مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
حدیث نمبر: 15782
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عتاب بن زياد ، قال: حدثنا عبد الله ، قال: اخبرنا يونس ، عن الزهري ، قال: اخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب ، ان عبد الله بن كعب ، قال: سمعت كعب بن مالك يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" قلما يريد غزوة يغزوها إلا ورى بغيرها حتى كان غزوة تبوك، فغزاها رسول الله صلى الله عليه وسلم في حر شديد، استقبل سفرا بعيدا ومفازا، واستقبل غزو عدو كثير، فجلا للمسلمين امرهم، ليتاهبوا اهبة عدوهم، اخبرهم بوجهه الذي يريد".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَتَّابُ بْنُ زِيَادٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَلَّمَا يُرِيدُ غَزْوَةً يَغْزُوهَا إِلَّا وَرَّى بِغَيْرِهَا حَتَّى كَانَ غَزْوَةُ تَبُوكَ، فَغَزَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرٍّ شَدِيدٍ، اسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا وَمَفَازًا، وَاسْتَقْبَلَ غَزْوَ عَدُوٍّ كَثِيرٍ، فَجَلَا لِلْمُسْلِمِينَ أَمَرَهُمْ، لِيَتَأَهَّبُوا أُهْبَةَ عَدُوِّهِمْ، أَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِ الَّذِي يُرِيدُ".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بہت کم ایسا کرتے تھے کہ کسی غزوے کا ارادہ ہوا اور اس میں کسی دوسری جگہ کے ارادے سے اسے مخفی نہ فرماتے ہوں سوائے غزوہ تبوک کے کہ شدید گرمی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لمبے سفر اور صحراؤں کا ارادہ کیا تھا اور دشمن کی ایک کثیر تعداد کا سامنا کرنا تھا اس لئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اس کی وضاحت فرمادی تھی کہ تاکہ وہ دشمن سے مقابلے کے لئے خوب اچھی طرح تیاری کر لیں اور انہیں اسی جہت کا پتہ بتادیا جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرما رکھا تھا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2948، م: 2769
حدیث نمبر: 15783
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يزيد بن عبد ربه ، قال: حدثني محمد بن حرب ، قال: حدثني الزبيدي ، عن الزهري ، عن عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك ، عن كعب بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" يبعث الناس يوم القيامة، فاكون انا وامتي على تل، ويكسوني ربي تبارك وتعالى حلة خضراء، ثم يؤذن لي فاقول ما شاء الله ان اقول، فذاك المقام المحمود".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ رَبِّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزُّبَيْدِيُّ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" يُبْعَثُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَأَكُونُ أَنَا وَأُمَّتِي عَلَى تَلٍّ، وَيَكْسُونِي رَبِّي تَبَارَكَ وَتَعَالَى حُلَّةً خَضْرَاءَ، ثُمَّ يُؤْذَنُ لِي فَأَقُولُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَقُولَ، فَذَاكَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کو زندہ کیا جائے گا اور میں اور میری امتی ایک ٹیلے پر ہوں گے میرا رب مجھے سبز رنگ کا ایک قیمتی جوڑا پہنائے گا پھر مجھے اجازت ملے گی اور میں اللہ کی مرضی کے مطابق اس کی تعریف کر وں گا یہی مقام محمود ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 15784
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا علي بن بحر ، قال: حدثنا عيسى بن يونس ، عن زكريا ، عن محمد بن عبد الرحمن بن سعد بن زرارة ، ان ابن كعب بن مالك حدثه، عن ابيه ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ما ذئبان جائعان ارسلا في غنم افسد لها من حرص المرء على المال، والشرف لدينه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ بَحْرٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، عَنْ زَكَرِيَّا ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ ، أَنَّ ابْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَا ذِئْبَانِ جَائِعَانِ أُرْسِلَا فِي غَنَمٍ أَفْسَدَ لَهَا مِنْ حِرْصِ الْمَرْءِ عَلَى الْمَالِ، وَالشَّرَفِ لِدِينِهِ".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: دو بھوکے بھیڑیے اگر بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنافساد نہیں مچائیں گے جتنا انسان کے دل میں مال اور منصب کی حرص فساد برپا کر تی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 15785
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، قال: اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، قال: حدثني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك ، ان كعب بن مالك حين انزل الله تبارك وتعالى في الشعر ما انزل اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: إن الله تبارك وتعالى قد انزل في الشعر ما قد علمت، وكيف ترى فيه؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" إن المؤمن يجاهد بسيفه ولسانه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فِي الشِّعْرِ مَا أَنْزَلَ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَدْ أَنْزَلَ فِي الشِّعْرِ مَا قَدْ عَلِمْتَ، وَكَيْفَ تَرَى فِيهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْمُؤْمِنَ يُجَاهِدُ بِسَيْفِهِ وَلِسَانِهِ".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ نے شعروشاعری کے متعلق اپنا حکم نازل کیا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اللہ نے اشعار کے متعلق وہ باتیں نازل فرمائیں ہیں جو میں کر چکا ہوں اب اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان اپنی تلوار اور زبان دونوں سے جہاد کرتا ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 15786
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، قال: اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، قال: حدثني ابو بكر بن عبد الرحمن بن الحارث بن هشام ، ان مروان بن الحكم اخبره، ان عبد الرحمن بن الاسود بن عبد يغوث اخبره، ان ابي بن كعب الانصاري اخبره، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" من الشعر حكمة". وكان بشير بن عبد الرحمن بن كعب يحدث، ان كعب بن مالك كان يحدث، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" والذي نفسي بيده لكانما تنضحونهم بالنبل فيما تقولون لهم من الشعر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ ، أَنَّ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ أَخْبَرَهُ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْأَسْوَدِ بْنِ عَبْدِ يَغُوثَ أَخْبَرَهُ، أَنَّ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ الْأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مِنَ الشِّعْرِ حِكْمَةٌ". وَكَانَ بَشِيرُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبٍ يُحَدِّثُ، أَنَّ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ كَانَ يُحَدِّثُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَكَأَنَّمَا تَنْضَحُونَهُمْ بِالنَّبْلِ فِيمَا تَقُولُونَ لَهُمْ مِنَ الشِّعْرِ".
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بعض اشعار حکمت پر مبنی ہوتے ہیں۔ سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے تم جو اشعار مشرکین کے متعلق کہتے ہوایسالگتا ہے کہ تم ان پر تیروں کی بوچھاڑ برسا رہے ہو۔

حكم دارالسلام: إسناد الحديث الأول: "من الشعر حكمة" صحيح، خ: 6145، والحديث الثاني صحيح لغيره، وإسناده ضعيف، بشير ابن عبدالرحمن، لم يذكر البخاري وابن أبى حاتم الرواة عنه سوى اثنين ، ولم يؤثر توثيقه غير ابن حبان
حدیث نمبر: 15787
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، قال: اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، قال: اخبرنا عبد الرحمن بن كعب بن مالك ، ان كعب بن مالك الانصاري وهو احد الثلاثة الذين تيب عليهم كان يحدث ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إنما نسمة المؤمن طائر يعلق في شجر الجنة حتى يرجعها الله تبارك وتعالى إلى جسده يوم يبعثه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ: أَخبرنا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيَّ وَهُوَ أَحَدُ الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ تِيبَ عَلَيْهِمْ كَانَ يُحَدِّثُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا نَسَمَةُ الْمُؤْمِنِ طَائِرٌ يَعْلُقُ فِي شَجَرِ الْجَنَّةِ حَتَّى يُرْجِعَهَا اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى جَسَدِهِ يَوْمَ يَبْعَثُهُ".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کی روح پرندوں کی شکل میں جنت کے درختوں پر رہتی ہیں تاآنکہ قیامت کے دن اللہ اسے اس کے جسم میں واپس لوٹادیں۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 2757، م: 2769، وهذا إسناد ضعيف، عامر بن صالح ضعيف
حدیث نمبر: 15788
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عامر بن صالح ، قال: حدثني يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، عن عبد الرحمن بن كعب بن مالك الانصاري ، عن ابيه ، انه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم حين تاب الله تبارك وتعالى عليه: يا رسول الله، انخلع من مالي صدقة إلى الله ورسوله , فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امسك عليك بعض مالك، فإنه خير لك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَامِرُ بْنُ صَالِحٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ الْأَنْصَارِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ تَابَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَيْهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْخَلِعُ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ , فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمْسِكْ عَلَيْكَ بَعْضَ مَالِكَ، فَإِنَّهُ خَيْرٌ لَكَ".
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب اللہ نے ان کی توبہ قبول کر لی تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اور عرض کیا: اللہ نے مجھے سچ کے علاوہ کسی اور چیز کی برکت سے نجات نہیں دی اب میری توبہ میں یہ بھی شامل ہے کہ آئندہ میں کبھی جھوٹ نہ بولوں اور میں اپنا سارامال اللہ اور اس کے رسول کے لئے وقف کرتا ہوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تھوڑا بہت اپنے پاس بھی رکھ لو تو بہتر ہے عرض کیا: کہ پھر میں خیبر کا حصہ اپنے پاس رکھ لیتاہوں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2757، م: 2769
حدیث نمبر: 15789
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابن اخي الزهري محمد بن عبد الله ، عن عمه محمد بن مسلم الزهري ، قال: اخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك ، ان عبد الله بن كعب بن مالك وكان قائد كعب من بنيه حين عمي، قال: سمعت كعب بن مالك يحدث حديثه حين تخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك , فقال كعب بن مالك: لم اتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة غيرها قط إلا في غزوة تبوك، غير اني كنت تخلفت في غزوة بدر، ولم يعاتب احدا تخلف عنها، إنما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد عير قريش، حتى جمع الله بينهم وبين عدوهم على غير ميعاد، ولقد شهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة العقبة حين توافقنا على الإسلام، وما احب ان لي بها مشهد بدر، وإن كانت بدر اذكر في الناس منها واشهر , وكان من خبري حين تخلفت عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك لاني لم اكن قط اقوى ولا ايسر مني حين تخلفت عنه في تلك الغزاة، والله ما جمعت قبلها راحلتين قط، حتى جمعتها في تلك الغزاة، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم قلما يريد غزاة يغزوها إلا ورى بغيرها، حتى كانت تلك الغزاة، فغزاها رسول الله صلى الله عليه وسلم في حر شديد، واستقبل سفرا بعيدا ومفازا، واستقبل عدوا كثيرا، فجلا للمسلمين امره، ليتاهبوا اهبة عدوهم، فاخبرهم بوجهه الذي يريد، والمسلمون مع رسول الله صلى الله عليه وسلم كثير، لا يجمعهم كتاب حافظ يريد الديوان. فقال كعب: فقل رجل يريد يتغيب إلا ظن ان ذلك سيخفى له، ما لم ينزل فيه وحي من الله عز وجل. وغزا رسول الله صلى الله عليه وسلم تلك الغزوة حين طابت الثمار والظل، وانا إليها اصعر , فتجهز إليها رسول الله صلى الله عليه وسلم والمؤمنون معه، وطفقت اغدو لكي اتجهز معه، فارجع ولم اقض شيئا، فاقول في نفسي انا قادر على ذلك إذا اردت , فلم يزل كذلك يتمادى بي حتى شمر بالناس الجد، فاصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم غاديا والمسلمون معه، ولم اقض من جهازي شيئا، فقلت: الجهاز بعد يوم او يومين، ثم الحقهم، فغدوت بعد ما فصلوا لاتجهز، فرجعت ولم اقض شيئا من جهازي، ثم غدوت فرجعت، ولم اقض شيئا، فلم يزل ذلك يتمادى بي حتى اسرعوا، وتفارط الغزو، فهممت ان ارتحل فادركهم، وليت اني فعلت، ثم لم يقدر ذلك لي، فطفقت، إذا خرجت في الناس بعد خروج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فطفت فيهم يحزنني ان لا ارى إلا رجلا مغموصا عليه في النفاق، او رجلا ممن عذره الله، ولم يذكرني رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بلغ تبوك , فقال وهو جالس في القوم بتبوك:" ما فعل كعب بن مالك؟" , قال رجل من بني سلمة: حبسه يا رسول الله برداه والنظر في عطفيه، فقال له معاذ بن جبل: بئسما قلت، والله يا رسول الله ما علمنا عليه إلا خيرا , فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقال كعب بن مالك: فلما بلغني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد توجه قافلا من تبوك حضرني بثي، فطفقت اتفكر الكذب، واقول: بماذا اخرج من سخطه غدا؟ استعين على ذلك كل ذي راي من اهلي، فلما قيل: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد اظل قادما، زاح عني الباطل، وعرفت اني لن انجو منه بشيء ابدا، فاجمعت صدقه. وصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم قادما، وكان إذا قدم من سفر بدا بالمسجد، فركع فيه ركعتين، ثم جلس للناس. فلما فعل ذلك، جاءه المتخلفون، فطفقوا يعتذرون إليه، ويحلفون له، وكانوا بضعة وثمانين رجلا، فقبل منهم رسول الله صلى الله عليه وسلم علانيتهم، ويستغفر لهم، ويكل سرائرهم إلى الله تبارك وتعالى، حتى جئت، فلما سلمت عليه تبسم تبسم المغضب، ثم قال لي:" تعال"، فجئت امشي حتى جلست بين يديه، فقال لي:" ما خلفك، الم تكن قد استمر ظهرك؟" , قال: فقلت: يا رسول الله، إني لو جلست عند غيرك من اهل الدنيا لرايت اني اخرج من سخطته بعذر، لقد اعطيت جدلا، ولكنه والله لقد علمت لئن حدثتك اليوم حديث كذب ترضى عني به ليوشكن الله تعالى يسخطك علي، ولئن حدثتك اليوم بصدق تجد علي فيه، إني لارجو قرة عيني عفوا من الله تبارك وتعالى، والله ما كان لي عذر، والله ما كنت قط افرغ ولا ايسر مني حين تخلفت عنك. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اما هذا فقد صدق، فقم حتى يقضي الله تعالى فيك" , فقمت، وبادرت رجال من بني سلمة، فاتبعوني، فقالوا لي: والله ما علمناك كنت اذنبت ذنبا قبل هذا، ولقد عجزت ان لا تكون اعتذرت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بما اعتذر به المتخلفون، لقد كان كافيك من ذنبك استغفار رسول الله صلى الله عليه وسلم لك. قال: فوالله ما زالوا يؤنبوني حتى اردت ان ارجع، فاكذب نفسي , قال: ثم قلت لهم: هل لقي هذا معي احد؟ قالوا: نعم، لقيه معك رجلان قالا ما قلت، فقيل لهما مثل ما قيل لك. قال: فقلت لهم: من هما؟ قالوا: مرارة بن الربيع العامري، وهلال بن امية الواقفي، قال: فذكروا لي رجلين صالحين قد شهدا بدرا، لي فيهما اسوة , قال: فمضيت حين ذكروهما لي. قال: ونهى رسول الله صلى الله عليه وسلم المسلمين عن كلامنا ايها الثلاثة من بين من تخلف عنه، فاجتنبنا الناس، قال: وتغيروا لنا حتى تنكرت لي من نفسي الارض، فما هي بالارض التي كنت اعرف، فلبثنا على ذلك خمسين ليلة، فاما صاحباي فاستكانا، وقعدا في بيوتهما يبكيان , واما انا فكنت اشب القوم واجلدهم، فكنت اشهد الصلاة مع المسلمين، واطوف بالاسواق ولا يكلمني احد، وآتي رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في مجلسه بعد الصلاة، فاسلم عليه، فاقول في نفسي: حرك شفتيه برد السلام ام لا؟ ثم اصلي قريبا منه، واسارقه النظر، فإذا اقبلت على صلاتي نظر إلي، فإذا التفت نحوه اعرض، حتى إذا طال علي ذلك من هجر المسلمين، مشيت حتى تسورت حائط ابي قتادة، وهو ابن عمي واحب الناس إلي، فسلمت عليه، فوالله ما رد علي السلام، فقلت له: يا ابا قتادة، انشدك الله، هل تعلم اني احب الله ورسوله؟ قال: فسكت، قال: فعدت فنشدته، فسكت، فعدت فنشدته، فقال: الله ورسوله اعلم , ففاضت عيناي، وتوليت، حتى تسورت الجدار. فبينما انا امشي بسوق المدينة، إذا نبطي من انباط اهل الشام، ممن قدم بطعام يبيعه بالمدينة، يقول: من يدلني على كعب بن مالك , قال: فطفق الناس يشيرون له إلي حتى جاء، فدفع إلي كتابا من ملك غسان، وكنت كاتبا، فإذا فيه: اما بعد، فقد بلغنا ان صاحبك قد جفاك، ولم يجعلك الله بدار هوان ولا مضيعة، فالحق بنا نواسك. قال: فقلت: حين قراتها وهذا ايضا من البلاء , قال: فتيممت بها التنور، فسجرته بها، حتى إذا مضت اربعون ليلة من الخمسين، إذا برسول رسول الله صلى الله عليه وسلم ياتيني، فقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم يامرك ان تعتزل امراتك، قال: فقلت: اطلقها ام ماذا افعل؟ قال: بل اعتزلها فلا تقربها , قال: وارسل إلى صاحبي بمثل ذلك , قال: فقلت لامراتي: الحقي باهلك، فكوني عندهم حتى يقضي الله في هذا الامر , قال: فجاءت امراة هلال بن امية رسول الله صلى الله عليه وسلم فقالت له: يا رسول الله، إن هلالا شيخ ضائع، ليس له خادم، فهل تكره ان اخدمه؟ قال:" لا ولكن لا يقربنك"، قالت: فإنه والله ما به حركة إلى شيء، والله ما يزال يبكي من لدن ان كان من امرك ما كان إلى يومه هذا. قال: فقال لي بعض اهلي: لو استاذنت رسول الله صلى الله عليه وسلم في امراتك، فقد اذن لامراة هلال بن امية ان تخدمه , قال: فقلت: والله لا استاذن فيها رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما ادري ما يقول رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا استاذنته، وانا رجل شاب، قال: فلبثنا بعد ذلك عشر ليال كمال خمسين ليلة حين نهي عن كلامنا , قال: ثم صليت صلاة الفجر صباح خمسين ليلة على ظهر بيت من بيوتنا، فبينما انا جالس على الحال التي ذكر الله تبارك وتعالى منا، قد ضاقت علي نفسي، وضاقت علي الارض بما رحبت، سمعت صارخا اوفى على جبل سلع، يقول باعلى صوته: يا كعب بن مالك، ابشر , قال: فخررت ساجدا , وعرفت ان قد جاء فرج , وآذن رسول الله صلى الله عليه وسلم بتوبة الله تبارك وتعالى علينا حين صلى صلاة الفجر، فذهب الناس، يبشروننا وذهب قبل صاحبي يبشرون، وركض إلي رجل فرسا، وسعى ساع من اسلم، واوفى الجبل، فكان الصوت اسرع من الفرس، فلما جاءني الذي سمعت صوته يبشرني، نزعت له ثوبي، فكسوتهما إياه ببشارته , والله ما املك غيرهما يومئذ، فاستعرت ثوبين، فلبستهما، فانطلقت اتامم رسول الله صلى الله عليه وسلم، يلقاني الناس فوجا فوجا يهنئوني بالتوبة، يقولون: ليهنك توبة الله عليك، حتى دخلت المسجد، فإذا رسول الله صلى الله عليه وسلم جالس في المسجد حوله الناس، فقام إلي طلحة بن عبيد الله يهرول حتى صافحني وهناني، والله ما قام إلي رجل من المهاجرين غيره. قال: فكان كعب لا ينساها لطلحة. قال كعب: فلما سلمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال وهو يبرق وجهه من السرور:" ابشر بخير يوم مر عليك منذ ولدتك امك"، قال: قلت: امن عندك يا رسول الله ام من عند الله؟ قال:" لا، بل من عند الله". قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا سر استنار وجهه كانه قطعة قمر حتى يعرف ذلك منه. قال: فلما جلست بين يديه قال: قلت: يا رسول الله، إن من توبتي ان انخلع من مالي صدقة إلى الله تعالى وإلى رسوله , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " امسك بعض مالك، فهو خير لك"، قال: فقلت: إني امسك سهمي الذي بخيبر، قال: فقلت: يا رسول الله، إنما الله تعالى نجاني بالصدق، وإن من توبتي ان لا احدث إلا صدقا ما بقيت , قال: فوالله ما اعلم احدا من المسلمين ابلاه الله من الصدق في الحديث مذ ذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، احسن مما ابلاني الله تبارك وتعالى، والله ما تعمدت كذبة مذ قلت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم إلى يومي هذا، وإني لارجو ان يحفظني فيما بقي. قال: وانزل الله تبارك وتعالى لقد تاب الله على النبي والمهاجرين والانصار الذين اتبعوه في ساعة العسرة من بعد ما كاد يزيغ قلوب فريق منهم ثم تاب عليهم إنه بهم رءوف رحيم وعلى الثلاثة الذين خلفوا حتى إذا ضاقت عليهم الارض بما رحبت وضاقت عليهم انفسهم وظنوا ان لا ملجا من الله إلا إليه ثم تاب عليهم ليتوبوا إن الله هو التواب الرحيم يايها الذين آمنوا اتقوا الله وكونوا مع الصادقين سورة التوبة آية 117 - 119 قال كعب: فوالله ما انعم الله تبارك وتعالى علي من نعمة قط بعد ان هداني اعظم في نفسي من صدقي رسول الله صلى الله عليه وسلم يومئذ ان لا اكون كذبته، فاهلك كما هلك الذين كذبوه حين كذبوه، فإن الله تبارك وتعالى قال للذين كذبوه حين كذبوه شر ما يقال لاحد، فقال الله تعالى: سيحلفون بالله لكم إذا انقلبتم إليهم لتعرضوا عنهم فاعرضوا عنهم إنهم رجس وماواهم جهنم جزاء بما كانوا يكسبون يحلفون لكم لترضوا عنهم فإن ترضوا عنهم فإن الله لا يرضى عن القوم الفاسقين سورة التوبة آية 95 - 96. قال: وكنا خلفنا ايها الثلاثة عن امر اولئك الذين قبل منهم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين حلفوا، فبايعهم واستغفر لهم، فارجا رسول الله صلى الله عليه وسلم امرنا حتى قضى الله تعالى، فبذلك قال الله تعالى: وعلى الثلاثة الذين خلفوا سورة التوبة آية 118 وليس تخليفه إيانا وإرجاؤه امرنا الذي ذكر مما خلفنا بتخلفنا عن الغزو، وإنما هو عمن حلف له واعتذر إليه، فقبل منه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي الزُّهْرِيِّ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَمِّهِ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ , فَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَيْرِهَا قَطُّ إِلَّا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ تَخَلَّفْتُ فِي غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَلَمْ يُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْهَا، إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ عيرَ قُرَيْشٍ، حَتَّى جَمَعَ اللَّهُ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ عَدُوِّهِمْ عَلَى غَيْرِ مِيعَادٍ، وَلَقَدْ شَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ حِينَ تَوَافَقْنَا عَلَى الْإِسْلَامِ، وَمَا أُحِبُّ أَنَّ لِي بِهَا مَشْهَدَ بَدْرٍ، وَإِنْ كَانَتْ بَدْرٌ أَذْكَرَ فِي النَّاسِ مِنْهَا وَأَشْهَرَ , وَكَانَ مِنْ خَبَرِي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ لِأَنِّي لَمْ أَكُنْ قَطُّ أَقْوَى وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْهُ فِي تِلْكَ الْغَزَاةِ، وَاللَّهِ مَا جَمَعْتُ قَبْلَهَا رَاحِلَتَيْنِ قَطُّ، حَتَّى جَمَعْتُهَا فِي تِلْكَ الْغَزَاةِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَلَّمَا يُرِيدُ غَزَاةً يَغْزُوهَا إِلَّا وَرَّى بِغَيْرِهَا، حَتَّى كَانَتْ تِلْكَ الْغَزَاةُ، فَغَزَاهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرٍّ شَدِيدٍ، وَاسْتَقْبَلَ سَفَرًا بَعِيدًا وَمَفَازًا، وَاسْتَقْبَلَ عَدُوًّا كَثِيرًا، فَجَلَا لِلْمُسْلِمِينَ أَمْرَهُ، لِيَتَأَهَّبُوا أُهْبَةَ عَدُوِّهِمْ، فَأَخْبَرَهُمْ بِوَجْهِهِ الَّذِي يُرِيدُ، وَالْمُسْلِمُونَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَثِيرٌ، لَا يَجْمَعُهُمْ كِتَابُ حَافِظٍ يُرِيدُ الدِّيوَانَ. فَقَالَ كَعْبٌ: فَقَلَّ رَجُلٌ يُرِيدُ يَتَغَيَّبُ إِلَّا ظَنَّ أَنَّ ذَلِكَ سَيُخْفَى لَهُ، مَا لَمْ يَنْزِلْ فِيهِ وَحْيٌ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ. وَغَزَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِلْكَ الْغَزْوَةَ حِينَ طَابَتْ الثِّمَارُ وَالظِّلُّ، وَأَنَا إِلَيْهَا أَصْعَرُ , فَتَجَهَّزَ إِلَيْهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُؤْمِنُونَ مَعَهُ، وَطَفِقْتُ أَغْدُو لِكَيْ أَتَجَهَّزَ مَعَهُ، فَأَرْجِعَ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي أَنَا قَادِرٌ عَلَى ذَلِكَ إِذَا أَرَدْتُ , فَلَمْ يَزَلْ كَذَلِكَ يَتَمَادَى بِي حَتَّى شَمَّرَ بِالنَّاسِ الْجِدُّ، فَأَصْبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَادِيًا وَالْمُسْلِمُونَ مَعَهُ، وَلَمْ أَقْضِ مِنْ جَهَازِي شَيْئًا، فَقُلْتُ: الْجَهَازُ بَعْدَ يَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ، ثُمَّ أَلْحَقُهُمْ، فَغَدَوْتُ بَعْدَ مَا فَصَلُوا لِأَتَجَهَّزَ، فَرَجَعْتُ وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا مِنْ جَهَازِي، ثُمَّ غَدَوْتُ فَرَجَعْتُ، وَلَمْ أَقْضِ شَيْئًا، فَلَمْ يَزَلْ ذَلِكَ يَتَمَادَى بِي حَتَّى أَسْرَعُوا، وَتَفَارَطَ الْغَزْوُ، فَهَمَمْتُ أَنْ أَرْتَحِلَ فَأُدْرِكَهُمْ، وَلَيْتَ أَنِّي فَعَلْتُ، ثُمَّ لَمْ يُقَدَّرْ ذَلِكَ لِي، فَطَفِقْتُ، إِذَا خَرَجْتُ فِي النَّاسِ بَعْدَ خُرُوجِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَطُفْتُ فِيهِمْ يَحْزُنُنِي أَنْ لَا أَرَى إِلَّا رَجُلًا مَغْمُوصًا عَلَيْهِ فِي النِّفَاقِ، أَوْ رَجُلًا مِمَّنْ عَذَرَهُ اللَّهُ، وَلَمْ يَذْكُرْنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَلَغَ تَبُوكَ , فَقَالَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي الْقَوْمِ بِتَبُوكَ:" مَا فَعَلَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ؟" , قَالَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ: حَبَسَهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ بُرْدَاهُ وَالنَّظَرُ فِي عِطْفَيْهِ، فَقَالَ لَهُ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ: بِئْسَمَا قُلْتَ، وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا عَلِمْنَا عَلَيْهِ إِلَّا خَيْرًا , فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: فَلَمَّا بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَوَجَّهَ قَافِلًا مِنْ تَبُوكَ حَضَرَنِي بَثِّي، فَطَفِقْتُ أَتَفَكَّرُ الْكَذِبَ، وَأَقُولُ: بِمَاذَا أَخْرُجُ مِنْ سَخَطِهِ غَدًا؟ أَسْتَعِينُ عَلَى ذَلِكَ كُلَّ ذِي رَأْيٍ مِنْ أَهْلِي، فَلَمَّا قِيلَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَظَلَّ قَادِمًا، زَاحَ عَنِّي الْبَاطِلُ، وَعَرَفْتُ أَنِّي لَنْ أَنْجُوَ مِنْهُ بِشَيْءٍ أَبَدًا، فَأَجْمَعْتُ صِدْقَهُ. وَصَبَّحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَادِمًَا، وَكَانَ إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بَدَأَ بِالْمَسْجِدِ، فَرَكَعَ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ جَلَسَ لِلنَّاسِ. فَلَمَّا فَعَلَ ذَلِكَ، جَاءَهُ الْمُتَخَلِّفُونَ، فَطَفِقُوا يَعْتَذِرُونَ إِلَيْهِ، وَيَحْلِفُونَ لَهُ، وَكَانُوا بِضْعَةً وَثَمَانِينَ رَجُلًا، فَقَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَانِيَتَهُمْ، وَيَسْتَغْفِرُ لَهُمْ، وَيَكِلُ سَرَائِرَهُمْ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، حَتَّى جِئْتُ، فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ تَبَسَّمَ تَبَسُّمَ الْمُغْضَبِ، ثُمَّ قَالَ لِي:" تَعَالَ"، فَجِئْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ لِي:" مَا خَلَّفَكَ، أَلَمْ تَكُنْ قَدْ اسْتَمَرَّ ظَهْرُكَ؟" , قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا لَرَأَيْتُ أَنِّي أَخْرُجُ مِنْ سَخْطَتِهِ بِعُذْرٍ، لَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلًا، وَلَكِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتُ لَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ حَدِيثَ كَذِبٍ تَرْضَى عَنِّي بِهِ لَيُوشِكَنَّ اللَّهُ تَعَالَى يُسْخِطُكَ عَلَيَّ، وَلَئِنْ حَدَّثْتُكَ الْيَوْمَ بِصِدْقٍ تَجِدُ عَلَيَّ فِيهِ، إِنِّي لَأَرْجُو قُرَّةَ عَيْنِي عَفْوًا مِنَ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَاللَّهِ مَا كَانَ لِي عُذْرٌ، وَاللَّهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَفْرَغَ وَلَا أَيْسَرَ مِنِّي حِينَ تَخَلَّفْتُ عَنْكَ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَمَّا هَذَا فَقَدْ صَدَقَ، فَقُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ تَعَالَى فِيكَ" , فَقُمْتُ، وَبَادَرَتْ رِجَالٌ مِنْ بَنِي سَلِمَةَ، فَاتَّبَعُونِي، فَقَالُوا لِي: وَاللَّهِ مَا عَلِمْنَاكَ كُنْتَ أَذْنَبْتَ ذَنْبًا قَبْلَ هَذَا، وَلَقَدْ عَجَزْتَ أَنْ لَا تَكُونَ اعْتَذَرْتَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا اعْتَذَرَ بِهِ الْمُتَخَلِّفُونَ، لَقَدْ كَانَ كَافِيَكَ مِنْ ذَنْبِكَ اسْتِغْفَارُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَ. قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا زَالُوا يُؤَنِّبُونِي حَتَّى أَرَدْتُ أَنْ أَرْجِعَ، فَأُكَذِّبَ نَفْسِي , قَالَ: ثُمَّ قُلْتُ لَهُمْ: هَلْ لَقِيَ هَذَا مَعِي أَحَدٌ؟ قَالُوا: نَعَمْ، لَقِيَهُ مَعَكَ رَجُلَانِ قَالَا مَا قُلْتَ، فَقِيلَ لَهُمَا مِثْلُ مَا قِيلَ لَكَ. قَالَ: فَقُلْتُ لَهُمْ: مَنْ هُمَا؟ قَالُوا: مُرَارَةُ بْنُ الرَّبِيعِ الْعَامِرِيُّ، وَهِلَالُ بْنُ أُمَيَّةَ الْوَاقِفِيُّ، قَالَ: فَذَكَرُوا لِي رَجُلَيْنِ صَالِحَيْنِ قَدْ شَهِدَا بَدْرًا، لِي فِيهِمَا أُسْوَةٌ , قَالَ: فَمَضَيْتُ حِينَ ذَكَرُوهُمَا لِي. قَالَ: وَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُسْلِمِينَ عَنْ كَلَامِنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ مِنْ بَيْنِ مَنْ تَخَلَّفَ عَنْهُ، فَاجْتَنَبَنَا النَّاسُ، قَالَ: وَتَغَيَّرُوا لَنَا حَتَّى تَنَكَّرَتْ لِي مِنْ نَفْسِي الْأَرْضُ، فَمَا هِيَ بِالْأَرْضِ الَّتِي كُنْتُ أَعْرِفُ، فَلَبِثْنَا عَلَى ذَلِكَ خَمْسِينَ لَيْلَةً، فَأَمَّا صَاحِبَايَ فَاسْتَكَانَا، وَقَعَدَا فِي بُيُوتِهِمَا يَبْكِيَانِ , وَأَمَّا أَنَا فَكُنْتُ أَشَبَّ الْقَوْمِ وَأَجْلَدَهُمْ، فَكُنْتُ أَشْهَدُ الصَّلَاةَ مَعَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَطُوفُ بِالْأَسْوَاقِ وَلَا يُكَلِّمُنِي أَحَدٌ، وَآتِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي مَجْلِسِهِ بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَأُسَلِّمُ عَلَيْهِ، فَأَقُولُ فِي نَفْسِي: حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَدِّ السَّلَامِ أَمْ لَا؟ ثُمَّ أُصَلِّي قَرِيبًا مِنْهُ، وَأُسَارِقُهُ النَّظَرَ، فَإِذَا أَقْبَلْتُ عَلَى صَلَاتِي نَظَرَ إِلَيَّ، فَإِذَا الْتَفَتُّ نَحْوَهُ أَعْرَضَ، حَتَّى إِذَا طَالَ عَلَيَّ ذَلِكَ مِنْ هَجْرِ الْمُسْلِمِينَ، مَشَيْتُ حَتَّى تَسَوَّرْتُ حَائِطَ أَبِي قَتَادَةَ، وَهُوَ ابْنُ عَمِّي وَأَحَبُّ النَّاسِ إِلَيَّ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَوَاللَّهِ مَا رَدَّ عَلَيَّ السَّلَامَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا قَتَادَةَ، أَنْشُدُكَ اللَّهَ، هَلْ تَعْلَمُ أَنِّي أُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ؟ قَالَ: فَسَكَتَ، قَالَ: فَعُدْتُ فَنَشَدْتُهُ، فَسَكَتَ، فَعُدْتُ فَنَشَدْتُهُ، فَقَالَ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , فَفَاضَتْ عَيْنَايَ، وَتَوَلَّيْتُ، حَتَّى تَسَوَّرْتُ الْجِدَارَ. فَبَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي بِسُوقِ الْمَدِينَةِ، إِذَا نَبَطِيٌّ مِنْ أَنْبَاطِ أَهْلِ الشَّامِ، مِمَّنْ قَدِمَ بِطَعَامٍ يَبِيعُهُ بِالْمَدِينَةِ، يَقُولُ: مَنْ يَدُلُّنِي عَلَى كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ , قَالَ: فَطَفِقَ النَّاسُ يُشِيرُونَ لَهُ إِلَيَّ حَتَّى جَاءَ، فَدَفَعَ إِلَيَّ كِتَابًا مِنْ مَلِكِ غَسَّانَ، وَكُنْتُ كَاتِبًا، فَإِذَا فِيهِ: أَمَّا بَعْدُ، فَقَدْ بَلَغَنَا أَنَّ صَاحِبَكَ قَدْ جَفَاكَ، وَلَمْ يَجْعَلْكَ اللَّهُ بِدَارِ هَوَانٍ وَلَا مَضْيَعَةٍ، فَالْحَقْ بِنَا نُوَاسِكَ. قَالَ: فَقُلْتُ: حِينَ قَرَأْتُهَا وَهَذَا أَيْضًا مِنَ الْبَلَاءِ , قَالَ: فَتَيَمَّمْتُ بِهَا التَّنُّورَ، فَسَجَرْتُهُ بِهَا، حَتَّى إِذَا مَضَتْ أَرْبَعُونَ لَيْلَةً مِنَ الْخَمْسِينَ، إِذَا بِرَسُولِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِينِي، فَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُكَ أَنْ تَعْتَزِلَ امْرَأَتَكَ، قَالَ: فَقُلْتُ: أُطَلِّقُهَا أَمْ مَاذَا أَفْعَلُ؟ قَالَ: بَلْ اعْتَزِلْهَا فَلَا تَقْرَبْهَا , قَالَ: وَأَرْسَلَ إِلَى صَاحِبَيَّ بِمِثْلِ ذَلِكَ , قَالَ: فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ، فَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِي هَذَا الْأَمْرِ , قَالَ: فَجَاءَتْ امْرَأَةُ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ هِلَالًا شَيْخٌ ضَائِعٌ، لَيْسَ لَهُ خَادِمٌ، فَهَلْ تَكْرَهُ أَنْ أَخْدُمَهُ؟ قَالَ:" لَا وَلَكِنْ لَا يَقْرَبَنَّكِ"، قَالَتْ: فَإِنَّهُ وَاللَّهِ مَا بِهِ حَرَكَةٌ إِلَى شَيْءٍ، وَاللَّهِ مَا يَزَالُ يَبْكِي مِنْ لَدُنْ أَنْ كَانَ مِنْ أَمْرِكَ مَا كَانَ إِلَى يَوْمِهِ هَذَا. قَالَ: فَقَالَ لِي بَعْضُ أَهْلِي: لَوْ اسْتَأْذَنْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي امْرَأَتِكَ، فَقَدْ أَذِنَ لِامْرَأَةِ هِلَالِ بْنِ أُمَيَّةَ أَنْ تَخْدُمَهُ , قَالَ: فَقُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَسْتَأْذِنُ فِيهَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا أَدْرِي مَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اسْتَأْذَنْتُهُ، وَأَنَا رَجُلٌ شَابٌّ، قَالَ: فَلَبِثْنَا بَعْدَ ذَلِكَ عَشْرَ لَيَالٍ كَمَالُ خَمْسِينَ لَيْلَةً حِينَ نُهِيَ عَنْ كَلَامِنَا , قَالَ: ثُمَّ صَلَّيْتُ صَلَاةَ الْفَجْرِ صَبَاحَ خَمْسِينَ لَيْلَةً عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِنَا، فَبَيْنَمَا أَنَا جَالِسٌ عَلَى الْحَالِ الَّتِي ذَكَرَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى مِنَّا، قَدْ ضَاقَتْ عَلَيَّ نَفْسِي، وَضَاقَتْ عَلَيَّ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ، سَمِعْتُ صَارِخًا أَوْفَى عَلَى جَبَلِ سَلْعٍ، يَقُولُ بِأَعْلَى صَوْتِهِ: يَا كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، أَبْشِرْ , قَالَ: فَخَرَرْتُ سَاجِدًا , وَعَرَفْتُ أَنْ قَدْ جَاءَ فَرَجٌ , وَآذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِتَوْبَةِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى صَلَاةَ الْفَجْرِ، فَذَهَبَ النَّاسُ، يُبَشِّرُونَنَا وَذَهَبَ قِبَلَ صَاحِبَيَّ يُبَشِّرُونَ، وَرَكَضَ إِلَيَّ رَجُلٌ فَرَسًا، وَسَعَى سَاعٍ مِنْ أَسْلَمَ، وَأَوْفَى الْجَبَلَ، فَكَانَ الصَّوْتُ أَسْرَعَ مِنَ الْفَرَسِ، فَلَمَّا جَاءَنِي الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَهُ يُبَشِّرُنِي، نَزَعْتُ لَهُ ثَوْبَيَّ، فَكَسَوْتُهُمَا إِيَّاهُ بِبِشَارَتِهِ , وَاللَّهِ مَا أَمْلِكُ غَيْرَهُمَا يَوْمَئِذٍ، فَاسْتَعَرْتُ ثَوْبَيْنِ، فَلَبِسْتُهُمَا، فَانْطَلَقْتُ أَتَأَمَّمُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَلْقَانِي النَّاسُ فَوْجًا فَوْجًا يُهَنِّئُونِي بِالتَّوْبَةِ، يَقُولُونَ: لِيَهْنِكَ تَوْبَةُ اللَّهِ عَلَيْكَ، حَتَّى دَخَلْتُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي الْمَسْجِدِ حَوْلَهُ النَّاسُ، فَقَامَ إِلَيَّ طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ يُهَرْوِلُ حَتَّى صَافَحَنِي وَهَنَّأَنِي، وَاللَّهِ مَا قَامَ إِلَيَّ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ غَيْرَهُ. قَالَ: فَكَانَ كَعْبٌ لَا يَنْسَاهَا لِطَلْحَةَ. قَالَ كَعْبٌ: فَلَمَّا سَلَّمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ وَهُوَ يَبْرُقُ وَجْهُهُ مِنَ السُّرُورِ:" أَبْشِرْ بِخَيْرِ يَوْمٍ مَرَّ عَلَيْكَ مُنْذُ وَلَدَتْكَ أُمُّكَ"، قَالَ: قُلْتُ: أَمِنْ عِنْدِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ؟ قَالَ:" لَا، بَلْ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ". قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سُرَّ اسْتَنَارَ وَجْهُهُ كَأَنَّهُ قِطْعَةُ قَمَرٍ حَتَّى يُعْرَفَ ذَلِكَ مِنْهُ. قَالَ: فَلَمَّا جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي صَدَقَةً إِلَى اللَّهِ تَعَالَى وَإِلَى رَسُولِهِ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَمْسِكْ بَعْضَ مَالِكَ، فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ"، قَالَ: فَقُلْتُ: إِنِّي أُمْسِكُ سَهْمِي الَّذِي بِخَيْبَرَ، قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّمَا اللَّهُ تَعَالَى نَجَّانِي بِالصِّدْقِ، وَإِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ لَا أُحَدِّثَ إِلَّا صِدْقًا مَا بَقِيتُ , قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ أَحَدًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ أَبْلَاهُ اللَّهُ مِنَ الصِّدْقِ فِي الْحَدِيثِ مُذْ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَحْسَنَ مِمَّا أَبْلَانِي اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى، وَاللَّهِ مَا تَعَمَّدْتُ كَذِبَةً مُذْ قُلْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى يَوْمِي هَذَا، وَإِنِّي لَأَرْجُو أَنْ يَحْفَظَنِي فِيمَا بَقِيَ. قَالَ: وَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لَقَدْ تَابَ اللَّهُ عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنْصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِنْ بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَءُوفٌ رَحِيمٌ وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ سورة التوبة آية 117 - 119 قَالَ كَعْبٌ: فَوَاللَّهِ مَا أَنْعَمَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى عَلَيَّ مِنْ نِعْمَةٍ قَطُّ بَعْدَ أَنْ هَدَانِي أَعْظَمَ فِي نَفْسِي مِنْ صِدْقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَئِذٍ أَنْ لَا أَكُونَ كَذَبْتُهُ، فَأَهْلِكُ كَمَا هَلَكَ الَّذِينَ كَذَبُوهُ حِينَ كَذَبُوهُ، فَإِنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى قَالَ لِلَّذِينَ كَذَبُوهُ حِينَ كَذَبُوهُ شَرَّ مَا يُقَالُ لِأَحَدٍ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى: سَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَكُمْ إِذَا انْقَلَبْتُمْ إِلَيْهِمْ لِتُعْرِضُوا عَنْهُمْ فَأَعْرِضُوا عَنْهُمْ إِنَّهُمْ رِجْسٌ وَمَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ يَحْلِفُونَ لَكُمْ لِتَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنْ تَرْضَوْا عَنْهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ لا يَرْضَى عَنِ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ سورة التوبة آية 95 - 96. قَالَ: وَكُنَّا خُلِّفْنَا أَيُّهَا الثَّلَاثَةُ عَنْ أَمْرِ أُولَئِكَ الَّذِينَ قَبِلَ مِنْهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَلَفُوا، فَبَايَعَهُمْ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمْ، فَأَرْجَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَنَا حَتَّى قَضَى اللَّهُ تَعَالَى، فَبِذَلِكَ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: وَعَلَى الثَّلاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا سورة التوبة آية 118 وَلَيْسَ تَخْلِيفُهُ إِيَّانَا وَإِرْجَاؤُهُ أَمْرَنَا الَّذِي ذَكَرَ مِمَّا خُلِّفْنَا بِتَخَلُّفِنَا عَنِ الْغَزْوِ، وَإِنَّمَا هُوَ عَمَّنْ حَلَفَ لَهُ وَاعْتَذَرَ إِلَيْهِ، فَقَبِلَ مِنْهُ.
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سوائے غزوہ تبوک کے اور کسی جہاد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے نہیں رہا ہاں غزوہ بدر میں سے رہ گیا تھا۔ اور بدر میں شریک نہ ہو نے والوں پر کوئی عتاب بھی نہیں کیا گیا تھا کیونکہ رسول اللہ صرف قریش کے قافلہ کو روکنے کے ارادے سے تشریف لے گئے تھے بغیر لڑائی کے ارادہ کے اللہ نے مسلمانوں کی دشمنوں سے مڈ بھیڑ کرادی تھی میں بیعت عقبہ کی رات کو بھی حضور کے ساتھ موجود تھا جہاں ہم سب نے مل کر اسلام کے عہد کو مضبوط کیا تھا اور میں یہ چاہتا بھی نہیں ہوں کہ اس بیعت کے عوض میں جنگ بدر میں حاضر ہوتا اگرچہ بدر کی جنگ لوگوں میں اس سے زیادہ مشہو ر ہے۔ میرا قصہ یہ ہے کہ جس قدر میں اس جہاد کے وقت مالدار اور فراخ دست تھا اتنا کبھی نہیں ہوا اللہ کی قسم اس جنگ کے لئے میرے پاس دو اونٹنیاں تھیں اس سے پہلے کسی جنگ میں میرے پاس دو سواریاں نہ تھیں رسول اللہ کا دستور تھا کہ اگر کسی جنگ کا ارادہ فرماتے تو دوسرائی لڑائی کہہ کر اصل لڑائی کو چھپاتے تھے لیکن جب جنگ تبوک کا زمانہ آیا تو چونکہ سخت گرمی تھی ایک لمبا بےآب وگیاہ بیابان طے کرنا تھا اور کثیر دشمنوں کا مقابلہ کرنا تھا اس لئے آپ نے مسلمانوں کے سامنے کھول کر بیان کیا کہ جنگ کے لے تیاری کر لیں اور حضور کا جو ارادہ تھا لوگوں سے کہہ دیا مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی اور کوئی رجسٹرار بھی نہیں تھا جس میں ناموں کا اندارج کیا جاتا جو شخص جنگ میں شریک نہ ہو نا چاہتا وہ سمجھ لیتا تھا کہ جب تک میرے متعلق وحی نازل نہ کی گئی میری حالت چھپی رہے گی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جہاد کا ارادہ اس وقت کیا تھا جب میوہ جات پختہ ہو گئے تھے اور درختوں کے سائے کافی ہو گئے تھے چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور سب مسلمانوں نے جنگ کی تیاری کی میں بھی روزانہ صبح کو مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی تیاری کرنے کے ارادہ سے جاتا لیکن شام کو بغیر کچھ کام سرانجام دیئے واپس آجاتا میں اپنے دل میں خیال کرتا کہ وقت کافی ہے میں یہ کام پھر کر سکتا ہوں اسی لیت ولعل میں مدت گزر گئی اور مسلمانوں نے سخت کوشش کر کے سامان درست کر لیا اور ایک روز صبح رسول اللہ مسلمانوں کے ہمراہ چل دیئے اور میں اس وقت تک کچھ تیاری نہ کر سکا لیکن دل میں خیال کر لیا کہ ایک دوروز میں سامان درست کر کے مسلمانوں سے جاملوں گا۔ جب دوسرے روز مسلمان میدینہ سے دور نکل گئے تو سامان درست کرنے کے ارادہ سے چلا لیکن بغیر کچھ کام کئے واپس آگیا میری برابر یہی سستی رہی اور مسلمان جلدی جلدی بہت آگے بڑھ گئے میں نے جاپہنچے کا ارادہ کیا لیکن اللہ کا حکم نہ تھا کاش میں مسلمانوں سے جا کر مل گیا ہوتا رسول اللہ کے تشریف لے جانے کے بعد اب جو میں کہیں باہر نکل کر لوگوں سے ملتا تھا اور ادھرادھر گھومتا تھا تو یہ دیکھ کر مجھے غم ہوتا تھا کہ سوائے منافقوں کے اور ان کمزور لوگوں کے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معذور سمجھ کر چھوڑ دیا تھا اور کوئی نظر نہ آتا تھا۔ راستہ میں رسول اللہ کو میری کہیں یاد نہ آئی جب تبوک میں حضور پہنچ گئے تو لوگوں کے سامنے بیٹھ کر فرمایا: یہ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے کیا حرکت کی ہے ایک شخص نے جواب دیا رسول اللہ! وپنی دونوں چادروں کو دیکھتا رہا اور اسی وجہ سے نہ آیا معاذ بن جبل بولے اللہ کی قسم تو نے بری بات کہی ہے یا رسول اللہ! ہم کو اس کی نیکی کا احتمال ہے حضور خاموش ہو گئے۔ کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب مجھے اطلاع ملی کہ حضور واپس آرہے ہیں تو مجھے فکر پیداہوئی کہ اور جھوٹ بولنے کا ارادہ کیا اور دل میں سوچا کہ کس ترکیب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی سے بچا جائے گھر میں تمام اہل رائے سے مشورہ کیا اتنے میں معلوم ہوا کہ رسول اللہ قریب ہی تشریف لاچکے ہیں میں نے تمام جھوٹ بولنے کے خیال دل سے نکال دیا میں سمجھ گیا کہ جھوٹ کی آمیزش سے حضور کی ناراضگی سے نہیں بچ سکتا لہذا سچ بولنے کا پختہ ارادہ کر لیا صبح کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور آپ کا دستور تھا کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو شروع میں مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھ لیتے تھے اور پھر وہیں لوگوں سے گفتگو کرنے بیٹھ جاتے تھے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساہی کیا اور جنگ سے رہ جانے والے لوگ قسمیں کھا کھا کر عذر بیان کر ن لگے ان سب کی تعداد کچھ اوپر اسی تھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کے ظاہر عذ رکوقبول کر لیا اور بیعت کر لی ان کے لئے دعائے مغفرت فرمائی اور ان کی اندرونی حالت کو اللہ کے سپرد کر دیا۔ سب کے بعد میں حاضر ہوا سلام کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کی حالت والاتبسم کیا اور ارشاد فرمایا: قریب آجاؤ میں قریب ہو گیا یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جا کر بیٹھ گیا پھر فرمایا: تم کیوں رہ گ

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2757، م: 2769
حدیث نمبر: 15790
Save to word اعراب
حدثنا حجاج , قال: حدثنا ليث بن سعد ، قال: حدثني عقيل بن خالد ، عن ابن شهاب ، انه قال: اخبرني عبد الرحمن بن عبد الله بن كعب بن مالك ، ان عبد الله بن كعب بن مالك وكان قائد كعب من بنيه حين عمي، قال: سمعت كعب بن مالك يحدث حديثه حين تخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة تبوك، قال كعب بن مالك: لم اتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم في غزوة غزاها قط إلا في غزوة تبوك، غير اني كنت تخلفت عن غزوة بدر، ولم يعاتب احدا تخلف عنها، لانه إنما خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد العير التي كانت لقريش كان فيها ابو سفيان بن حرب ونفر من قريش، ثم قال:" تعال" , فجئت امشي حتى جلست بين يديه، فقال:" ما خلفك، الم تكن قد ابتعت ظهرك؟" , قلت: بلى يا رسول الله، إني والله لو جلست عند غيرك من اهل الدنيا، لرايت اني ساخرج من سخطته بعذر، ولقد اعطيت جدلا , فذكر الحديث , وقال فيه: إني لارجو عفو الله. وقال: فقلت لامراتي: الحقي باهلك، فكوني عندهم حتى يقضي الله في هذا الامر , وقال: سمعت صوت صارخ اوفى على اعلى جبل سلع باعلى صوته يا كعب بن مالك، ابشر , قال: فخررت ساجدا، وعرفت انه قد جاء فرج، وآذن رسول الله صلى الله عليه وسلم الناس بالتوبة علينا حين صلى صلاة الفجر , فذكر معنى حديث ابن اخي ابن شهاب، وقال فيه: واقول في نفسي: هل حرك شفتيه برد السلام؟.حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ قَالَ: أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ وَكَانَ قَائِدَ كَعْبٍ مِنْ بَنِيهِ حِينَ عَمِيَ، قَالَ: سَمِعْتُ كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ يُحَدِّثُ حَدِيثَهُ حِينَ تَخَلَّفَ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، قَالَ كَعْبُ بْنُ مَالِكٍ: لَمْ أَتَخَلَّفْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزْوَةٍ غَزَاهَا قَطُّ إِلَّا فِي غَزْوَةِ تَبُوكَ، غَيْرَ أَنِّي كُنْتُ تَخَلَّفْتُ عَنْ غَزْوَةِ بَدْرٍ، وَلَمْ يُعَاتِبْ أَحَدًا تَخَلَّفَ عَنْهَا، لِأَنَّهُ إِنَّمَا خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُرِيدُ الْعِيرَ الَّتِي كَانَتْ لِقُرَيْشٍ كَانَ فِيهَا أَبُو سُفْيَانَ بْنُ حَرْبٍ وَنَفَرٌ مِنْ قُرَيْشٍ، ثُمَّ قَالَ:" تَعَالَ" , فَجِئْتُ أَمْشِي حَتَّى جَلَسْتُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" مَا خَلَّفَكَ، أَلَمْ تَكُنْ قَدْ ابْتَعْتَ ظَهْرَكَ؟" , قُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي وَاللَّهِ لَوْ جَلَسْتُ عِنْدَ غَيْرِكَ مِنْ أَهْلِ الدُّنْيَا، لَرَأَيْتُ أَنِّي سَأَخْرُجُ مِنْ سَخْطَتِهِ بِعُذْرٍ، وَلَقَدْ أُعْطِيتُ جَدَلًا , فَذَكَرَ الْحَدِيثَ , وَقَالَ فِيهِ: إِنِّي لَأَرْجُو عَفْوَ اللَّهِ. وَقَالَ: فَقُلْتُ لِامْرَأَتِي: الْحَقِي بِأَهْلِكِ، فَكُونِي عِنْدَهُمْ حَتَّى يَقْضِيَ اللَّهُ فِي هَذَا الْأَمْرِ , وَقَالَ: سَمِعْتُ صَوْتَ صَارِخٍ أَوْفَى عَلَى أَعْلَى جَبَلِ سَلْعٍ بِأَعْلَى صَوْتِهِ يَا كَعْبُ بْنَ مَالِكٍ، أَبْشِرْ , قَالَ: فَخَرَرْتُ سَاجِدًا، وَعَرَفْتُ أَنَّهُ قَدْ جَاءَ فَرَجٌ، وَآذَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّاسَ بِالتَّوْبَةِ عَلَيْنَا حِينَ صَلَّى صَلَاةَ الْفَجْرِ , فَذَكَرَ مَعْنَى حَدِيثِ ابْنِ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ، وَقَالَ فِيهِ: وَأَقُولُ فِي نَفْسِي: هَلْ حَرَّكَ شَفَتَيْهِ بِرَدِّ السَّلَامِ؟.

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2757، م: 2769
حدیث نمبر: 15791
Save to word اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حسن ، قال: حدثنا ابن لهيعة ، قال: حدثنا عبد الرحمن الاعرج ، عن عبد الله بن كعب ، عن كعب بن مالك انه كان له مال على عبد الله ابي حدرد الاسلمي، فلقيه فلزمه، حتى ارتفعت الاصوات، فمر بهما رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" يا كعب" , فاشار بيده كانه يقول: النصف , فاخذ نصفا مما عليه، وترك النصف.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَسَنٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ كَعْبٍ ، عَنْ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّهُ كَانَ لَهُ مَالٌ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ أَبِي حَدْرَدٍ الْأَسْلَمِيِّ، فَلَقِيَهُ فَلَزِمَهُ، حَتَّى ارْتَفَعَتْ الْأَصْوَاتُ، فَمَرَّ بِهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" يَا كَعْبُ" , فَأَشَارَ بِيَدِهِ كَأَنَّهُ يَقُولُ: النِّصْفُ , فَأَخَذَ نِصْفًا مِمَّا عَلَيْهِ، وَتَرَكَ النِّصْفَ.
سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا عبداللہ بن ابی حدود پر ان کا کچھ قرض تھا ایک مرتبہ راستے میں ملاقات ہو گئی سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے انہیں پکڑ لیا باہمی تکرار کی وجہ سے آوازیں بلند ہو گئیں اسی اثناء میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے گزرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کر کے مجھ سے فرمایا کہ اس کا نصف قرض معاف کر دو چنانچہ انہوں نے نصف چھوڑ کر نصف مال لے لیا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2757، م: 2769

Previous    46    47    48    49    50    51    52    53    54    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.