سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جحفہ میں وضو کرتے ہوئے دیکھا، آپ نے کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، تین مرتبہ چہرہ دھویا، تین مرتبہ داہنا ہاتھ دھویا، پھر سر کا مسح ہاتھوں پر بچے ہوئے پانی کی تری کے علاوہ نئے پانی سے فرمایا: پھر خوب اچھی طرح دونوں پاؤں دھو لئے۔
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز استسقاء کے لئے نکلے، اس موقع پر قبلہ کا رخ کر کے آپ نے اپنی چادر پلٹ لی تھی اور بلند آواز سے قرأت کر کے دو رکعتیں پڑھائی تھیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 236 دون قوله: «بماء غبر من فضل يده» فشاذ، فقد خالف فيه ابن لهيعة رواية عمرو بن الحارث عن حبان
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا وهيب ، حدثنا عمرو بن يحيى ، عن عباد بن تميم ، عن عبد الله بن زيد بن عاصم ، قال: لما افاء الله على رسوله يوم حنين ما افاء، قال: قسم في الناس في المؤلفة قلوبهم، ولم يقسم ولم يعط الانصار شيئا، فكانهم وجدوا إذ لم يصبهم ما اصاب الناس، فخطبهم، فقال:" يا معشر الانصار، الم اجدكم ضلالا، فهداكم الله بي، وكنتم متفرقين، فجمعكم الله بي، وعالة فاغناكم الله بي؟"، قال: كلما قال شيئا، قالوا: الله ورسوله امن، قال:" ما يمنعكم ان تجيبوني؟" قالوا: الله ورسوله امن، قال:" لو شئتم لقلتم جئتنا كذا وكذا، اما ترضون ان يذهب الناس بالشاة والبعير، وتذهبون برسول الله إلى رحالكم، لولا الهجرة، لكنت امرا من الانصار، لو سلك الناس واديا وشعبا، لسلكت وادي الانصار وشعبهم، الانصار شعار والناس دثار، وإنكم ستلقون بعدي اثرة، فاصبروا حتى تلقوني على الحوض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدِ بْنِ عَاصِمٍ ، قَالَ: لَمَّا أَفَاءَ اللَّهُ عَلَى رَسُولِهِ يَوْمَ حُنَيْنٍ مَا أَفَاءَ، قَالَ: قَسَمَ فِي النَّاسِ فِي الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ، وَلَمْ يَقْسِمْ وَلَمْ يُعْطِ الْأَنْصَارَ شَيْئًا، فَكَأَنَّهُمْ وَجَدُوا إِذْ لَمْ يُصِبْهُمْ مَا أَصَابَ النَّاسَ، فَخَطَبَهُمْ، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، أَلَمْ أَجِدْكُمْ ضُلَّالًا، فَهَدَاكُمْ اللَّهُ بِي، وَكُنْتُمْ مُتَفَرِّقِينَ، فَجَمَعَكُمْ اللَّهُ بِي، وَعَالَةً فَأَغْنَاكُمْ اللَّهُ بِي؟"، قَالَ: كُلَّمَا قَالَ شَيْئًا، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ، قَالَ:" مَا يَمْنَعُكُمْ أَنْ تُجِيبُونِي؟" قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَمَنُّ، قَالَ:" لَوْ شِئْتُمْ لَقُلْتُمْ جِئْتَنَا كَذَا وَكَذَا، أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ يَذْهَبَ النَّاسُ بِالشَّاةِ وَالْبَعِيرِ، وَتَذْهَبُونَ بِرَسُولِ اللَّهِ إِلَى رِحَالِكُمْ، لَوْلَا الْهِجْرَةُ، لَكُنْتُ امْرَأً مِنَ الْأَنْصَارِ، لَوْ سَلَكَ النَّاسُ وَادِيًا وَشِعْبًا، لَسَلَكْتُ وَادِيَ الْأَنْصَارِ وَشِعْبَهُمْ، الْأَنْصَارُ شِعَارٌ وَالنَّاسُ دِثَارٌ، وَإِنَّكُمْ سَتَلْقَوْنَ بَعْدِي أَثَرَةً، فَاصْبِرُوا حَتَّى تَلْقَوْنِي عَلَى الْحَوْضِ".
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ حنین کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب مال غنیمت عطاء فرمایا: تو آپ نے اسے ان لوگوں میں تقسیم کر دیا جو مؤلفۃ القلوب میں سے تھے اور انصار کو اس میں سے کچھ بھی نہیں دیا، غالباً اس چیز کو انصار نے محسوس کیا کہ انہیں وہ نہیں ملا جو دوسرے لوگوں کو مل گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا تو آپ نے ان کے سامنے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اے گروہ انصار! کیا میں نے تمہیں گم کر دہ راہ نہیں پایا کہ اللہ نے میرے ذریعے تمہیں غنی کر دیا؟ ان تمام باتوں کے جواب میں انصار صرف یہی کہتے رہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا بہت بڑا احسان ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے، تم کوئی جواب نہیں دیتے؟ انہوں نے پھر یہی کہا کہ اللہ اور اس کے رسول کا بہت بڑا احسان ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہتے تو یوں بھی کہہ سکتے تھے کہ آپ ہمارے پاس اس اس حال میں آئے تھے وغیرہ، کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ لوگ بکری اور اونٹ لے جائیں اور تم اپنے خیموں میں پیغمبر اللہ کو لے جاؤ، اگر ہجرت نہ ہو تی تو میں انصار ہی کا ایک فرد ہوتا، اگر لوگ کسی ایک راستے پر چل رہے ہوں تو میں انصار کے راستے پر چلوں گا، انصار میرے جسم کا لگا ہوا کپڑا ہیں اور باقی لوگ اوپر کا کپڑا ہیں اور تم میرے بعد ترجیحات دیکھو گے، سو اس وقت تم صبر کرنا یہاں تک کہ مجھ سے حوض پر آملو۔
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا عفان ، قال: حدثنا وهيب ، قال: حدثنا عمرو بن يحيى ، عن عباد بن تميم ، عن عبد الله بن زيد ، قال:" لما كان زمن الحرة اتاه آت، فقال: هذا ابن حنظلة، وقال عفان: مرة هذاك ابن حنظلة يبايع الناس. قال: على اي شيء يبايعهم؟، قال على: الموت، قال: لا ابايع على هذا احدا بعد رسول الله صلى الله عليه وسلم.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ يَحْيَى ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِيمٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ:" لَمَّا كَانَ زَمَنُ الْحَرَّةِ أَتَاهُ آتٍ، فَقَالَ: هَذَا ابْنُ حَنْظَلَةَ، وَقَالَ عَفَّانُ: مَرَّةً هَذَاكَ ابْنُ حَنْظَلَةَ يُبَايِعُ النَّاسَ. قَالَ: عَلَى أَيِّ شَيْءٍ يُبَايِعُهُمْ؟، قَالَ عَلَى: الْمَوْتِ، قَالَ: لَا أُبَايِعُ عَلَى هَذَا أَحَدًا بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
یحییٰ کہتے ہیں کہ کسی شخص نے حرہ کے موقع پر سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کہا آئیے! ابن حنظلہ کے پاس چلیں جو لوگوں سے بیعت لے رہا ہے، انہوں نے پوچھا کہ وہ کس چیز پر بیعت لے رہا ہے؟ بتایا گیا کہ موت پر، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں کسی شخص سے اس پر بیعت نہیں کر سکتا۔
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز استسقاء پڑھائی آپ نے اس وقت ایک سیاہ چادر اوڑھ رکھی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے نچلے حصے کو اوپر کی طرف کرنا چاہا لیکن مشکل ہو گیا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دائیں جانب کو بائیں طرف اور بائیں جانب کو دائیں طرف کر لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، قال: حدثنا ابان هو العطار ، قال: حدثنا يحيى يعني ابن ابي كثير ، عن ابي سلمة ، عن محمد بن عبد الله بن زيد ، ان اباه حدثه، انه شهد النبي صلى الله عليه وسلم على المنحر، ورجلا من قريش، وهو يقسم اضاحي، فلم يصبه منها شيء، ولا صاحبه، فحلق رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه في ثوبه، فاعطاه، فقسم منه على رجال، وقلم اظفاره، فاعطاه صاحبه، قال:" فإنه لعندنا مخضوب بالحناء والكتم" يعني شعره.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ هُوَ الْعَطَّارُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى يَعْنِي ابْنَ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ ، أَنَّ أَبَاهُ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمَنْحَرِ، وَرَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ، وَهُوَ يَقْسِمُ أَضَاحِيَّ، فَلَمْ يُصِبْهُ مِنْهَا شَيْءٌ، وَلَا صَاحِبَهُ، فَحَلَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ، فَأَعْطَاهُ، فَقَسَمَ مِنْهُ عَلَى رِجَالٍ، وَقَلَّمَ أَظْفَارَهُ، فَأَعْطَاهُ صَاحِبَهُ، قَالَ:" فَإِنَّهُ لَعِنْدَنَا مَخْضُوبٌ بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ" يَعْنِي شَعْرَهُ.
سیدنا عبداللہ بن زید بن عبدربہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اور ایک قریشی آدمی منیٰ کے میدان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا گوشت تقسیم کر رہے تھے لیکن وہ انہیں یا ان کے ساتھی کو نہ مل سکا، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں سر منڈوا کر بال رکھ لئے اور وہ انہیں دے دیئے اور اس میں کچھ بال چند لوگوں کو بھی دیئے، پھر اپنے ناخن تراشے تو وہ ان کے ساتھی کو دے دیئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو داود الطيالسي ، قال: حدثنا ابان العطار ، عن يحيى بن ابي كثير ، ان ابا سلمة حدثه، ان محمد بن عبد الله بن زيد اخبره، عن ابيه ، انه شهد النبي صلى الله عليه وسلم عند المنحر هو ورجل من الانصار" فقسم رسول الله صلى الله عليه وسلم ضحايا، فلم يصبه ولا صاحبه شيء، فحلق راسه في ثوبه، فاعطاه وقسم منه على رجال، وقلم اظفاره، فاعطاه صاحبه، فإن شعره عندنا مخضوب بالحناء والكتم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبَانُ الْعَطَّارُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، أَنَّ أَبَا سَلَمَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ شَهِدَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ الْمَنْحَرِ هُوَ وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ" فَقَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحَايَا، فَلَمْ يُصِبْهُ وَلَا صَاحِبَهُ شَيْءٌ، فَحَلَقَ رَأْسَهُ فِي ثَوْبِهِ، فَأَعْطَاهُ وَقَسَمَ مِنْهُ عَلَى رِجَالٍ، وَقَلَّمَ أَظْفَارَهُ، فَأَعْطَاهُ صَاحِبَهُ، فَإِنَّ شَعْرَهُ عِنْدَنَا مَخْضُوبٌ بِالْحِنَّاءِ وَالْكَتَمِ".
سیدنا عبداللہ بن زید بن عبد ربہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ اور ایک قریشی آدمی منیٰ کے میدان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کا گوشت تقسیم کر رہے تھے لیکن وہ انہیں یا ان کے ساتھی کو نہ مل سکا، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کپڑے میں سر منڈوا کر بال رکھ لئے اور وہ انہیں دے دیئے اور اس میں کچھ بال چند لوگوں کو بھی دیئے، پھر اپنے ناخن تراشے تو وہ ان کے ساتھی کو دے دیئے۔
سیدنا عبداللہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ بال جن پر مہندی اور وسمہ کا خضاب کیا گیا تھا، آج بھی ہمارے پاس موجود ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں خواب میں اذان کے کلمات سیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور یہ خواب بیان کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کلمات بلال کو سکھا دو، چنانچہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!! چونکہ یہ خواب میں نے دیکھا ہے، اس لئے میری خواہش ہے کہ اقامت میں کہوں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اقامت کہنے کی اجازت دے دی، اس طرح اقامت انہوں نے کہی اور اذان سیدنا بلال نے دی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف أبى سهل، وقد اختلف فى إسناده