(حديث موقوف) حدثنا يحيى ، عن التيمي ، عن ابي عثمان ، عن ابن مسعود " من اشترى محفلة وربما قال: شاة محفلة فليردها، وليرد معها صاعا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع)" ونهى النبي صلى الله عليه وسلم عن" تلقي البيوع".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ " مَنْ اشْتَرَى مُحَفَّلَةً وَرُبَّمَا قَالَ: شَاةً مُحَفَّلَةً فَلْيَرُدَّهَا، وَلْيَرُدَّ مَعَهَا صَاعًا". (حديث موقوف) (حديث مرفوع)" وَنَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ" تَلَقِّي الْبُيُوعِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جو شخص بندھے ہوئے تھنوں والا کوئی جانور خریدے اسے چاہیے کہ وہ اسے واپس کر دے اور اس کے ساتھ ایک صاع گندم بھی دے (تاکہ استعمال شدہ دودھ کے برابر ہو جائے)، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر سے باہر نکل کر تاجروں سے پہلے ہی مل لینے سے منع فرمایا ہے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر سے باہر نکل کر تاجروں سے پہلے ہی مل لینے سے منع فرمایا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن مجالد ، حدثنا عامر ، عن مسروق ، عن عبد الله ، قال: مرة او مرتين، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" ما من حكم يحكم بين الناس، إلا حبس يوم القيامة، وملك آخذ بقفاه، حتى يقفه على جهنم، ثم يرفع راسه إلى الله عز وجل، فإن قال: الخطاء، القاه في جهنم، يهوي اربعين خريفا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ مُجَالِدٍ ، حَدَّثَنَا عَامِرٌ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا مِنْ حَكَمٍ يَحْكُمُ بَيْنَ النَّاسِ، إِلَّا حُبِسَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَلَكٌ آخِذٌ بِقَفَاهُ، حَتَّى يَقِفَهُ عَلَى جَهَنَّمَ، ثُمَّ يَرْفَعَ رَأْسَهُ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنْ قَالَ: الْخَطَّاء، أَلْقَاهُ فِي جَهَنَّمَ، يَهْوِي أَرْبَعِينَ خَرِيفًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”کوئی ثالث - جو لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتا ہو - ایسا نہیں ہے جسے قیامت کے دن روکا نہ جائے، ایک فرشتہ اسے گدی سے پکڑے ہوئے ہو گا اور جہنم پر اسے لے جا کر کھڑا کر دے گا، پھر اپنا سر اٹھا کر اللہ تعالیٰ کی طرف دیکھے گا، اگر وہاں سے ارشاد ہوا کہ یہ خطا کار ہے تو وہ فرشتہ اسے جہنم میں پھینک دے گا جہاں وہ چالیس سال تک لڑھکتا جائے گا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف مجالد الهمداني، وروي مرفوعا و موقوفا، والموقوف هو الصحيح.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثني عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" لا تذهب الدنيا او لا تنقضي الدنيا حتى يملك العرب رجل من اهل بيتي، يواطئ اسمه اسمي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا تَذْهَبُ الدُّنْيَا أَوْ لَا تَنْقَضِي الدُّنْيَا حَتَّى يَمْلِكَ الْعَرَبَ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي، يُوَاطِئُ اسْمُهُ اسْمِي".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دن اور رات کا چکر اور زمانہ اس وقت تک ختم نہیں ہو گا، یعنی قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک عرب میں میرے اہل بیت میں سے ایک ایسے شخص کی حکومت نہ آ جائے جس کا نام میرے نام کے موافق ہو گا۔“
(حديث مرفوع) قال: قرات على يحيى بن سعيد ، عن هشام ، حدثنا قتادة ، عن خلاس ، عن عبد الله بن عتبة ، قال: اتي عبد الله بن مسعود ، فسئل عن رجل تزوج امراة، ولم يكن سمى لها صداقا، فمات قبل ان يدخل بها، فلم يقل فيها شيئا، فرجعوا، ثم اتوه فسالوه؟ فقال: ساقول فيها بجهد رايي، فإن اصبت، فالله عز وجل يوفقني لذلك، وإن اخطات، فهو مني لها صداق نسائها، ولها الميراث، وعليها العدة"، فقام رجل من اشجع، فقال: اشهد على النبي صلى الله عليه وسلم انه قضى بذلك، قال: هلم من يشهد لك بذلك؟ فشهد ابو الجراح بذلك.(حديث مرفوع) قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ خِلَاسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ ، قَالَ: أُتِيَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ ، فَسُئِلَ عَنْ رَجُلٍ تَزَوَّجَ امْرَأَةً، وَلَمْ يَكُنْ سَمَّى لَهَا صَدَاقًا، فَمَاتَ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، فَلَمْ يَقُلْ فِيهَا شَيْئًا، فَرَجَعُوا، ثُمَّ أَتَوْهُ فَسَأَلُوهُ؟ فَقَالَ: سَأَقُولُ فِيهَا بِجَهْدِ رَأْيِي، فَإِنْ أَصَبْتُ، فَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يُوَفِّقُنِي لِذَلِكَ، وَإِنْ أَخْطَأْتُ، فَهُوَ مِنِّي لَهَا صَدَاقُ نِسَائِهَا، وَلَهَا الْمِيرَاثُ، وَعَلَيْهَا الْعِدَّةُ"، فَقَام رَجُلٌ من أَشْجَعَ، فَقَالَ: أَشْهَدُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَضَى بِذَلِكَ، قَالَ: هَلُمَّ مَنْ يَشْهَدُ لَكَ بِذَلِكَ؟ فَشَهِدَ أَبُو الْجَرَّاحِ بِذَلِكَ.
عبداللہ بن عتبہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس کسی نے آ کر یہ مسئلہ پوچھا کہ اگر کوئی شخص کسی عورت سے نکاح کرے، مہر مقرر نہ کیا ہو اور خلوقت صحیحہ ہونے سے پہلے وہ فوت ہو جائے تو کیا حکم ہے؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فوری طور پر اس کا کوئی جواب نہ دیا، سائلین واپس چلے گئے، کچھ عرصے کے بعد انہوں نے دوبارہ آ کر ان سے یہی مسئلہ دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ میں اپنی رائے سے اجتہاد کر کے جس نتیجے تک پہنچا ہوں، وہ آپ کے سامنے بیان کر دیتا ہوں، اگر میرا جواب صحیح ہوا تو اللہ کی توفیق سے ہو گا، اور اگر غلط ہوا تو وہ میری جانب سے ہو گا، فیصلہ یہ ہے کہ اس عورت کو اس جیسی عورتوں کا جو مہر ہو سکتا ہے، وہ دیا جائے گا، اسے میراث بھی ملے گی اور اس پر عدت بھی واجب ہوگی۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا یہ فیصلہ سن کر قبیلہ اشجع کا ایک آدمی کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ میں یہی فیصلہ فرمایا ہے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس پر کوئی گواہ ہو تو پیش کرو؟ چنانچہ سیدنا ابوالجراح رضی اللہ عنہ نے اس کی شہادت دی۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے، البتہ اس میں یہ اضافہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بروع بنت واشق کے معاملے میں یہی فیصلہ دیا تھا اور اس پر گواہی سیدنا ابوسنان اور سیدنا جراح رضی اللہ عنہما نے دی جو قبیلہ اشجع کے آدمی تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن الاعمش ، حدثني شقيق ، عن عبد الله ، قال: كنا إذا جلسنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في الصلاة، قلنا: السلام على الله من عباده، السلام على فلان، وفلان، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا تقولوا: السلام على الله، فإن الله هو السلام، ولكن إذا جلس احدكم، فليقل: التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين فإنكم إذا قلتم ذلك، اصابت كل عبد صالح بين السماء والارض، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله، ثم ليتخير احدكم من الدعاء اعجبه إليه، فليدع به".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، حَدَّثَنِي شَقِيقٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا إِذَا جَلَسْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ مِنْ عِبَادِهِ، السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ، وَفُلَانٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُولُوا: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ، فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ، وَلَكِنْ إِذَا جَلَسَ أَحَدُكُمْ، فَلْيَقُلْ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ فَإِنَّكُمْ إِذَا قُلْتُمْ ذَلِكَ، أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ لِيَتَخَيَّرْ أَحَدُكُمْ مِنَ الدُّعَاءِ أَعْجَبَهُ إِلَيْهِ، فَلْيَدْعُ بِهِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگ جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو ہم کہتے تھے کہ اللہ کو اس کے بندوں کی طرف سے سلام ہو، جبرئیل کو سلام ہو، میکائیل کو سلام ہو، فلاں اور فلاں کو سلام ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں یہ کہتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ ”اللہ تو خود سراپا سلام ہے، اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص تشہد میں بیٹھے تو اسے یوں کہنا چاہئے: «التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»”تمام قولی، فعلی اور بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکت کا نزول ہو، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو - جب وہ یہ جملہ کہہ لے گا تو یہ آسمان و زمین میں ہر نیک بندے کو شامل ہو جائے گا - میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“، پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، وابو معاوية ، المعنى، قالا: حدثنا الاعمش ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: اي الذنب اكبر؟ قال:" ان تجعل لله ندا، وهو خلقك"، قال: ثم اي؟ قال:" ثم ان تقتل ولدك من اجل ان يطعم معك"، قال: ثم اي؟ قال:" ثم ان تزاني بحليلة جارك"، قال: فانزل الله عز وجل تصديق ذلك في كتابه: والذين لا يدعون مع الله إلها آخر إلى قوله ومن يفعل ذلك يلق اثاما سورة الفرقان آية 68".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، المعنى، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيُّ الذَّنْبِ أَكْبَرُ؟ قَالَ:" أَنْ تَجْعَلَ لِلَّهِ نِدًّا، وَهُوَ خَلَقَكَ"، قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ:" ثُمَّ أَنْ تَقْتُلَ وَلَدَكَ مِنْ أَجْلِ أَنْ يَطْعَمَ مَعَكَ"، قَالَ: ثُمَّ أَيٌّ؟ قَالَ:" ثُمَّ أَنْ تُزَانِيَ بِحَلِيلَةِ جَارِكَ"، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ تَصْدِيقَ ذَلِكَ فِي كِتَابِهِ: وَالَّذِينَ لا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ إِلَى قَوْلِهِ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا سورة الفرقان آية 68".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کسی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا بالخصوص جبکہ اللہ ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے“، سائل نے کہا: اس کے بعد کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ڈر سے اپنی اولاد کو قتل کر دینا کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھانے لگے گا“، سائل نے پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: ”اپنے ہمسائے کی بیوی سے بدکاری کرنا۔“ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی تائید میں یہ آیت نازل فرما دی: «﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللّٰهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّٰهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ يَلْقَ أَثَامًا﴾» [الفرقان: 68]”اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے، اور کسی ایسے شخص کو قتل نہیں کرتے جسے قتل کرنا اللہ نے حرام قرار دیا ہو، سوائے حق کے، اور بدکاری نہیں کرتے، جو شخص یہ کام کرے گا وہ سزا سے دو چار ہو گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، وابن نمير ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: قلنا: يا رسول الله. ح وحدثنا ابن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن سليمان ، قال: سمعت ابا وائل يحدث، عن عبد الله ، قال: قلنا: يا رسول الله، انؤاخذ بما عملنا في الجاهلية؟ قال: فقال:" من احسن في الإسلام، لم يؤاخذ بما عمل في الجاهلية، ومن اساء في الإسلام، اخذ بالاول والآخر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وابن نمير ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنُؤَاخَذُ بِمَا عَمِلْنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ قَالَ: فَقَالَ:" مَنْ أَحْسَنَ فِي الْإِسْلَامِ، لَمْ يُؤَاخَذْ بِمَا عَمِلَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ، وَمَنْ أَسَاءَ فِي الْإِسْلَامِ، أُخِذَ بِالْأَوَّلِ وَالْآخِرِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا زمانہ جاہلیت کے اعمال پر بھی ہمارا مؤاخذہ ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اسلام قبول کر کے اچھے اعمال اختیار کر لو تو زمانہ جاہلیت کے اعمال پر تمہارا کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا، لیکن اگر اسلام کی حالت میں برے اعمال کرتے رہے تو پہلے اور پچھلے سب کا مؤاخذہ ہو گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا وكيع ، وابن نمير ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن ابي الضحى ، عن مسروق ، قال:" بينا رجل يحدث في المسجد الاعظم، قال: إذا كان يوم القيامة نزل دخان من السماء، فاخذ باسماع المنافقين وابصارهم، واخذ المؤمنين منه كهيئة الزكام. قال مسروق: فدخلت على عبد الله ، فذكرت ذلك له، وكان متكئا، فاستوى جالسا، فانشا يحدث، فقال: يا ايها الناس، من سئل منكم عن علم هو عنده، فليقل به، فإن لم يكن عنده، فليقل: الله اعلم، فإن من العلم ان تقول لما لا تعلم: الله اعلم، إن الله عز وجل قال لنبيه صلى الله عليه وسلم: قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86، إن قريشا لما غلبوا النبي صلى الله عليه وسلم واستعصوا عليه، قال:" اللهم اعني بسبع كسبع يوسف"، قال: فاخذتهم سنة، اكلوا فيها العظام والميتة من الجهد، حتى جعل احدهم يرى بينه وبين السماء كهيئة الدخان من الجوع، فقالوا: ربنا اكشف عنا العذاب إنا مؤمنون سورة الدخان آية 12، قال: فقيل له: إنا إن كشفنا عنهم عادوا، فدعا ربه، فكشف عنهم، فعادوا، فانتقم الله منهم يوم بدر، فذلك قوله تعالى: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين إلى قوله يوم نبطش البطشة الكبرى إنا منتقمون سورة الدخان آية 10 - 16"، قال ابن نمير في حديثه: فقال عبد الله: فلو كان يوم القيامة، ما كشف عنهم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وابن نمير ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، قَالَ:" بَيْنَا رَجُلٌ يُحَدِّثُ فِي الْمَسْجِدِ الْأَعْظَمِ، قَالَ: إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ نَزَلَ دُخَانٌ مِنَ السَّمَاءِ، فَأَخَذَ بِأَسْمَاعِ الْمُنَافِقِينَ وَأَبْصَارِهِمْ، وَأَخَذَ الْمُؤْمِنِينَ مِنْهُ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ. قَالَ مَسْرُوقٌ: فَدَخَلْتُ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَاسْتَوَى جَالِسًا، فَأَنْشَأَ يُحَدِّثُ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ، مَنْ سُئِلَ مِنْكُمْ عَنْ عِلْمٍ هُوَ عِنْدَهُ، فَلْيَقُلْ بِهِ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ، فَلْيَقُلْ: اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ تَقُولَ لِمَا لَا تَعْلَمُ: اللَّهُ أَعْلَمُ، إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلّ قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، إِنَّ قُرَيْشًا لَمَّا غَلَبُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاسْتَعْصَوْا عَلَيْهِ، قَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، قَالَ: فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ، أَكَلُوا فِيهَا الْعِظَامَ وَالْمَيْتَةَ مِنَ الْجَهْدِ، حَتَّى جَعَلَ أَحَدُهُمْ يَرَى بَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجُوعِ، فَقَالُوا: رَبَّنَا اكْشِفْ عَنَّا الْعَذَابَ إِنَّا مُؤْمِنُونَ سورة الدخان آية 12، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: إِنَّا إِنْ كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَادُوا، فَدَعَا رَبَّهُ، فَكَشَفَ عَنْهُمْ، فَعَادُوا، فَانْتَقَمَ اللَّهُ مِنْهُمْ يَوْمَ بَدْرٍ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ سورة الدخان آية 10 - 16"، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي حَدِيثِهِ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَلَوْ كَانَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، مَا كَشَفَ عَنْهُمْ.
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ جامع مسجد میں ایک شخص کہہ رہا تھا کہ قیامت کے دن آسمان سے ایک دھواں اترے گا، منافقین کی آنکھوں اور کانوں کو چھین لے گا اور مسلمانوں کے سانسوں میں داخل ہو کر زکام کی کیفیت پیدا کر دے گا، میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں یہ بات بتائی، وہ ٹیک لگا کر بیٹھے ہوئے تھے، یہ بات سن کر سیدھے بیٹھ گئے اور فرمایا: لوگو! جو شخص کسی بات کو اچھی طرح جانتا ہو، وہ اسے بیان کر سکتا ہے، اور جسے اچھی طرح کسی بات کا علم نہ ہو، وہ کہہ دے کہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے، کیونکہ یہ بھی انسان کی دانائی کی دلیل ہے کہ وہ جس چیز کے متعلق نہیں جانتا، کہہ دے کہ اللہ بہتر جانتا ہے۔ مذکورہ آیت کا نزول اس پس منطر میں ہوا تھا کہ جب قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی میں حد سے آگے بڑھ گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر حضرت یوسف علیہ السلام کے دور جیسا قحط نازل ہونے کی بددعا فرمائی، چنانچہ قریش کو قحط سالی اور مشکلات نے آ گھیرا، یہاں تک کہ وہ ہڈیاں کھانے پر مجبور ہو گئے اور یہ کیفیت ہو گئی کہ جب کوئی شخص آسمان کی طرف دیکھتا ہو تو بھوک کی وجہ سے اسے اپنے اور آسمان کے درمیان دھواں دکھائی دیتا، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ o يَغْشَى النَّاسَ هَذَا عَذَابٌ أَلِيمٌ﴾» [الدخان: 10-11]”اس دن کا انتظار کیجئے جب آسمان پر ایک واضح دھواں آئے گا جو لوگوں پر چھا جائے گا یہ دردناک عذاب ہے۔“ اس کے بعد کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بنو مضر کے لئے نزول باران کی دعا کیجئے، وہ تو ہلاک ہو رہے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لئے دعا فرمائی اور یہ آیت نازل ہوئی: «﴿إِنَّا كَاشِفُو الْعَذَابِ قَلِيلًا﴾» [الدخان: 15]”ہم ان سے عذاب دور کر رہے ہیں۔“ لیکن وہ خوش حالی ملنے کے بعد جب دوبارہ اپنی انہی حرکات میں لوٹ گئے تو یہ آیت نازل ہوئی کہ «﴿يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى إِنَّا مُنْتَقِمُونَ﴾» [الدخان: 16]”جس دن ہم انہیں بڑی مضبوطی سے پکڑ لیں گے، ہم انتقام لینے والے ہیں۔“ اور اس سے مراد غزوہ بدر ہے، اگر وہ قیامت کا دن ہوتا تو اللہ تعالیٰ ان سے اس عذاب کو دور نہ فرماتا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے «﴿فَهَلْ مِنْ مُذَّكِرٍ﴾» ذال کے ساتھ پڑھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لفظ «﴿فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ﴾»[القمر: 40] دال کے ساتھ ہے۔“