سیدنا طارق سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کوئی شخص آ کر اسلام قبول کرتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے یہ دعا سکھاتے تھے کہ اے اللہ مجھے معاف فرما مجھ پر رحم فرما مجھے ہدایت عطا فرما اور مجھے رزق عطا فرما اس کے بعد آپ فرماتے یہ چیزیں دنیا اور آخرت دونوں کے لئے جامع ہیں۔
ابومالک کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد صاحب سے ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہم درس اور زعفران سے چیزوں کو رنگتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، عن عمرو بن حسان يعني المسلي ، قال: حدثنا المغيرة بن عبد الله اليشكري ، عن ابيه ، قال: دخلت مسجد الكوفة اول ما بني مسجدها، وهو في اصحاب التمر يومئذ، وجدره من سهلة، فإذا رجل يحدث الناس، قال: بلغني حجة رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة الوداع، فاستتبعت راحلة من إبلي، ثم خرجت حتى جلست له في طريق عرفة، او وقفت له في طريق عرفة، قال: فإذا ركب عرفت رسول الله صلى الله عليه وسلم فيهم بالصفة، فقال رجل امامه: خل لي عن طريق الركاب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" ويحه، فارب ماله"، فدنوت منه حتى اختلفت راس الناقتين , قال: قلت: يا رسول الله، دلني على عمل يدخلني الجنة وينجيني من النار؟ قال:" بخ بخ , لئن كنت قصرت في الخطبة لقد ابلغت في المسالة، افقه إذا، تعبد الله عز وجل لا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة، وتؤدي الزكاة، وتحج البيت، وتصوم رمضان، خل طريق الركاب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ حَسَّانَ يَعْنِي الْمُسْلِيَّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْيَشْكُرِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: دَخَلْتُ مَسْجِدَ الْكُوفَةِ أَوَّلَ مَا بُنِيَ مَسْجِدُهَا، وَهُوَ فِي أَصْحَابِ التَّمْرِ يَوْمَئِذٍ، وَجُدُرُهُ مِنْ سِهْلَةٍ، فَإِذَا رَجُلٌ يُحَدِّثُ النَّاسَ، قَالَ: بَلَغَنِي حَجَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةُ الْوَدَاعِ، فَاسْتَتْبَعْتُ رَاحِلَةً مِنْ إِبِلِي، ثُمَّ خَرَجْتُ حَتَّى جَلَسْتُ لَهُ فِي طَرِيقِ عَرَفَةَ، أَوْ وَقَفْتُ لَهُ فِي طَرِيقِ عَرَفَةَ، قَالَ: فَإِذَا رَكْبٌ عَرَفْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِمْ بِالصِّفَةِ، فَقَالَ رَجُلٌ أَمَامَهُ: خَلِّ لِي عَنْ طَرِيقِ الرِّكَابِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَيْحَهُ، فَأَرَبٌ مَالَهُ"، فَدَنَوْتُ مِنْهُ حَتَّى اخْتَلَفَتْ رَأْسُ النَّاقَتَيْنِ , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، دُلَّنِي عَلَى عَمَلٍ يُدْخِلُنِي الْجَنَّةَ وَيُنْجِينِي مِنَ النَّارِ؟ قَالَ:" بَخٍ بَخٍ , لَئِنْ كُنْتَ قَصَّرْتَ فِي الْخُطْبَةِ لَقَدْ أَبْلَغْتَ فِي الْمَسْأَلَةِ، افْقَهْ إِذًا، تَعْبُدُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَا تُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمُ الصَّلَاةَ، وَتُؤَدِّي الزَّكَاةَ، وَتَحُجُّ الْبَيْتَ، وَتَصُومُ رَمَضَانَ، خَلِّ طَرِيقَ الرِّكَابِ".
عبداللہ یشکر ی کہتے ہیں کہ جب کوفہ کی جامع مسجد میں پہلی مرتبہ تعمیر ہوئی تو میں وہاں گیا اس وقت وہاں کھجوروں کے درخت بھی تھے اور اس کی دیواریں ریت جیسی مٹی کی تھیں وہاں ایک صاحب یہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجتہ الوداع کی خبر ملی تو میں نے اپنے اونٹوں میں سے ایک قابل سواری اونٹ چھانٹ کر نکالا اور روانہ ہو گیا یہاں تک کہ عرفہ کے راستے میں ایک جگہ پہنچ کر بیٹھ گیا جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم سواری پر سوار ہوئے تو میں نے آپ کو آپ کے حلیہ کی وجہ سے پہنچانا۔ اسی دوران ایک آدمی جو ان سے آگے تھا کہنے لگا کہ سواریوں کے راستے سے ہٹ جاؤ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہو سکتا ہے کہ اسے کوئی کام ہو چنانچہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنا قریب ہوا کہ دونوں سواریوں کے سر ایک دوسرے کے قریب آ گئے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کر سکے اور جہنم سے نجات کا سبب بن جائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: واہ واہ میں نے خطبہ میں اختصار سے کام لیا تھا اور تم نے بہت عمدہ سوال کیا اگر تم سمجھ دار ہوئے تو تم صرف اللہ کی عبادت کرنا اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا نماز قائم کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا ماہ رمضان کے روزے رکھنا اب سواریوں کے لئے راستہ چھوڑ دو۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ مغیرہ کے والد کہتے ہیں میں ایک مجلس میں بیٹھا وہاں ایک صاحب یہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حجتہ الوداع کی خبر ملی تو میں عرفہ کے راستے میں ایک جگہ پہنچ کر بیٹھ گیا۔ پھر روای نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کوئی ایسا عمل بتا دیجیے جو مجھے جنت میں داخل کر دے اور جہنم سے نجات کا سبب بن جائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، بیت اللہ کا حج کرنا، رمضان کے روزے رکھنا لوگوں کے لئے وہی پسند کرنا جو اپنے لئے کر و اور ان کے لئے بھی وہی ناپسند کرنا جو اپنے لئے کر و اب سواریوں کے لئے راستہ چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالله اليشكري ليس بالمشهور
حدثنا وكيع قال: حدثنا شعبة عن عمرو بن مرة، عن مرة الطيب قال: حدثني رجل من اصحاب النبي ﷺ في غرفتي هذه، حسبت قال: خطبنا رسول الله ﷺ يوم النحر على ناقة له حمراء مخضرمة، فقال: «هذا يوم النحر، وهذا يوم الحج الاكبر» . [انظر: ٢٣٤٩٧]حَدَّثَنَا وَكِيعٌ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مُرَّةَ الطَّيِّبِ قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ ﷺ فِي غُرْفَتِي هَذِهِ، حَسِبْتُ قَالَ: خَطَبَنَا رَسُولُ اللَّهِ ﷺ يَوْمَ النَّحْرِ عَلَى نَاقَةٍ لَهُ حَمْرَاءَ مُخَضْرَمَةٍ، فَقَالَ: «هَذَا يَوْمُ النَّحْرِ، وَهَذَا يَوْمُ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ» . [انظر: ٢٣٤٩٧]
مرۃ الطیب کہتے ہیں کہ مجھے اسی کمرے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی نے یہ حدیث سنائی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دس ذی الحجہ کو اپنے سرخ اونٹوں پر سوار ہو کر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: یہ قربانی کا دن ہے اور یہ حج اکبر کا دن ہے۔
حدثنا عبد الرزاق قال: اخبرنا معمر عن ابي إسحاق، عن ابي الاحوص الجشمي، عن ابيه قال: رآني رسول الله ﷺ وعلي اطمار، فقال: «هل لك مال؟» قلت: نعم. قال: «من اي المال؟» قلت: من كل المال قد آتاني الله عز وجل من الشاء والإبل. قال: «فلتر نعم الله وكرامته عليك فذكر نحو حديث شعبة. [انظر: ١٥٨٨٨، ۱٥٨٨٩، ۱۵۸۹۱، ١۵۸۹۲]حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ قَالَ: أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ الْجُشَمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ قَالَ: رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ ﷺ وَعَلَيَّ أَطْمَارُ، فَقَالَ: «هَلْ لَكَ مَالٌ؟» قُلْتُ: نَعَمْ. قَالَ: «مِنْ أَيِّ الْمَالِ؟» قُلْتُ: مِنْ كُلِّ الْمَالِ قَدْ آتَانِيَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الشَّاءِ وَالْإِبِلِ. قَالَ: «فَلْتُرَ نِعَمُ اللَّهِ وَكَرَامَتُهُ عَلَيْكَ فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ شُعْبَةَ. [انظر: ١٥٨٨٨، ۱٥٨٨٩، ۱۵۸۹۱، ١۵۸۹۲]
سیدنا مالک بن نضلہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پراگندہ حال دیکھا تو پوچھا: کیا تمہارے پاس کچھ مال ہے میں نے عرض کیا: جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس قسم کا مال ہے میں نے عرض کیا: اللہ نے مجھے ہر قسم کا مال مثلابکریاں اور اونٹ وغیرہ عطا فرما رکھے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اللہ کی نعمتوں اور عزتوں کا اثر تم پر نظر آنا چاہیے۔
حدثنا عفان حدثنا شعبة قال ابو إسحاق انبانا قال سمعت ابا الاحوص يحدث عن ابيه قال اتيت النبي صلى الله عليه وسلم وانا قشيف الهيئة فقال هل لك مال قال قلت نعم قال فما مالك فقال من كل المال من الخيل والإبل والرقيق والغنم قال فإذا آتاك الله عز وجل مالا فلير عليك فقال هل تنتج إبل قومك صحاحا آذانها فتعمد إلى الموسى فتقطعها او تقطعها وتقول هذه بحر وتشق جلودها وتقول هذه صرم فتحرمها عليك وعلى اهلك قال قلت نعم قال كل ما آتاك الله عز وجل لك حل وساعد الله اشد وموسى الله احد وربما قالها وربما لم يقلها وربما قال ساعد الله اشد من ساعدك وموسى الله احد من موساك قال قلت يا رسول الله رجل نزلت به فلم يقرني ولم يكرمني ثم نزل بي اقريه او اجزيه بما صنع قال بل اقرهحَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ قَالَ أَبُو إِسْحَاقَ أَنْبَأَنَا قَالَ سَمِعْتُ أَبَا الْأَحْوَصِ يُحَدِّثُ عَنْ أَبِيهِ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا قَشِيفُ الْهَيْئَةِ فَقَالَ هَلْ لَكَ مَالٌ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ فَمَا مَالُكَ فَقَالَ مِنْ كُلِّ الْمَالِ مِنْ الْخَيْلِ وَالْإِبِلِ وَالرَّقِيقِ وَالْغَنَمِ قَالَ فَإِذَا آتَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مَالًا فَلْيُرَ عَلَيْكَ فَقَالَ هَلْ تُنْتِجُ إِبِلُ قَوْمِكَ صِحَاحًا آذَانُهَا فَتَعْمَدُ إِلَى الْمُوسَى فَتَقْطَعُهَا أَوْ تَقْطَعُهَا وَتَقُولُ هَذِهِ بُحُرٌ وَتَشُقُّ جُلُودَهَا وَتَقُولُ هَذِهِ صُرُمٌ فَتُحَرِّمُهَا عَلَيْكَ وَعَلَى أَهْلِكَ قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ كُلُّ مَا آتَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكَ حِلٌّ وَسَاعِدُ اللَّهِ أَشَدُّ وَمُوسَى اللَّهِ أَحَدُّ وَرُبَّمَا قَالَهَا وَرُبَّمَا لَمْ يَقُلْهَا وَرُبَّمَا قَالَ سَاعِدُ اللَّهِ أَشَدُّ مِنْ سَاعِدِكَ وَمُوسَى اللَّهِ أَحَدُّ مِنْ مُوسَاكَ قَالَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ رَجُلٌ نَزَلْتُ بِهِ فَلَمْ يَقْرِنِي وَلَمْ يُكْرِمْنِي ثُمَّ نَزَلَ بِي أَقْرِيهِ أَوْ أَجْزِيهِ بِمَا صَنَعَ قَالَ بَلْ اقْرِهِ
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، قال: حدثنا ابي ، وإسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن ابي الاحوص ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" هل لك من مال؟" , قال: قلت: نعم، من كل المال قد آتاني الله عز وجل من الإبل، ومن الخيل والرقيق , قال:" فإذا آتاك الله عز وجل خيرا فلير عليك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، وَإِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ لَكَ مِنْ مَالٍ؟" , قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، مِنْ كُلِّ الْمَالِ قَدْ آتَانِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ مِنَ الْإِبِلِ، وَمِنْ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ , قَالَ:" فَإِذَا آتَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَيْرًا فَلْيُرَ عَلَيْكَ".
سیدنا مالک سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پراگندہ حال دیکھا تو پوچھا: کیا تمہارے پاس کچھ مال ہے میں نے عرض کیا: جی ہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کس قسم کا مال ہے میں نے عرض کیا: اللہ نے مجھے ہر قسم کا مال مثلا بکریاں اور اونٹ وغیرہ عطا فرما رکھے ہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر اللہ کی نعمتوں اور عزتوں کا اثر تم پر نظر آنا چاہیے۔
پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا ایسا نہیں ہے کہ تمہاری قوم میں کسی کے پاس یہاں اونٹ پیدا ہوتا ہے اس کے کان صحیح سالم ہوتے ہیں اور تم استرا پکڑ کر اس کے کان کاٹ دیتے ہواور کہتے ہو کہ یہ بحر ہے کبھی ان کی کھال چھیل ڈالتے ہواور کہتے ہو کہ یہ صرم ہے اور کبھی انہیں اپنے اہل خانہ پر حرام قرار دیتے ہوانہوں نے عرض کیا: ایساہی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ نے تم کو جو کچھ عطا فرما رکھا ہے وہ سب حلال ہے اللہ کا بازو زیادہ طاقت ور ہے اور اللہ کا استرا زیادہ تیز ہے میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ بتائیے کہ اگر میں کسی شخص کے ہاں مہمان جاؤ اور وہ میرا آ کرام کر ے اور نہ ہی مہمان نوازی پھر وہی شخص میرے یہاں مہمان بن کر آئے تو میں بھی اس کے ساتھ وہی سلوک کر و جو اس نے میرے ساتھ کیا تھا میں اس کی مہمان نوازی کر وں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کی مہمان نوازی کر و۔
سیدنا مالک بن نضلہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہاتھوں کے تین مرتبے ہیں اللہ کا ہاتھ سب سے اوپر ہوتا ہے اور اس کے نیچے دینے والے کا ہاتھ ہوتا ہے اور مانگنے والے کا ہاتھ سب سے نیچے ہوتا ہے اس لئے تم زائد چیزوں کودے دیا کر و اور اپنے آپ سے عاجز نہ ہو جاؤ۔