(حديث مرفوع) حدثنا ابو بكر بن عياش ، حدثني عاصم ، عن زر ، عن ابن مسعود ، قال: كنت ارعى غنما لعقبة بن ابي معيط، فمر بي رسول الله صلى الله عليه وسلم وابو بكر، فقال:" يا غلام، هل من لبن؟" قال: قلت: نعم، ولكني مؤتمن، قال:" فهل من شاة لم ينز عليها الفحل؟" فاتيته بشاة، فمسح ضرعها، فنزل لبن، فحلبه في إناء، فشرب، وسقى ابا بكر، ثم قال للضرع:" اقلص"، فقلص، قال: ثم اتيته بعد هذا، فقلت: يا رسول الله، علمني من هذا القول، قال: فمسح راسي، وقال:" يرحمك الله، فإنك غليم معلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، حَدَّثَنِي عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كُنْتُ أَرْعَى غَنَمًا لِعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، فَمَرَّ بِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ، فَقَالَ:" يَا غُلَامُ، هَلْ مِنْ لَبَنٍ؟" قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَلَكِنِّي مُؤْتَمَنٌ، قَالَ:" فَهَلْ مِنْ شَاةٍ لَمْ يَنْزُ عَلَيْهَا الْفَحْلُ؟" فَأَتَيْتُهُ بِشَاةٍ، فَمَسَحَ ضَرْعَهَا، فَنَزَلَ لَبَنٌ، فَحَلَبَهُ فِي إِنَاءٍ، فَشَرِبَ، وَسَقَى أَبَا بَكْرٍ، ثُمَّ قَالَ لِلضَّرْعِ:" اقْلِصْ"، فَقَلَصَ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُهُ بَعْدَ هَذَا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عَلِّمْنِي مِنْ هَذَا الْقَوْلِ، قَالَ: فَمَسَحَ رَأْسِي، وَقَالَ:" يَرْحَمُكَ اللَّهُ، فَإِنَّكَ غُلَيِّمٌ مُعَلَّمٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ میرے پاس سے گزرے اور فرمایا: ”اے لڑکے! کیا تمہارے پاس دودھ ہے؟“ میں نے عرض کیا: جی ہاں، لیکن میں اس پر امین ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا کوئی ایسی بکری تمہارے پاس ہے جس پر نر جانور نہ کودا ہو؟“ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایسی بکری لے کر آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا تو اس میں دودھ اتر آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ایک برتن میں دوہا، خود بھی پیا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بھی پلایا، پھر تھن سے مخاطب ہو کر فرمایا: ”سکڑ جاؤ“، چنانچہ وہ تھن دوبارہ سکڑ گئے، تھوڑی دیر بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے بھی یہ بات سکھا دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور مجھے دعا دی کہ ”اللہ تم پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، تم سمجھدار بچے ہو۔“
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن عاصم ، بإسناده، قال: فاتاه ابو بكر، بصخرة منقورة، فاحتلب فيها، فشرب وشرب ابو بكر وشربت، قال: ثم اتيته بعد ذلك، قلت: علمني من هذا القرآن، قال: إنك غلام معلم، قال: فاخذت من فيه سبعين سورة.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، بِإِسْنَادِهِ، قَالَ: فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ، بِصَخْرَةٍ مَنْقُورَةٍ، فَاحْتَلَبَ فِيهَا، فَشَرِبَ وَشَرِبَ أَبُو بَكْرٍ وَشَرِبْتُ، قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ، قُلْتُ: عَلِّمْنِي مِنْ هَذَا الْقُرْآنِ، قَالَ: إِنَّكَ غُلَامٌ مُعَلَّمٌ، قَالَ: فَأَخَذْتُ مِنْ فِيهِ سَبْعِينَ سُورَةً.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے البتہ اس میں یہ الفاظ ہیں کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک اندر سے کھدا ہوا پتھر لے کر آئے اور اس میں دودھ دوہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے نوش فرمایا اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اور میں نے بھی اسے پیا، تھوڑی دیر بعد میں دوبارہ حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے بھی یہ قرآن سکھا دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سمجھدار بچے ہو“، چنانچہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دہن مبارک سے سن کر ستر سورتیں یاد کر لیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو بكر ، حدثنا عاصم ، عن زر بن حبيش ، عن عبد الله بن مسعود ، قال:" إن الله نظر في قلوب العباد، فوجد قلب محمد صلى الله عليه وسلم خير قلوب العباد، فاصطفاه لنفسه، فابتعثه برسالته، ثم نظر في قلوب العباد بعد قلب محمد، فوجد قلوب اصحابه خير قلوب العباد، فجعلهم وزراء نبيه، يقاتلون على دينه، فما راى المسلمون حسنا، فهو عند الله حسن، وما راوا سيئا، فهو عند الله سيئ".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَوَجَدَ قَلْبَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَاصْطَفَاهُ لِنَفْسِهِ، فَابْتَعَثَهُ بِرِسَالَتِهِ، ثُمَّ نَظَرَ فِي قُلُوبِ الْعِبَادِ بَعْدَ قَلْبِ مُحَمَّدٍ، فَوَجَدَ قُلُوبَ أَصْحَابِهِ خَيْرَ قُلُوبِ الْعِبَادِ، فَجَعَلَهُمْ وُزَرَاءَ نَبِيِّهِ، يُقَاتِلُونَ عَلَى دِينِهِ، فَمَا رَأَى الْمُسْلِمُونَ حَسَنًا، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ حَسَنٌ، وَمَا رَأَوْا سَيِّئًا، فَهُوَ عِنْدَ اللَّهِ سَيِّئٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے دلوں پر نظر فرمائی تو قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سب سے بہتر پایا اس لئے اللہ نے ان ہی کو اپنے لئے منتخب فرما لیا اور انہیں پیغمبری کا شرف عطا کر کے مبعوث فرمایا، پھر قلب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نکال کر دوبارہ اپنے بندوں کے دلوں پر نظر فرمائی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل کو سب سے بہترین پایا، چنانچہ اللہ نے انہیں اپنے نبی کا وزیر بنا دیا، جو ان کے دین کی بقا کے لئے اللہ کے راستہ میں قتال کرتے ہیں، اس لئے مسلمان جس چیز کو اچھا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھی ہے، اور جو چیز مسلمانوں کی نگاہوں میں بری ہو، وہ اللہ کے نزدیک بھی بری ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو بكر ، حدثنا عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لعلكم ستدركون اقواما يصلون صلاة لغير وقتها، فإذا ادركتموهم، فصلوا في بيوتكم في الوقت الذي تعرفون، ثم صلوا معهم، واجعلوها سبحة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَلَّكُمْ سَتُدْرِكُونَ أَقْوَامًا يُصَلُّونَ صَلَاةً لِغَيْرِ وَقْتِهَا، فَإِذَا أَدْرَكْتُمُوهُمْ، فَصَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ فِي الْوَقْتِ الَّذِي تَعْرِفُونَ، ثُمَّ صَلُّوا مَعَهُمْ، وَاجْعَلُوهَا سُبْحَةً".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہو سکتا ہے تمہیں ایسی اقوام کا زمانہ بھی ملے جو نماز کو اپنے وقت مقررہ سے ہٹا کر پڑھیں، اگر تم انہیں پاؤ تو نماز کو اس کے وقت مقررہ پر اپنے گھر میں ہی پڑھ لینا، پھر جب وہ پڑھیں تو ان کے ساتھ بھی شریک ہو جانا اور اسے نفلی نماز سمجھ لینا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم صلاة، فلا ادري زاد ام نقص؟ فلما سلم، قيل له: يا رسول الله، هل حدث في الصلاة شيء؟، قال:" لا، وما ذاك؟" قالوا: صليت كذا وكذا، قال فثنى رجليه، فسجد سجدتي السهو، فلما سلم، قال:" إنما انا بشر انسى كما تنسون، وإذا شك احدكم في الصلاة، فليتحر الصلاة، فإذا سلم فليسجد سجدتين".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَاةً، فَلَا أَدْرِي زَادَ أَمْ نَقَصَ؟ فَلَمَّا سَلَّمَ، قِيلَ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَلْ حَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ؟، قَالَ:" لَا، وَمَا ذَاكَ؟" قَالُوا: صَلَّيْتَ كَذَا وَكَذَا، قَالَ فَثَنَى رِجْلَيْهِ، فَسَجَدَ سَجْدَتَيْ السَّهْوِ، فَلَمَّا سَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، وَإِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ، فَلْيَتَحَرَّ الصَّلَاةَ، فَإِذَا سَلَّمَ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھائی، مجھے یہ یاد نہیں کہ اس میں کچھ کمی ہو گئی یا بیشی؟ بہرحال! جب سلام پھیرا تو کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا نماز کے بارے کوئی نیا حکم نازل ہو گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، کیا ہوا؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: آپ نے تو اس اس طرح نماز پڑھائی ہے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں موڑے اور سہو کے دو سجدے کر لئے، پھر جب سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو فرمایا کہ ”میں بھی انسان ہوں، جس طرح تم بھول جاتے ہو، میں بھی بھول سکتا ہوں، اور تم میں سے کسی کو جب کبھی اپنی نماز میں شک پیدا ہو جائے تو وہ خوب غور کر کے محتاط رائے کو اختیار کر لے اور سلام پھیر کر سہو کے دو سجدے کر لے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن منصور ، عن خيثمة ، عن رجل من قومه، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا سمر بعد الصلاة يعني العشاء الآخرة، إلا لاحد رجلين: مصل، او مسافر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ خَيْثَمَةَ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ قَوْمِهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا سَمَرَ بَعْدَ الصَّلَاةِ يَعْنِي الْعِشَاءَ الْآخِرَةَ، إِلَّا لِأَحَدِ رَجُلَيْنِ: مُصَلٍّ، أَوْ مُسَافِرٍ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”نماز عشا کے بعد باتیں کرنے کی اجازت کسی کو نہیں، سوائے دو آدمیوں کے، جو نماز پڑھ رہا ہو یا جو مسافر ہو۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لإبهام راويه عن ابن مسعود
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن منصور ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: قال ناس: يا رسول الله، انؤاخذ باعمالنا في الجاهلية؟ فقال:" من احسن منكم في الإسلام، فلا يؤاخذ به، ومن اساء، فيؤخذ بعمله الاول والآخر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ نَاسٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنُؤَاخَذُ بِأَعْمَالِنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ فَقَالَ:" مَنْ أَحْسَنَ مِنْكُمْ فِي الْإِسْلَامِ، فَلَا يُؤَاخَذُ بِهِ، وَمَنْ أَسَاءَ، فَيُؤْخَذُ بِعَمَلِهِ الْأَوَّلِ وَالْآخِرِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا زمانہ جاہلیت کے اعمال پر بھی ہمارا مؤاخذہ ہو گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اسلام قبول کر کے اچھے اعمال اختیار کر لو تو زمانہ جاہلیت کے اعمال پر تمہارا کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا، لیکن اگر اسلام کی حالت میں برے اعمال کرتے رہے تو پہلے اور پچھلے سب کا مؤاخذہ ہو گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن الركين ، عن القاسم بن حسان ، عن عمه عبد الرحمن بن حرملة ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يكره عشر خلال: تختم الذهب، وجر الإزار، والصفرة يعني الخلوق، وتغيير الشيب" قال جرير: إنما يعني بذلك نتفه، وعزل الماء عن محله، والرقى إلا بالمعوذات، وفساد الصبي غير محرمه، وعقد التمائم، والتبرج بالزينة لغير محلها، والضرب بالكعاب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الرُّكَيْنِ ، عَنْ الْقَاسِمِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ عَمِّهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَرْمَلَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَكْرَهُ عَشْرَ خِلَالٍ: تَخَتُّمَ الذَّهَبِ، وَجَرَّ الْإِزَارِ، وَالصُّفْرَةَ يَعْنِي الْخَلُوقَ، وَتَغْيِيرَ الشَّيْبِ" قَالَ جَرِيرٌ: إِنَّمَا يَعْنِي بِذَلِكَ نَتْفَهُ، وَعَزْلَ الْمَاءِ عَنْ مَحِلِّهِ، وَالرُّقَى إِلَّا بِالْمُعَوِّذَاتِ، وَفَسَادَ الصَّبِيِّ غَيْرَ مُحَرِّمِهِ، وَعَقْدَ التَّمَائِمِ، وَالتَّبَرُّجَ بِالزِّينَةِ لِغَيْرِ مَحِلِّهَا، وَالضَّرْبَ بِالْكِعَابِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دس چیزوں کو ناپسند کرتے تھے، سونے کی انگوٹھی پہننے کو، تہبند زمین پر کھینچنے کو، زرد رنگ کی خوشبو کو، سفید بالوں کے اکھیڑنے کو، پانی (مادہ منویہ) کو اس کی جگہ سے ہٹانے کو، معوذات کے علاوہ دوسری چیزوں سے جھاڑ پھونک کرنے کو، رضاعت کے ایام میں بیوی سے قربت کر کے بچے کی صحت خراب کرنے کو، لیکن ان چیزوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام قرار نہیں دیا، نیز تعویذ لٹکانے کو، اور اپنے شوہر کے علاوہ کسی اور کے لئے بناؤ سنگھار کرنے کو، اور گوٹیوں سے کھیلنے کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، عبدالرحمن، قد تكلم فيه ، والقاسم، حديثه منكر
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثني سليمان ، عن إبراهيم ، عن عبيدة ، عن عبد الله ، قال سليمان: وبعض الحديث عن عمرو بن مرة قال: وحدثني ابي ، عن ابي الضحى ، عن عبد الله ، قال: قال النبي صلى الله عليه وسلم:" اقرا علي"، قال: قلت: اقرا عليك، وعليك انزل؟ قال:" إنني احب ان اسمعه من غيري" فقرات، حتى إذا بلغت فكيف إذا جئنا من كل امة بشهيد وجئنا بك على هؤلاء شهيدا سورة النساء آية 41، قال: رايت عينيه تذرفان دموعا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي سُلَيْمَانُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ سُلَيْمَانُ: وَبَعْضُ الْحَدِيثِ عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ قَالَ: وحَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَأْ عَلَيَّ"، قَالَ: قُلْتُ: أَقْرَأُ عَلَيْكَ، وَعَلَيْكَ أُنْزِلَ؟ قَالَ:" إِنَّنِي أُحِبُّ أَنْ أَسْمَعَهُ مِنْ غَيْرِي" فَقَرَأْتُ، حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلاءِ شَهِيدًا سورة النساء آية 41، قَالَ: رَأَيْتُ عَيْنَيْهِ تَذْرِفَانِ دُمُوعًا.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے قرآن پڑھ کر سناؤ“، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا میں آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ آپ پر تو قرآن نازل ہوا ہے، فرمایا: ”ایسا ہی ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ اپنے علاوہ کسی اور سے سنوں“، چنانچہ میں نے تلاوت شروع کر دی اور جب میں اس آیت پر پہنچا: «﴿فَكَيْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ أُمَّةٍ بِشَهِيدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هَؤُلَاءِ شَهِيدًا﴾ [النساء: 41] »”وہ کیسا وقت ہو گا جب ہم ہر امت میں سے ایک گواہ لے کر آئیں گے اور آپ کو ان سب پر گواہ بنا کر لائیں گے“، تو میں نے دیکھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق بن سلمة ، قال: جاء رجل إلى عبد الله من بني بجيلة، يقال له: نهيك بن سنان، فقال: يا ابا عبد الرحمن، كيف تقرا هذه الآية، اياء تجدها او الفا: من ماء غير آسن سورة محمد آية 15؟ فقال له عبد الله: اوكل القرآن احصيت غير هذه الآية؟ قال: إني لاقرا المفصل في ركعة،، فقال عبد الله : هذا كهذ الشعر؟! إن من احسن الصلاة الركوع والسجود، وليقران القرآن اقوام لا يجاوز تراقيهم، ولكنه إذا قراه، فرسخ في القلب نفع، إني لاعرف النظائر التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يقرا سورتين في ركعة"، قال: ثم قام، فدخل، فجاء علقمة، فدخل عليه، قال: فقلنا له: سله لنا عن النظائر التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا سورتين في ركعة، قال: فدخل فساله، ثم خرج إلينا، فقال: عشرون سورة من اول المفصل، في تاليف عبد الله.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ مِنْ بَنِي بَجِيلَةَ، يُقَالُ لَهُ: نَهِيكُ بْنُ سِنَانٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، كَيْفَ تَقْرَأُ هَذِهِ الْآيَةَ، أَيَاءً تَجِدُهَا أَوْ أَلِفًا: مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ سورة محمد آية 15؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ: أَوَكُلَّ الْقُرْآنِ أَحْصَيْتَ غَيْرَ هَذِهِ الْآيَةِ؟ قَالَ: إِنَّي لَأَقْرَأُ الْمُفَصَّلَ فِي رَكْعَةٍ،، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ؟! إِنَّ مِنْ أَحْسَنِ الصَّلَاةِ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، وَلَيَقْرَأَنَّ الْقُرْآنَ أَقْوَامٌ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، وَلَكِنَّهُ إِذَا قَرَأَهُ، فَرَسَخَ فِي الْقَلْبِ نَفَعَ، إِنِّي لَأَعْرِفُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْرَأُ سُورَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ"، قَالَ: ثُمَّ قَامَ، فَدَخَلَ، فَجَاءَ عَلْقَمَةُ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ، قَالَ: فَقُلْنَا لَهُ: سَلْهُ لَنَا عَنِ النَّظَائِرِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ سُورَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ، قَالَ: فَدَخَلَ فَسَأَلَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْنَا، فَقَالَ: عِشْرُونَ سُورَةً مِنْ أَوَّلِ الْمُفَصَّلِ، فِي تَأْلِيفِ عَبْدِ اللَّهِ.
شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ بنو بجیلہ کا ایک آدمی - جس کا نام نہیک بن سنان تھا - سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے ابوعبدالرحمن! آپ اس آیت کو کس طرح پڑھتے ہیں: «﴿مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ﴾ [محمد: 15] » یاء کے ساتھ یا الف کے ساتھ؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا اس آیت کے علاوہ تم نے سارا قرآن یاد کر لیا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ (آپ اس سے اندازہ لگا لیں) میں ایک رکعت میں مفصلات پڑھ لیتا ہوں، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اشعار کی طرح؟ حالانکہ رکوع اور سجدہ بھی نماز کا حسن ہے، بہت سے لوگ قرآن کریم کو اس طرح پڑھتے ہیں کہ وہ ان کے گلے سے نیچے نہیں اترتا، البتہ اگر کوئی شخص قرآن کریم کی تلاوت اس طرح کرے کہ وہ اس کے دل میں راسخ ہو جائے تو وہ فائدہ مند ہوتی ہے، میں ایسی مثالیں بھی جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھی ہیں۔ یہ کہہ کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اندر چلے گئے، تھوڑی دیر میں علقمہ آئے اور وہ بھی اندر جانے لگے تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ان مثالوں کے متعلق پوچھئے گا جن کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھتے تھے؟ چنانچہ انہوں نے اندر جا کر ان سے یہ سوال کیا اور باہر آنے کے بعد فرمایا کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے جمع کردہ مصحف کے مطابق مفصلات کی ابتدائی بیس سورتیں مراد ہیں۔