سیدنا ابوسعید زرقی سے مروی ہے کہ قبیلہ اشجع کے ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عزل کے متعلق پوچھا: اور کہا کہ دراصل میری بیوی ابھی دودھ پلا رہی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس چیز کا رحم میں ہو نا مقدر ہو چکا وہ ہو کر رہے گی۔
حكم دارالسلام: صحيح بشواهده، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عبدالله بن مرة
سیدنا حجاج اسلمی سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! دودھ پلانے والی کے حق میں کون سی چیز مجھے سبکدوش کر سکتی ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے ایک غلام یا باندی بطور تحفہ کے دیدی جائے۔
عبدالرحمن بن ابی عمرہ کے چچا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میرے نام اور کنیت کو اکٹھا نہ کیا کر و کہ ایک ہی آدمی میرا نام بھی رکھ لے اور میری کنیت بھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن حميد الاعرج ، عن محمد بن إبراهيم ، عن ابي سلمة ، عن عبد الله بن رواحة ، انه قدم من سفر ليلا، فتعجل إلى امراته، فإذا في بيته مصباح، وإذا مع امراته شيء، فاخذ السيف، فقالت امراته: إليك إليك عني، فلانة تمشطني، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فاخبره،" فنهى ان يطرق الرجل اهله ليلا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حُمَيْدٍ الْأَعْرَجِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ ، أَنَّهُ قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ لَيْلًا، فَتَعَجَّلَ إِلَى امْرَأَتِهِ، فَإِذَا فِي بَيْتِهِ مِصْبَاحٌ، وَإِذَا مَعَ امْرَأَتِهِ شَيْءٌ، فَأَخَذَ السَّيْفَ، فَقَالَتْ امْرَأَتُهُ: إِلَيْكَ إِلَيْكَ عَنِّي، فُلَانَةُ تُمَشِّطُنِي، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَهُ،" فَنَهَى أَنْ يَطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ لَيْلًا".
سیدنا عبداللہ بن رواحہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رات کے وقت وہ سفر سے واپس آئے اور اپنی بیوی کی طرف روانہ ہو گئے گھر پہنچے تو وہاں چراغ جل رہا تھا اور ان کی بیوی کے پاس کوئی تھا انہوں نے اپنی تلوار اٹھالی یہ دیکھ کر ان کی بیوی کہنے لگی کہ رکو یہ تو فلاں عورت ہے جو میرا بناؤ سنگھار کر رہی ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ کی اطلاع دی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو اچانک بلا اطلاع کسی شخص کو اپنے گھر واپس آنے سے منع کر دیا۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبوسلمة لم يسمع من عبدالله بن رواحة
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا يعمر بن بشر ، حدثنا عبد الله ، قال: اخبرنا يونس ، عن الزهري ، قال: سمعت سنان بن ابي سنان ، قال: سمعت ابا هريرة , يقول قائما في قصصه: إن اخا لكم كان لا يقول: الرفث يعني ابن رواحة ، قال: وفينا رسول الله يتلو كتابه إذا انشق معروف من الليل ساطع يبيت يجافي جنبه عن فراشه إذا استثقلت بالكافرين المضاجع ارانا الهدى بعد العمى فقلوبنا به موقنات ان ما قال واقع.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَعْمَرُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يُونُسُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ سِنَانَ بْنَ أَبِي سِنَانٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ , يَقُولُ قَائِمًا فِي قَصَصِهِ: إِنَّ أَخًا لَكُمْ كَانَ لَا يَقُولُ: الرَّفَثَ يَعْنِي ابْنَ رَوَاحَةَ ، قَالَ: وَفِينَا رَسُولُ اللَّهِ يَتْلُو كِتَابَهُ إِذَا انْشَقَّ مَعْرُوفٌ مِنَ اللَّيْلِ سَاطِعُ يَبِيتُ يُجَافِي جَنْبَهُ عَنْ فِرَاشِهِ إِذَا اسْتَثْقَلَتْ بِالْكَافِرِينَ الْمَضَاجِعُ أَرَانَا الْهُدَى بَعْدَ الْعَمَى فَقُلُوبُنَا بِهِ مُوقِنَاتٌ أَنَّ مَا قَالَ وَاقِعُ.
سنان بن ابی سنان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو کھڑے ہو کر وعظ کہنے کے دوران یہ فرماتے ہوئے سنا کہ تمہارا بھائی یعنی ابن رواحہ بےہو دہ اشعار نہیں کہتا یہ شعر اسی نے کہے ہیں کہ ہمارے درمیان اللہ کے رسول موجود ہیں جو اللہ کی کتاب ہمیں پڑھ کر سناتے ہیں جبکہ رات کی تاریکی سے چمکدار صبح جدا ہو جائے وہ رات اس طرح گزارتے ہیں کہ ان کا پہلو بستر سے دور رہتا ہے جبکہ کفار اپنے بستروں پر بوجھ پڑھ ہوتے ہیں انہوں نے گمراہی کے بعد ہمیں ہدایت کا راستہ دکھایا اور اب ہمارے دلوں کو اس بات کا یقین ہے کہ وہ جو کہتے ہیں ہو کر رہے گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد ، قال: اخبرنا بكر بن مضر ، عن ابن الهاد ، عن محمد بن إبراهيم ، عن سعيد بن الصلت ، عن سهيل ابن البيضاء ، قال: بينما نحن في سفر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا رديفه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يا سهيل ابن البيضاء"، ورفع صوته مرتين او ثلاثا، كل ذلك يجيبه سهيل، فسمع الناس صوت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فظنوا انه يريدهم، فحبس من كان بين يديه، ولحقه من كان خلفه، حتى إذا اجتمعوا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنه من شهد ان لا إله إلا الله، حرمه الله على النار، واوجب له الجنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا بَكْرُ بْنُ مُضَرَ ، عَنِ ابْنِ الْهَادِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الصَّلْتِ ، عَنْ سُهَيْلِ ابْنِ الْبَيْضَاءِ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ فِي سَفَرٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا رَدِيفُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا سُهَيْلُ ابْنَ الْبَيْضَاءِ"، وَرَفَعَ صَوْتَهُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، كُلُّ ذَلِكَ يُجِيبُهُ سُهَيْلٌ، فَسَمِعَ النَّاسُ صَوْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَظَنُّوا أَنَّهُ يُرِيدُهُمْ، فَحُبِسَ مَنْ كَانَ بَيْنَ يَدَيْهِ، وَلَحِقَهُ مَنْ كَانَ خَلْفَهُ، حَتَّى إِذَا اجْتَمَعُوا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّهُ مَنْ شَهِدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، حَرَّمَهُ اللَّهُ عَلَى النَّارِ، وَأَوْجَبَ لَهُ الْجَنَّةَ".
سیدنا سہیل بن بیضاء سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھا ہوا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دو تین مرتبہ بلند آواز سے پکار کر فرمایا: اے سہیل بن بیضاء میں ہر مرتبہ لبیک کہتارہا یہ آواز لوگوں نے بھی سنی اور وہ یہ سمجھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انہیں بھی یہ بات سنانا چاہتے ہیں چنانچہ آگے والے اپنی جگہ پر رک گئے اور پیچھے والے قریب آ گئے جب سب لوگ جمع ہو گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص لا الہ الا اللہ کی گواہی دیتا ہواللہ اس پر جہنم کی آگ کو حرام قرار دیدے گا اور اس کے لئے جنت واجب کر دے گا۔
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، سيعد بن الصلت لم يدرك سهيل ابن بيضاء
عبداللہ بن محمد بن عقیل کہتے ہیں کہ سیدنا عقیل بن ابی طالب کی شادی ہوئی اور پہلی رات کے بعد جب وہ باہر آئے تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا ہوا اور یہ نکاح اولاد کا ذریعہ بنے انہوں نے فرمایا کہ رکو یوں نہ کہو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے منع فرمایا ہے اور کہا ہے یوں کہا کر و اللہ تمہارے لئے اسے مبارک کر ے تمہیں برکتیں عطا فرمائے اور اس نکاح میں تم پر خوب برکت نازل فرمائے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، فإن عبدالله بن محمد بن عقيل لم يدرك جده
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، حدثنا يونس ، عن الحسن ان عقيل بن ابي طالب تزوج امراة من بني جشم، فدخل عليه القوم، فقالوا: بالرفاء والبنين، فقال: لا تقولوا ذاكم، قالوا: فما نقول يا ابا يزيد؟ قال:" قولوا: بارك الله لكم، وبارك عليكم. إنا كذلك كنا نؤمر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا يُونُسُ ، عَنْ الْحَسَنِ أَنَّ عَقِيلَ بْنَ أَبِي طَالِبٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً مِنْ بَنِي جُشَمٍ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ الْقَوْمُ، فَقَالُوا: بِالرَّفَاءِ وَالْبَنِينَ، فَقَالَ: لَا تَقُولُوا ذَاكُمْ، قَالُوا: فَمَا نَقُولُ يَا أَبَا يَزِيدَ؟ قَالَ:" قُولُوا: بَارَكَ اللَّهُ لَكُمْ، وَبَارَكَ عَلَيْكُمْ. إِنَّا كَذَلِكَ كُنَّا نُؤْمَرُ".
حسن کہتے ہیں کہ سیدنا عقیل بن ابی طالب نے بنوجعشم کی ایک عورت سے شادی کر لی لوگ انہیں مبارک باد دینے کے لئے آئے اور کہنے لگے کہ آپ دونوں کے درمیان اتفاق پیدا ہو گا اور یہ نکاح اولاد کا ذریعہ بنے انہوں نے فرمایا: رکو یوں نہ کہو لوگوں نے پوچھا کہ اے ابویزید پھر کیا کہیں انہوں نے فرمایا: یوں کہا کر و اللہ تمہارے لئے اسے مبارک کر ے تمہیں برکتیں عطا فرمائے اور اس نکاح میں تم پر خوب برکت نازل فرمائے ہمیں اسی کا حکم دیا گیا تھا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الحسن البصري لم يسمع من عقيل