(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا عوف ، قال: حدثني علقمة المزني ، قال: حدثني رجل ، قال: كنت في مجلس فيه عمر بن الخطاب بالمدينة، فقال لرجل من القوم: يا فلان، كيف سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينعت الإسلام؟ قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" إن الإسلام بدا جذعا، ثم ثنيا، ثم رباعيا، ثم سديسيا، ثم بازلا"، قال: فقال عمر بن الخطاب: فما بعد البزول إلا النقصان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ الْمُزَنِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي رَجُلٌ ، قَالَ: كُنْتُ فِي مَجْلِسٍ فِيهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ بِالْمَدِينَةِ، فَقَالَ لِرَجُلٍ مِنَ الْقَوْمِ: يَا فُلَانُ، كَيْفَ سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْعَتُ الْإِسْلَامَ؟ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ الْإِسْلَامَ بَدَأَ جَذَعًا، ثُمَّ ثَنِيًّا، ثُمَّ رَبَاعِيًا، ثُمَّ سَدِيسِيًّا، ثُمَّ بَازِلًا"، قَالَ: فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: فَمَا بَعْدَ الْبُزُولِ إِلَّا النُّقْصَانُ.
ایک صاحب کہتے ہیں کہ میں مدینہ منورہ میں ای کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا جس میں سیدنا عمر بھی تھے انہوں نے لوگوں میں سے ایک آدمی سے فرمایا: تم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسلام کے حالات میں کس طرح بیان کرتے ہوئے سنا تھا انہوں نے کہا میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اسلام کا آغاز بکری کے چھ ماہ کے بچے کی طرح ہوا ہے جو دو دانت کا ہوا پھر چار دانت کا ہوا پھر چھ دانت کا ہوا پھر کچلی والا ہوا اس پر سیدنا عمر کہنے لگے کہ کچلی کے دانتوں کے بعد تو نقصان کی طرف واپسی شروع ہو جاتی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لابهام راويه عن الصحابي
(حديث مرفوع) حدثنا سفيان ، قال: سمعت عمرا ، سمع ابن عمر ، قال:" كنا نخابر، ولا نرى بذلك باسا، حتى زعم رافع بن خديج ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عنه، فتركناه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَمْرًا ، سَمِعَ ابْنَ عُمَرَ ، قَالَ:" كُنَّا نُخَابِرُ، وَلَا نَرَى بِذَلِكَ بَأْسًا، حَتَّى زَعَمَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْهُ، فَتَرَكْنَاهُ".
سیدنا ابن عمر سے مروی ہے کہ ہم لوگ زمین کو بٹائی پر دے دیا کرتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے بعد میں سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرما دیا ہے اس لئے ہم نے اسے ترک کر دیا ہے۔
عبدالواحد بن نافع کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں مدینہ منورہ کی کسی مسجد کے قریب گزرا تو دیکھا کہ نماز کے لئے اقامت کہی جاری ہے اور ایک بزرگ مؤذن کو ملامت کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ تمہیں معلوم نہیں ہے کہ میرے والد نے مجھے یہ حدیث بتائی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس نماز کو موخر کرنے کا حکم دیتے تھے میں نے لوگوں سے پوچھا کہ یہ بزرگ کون ہیں انہوں نے بتایا کہ یہ عبداللہ بن رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف ومتنه منكر، عبدالواحد بن نافع ضعيف، فقد روي عن النبى صلى الله عليه وسلم من وجوه أنه كان يعجل العصر
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: واصاب رسول الله صلى الله عليه وسلم نهبا، فند منها بعير، فسعوا له، فلم يستطيعوا، فرماه رجل بسهم، فحبسه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن لهذه الإبل او قال لهذه النعم، اوابد كاوابد الوحش، فما غلبكم فاصنعوا به هكذا".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: وَأَصَابَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهْبًا، فَنَدَّ مِنْهَا بَعِيرٌ، فَسَعَوْا لَهُ، فَلَمْ يَسْتَطِيعُوا، فَرَمَاهُ رَجُلٌ بِسَهْمٍ، فَحَبَسَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِهَذِهِ الْإِبِلِ أَوْ قَالَ لِهَذِهِ النَّعَمِ، أَوَابِدَ كَأَوَابِدِ الْوَحْشِ، فَمَا غَلَبَكُمْ فَاصْنَعُوا بِهِ هَكَذَا".
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! کل ہمارا دشمن جانوروں سے آمنا سامنا ہو گیا جبکہ ہمارے پاس تو کوئی چھری نہیں ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دانت اور ناخن کے علاوہ جو چیز جانور کا خون بہادے اور اس پر اللہ کا نام بھی لیا گیا ہو تما سے کھا سکتے ہواور اس کی وجہ بھی بتادوں کہ دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔ اسی دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مال غنیمت کے طوپر کچھ اونٹ ملے جن میں سے ایک اونٹ بدک گیا لوگوں نے اسے قابو کرنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے تنگ آ کر ایک آدمی نے اسے تاک کر تیر مارا اسے قابو میں کر لیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جانور بھی بعض اوقات وحشی ہو جاتے ہیں جیسے وحشی جانور بپھر جاتے ہیں جب تم کسی جانور کو مغلوب ہو جاؤ تو اس کے ساتھ اسی طرح کیا کر و۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب ، قال: حدثنا ابي ، عن محمد بن إسحاق ، قال: حدثني محمد بن عمرو بن عطاء ، ان رجلا من بني حارثة حدثه، ان رافع بن خديج حدثهم: انهم خرجوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر , قال: فلما نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم للغداء، قال: علق كل رجل بخطام ناقته، ثم ارسلها تهز في الشجر , قال: ثم جلسنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: ورحالنا على اباعرنا , قال: فرفع رسول الله صلى الله عليه وسلم راسه، فراى اكسية لنا فيها خيوط من عهن احمر , قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الا ارى هذه الحمرة قد علتكم"، قال: فقمنا سراعا لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى نفر بعض إبلنا فاخذنا الاكسية، فنزعناها منها.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي حَارِثَةَ حَدَّثَهُ، أَنَّ رَافِعَ بْنَ خَدِيجٍ حَدَّثَهُمْ: أَنَّهُمْ خَرَجُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ , قَالَ: فَلَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْغَدَاءِ، قَالَ: عَلَّقَ كُلُّ رَجُلٍ بِخِطَامِ نَاقَتِهِ، ثُمَّ أَرْسَلَهَا تَهُزُّ فِي الشَّجَرِ , قَالَ: ثُمَّ جَلَسْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: وَرِحَالُنَا عَلَى أَبَاعِرِنَا , قَالَ: فَرَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، فَرَأَى أَكْسِيَةً لَنَا فِيهَا خُيُوطٌ مِنْ عِهْنٍ أَحْمَرَ , قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَا أَرَى هَذِهِ الْحُمْرَةَ قَدْ عَلَتْكُمْ"، قَالَ: فَقُمْنَا سِرَاعًا لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى نَفَرَ بَعْضُ إِبِلِنَا فَأَخَذْنَا الْأَكْسِيَةَ، فَنَزَعْنَاهَا مِنْهَا.
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی سفر پر تھے کھانے کے لئے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑاؤ کیا تو ہر آدمی نے اپنے اونٹ کی مہار درخت سے باندھ دی اور انہیں درختوں میں چرنے کے لئے چھوڑ دیا پھر ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بیٹھ گئے ہمارے اونٹوں پر کجاوے کسے ہوئے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ سر اٹھایا تو دیکھا کہ ہمارے اونٹوں پر سرخ اون کی دھاری دار زین پوشیں پڑی ہوئی ہیں یہ دیکھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں دیکھ رہاہوں کہ یہ سرخ رنگ تمہاری کمزوری بن گیا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ بات سن کر ہم لوگ اس تیزی سے اٹھے کہ کچھ اونٹ بھاگنے لگے ہم نے ان کی زین پوش پکڑ کر ان پر سے اتار لی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لابهام راويه عن رافع بن خديج
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا عبد الواحد بن زياد ، قال: حدثنا سعيد ، حدثنا مجاهد ، قال: حدثني اسيد ابن اخي رافع بن خديج، قال: قال رافع بن خديج : نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن امر كان لنا نافعا، وطاعة الله وطاعة رسوله انفع لنا، قال:" من كانت له ارض فليزرعها، فإن عجز عنها، فليزرعها اخاه". قال ابو عبد الرحمن: قال ابي: هذا سعيد بن عبد الرحمن الزبيدي، حدث عنه سفيان الثوري، وحكام.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ بْنُ زِيَادٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سَعِيدٌ ، حَدَّثَنَا مُجَاهِدٌ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أُسَيْدُ ابْنُ أَخِي رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، قَالَ: قَالَ رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ : نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَمْرٍ كَانَ لَنَا نَافِعًا، وَطَاعَةُ اللَّهِ وَطَاعَةُ رَسُولِهِ أَنْفَعُ لَنَا، قَالَ:" مَنْ كَانَتْ لَهُ أَرْضٌ فَلْيَزْرَعْهَا، فَإِنْ عَجَزَ عَنْهَا، فَلْيُزْرِعْهَا أَخَاهُ". قَالَ أَبُو عَبْد الرحْمَن: قَالَ أَبِي: هَذَا سَعِيدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الزُّبَيْدِيُّ، حَدَّثَ عَنْهُ سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، وحَكَّامٌ.
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک ایسی چیز سے منع فرمایا ہے جو ہمارے لئے نفع بخش ہو سکی تھی لیکن اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت ہمارے لئے اس سے بھی زیادہ نفع بخش ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ جس شخص کے پاس کوئی زمین ہو وہ خود اس میں کھیتی باڑی کر ے اگر خود نہیں کر سکتا تو اپنے کسی بھائی کو اجازت دیدے۔
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں لوگ قابل کاشت زمین سبزیوں پانی کی نالیوں اور کچھ بھوسی کے عوض بھی کرایہ پر دیدیتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان چیزوں کے عوض اسے اچھا نہیں سمجھا اس لئے اس سے منع فرما دیا البتہ درہم یا دینار کے عوض اسے کرائے پر دینے میں کوئی حرج نہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2332، م: 1547، وهذا إسناد حسن
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ بخار جہنم کی تپش کا اثر ہوتا ہے اسے پانی سے ٹھنڈا کیا کر و۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، قال: حدثنا شعبة ، قال: الحكم اخبرني، عن مجاهد ، عن رافع بن خديج ، قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الحقل" , قال: قلت: وما الحقل؟ قال: الثلث والربع , فلما سمع ذلك إبراهيم كره الثلث والربع، ولم ير باسا بالارض البيضاء ياخذها بالدراهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: الْحَكَمُ أَخْبَرَنِي، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ ، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْحَقْل" , قَالَ: قُلْتُ: وَمَا الْحَقْلُ؟ قَالَ: الثُّلُثُ وَالرُّبُعُ , فَلَمَّا سَمِعَ ذَلِكَ إِبْرَاهِيمُ كَرِهَ الثُّلُثَ وَالرُّبُعَ، وَلَمْ يَرَ بَأْسًا بِالْأَرْضِ الْبَيْضَاءِ يَأْخُذُهَا بِالدَّرَاهِمِ.
سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حقل سے منع فرمایا ہے راوی نے پوچھا کہ حقل سے کیا مراد ہے انہوں نے جواب دیا کہ تہائی اور چوتھائی کے عوض زمین کو بٹائی پر دینا یہ حدیث سن کر ابراہیم نے بھی اس کے مکر وہ ہو نے کا فتوی دے دیا اور دراہم کے عوض زمین لینے پر کوئی حرج نہیں سمجھا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، مجاهد لم يسمع من رافع بن خديج