سیدنا قثم یا تمام مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے میں تمہارے دانت پیلے زرد کیوں دیکھ رہاہوں تم لوگ مسواک نہیں کرتے اگر مجھے اپنی امت پر یہ بات دشوار نہ ہو تی تو میں ان پر وضو کی طرح مسواک کو بھی ضروری قرار دیتا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى على الصيقل، ومضطرب، وسقطت واسطة منصور بن المعتمر بين سفيان الثوري و أبى على الصيقل
سیدنا بشر یا بسر سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: عنقریب ایک آگ حبس سیل سے نکلے گی جو سست ترین اونٹ کی طرح چلے گی دن کو چلے گی اور رات کو ٹھہر جایا کر ے گی صبح و شام یہی معاملہ رہے گا کہا جائے کہ لوگو آگ چل پڑی ہے تم بھی چل پڑو آگ کہے گی لوگو قیلولہ کر لو آگ چل پڑی ہے سو تم بھی چل پڑو جو شخص اس کی لپیٹ میں آ جائے گا وہ اسے کھا جائے گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان ، قال: اخبرنا شعيب ، عن الزهري ، قال: اخبرني عقبة بن سويد الانصاري , انه سمع اباه وكان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم , قال: قفلنا مع نبي الله صلى الله عليه وسلم من غزوة خيبر، فلما بدا له احد، قال النبي صلى الله عليه وسلم:" الله اكبر، جبل يحبنا ونحبه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُقْبَةُ بْنُ سُوَيْدٍ الْأَنْصَارِيُّ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَاهُ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: قَفَلْنَا مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ غَزْوَةِ خَيْبَرَ، فَلَمَّا بَدَا لَهُ أُحُدٌ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُ أَكْبَرُ، جَبَلٌ يُحِبُّنَا وَنُحِبُّه".
سیدنا سوید سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر سے واپس آ رہے تھے جب احد پہاڑ نظر آیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ اکبر کہہ کر فرمایا: یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، إسناده ضعيف لجهالة حال عقبة بن سويد
سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی نیت سے نکلا میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے ہیں تو میں پانی کا برتن لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا گیا اور راستے میں بیٹھ گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ قضاء حاجت کے لئے دور جایا کرتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا يحيى بن سعيد ، قال: حدثني ابو جعفر عمير بن يزيد ، قال: حدثني الحارث بن فضيل , وعمارة بن خزيمة بن ثابت , عن عبد الرحمن بن ابي قراد , قال: خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حاجا , قال: فنزل منزلا،" وخرج من الخلاء، فاتبعته بالإداوة او القدح، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اراد حاجة ابعد، فجلست له بالطريق حتى انصرف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت له: يا رسول الله، الوضوء , فاقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم إلي، فصب رسول الله صلى الله عليه وسلم على يده فغسلها، ثم ادخل يده، فكفها، فصب على يده واحدة، ثم مسح على راسه، ثم قبض الماء قبضا بيده، فضرب به على ظهر قدمه، فمسح بيده على قدمه، ثم جاء، فصلى لنا الظهر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ عُمَيْرُ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَارِثُ بْنُ فُضَيْلٍ , وَعُمَارَةُ بْنُ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي قُرَادٍ , قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَاجًّا , قَالَ: فَنَزَلَ مَنْزِلًا،" وَخَرَجَ مِنَ الْخَلَاءِ، فَاتَّبَعْتُهُ بِالْإِدَاوَةِ أَوْ الْقَدَحِ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَرَادَ حَاجَةً أَبْعَدَ، فَجَلَسْتُ لَهُ بِالطَّرِيقِ حَتَّى انْصَرَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الْوَضُوءَ , فَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيَّ، فَصَبَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَدِهِ فَغَسَلَهَا، ثُمَّ أَدْخَلَ يَدَهُ، فَكَفَّهَا، فَصَبَّ عَلَى يَدِهِ وَاحِدَةً، ثُمَّ مَسَحَ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ قَبَضَ الْمَاءَ قَبْضًا بِيَدِهِ، فَضَرَبَ بِهِ عَلَى ظَهْرِ قَدَمِهِ، فَمَسَحَ بِيَدِهِ عَلَى قَدَمِهِ، ثُمَّ جَاءَ، فَصَلَّى لَنَا الظُّهْرَ".
سیدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کی نیت سے نکلا میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء سے نکلے ہیں تو میں پانی کا برتن لے کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چلا گیا اور راستے میں بیٹھ گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ قضاء حاجت کے لئے دور جایا کرتے تھے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم واپس آئے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وضو کا پانی حاضر ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اپنے ہاتھوں پر پانی بہایا اور انہیں دھولیا پھر برتن میں ہاتھ ڈال کر پانی بہایا اور سر کا مسح کیا پھر مٹھی بھر پانی ہاتھ میں لے کر پاؤں کی پشت پر ڈالا اور اسے اپنے ہاتھ سے ملا پھر آ کر ہمیں ظہر کی نماز پڑھائی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا ابان ، حدثنا يحيى بن ابي كثير ، عن زيد , عن ابي سلام , عن مولى رسول الله صلى الله عليه وسلم , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" بخ بخ خمس ما اثقلهن في الميزان: لا إله إلا الله، والله اكبر، وسبحان الله، والحمد لله، والولد الصالح يتوفى فيحتسبه والداه" , وقال:" بخ بخ لخمس، من لقي الله مستيقنا بهن دخل الجنة: يؤمن بالله، واليوم الآخر، وبالجنة والنار، والبعث بعد الموت، والحساب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ زَيْدٍ , عَنْ أَبِي سَلَّامٍ , عَنْ مَوْلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" بَخٍ بَخٍ خَمْسٌ مَا أَثْقَلَهُنَّ فِي الْمِيزَانِ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَر، وَسُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَالْوَلَدُ الصَّالِحُ يُتَوَفَّى فَيَحْتَسِبُهُ وَالِدَاهُ" , وَقَالَ:" بَخٍ بَخٍ لِخَمْسٍ، مَنْ لَقِيَ اللَّهَ مُسْتَيْقِنًا بِهِنَّ دَخَلَ الْجَنَّةَ: يُؤْمِنُ بِاللَّهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَبِالْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْحِسَابِ".
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک آزاد کر دہ غلام سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پانچ چیزیں کیا خوب ہیں اور میزان عمل میں کتنی بھاری ہیں لا الہ الا اللہ واللہ اکبر، و سبحان اللہ والحمدللہ اور وہ نیک اولاد جو فوت ہو جائے اور اس کا باپ اس پر صبر کر ے اور فرمایا کہ پانچ چیزیں کیا خوب ہیں جو شخص ان پانچوں پر یقین رکھتے ہوئے اللہ سے لے گا وہ جنت میں داخل ہو گا اللہ پر ایمان رکھتا ہواخرت کے دن پر جنت اور جہنم پر موت کے بعد دوبارہ زندہ ہو نے پر اور حساب کتاب پر ایمان رکھتا ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، والمولى الذى لم يسم هو أبو سلمى راعي رسول الله صلى الله عليه وسلم
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا ليث ، عن عقيل ، عن ابن شهاب ، عن ابي سلمة بن عبد الرحمن بن عوف , عن معاوية بن الحكم السلمي , انه قال لرسول الله صلى الله عليه وسلم: ارايت اشياء كنا نفعلها في الجاهلية، كنا نتطير؟ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ذلك شيء تجده في نفسك , فلا يصدنكم" قال: يا رسول الله، كنا ناتي الكهان , قال:" فلا تات الكهان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ , عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ الْحَكَمِ السُّلَمِيِّ , أَنَّهُ قَالَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرَأَيْتَ أَشْيَاءَ كُنَّا نَفْعَلُهَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ، كُنَّا نَتَطَيَّرُ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَلِكَ شَيْءٌ تَجِدُهُ فِي نَفْسِكَ , فَلَا يَصُدَّنَّكم" قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنَّا نَأْتِي الْكُهَّانَ , قَالَ:" فَلَا تَأْتِ الْكُهَّانَ".
سیدنا معاویہ بن حکم سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ بتایے کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جو کام کرتے تھے مثلاہم پرندوں سے شگون لیتے تھے اس کا کیا حکم ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارے ذہن کا ایک وہم ہوتا تھا اب یہ تمہیں کسی کام سے نہ روکے انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ! ہم کاہنوں کے پاس بھی جایا کرتے تھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اب نہ جایا کر و۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق , قال: دخل معاوية على خاله ابي هاشم بن عتبة يعوده، قال: فبكى , قال: فقال له معاوية: ما يبكيك يا خال، اوجعا يشئزك ام حرصا على الدنيا؟ قال: فقال: فكلا لا، ولكن رسول الله صلى الله عليه وسلم عهد إلينا، فقال: يا ابا هاشم،" لعلك ان تدرك اموالا لا يؤتاها اقوام، وإنما يكفيك من جمع المال خادم ومركب في سبيل الله تبارك وتعالى" , وإني اراني قد جمعت.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ , قَالَ: دَخَلَ مُعَاوِيَةُ عَلَى خَالِهِ أَبِي هَاشِمِ بْنِ عُتْبَةَ يَعُودُهُ، قَالَ: فَبَكَى , قَالَ: فَقَالَ لَهُ مُعَاوِيَةُ: مَا يُبْكِيكَ يَا خَالُ، أَوَجَعًا يُشْئِزُكَ أَمْ حِرْصًا عَلَى الدُّنْيَا؟ قَالَ: فَقَالَ: فَكُلًّا لَا، وَلَكِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَهِدَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: يَا أَبَا هَاشِمٍ،" لعلك أن تُدْرِكُ أَمْوَالًا لَا يُؤْتَاهَا أَقْوَامٌ، وَإِنَّمَا يَكْفِيكَ مِنْ جَمْعِ الْمَالِ خَادِمٌ وَمَرْكَبٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى" , وَإِنِّي أُرَانِي قَدْ جَمَعْتُ.
شقیق کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا معاویہ اپنے ماموں ابوہاشم بن عتبہ کی عیادت کے لئے گئے سیدنا ابو ہاشم رونے لگے سیدنا معاویہ نے پوچھا کہ ماموں جان کیوں رو رہے ہو کسی جگہ درد ہو رہا ہے یا دنیا کی زندگی مزید چاہتے ہوانہوں نے فرمایا: دونوں میں سے کوئی بات نہیں ہے البتہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک وعدہ لیا تھا اور فرمایا: تھا اے ابوہاشم ہو سکتا ہے کہ تمہیں اتنامال دولت عطا ہو جو بہت سی اقوام کو نہ مل سکے لیکن مال جمع کرنے میں تمہارے لئے ایک خادم اور اللہ کے راستہ میں جہاد کے لئے ایک سواری ہی کافی ہو نی چاہیے لیکن اب میں دیکھ رہاہوں کہ میں نے بہت سامال جمع کر لیا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، شقيق بن سلمة لم يسمع هذا الحديث من أبى هاشم بن عتبة