشركون قد بغوا علينا فلما قضيت رجزي، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قال هذا؟"، قلت: اخي قالها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يرحمه الله"، فقلت: يا رسول الله، والله إن ناسا ليهابون ان يصلوا عليه، ويقولون: رجل مات بسلاحه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مات جاهدا مجاهدا"، قال ابن شهاب : ثم سالت ابن سلمة بن الاكوع ، فحدثني عن ابيه مثل الذي حدثني عنه عبد الرحمن، غير ان ابن سلمة، قال: قال مع ذلك رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يهابون الصلاة عليه، كذبوا، مات جاهدا مجاهدا، فله اجره مرتين"، وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم بإصبعيه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ ابنُ شِهَابٍ : أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيُّ ، أَنَّ سَلَمَةَ بْنَ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ خَيْبَرَ قَاتَلَ أَخِي قِتَالًا شَدِيدًا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَارْتَدَّ عَلَيْهِ سَيْفُهُ فَقَتَلَهُ، فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذَلِكَ، وَشَكُّوا فِيهِ: رَجُلٌ مَاتَ بِسِلَاحِهِ، شَكُّوا فِي بَعْضِ أَمْرِهِ، قَالَ سَلَمَةُ: فَقَفَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ خَيْبَرَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَتَأْذَنُ لِي أَنْ أَرْجُزَ بِكَ، فَأَذِنَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: اعْلَمْ مَا تَقُولُ؟، قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَوْلَا اللَّهُ مَا اهْتَدَيْنَا وَلَا تَصَدَّقْنَا وَلَا صَلَّيْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَدَقْتَ" فَأَنْزِلَنْ سَكِينَةً عَلَيْنَا وَثَبِّتْ الْأَقْدَامَ إِنْ لَاقَيْنَا وَالْمُشْرِكُونَ قَدْ بَغَوْا عَلَيْنَا فَلَمَّا قَضَيْتُ رَجَزِي، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَالَ هَذَا؟"، قُلْتُ: أَخِي قَالَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَرْحَمُهُ اللَّهُ"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ إِنَّ نَاسًا لَيَهَابُونَ أَنْ يُصَلُّوا عَلَيْهِ، وَيَقُولُونَ: رَجُلٌ مَاتَ بِسِلَاحِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا"، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ : ثُمَّ سَأَلْتُ ابْنَ سَلَمَةَ بْنِ الْأَكْوَعِ ، فَحَدَّثَنِي عَنْ أَبِيهِ مِثْلَ الَّذِي حَدَّثَنِي عَنْهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ، غَيْرَ أَنَّ ابْنَ سَلَمَةَ، قَالَ: قَالَ مَعَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَهَابُونَ الصَّلَاةَ عَلَيْهِ، كَذَبُوا، مَاتَ جَاهِدًا مُجَاهِدًا، فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ"، وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِإِصْبَعَيْهِ.
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ خیبر کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں میرے بھائی (دوسری روایت کے مطابق چچا) نے سخت جنگ لڑی، لیکن اسی دوران اس کی تلوار اچٹ کر خود اسی پر لگ گئی اور وہ اسی کی دھار سے شہید ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ان کے متعلق شکوک و شبہات کا اظہار کر کے چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ وہ اپنے ہی ہتھیار سے مارا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب واپس ہوئے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کی طرف سے مجھے رجزیہ اشعار پڑھنے کی اجازت ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ سوچ سمجھ کر کہنا۔
میں نے شعر پڑھتے ہوئے کہا کہ بخدا! اگر اللہ نہ ہوتا تو ہم کبھی ہدایت یافتہ نہ ہوتے، صدقہ و خیرات کرتے اور نہ ہی نماز پڑھتے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے سچ کہا، میں نے آگے کہا کہ اے اللہ! ہم پر سکینہ نازل فرما اور دشمنوں سے آمنا سامنا ہو نے پر ہمیں ثابت قدمی عطاء فرما کہ مشرکین نے ہمارے خلاف سرکشی پر کمر باندھ رکھی ہے۔
میں نے جب اپنے رجزیہ اشعار مکمل کئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ یہ اشعار کس نے کہے ہیں؟ میں نے عرض کیا: میرے بھائی نے کہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم ! کچھ لوگ ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے گھبرا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ اپنے ہتھیار سے ہی مرا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ محنت کرتا ہوا مجاہد بن کر شہید ہوا ہے۔ ایک دوسری سند میں یوں بھی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو لوگ ان پر نماز جنازہ پڑھنے سے گھبرا رہے ہیں انہیں غلطی لگی ہے، وہ تو محنت کرتا ہوا مجاہد بن کر شہید ہوا ہے اور اسے دوہرا اجر ملے گا، یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو انگلیوں سے اشاردہ فرمایا:۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ اور سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ کسی جہاد میں شریک تھے، اسی دوران ہمارے پاس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک قاصد آیا اور کہنے لگا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے تم عورتوں سے فائدہ اٹھا سکتے ہو۔
(حديث مرفوع) حدثنا قران بن تمام ، عن عكرمة اليمامي ، عن إياس بن سلمة ، عن ابيه ، قال:" خرجت مع ابي بكر في غزاة هوازن، فنفلني جارية، فاستوهبها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فبعث بها إلى مكة، ففدى بها اناسا من المسلمين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُرَّانُ بْنُ تَمَّامٍ ، عَنْ عِكْرِمَةَ الْيَمَامِيِّ ، عَنْ إِيَاسِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" خَرَجْتُ مَعَ أَبِي بَكْرٍ فِي غَزَاةِ هَوَازِنَ، فَنَفَّلَنِي جَارِيَةً، فَاسْتَوْهَبَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ بِهَا إِلَى مَكَّةَ، فَفَدَى بِهَا أُنَاسًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ".
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بنو ہوازن سے جہاد کے لئے نکلے، سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ایک باندی مجھے انعام کے طور پر بخش دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمانے لگے سلمہ! وہ عورت مجھے ہبہ کر دو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ لڑکی اہل مکہ کے پاس بھجوادی جن کے قبضے میں بہت سے مسلمان قیدی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فدیئے میں اس لڑکی کو پیش کر کے ان قیدیوں کو چھڑا لیا۔
سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹی بات کی نسبت کرتا ہے، اسے جہنم میں اپنا ٹھکانہ بنا لینا چاہئے۔