(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا شريك ، عن عبد الله بن عيسى ، عن جميع بن عمير ولم يشك، عن خاله ابي بردة بن نيار ، قال: انطلقت مع النبي صلى الله عليه وسلم إلى بقيع المصلى، فادخل يده في طعام، ثم اخرجها، فإذا هو مغشوش او مختلف، فقال:" ليس منا من غشنا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عِيسَى ، عَنْ جُمَيْعِ بْنِ عُمَيْرٍ وَلَمْ يَشُكَّ، عَنْ خَالِهِ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ نِيَارٍ ، قَالَ: انْطَلَقْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى بَقِيعِ الْمُصَلَّى، فَأَدْخَلَ يَدَهُ فِي طَعَامٍ، ثُمَّ أَخْرَجَهَا، فَإِذَا هُوَ مَغْشُوشٌ أَوْ مُخْتَلِفٌ، فَقَالَ:" لَيْسَ مِنَّا مَنْ غَشَّنَا".
سیدنا ابوبردہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عیدگاہ نقیع کی طرف جارہے تھے راستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے غلے میں ہاتھ ڈال کر باہر نکالا تو اس میں دھوکہ نظر آیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمیں دھوکہ دے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف جميع بن عمير ، وشريك سيئ الحفظ، لكنه عند المتابعة حسن الحديث
سیدنا ابوبردہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حدود اللہ کے علاوہ کسی سزا میں دس سے زیادہ کوڑے نہ مارے جائیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 6848، م: 1708 ، سماع ابن لهيعة من بكير بن عبدالله ممكن، ابن لهيعة سيئ الحفظ، لكنه توبع، سمع يحيى بن إسحاق من ابن لهيعة بعد اختلاطه
سیدنا ابوبردہ سے مروی ہے کہ کسی شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے افضل کمائی کے متعلق پوچھا: تو آپ نے فرمایا: مقبول تجارت اور انسان کا اپنے ہاتھ سے محنت مزدوری کرنا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك، وغلط فيه فى موضعين: قوله: جميع بن عمير ، وإنما هو سعيد بن عمير ، وقد رواه موصولاً والصواب مرسل
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم ، حدثنا الوليد يعني ابن عبد الله بن جميع ، قال: حدثني ابو بكر بن ابي الجهم ، قال: اقبلت انا وزيد بن حسن بيننا ابن رمانة مولى عبد العزيز بن مروان قد نصبنا له ايدينا، فهو متكئ عليها داخل المسجد مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم، وبها ابن نيار رجل من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فارسل إلى ابي بكر: ائتني , فاتاه: فقال: رايت ابن رمانة بينكما يتوكا عليك وعلى زيد بن حسن، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" لن تذهب الدنيا حتى تكون عند لكع ابن لكع".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُمَيْعٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي الْجَهْمِ ، قَالَ: أَقْبَلْتُ أَنَا وَزَيْدُ بْنُ حَسَنٍ بَيْنَنَا ابْنُ رُمَّانَةَ مَوْلَى عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ مَرْوَانَ قَدْ نَصَبْنَا لَهُ أَيْدِيَنَا، فَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَيْهَا دَاخِلَ الْمَسْجِدِ مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَبها ابْنَ نِيَارٍ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَرْسَلَ إِلَى أَبِي بَكْرٍ: ائْتِنِي , فَأَتَاهُ: فَقَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ رُمَّانَةَ بَيْنَكُمَا يَتَوَكَّأُ عَلَيْكَ وَعَلَى زَيْدِ بْنِ حَسَنٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَنْ تَذْهَبَ الدُّنْيَا حَتَّى تَكُونَ عِنْدَ لُكَعِ ابْنِ لُكَعٍ".
ابوبکر بن ابی جہم کہتے ہیں کہ اور زید بن حسن چلے آرہے تھے ہمارے درمیان ابن رمانہ اس طرح چل رہے تھے کہ ہم نے ان کی خاطر اپنے کندھے سیدھے کر رکھے تھے اور وہ ان پر سہارا لئے ہوئے مسجد میں نبوی میں داخل ہو رہے تھے کہ وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی سیدنا ابوبردہ بن نیار بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے مجھے بلابھیجا میں ان کے پاس پہنچا تو کہنے لگے کہ میں نے تمہارے درمیان ابن رمانہ کو دیکھا جو تم پر اور زید بن حسن پر سہارا لئے چل رہے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دنیا اس وقت فنا نہ ہو گی جب تک وہ کمینہ ابن کمینہ کی نہ ہو جائے۔
(حديث قدسي) حدثنا محمد بن بكر البرساني ، قال: اخبرنا عبد الحميد بن جعفر ، قال: اخبرنا ابي ، عن زياد بن ميناء ، عن ابي سعد بن ابي فضالة الانصاري وكان من الصحابة انه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إذا جمع الله عز وجل الاولين والآخرين ليوم لا ريب فيه، نادى مناد من كان اشرك في عمل عمله لله تبارك وتعالى احدا، فليطلب ثوابه من عند غير الله عز وجل، فإن الله عز وجل اغنى الشركاء عن الشرك".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ الْبُرْسَانِيُّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ جَعْفَرٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبِي ، عَنْ زِيَادِ بْنِ مِينَاءَ ، عَنْ أَبِي سَعْدِ بْنِ أَبِي فَضَالَةَ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ مِنَ الصَّحَابَةِ أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا جَمَعَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ لِيَوْمٍ لَا رَيْبَ فِيهِ، نَادَى مُنَادٍ مَنْ كَانَ أَشْرَكَ فِي عَمَلٍ عَمِلَهُ لِلَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى أَحَدًا، فَلْيَطْلُبْ ثَوَابَهُ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَغْنَى الشُّرَكَاءِ عَنِ الشِّرْكِ".
سیدنا ابوسعید بن ابی فضالہ جو کہ صحابی ہیں سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ اولین و آخرین کو اس دن جمع فرمائے گا جس میں کوئی شک وشبہ نہیں تو ایک منادی آواز لگائے گا جو شخص کسی عمل میں اللہ کے لئے شریک ٹھہراتا ہواسے چاہیے کہ اس کا ثواب بھی اسی سے طلب کر ے کیونکہ اللہ تمام شرکاء سے زیادہ شرک سے بیزار ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: سمعت ابي يحدث، عن يزيد يعني ابن الهاد ، عن محمد بن إبراهيم بن الحارث ، عن سهيل ابن بيضاء ، انه قال: نادى رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة وانا رديفه:" يا سهيل ابن بيضاء" رافعا بها صوته مرارا، حتى سمع من خلفنا وامامنا، فاجتمعوا، وعلموا انه يريد ان يتكلم بشيء:" إنه من قال: لا إله إلا الله، اوجب الله عز وجل له بها الجنة، واعتقه بها من النار".(حديث مرفوع) حدثنا يَعْقُوبَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ يَزِيدَ يَعْنِي ابْنَ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ سُهَيْلِ ابْنِ بَيْضَاءَ ، أَنَّهُ قَالَ: نَادَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَأَنَا رَدِيفُهُ:" يَا سُهَيْلُ ابْنَ بَيْضَاءَ" رَافِعًا بِهَا صَوْتَهُ مِرَارًا، حَتَّى سَمِعَ مَنْ خَلْفَنَا وَأَمَامَنَا، فَاجْتَمَعُوا، وَعَلِمُوا أَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَتَكَلَّمَ بِشَيْءٍ:" إِنَّهُ مَنْ قَالَ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، أَوْجَبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَهُ بِهَا الْجَنَّةَ، وَأَعْتَقَهُ بِهَا مِنَ النَّارِ".
سیدنا سہیل بن بیضاء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تین مرتبہ بلند آواز سے پکار کر فرمایا: اے سہیل بن بیضا میں ہر مرتبہ لبیک کہتا رہا یہ آواز لوگوں نے بھی سنی اور وہ یہ سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بھی یہ بات سنانا چاہتے ہیں چنانچہ سب لوگ جمع ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتاہواللہ اس پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دے گا اور اس کے لئے جنت کو واجب کر دے گا۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، محمد بن إبراهيم لم يدرك سهيل بن بيضاء
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يعقوب ، قال: حدثني ابي ، عن ابن إسحاق ، قال: حدثني صالح بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف ، عن محمود بن لبيد اخي بني عبد الاشهل، عن سلمة بن سلامة بن وقش وكان من اصحاب بدر , قال:" كان لنا جار من يهود في بني عبد الاشهل، قال: فخرج علينا يوما من بيته قبل مبعث النبي صلى الله عليه وسلم بيسير، فوقف على مجلس بني عبد الاشهل، قال سلمة: وانا يومئذ احدث من فيه سنا، علي بردة مضطجعا فيها بفناء اهلي، فذكر البعث , والقيامة , والحساب , والميزان , والجنة , والنار، فقال: ذلك لقوم اهل شرك اصحاب اوثان لا يرون ان بعثا كائن بعد الموت، فقالوا له: ويحك يا فلان، ترى هذا كائنا إن الناس يبعثون بعد موتهم إلى دار فيها جنة ونار، يجزون فيها باعمالهم؟! قال: نعم، والذي يحلف به لود ان له بحظه من تلك النار اعظم تنور في الدنيا يحمونه، ثم يدخلونه إياه فيطبق به عليه، وان ينجو من تلك النار غدا. قالوا له: ويحك , وما آية ذلك؟ قال: نبي يبعث من نحو هذه البلاد، واشار بيده نحو مكة واليمن، قالوا: ومتى تراه؟ قال: فنظر إلي وانا من احدثهم سنا، فقال: إن يستنفد هذا الغلام عمره يدركه , قال سلمة: فوالله ما ذهب الليل والنهار حتى بعث الله تعالى رسوله صلى الله عليه وسلم وهو حي بين اظهرنا، فآمنا به، وكفر به بغيا وحسدا، فقلنا: ويلك يا فلان! الست بالذي قلت لنا فيه ما قلت؟ قال: بلى وليس به".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي صَالِحُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ أَخِي بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ سَلَامَةَ بْنِ وَقْشٍ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ بَدْرٍ , قَالَ:" كَانَ لَنَا جَارٌ مِنْ يَهُودَ فِي بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، قَالَ: فَخَرَجَ عَلَيْنَا يَوْمًا مِنْ بَيْتِهِ قَبْلَ مَبْعَثِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَسِيرٍ، فَوَقَفَ عَلَى مَجْلِسِ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، قَالَ سَلَمَةُ: وَأَنَا يَوْمَئِذٍ أَحْدَثُ مَنْ فِيهِ سِنًّا، عَلَيَّ بُرْدَةٌ مُضْطَجِعًا فِيهَا بِفِنَاءِ أَهْلِي، فَذَكَرَ الْبَعْثَ , وَالْقِيَامَةَ , وَالْحِسَابَ , وَالْمِيزَانَ , وَالْجَنَّةَ , وَالنَّارَ، فَقَالَ: ذَلِكَ لِقَوْمٍ أَهْلِ شِرْكٍ أَصْحَابِ أَوْثَانٍ لَا يَرَوْنَ أَنَّ بَعْثًا كَائِنٌ بَعْدَ الْمَوْتِ، فَقَالُوا لَهُ: وَيْحَكَ يَا فُلَانُ، تَرَى هَذَا كَائِنًا إِنَّ النَّاسَ يُبْعَثُونَ بَعْدَ مَوْتِهِمْ إِلَى دَارٍ فِيهَا جَنَّةٌ وَنَارٌ، يُجْزَوْنَ فِيهَا بِأَعْمَالِهِمْ؟! قَالَ: نَعَمْ، وَالَّذِي يُحْلَفُ بِهِ لَوَدَّ أَنَّ لَهُ بِحَظِّهِ مِنْ تِلْكَ النَّارِ أَعْظَمَ تَنُّورٍ فِي الدُّنْيَا يُحَمُّونَهُ، ثُمَّ يُدْخِلُونَهُ إِيَّاهُ فَيُطْبَقُ بِهِ عَلَيْهِ، وَأَنْ يَنْجُوَ مِنْ تِلْكَ النَّارِ غَدًا. قَالُوا لَهُ: وَيْحَكَ , وَمَا آيَةُ ذَلِكَ؟ قَالَ: نَبِيٌّ يُبْعَثُ مِنْ نَحْوِ هَذِهِ الْبِلَادِ، وَأَشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ مَكَّةَ وَالْيَمَنِ، قَالُوا: وَمَتَى تَرَاهُ؟ قَالَ: فَنَظَرَ إِلَيَّ وَأَنَا مِنْ أَحْدَثِهِمْ سِنًّا، فَقَالَ: إِنْ يَسْتَنْفِدْ هَذَا الْغُلَامُ عُمُرَهُ يُدْرِكْهُ , قَالَ سَلَمَةُ: فَوَاللَّهِ مَا ذَهَبَ اللَّيْلُ وَالنَّهَارُ حَتَّى بَعَثَ اللَّهُ تَعَالَى رَسُولَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ حَيٌّ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، فَآمَنَّا بِهِ، وَكَفَرَ بِهِ بَغْيًا وَحَسَدًا، فَقُلْنَا: وَيْلَكَ يَا فُلَانُ! أَلَسْتَ بِالَّذِي قُلْتَ لَنَا فِيهِ مَا قُلْتَ؟ قَالَ: بَلَى وَلَيْسَ بِهِ".
سیدنا سلمہ بن سلامہ جو کہ اصحاب بدر میں تھے سے مروی ہے کہ بنو عبدالاشہل میں ہمارا ایک یہو دی پڑوسی تھا ایک دن وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے تھوڑا ہی عرصہ قبل اپنے گھر سے نکل کر ہمارے پاس آیا اور بنو عبدالاشہل کی مجلس کے پاس پہنچ کر رک گیا میں اس وقت نوعمر تھا میں نے ایک چادر اوڑھ رکھی تھی۔ اور میں اپنے گھر کے صحن میں لیٹا ہوا تھا وہ یہو دی دوبارہ زندہ ہوتے قیامت، حساب کتاب، میزان عمل اور جنت و جہنم کا تذکر ہ کرنے لگا یہ بات وہ ان مشرک اور بت پرست لوگوں سے کہہ رہا تھا جن کی رائے میں مرنے کے بعد دوبارہ زندگی نہیں ہو نی تھی اس لئے وہ اس سے کہنے لگے اے فلاں تجھ پر افسوس ہے کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ موت کے بعد لوگوں کو زندہ کیا جائے گا اور انہیں جنت و جہنم نامی جگہ منتقل کیا جائے گا جہاں ان کے اعمال کا انہیں بدلہ دیا جائے گا۔ اس نے جواب دیا کہ ہاں اس ذات کی قسم جس کے نام کی قسم اٹھائی جاتی ہے مجھے یہ بات پسند ہے کہ دنیا میں ایک بہت بڑا تنور خوب دہکایا جائے گا اور مجھے اس میں داخل کر کے اسے اوپر سے بند کر دیا جائے گا اور اس کے بدلے کل کو جہنم کی آگ سے نجات دیدی جائے گی اور وہ لوگ کہنے لگے کہ اس کی علامت کیا ہے اس نے جواب دیا کہ اس کی علامت ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہے جو ان علاقوں سے مبعوث ہو گا یہ کہہ کر اس نے مکہ مکر مہ یمن کی طرف اشارہ کیا انہوں نے پوچھا کہ وہ کب ظاہر ہو گا اس یہو دی نے مجھے دیکھا کیونکہ میں ان میں سب سے زیادہ چھوٹا تھا اور کہنے لگا کہ اگر یہ لڑکا زندہ رہا تو انہیں ضرور پالے گا۔ سیدنا سلمہ کہتے ہیں کہ ابھی دن رات کا چکر ختم نہیں ہوا تھا کہ اللہ نے اپنے پیغمبر کو مبعوث فرما دیا وہ یہو دی بھی اس وقت تک ہمارے درمیان زندہ تھا ہم تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لے آئے لیکن وہ سرکشی اور حسد کی وجہ سے کفر پر اڑا رہا ہم نے اس سے کہا کہ فلاں تجھ پر افسوس ہے کیا تو وہی نہیں ہے جس نے اس پیغمبر کے حوالے سے اتنی لمبی تقریر کی تھی اس نے کہا کیوں نہیں لیکن میں ان پر ایمان نہیں لاؤں گا۔