(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، قال: حدثنا هلال بن عامر المزني ، عن ابيه ، قال: رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" يخطب الناس بمنى على بغلة، وعليه برد احمر" , قال: ورجل من اهل بدر بين يديه يعبر عنه , قال: فجئت حتى ادخلت يدي بين قدمه وشراكه , قال: فجعلت اعجب من بردها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا هِلَالُ بْنُ عَامِرٍ الْمُزَنِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَخْطُبُ النَّاسَ بِمِنًى عَلَى بَغْلَةٍ، وَعَلَيْهِ بُرْدٌ أَحْمَرُ" , قَالَ: وَرَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَدْرٍ بَيْنَ يَدَيْهِ يُعَبِّرُ عَنْهُ , قَالَ: فَجِئْتُ حَتَّى أَدْخَلْتُ يَدِي بَيْنَ قَدَمِهِ وَشِرَاكِهِ , قَالَ: فَجَعَلْتُ أَعْجَبُ مِنْ بَرَدِهَا.
حضڑت عامر سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منیٰ میں اپنے خچر پر سوار ہو کر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا ہے اس وقت آپ نے سرخ رنگ کی چادر اوڑھ رکھی تھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک بدری صحابی تھے جو آگے تک آواز پہنچا رہے تھے میں چلتا ہوا آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں اور جوتے کے تسمے کے درمیان ہاتھ داخل کئے مجھے ان کی ٹھنڈک سے تعجب ہوا۔
سیدنا عامر سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو منیٰ میں اپنے سفید خچر پر سوار ہو کر خطبہ دیتے ہوئے دیکھا ہے سیدنا علی آگے تک آواز پہنچا رہے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة الشيخ من بني فزارة
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد هشام ، قال: حدثنا ابو عوانة ، عن عبد الملك ، عن ابن ابي المعلى ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب يوما، فقال:" إن رجلا خيره ربه عز وجل بين ان يعيش في الدنيا ما شاء ان يعيش فيها، ياكل من الدنيا ما شاء ان ياكل منها، وبين لقاء ربه عز وجل، فاختار لقاء ربه" , قال: فبكى ابو بكر رضي الله عنه , قال: فقال اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم: الا تعجبون من هذا الشيخ ان ذكر رسول الله صلى الله عليه وسلم رجلا صالحا خيره ربه تبارك وتعالى بين الدنيا وبين لقاء ربه تبارك وتعالى فاختار لقاء ربه عز وجل، وكان ابو بكر رضي الله عنه اعلمهم بما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابو بكر رضي الله عنه: بل نفديك باموالنا وابنائنا او بآبائنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما من الناس احد امن علينا في صحبته وذات يده من ابن ابي قحافة، ولو كنت متخذا خليلا، لاتخذت ابن ابي قحافة، ولكن ود وإخاء إيمان، ولكن ود وإخاء إيمان مرتين وإن صاحبكم خليل الله عز وجل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ هِشَامٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْمُعَلَّى ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ يَوْمًا، فَقَالَ:" إِنَّ رَجُلًا خَيَّرَهُ رَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَيْنَ أَنْ يَعِيشَ فِي الدُّنْيَا مَا شَاءَ أَنْ يَعِيشَ فِيهَا، يَأْكُلُ مِنَ الدُّنْيَا مَا شَاءَ أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا، وَبَيْنَ لِقَاءِ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَاخْتَارَ لِقَاءَ رَبِّهِ" , قَالَ: فَبَكَى أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ: فَقَالَ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلَا تَعْجَبُونَ مِنْ هَذَا الشَّيْخِ أَنْ ذَكَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا صَالِحًا خَيَّرَهُ رَبُّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى بَيْنَ الدُّنْيَا وَبَيْنَ لِقَاءِ رَبِّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَاخْتَارَ لِقَاءَ رَبِّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَكَانَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَعْلَمَهُمْ بِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: بَلْ نَفْدِيكَ بِأَمْوَالِنَا وَأَبْنَائِنَا أَوْ بِآبَائِنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَمَنُّ عَلَيْنَا فِي صُحْبَتِهِ وَذَاتِ يَدِهِ مِنَ ابْنِ أَبِي قُحَافَةَ، وَلَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا خَلِيلًا، لَاتَّخَذْتُ ابْنَ أَبِي قُحَافَةَ، وَلَكِنْ وُدٌّ وَإِخَاءُ إِيمَانٍ، وَلَكِنْ وُدٌّ وَإِخَاءُ إِيمَانٍ مَرَّتَيْنِ وَإِنَّ صَاحِبَكُمْ خَلِيلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
حضڑت ابومعلی سے مروی ہے کہ ایک دن نبی نے خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ایک شخص کو اللہ نے اس بات میں اختیار دے دیا ہے کہ جب تک چاہے دنیا میں رہے اور جو چاہے کھائے یا اپنے رب کی ملاقات کے لئے آ جائے اس نے اپنے رب سے ملنے کو ترجیح دی یہ سن کر سیدنا صدیق اکبر رونے لگے صحابہ کرام کہنے لگے ان بڑے میاں کو تو دیکھو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیک آدمی کا ذکر کیا جسے اللہ نے دنیا اور اپنی ملاقات کے درمیان اختیار دیا اور اس نے اپنے رب سے ملاقات کو ترجیح دی لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی حقیقت کو ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے سیدنا ابوبکر تھے سیدنا ابوبکر کہنے لگے کہ ہم اپنے مال دولت بیٹوں اور آباء اجداد کو آپ کے بدلے میں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں اپنی رفاقت اور اپنی مملوکہ چیزوں میں مجھ پر ابن ابی قحاف سے زیادہ کسی کے احسانات نہیں ہیں اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابن ابی قحافہ کو بناتا لیکن یہاں ایمانی اخوت مودت ہی کافی ہے یہ جملہ دو مرتبہ ارشاد فرمایا: اور تمہارا پیغمبر خود اللہ کا خلیل ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف الجهالة ابن أبى المعلي
(حديث مرفوع) حدثنا ابن ابي عدي ، عن داود بن ابي هند ، عن الشعبي ، عن علقمة ، عن سلمة بن يزيد الجعفي ، قال: انطلقت انا واخي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلنا: يا رسول الله، إن امنا مليكة كانت تصل الرحم، وتقري الضيف، وتفعل وتفعل، هلكت في الجاهلية، فهل ذلك نافعها شيئا؟ قال:" لا" , قال: قلنا: فإنها كانت وادت اختا لنا في الجاهلية، فهل ذلك نافعها شيئا؟ قال:" الوائدة والموءودة في النار إلا ان تدرك الوائدة الإسلام، فيعفو الله عنها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ يَزِيدَ الْجُعْفِيِّ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ أَنَا وَأَخِي إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أُمَّنَا مُلَيْكَةَ كَانَتْ تَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَقْرِي الضَّيْفَ، وَتَفْعَلُ وَتَفْعَلُ، هَلَكَتْ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَهَلْ ذَلِكَ نَافِعُهَا شَيْئًا؟ قَالَ:" لَا" , قَالَ: قُلْنَا: فَإِنَّهَا كَانَتْ وَأَدَتْ أُخْتًا لَنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَهَلْ ذَلِكَ نَافِعُهَا شَيْئًا؟ قَالَ:" الْوَائِدَةُ وَالْمَوْءُودَةُ فِي النَّارِ إِلَّا أَنْ تُدْرِكَ الْوَائِدَةُ الْإِسْلَامَ، فَيَعْفُوَ اللَّهُ عَنْهَا".
سیدنا سلمہ بن یزید سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں اپنے بھائی کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہماری والدہ ملیکہ صلہ رحمی کر تی تھیں مہمان نوازی کر تی تھیں اور فلاں فلاں نیکی کے کام کر تی تھیں ان کا انتقال ہو گیا ہے زمانہ جاہلیت میں کیا یہ سب کام ان کے لئے نفع بخش ہوں گے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ہم نے پوچھا کہ انہوں نے زمانہ جاہلیت میں ہماری ایک بہن کو زندہ دفن کیا تھا اس کا بھی ان کے ساتھ تعلق ہو گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زندہ درگور کرنے والی اور ہو نے والی دونوں جہنم میں ہوں گی الاّ یہ کہ زندہ درگور ہو نے والی اسلام کو پالے اور اللہ اس سے درگزر فرمائے۔
ایک صحابی سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اللہ فرماتے ہیں اے ابن آدم تو میری طرف اٹھ کر دیکھ میں تیری طرف چل کر آؤں گا اور میری طرف چل کر دیکھ میں تیری طرف دوڑ کر آؤں گا۔
سیدنا جرید سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنی ران کھولے بیٹھے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ ران ستر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لشواهده، وهذا إسناد ضعيف، وهو مضطرب جداً
سیدنا جرید سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنی ران کھولے بیٹھے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نہیں جانتے کہ ران ستر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لشواهده، وهذا إسناد ضعيف لاضطرابه، وإرساله مع وهم فى اسم أحد رواته
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، قال: حدثنا معمر ، عن ابي الزناد ، عن ابن جرهد ، عن ابيه ، قال: مر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا كاشف فخذي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" غطها فإنها من العورة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنِ ابْنِ جَرْهَدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: مَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا كَاشِفٌ فَخِذِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" غَطِّهَا فَإِنَّهَا مِنَ الْعَوْرَةِ".
سیدنا جرید سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ اپنی ران کھولے بیٹھے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے ڈھانپ لو کیونکہ ران ستر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد مضطرب، وابن جرهد إن يكن عبدالله أو عبدالرحمن فكلاهما مجهول، وإن يكن زرعة ابن عبدالرحمن بن جرهد فثقة