(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، حدثنا منصور ، وسليمان ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال رجل: يا رسول الله، انؤاخذ بما عملنا في الجاهلية؟ قال:" إن احسنت، لم تؤاخذ، وإن اسات في الإسلام، اخذت بالاول والآخر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، وسليمان ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنُؤَاخَذُ بِمَا عَمِلْنَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ؟ قَالَ:" إِنْ أَحْسَنْتَ، لَمْ تُؤَاخَذْ، وَإِنْ أَسَأْتَ فِي الْإِسْلَامِ، أُخِذْتَ بِالْأَوَّلِ وَالْآخِرِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر میں اسلام قبول کر کے اچھے اعمال اختیار کر لوں تو کیا زمانہ جاہلیت کے اعمال پر میرا مؤاخذہ ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اسلام قبول کر کے اچھے اعمال اختیار کر لو تو زمانہ جاہلیت کے اعمال پر تمہارا کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا، لیکن اگر اسلام کی حالت میں برے اعمال کرتے رہے تو پہلے اور پچھلے سب کا مؤاخذہ ہو گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن سفيان ، حدثني منصور ، وسليمان ، عن إبراهيم ، عن عبيدة ، عن عبد الله ان يهوديا اتى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا محمد، إن الله يمسك السموات على إصبع، والارضين على إصبع، والجبال على إصبع، والخلائق على إصبع، والشجر على إصبع، ثم يقول: انا الملك. فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه، وقال: وما قدروا الله حق قدره سورة الانعام آية 91"، قال يحيى: وقال فضيل يعني ابن عياض: تعجبا وتصديقا له.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي مَنْصُورٌ ، وسليمان ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبِيدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ أَنَّ يَهُودِيًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَوَاتِ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْأَرَضِينَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْجِبَالَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالْخَلَائِقَ عَلَى إِصْبَعٍ، وَالشَّجَرَ عَلَى إِصْبَعٍ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ. فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، وَقَالَ: وَمَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ سورة الأنعام آية 91"، قَالَ يَحْيَى: وَقَالَ فُضَيْلٌ يَعْنِي ابْنَ عِيَاضٍ: تَعَجُّبًا وَتَصْدِيقًا لَهُ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ کو یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمام مخلوقات کو ایک انگلی پر، تمام آسمانوں کو ایک انگلی پر، تمام زمینوں کو ایک انگلی پر، تمام درختوں کو ایک انگلی پر اور ساری نمناک مٹی کو ایک انگلی پر اٹھالے گا اور فرمائے گا کہ میں ہی حقیقی بادشاہ ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس کی یہ بات سن کر اتنا ہنسے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے اور اسی پر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿وَمَا قَدَرُوا اللّٰهَ حَقَّ قَدْرِهِ﴾» ”انہوں نے اللہ کی اس طرح قدر نہ کی جس طرح اس کی قدر کرنے کا حق تھا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، وعبد الرحمن ، عن سفيان ، عن ابيه ، عن ابي الضحى ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لكل نبي ولاة من النبيين، وإن وليي منهم ابي وخليل ربي عز وجل، ثم قرا: إن اولى الناس بإبراهيم للذين اتبعوه وهذا النبي والذين آمنوا سورة آل عمران آية 68".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، وَعَبْدُ الرَّحْمَنِ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لِكُلِّ نَبِيٍّ وُلَاةٌ مِنَ النَّبِيِّينَ، وَإِنَّ وَلِيِّي مِنْهُمْ أَبِي وَخَلِيلُ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ، ثُمَّ قَرَأَ: إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا سورة آل عمران آية 68".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہر نبی کا دوسرے انبیاء میں سے کوئی نہ کوئی ولی ہوا ہے، اور میرے ولی میرے والد (جد امجد) اور میرے رب کے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں“، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت مکمل تلاوت فرمائی: «﴿إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِإِبْرَاهِيمَ لَلَّذِينَ اتَّبَعُوهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِينَ آمَنُوا . . .﴾»[آل عمران: 68]”بے شک سب لوگوں سے ابراہیم کے زیادہ قریب یقینا وہی لوگ ہیں جنھوں نے اس کی پیروی کی اور یہ نبی اور وہ لوگ جو ایمان لائے . . .“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو الضحي لم يدرك ابن مسعود.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن المسعودي ، حدثني جامع بن شداد ، قال: سمعت عبد الرحمن بن يزيد ، قال: رايت عبد الله " استبطن الوادي، فجعل الجمرة عن حاجبه الايمن، واستقبل البيت، ثم رماها بسبع حصيات، يكبر دبر كل حصاة، ثم قال: هذا والذي لا إله غيره مقام الذي انزلت عليه سورة البقرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ الْمَسْعُودِيِّ ، حَدَّثَنِي جَامِعُ بْنُ شَدَّادٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ يَزِيدَ ، قَالَ: رَأَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ " اسْتَبْطَنَ الْوَادِيَ، فَجَعَلَ الْجَمْرَةَ عَنْ حَاجِبِهِ الْأَيْمَنِ، وَاسْتَقْبَلَ الْبَيْتَ، ثُمَّ رَمَاهَا بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ، يُكَبِّرُ دُبُرَ كُلِّ حَصَاةٍ، ثُمّ قَالَ: هَذَا وَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ مَقَامُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ".
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ حج کے موقع پر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بطن وادی سے جمرہ عقبہ کو سواری ہی کی حالت میں سات کنکریاں ماریں، اور ہر کنکری پر تکبیر کہتے رہے، اس وقت انہوں نے جمرہ عقبہ کو دائیں جانب اور بیت اللہ کی طرف اپنا رخ کر رکھا تھا، پھر فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ ذات بھی یہیں کھڑی ہوئی تھی جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔
حكم دارالسلام: صحيح دون قوله: واستقبل البيت وهو شاذ كما قال الحافظ فى الفتح: 3/ 582، والصحيح أنه جعل البيت عن يساره كما تقدم برقم: 3941، يحيي القطان سمع من المسعودي قبل الاختلاط، وهو متابع.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سود کھانے والا اور کھلانے والا، اسے تحریر کرنے والا اور اس کے گواہ جب کہ وہ جانتے بھی ہوں، اور حسن کے لئے جسم گودنے اور گدوانے والی عورتیں، زکوٰۃ چھپانے والے اور ہجرت کے بعد مرتد ہو جانے والے دیہاتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی قیامت کے دن تک کے لئے ملعون قرار دئیے گئے ہیں۔
(حديث قدسي) حدثنا يحيى ، عن الاعمش ، ووكيع ، حدثنا الاعمش ، قال: حدثنا زيد بن وهب ، عن عبد الله ، قال: حدثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وهو الصادق المصدوق، قال:" إن احدكم يجمع خلقه في بطن امه في اربعين يوما، او قال: اربعين ليلة، قال وكيع: ليلة، ثم يكون علقة مثل ذلك، ثم يكون مضغة مثل ذلك، ثم يرسل الله عز وجل إليه الملك باربع كلمات: عمله، واجله، ورزقه، وشقي او سعيد، ثم ينفخ فيه الروح، فوالذي لا إله غيره، إن احدكم ليعمل بعمل اهل الجنة، حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع، فيسبق عليه الكتاب، فيختم له بعمل اهل النار، فيكون من اهلها، وإن احدكم ليعمل بعمل اهل النار، حتى ما يكون بينه وبينها إلا ذراع، فيسبق عليه الكتاب، فيختم له بعمل اهل الجنة، فيكون من اهلها".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، ووكيع ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ الصَّادِقُ الْمَصْدُوقُ، قَالَ:" إِنَّ أَحَدَكُمْ يُجْمَعُ خَلْقُهُ فِي بَطْنِ أُمِّهِ فِي أَرْبَعِينَ يَوْمًا، أَوْ قَالَ: أَرْبَعِينَ لَيْلَةً، قَالَ وَكِيعٌ: لَيْلَةً، ثُمَّ يَكُونُ عَلَقَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يَكُونُ مُضْغَةً مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ يُرْسِلُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِ الْمَلَكَ بِأَرْبَعِ كَلِمَاتٍ: عَمَلُهُ، وَأَجَلُهُ، وَرِزْقُهُ، وَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ الرُّوحُ، فَوَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ، إِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، فَيَكُونُ مِنْ أَهْلِهَا، وَإِنَّ أَحَدَكُمْ لَيَعْمَلُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ، حَتَّى مَا يَكُونُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا إِلَّا ذِرَاعٌ، فَيَسْبِقُ عَلَيْهِ الْكِتَابُ، فَيُخْتَمُ لَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيَكُونُ مِنْ أَهْلِهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم - جو کہ صادق و مصدوق ہیں - نے ہمیں یہ حدیث سنائی ہے کہ ”تمہاری خلقت کو شکم مادر میں چالیس دن تک جمع رکھا جاتا ہے، پھر اتنے ہی دن وہ جما ہوا خون ہوتا ہے، پھر اتنے ہی دن وہ گوشت کا لوتھڑا ہوتا ہے، پھر اس کے پاس ایک فرشتے کو بھیجا جاتا ہے اور وہ اس میں روح پھونک دیتا ہے، پھر چار چیزوں کا حکم دیا جاتا ہے، اس کے رزق کا، اس کی موت کا، اس کے اعمال کا اور یہ کہ یہ بدنصیب ہو گا یا خوش نصیب؟ اس ذات کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، تم میں سے ایک شخص اہل جنت کی طرح اعمال کرتا رہتا ہے، جب اس کے اور جنت کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر غالب آ جاتی ہے اور وہ اہل جہنم والے اعمال کر کے جہنم میں داخل ہو جاتا ہے، اور ایک شخص جہنمیوں والے اعمال کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان صرف ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے کہ اس پر تقدیر غالب آ جاتی ہے اور اس کا خاتمہ جنتیوں والے اعمال پر ہو جاتا ہے اور وہ جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”دنیا میں جو بھی ناحق قتل ہوتا ہے، اس کا گناہ حضرت آدم علیہ السلام کے پہلے بیٹے (قابیل) کو بھی ہوتا ہے کیونکہ قتل کا رواج اسی نے ڈالا تھا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن سفيان ، عن الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ،، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا كانوا ثلاثة، فلا يتناجى اثنان دون صاحبهما، فإن ذلك يحزنه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ،، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا كَانُوا ثَلَاثَةً، فَلَا يَتَنَاجَى اثْنَانِ دُونَ صَاحِبِهِمَا، فَإِنَّ ذَلِكَ يَحْزُنُهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جب تم تین آدمی ہو تو تیسرے کو چھوڑ کر دو آدمی سرگوشی نہ کرنے لگا کرو کیونکہ اس سے تیسرے کو غم ہو گا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، عن التيمي ، عن ابي عثمان ، عن ابن مسعود : ان رجلا اصاب من امراة قبلة، فاتى النبي صلى الله عليه وسلم يساله عن كفارتها،" فانزل الله عز وجل: واقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات سورة هود آية 114، قال: يا رسول الله، الي هذه؟ قال:" لمن عمل من امتي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنِ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ : أَنَّ رَجُلًا أَصَابَ مِنَ امْرَأَةٍ قُبْلَةً، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْأَلُهُ عَنْ كَفَّارَتِهَا،" فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ سورة هود آية 114، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلِي هَذِهِ؟ قَالَ:" لِمَنْ عَمِلَ مِنْ أُمَّتِي".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نے کسی اجنبی عورت کو بوسہ دے دیا، پھر نادم ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا کفارہ دریافت کرنے کے لئے آیا، اس پر اللہ نے یہ آیت نازل فرما دی: «﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ﴾»[هود: 114]”دن کے دونوں حصوں اور رات کے کچھ حصے میں نماز قائم کرو، بےشک نیکیاں گناہوں کو ختم کر دیتی ہیں ہیں۔“ اس نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ حکم میرے ساتھ خاص ہے؟ فرمایا: ”نہیں، بلکہ میری امت کے ہر اس شخص کے لئے یہی حکم ہے جس سے ایسا عمل سرزد ہو جائے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا شعبة ، حدثني ابو إسحاق ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، قال: إن محمدا صلى الله عليه وسلم حدثنا:" ان الرجل يكذب، حتى يكتب عند الله كذابا، وان الرجل ليصدق، حتى يكتب عند الله صديقا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: إِنَّ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدَّثَنَا:" أَنَّ الرَّجُلَ يَكْذِبُ، حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا، وَأَنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ، حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے «كذاب» لکھ دیا جاتا ہے، اور انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے «صديق» لکھ دیا جاتا ہے۔“