(حديث موقوف) حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا خصيف ، حدثنا ابو عبيدة بن عبد الله ، عن عبد الله بن مسعود ، قال:" إذا شككت في صلاتك، وانت جالس، فلم تدر ثلاثا صليت ام اربعا، فإن كان اكبر ظنك انك صليت ثلاثا، فقم فاركع ركعة، ثم سلم، ثم اسجد سجدتين، ثم تشهد، ثم سلم، وإن كان اكبر ظنك انك صليت اربعا، فسلم، ثم اسجد سجدتين، ثم تشهد، ثم سلم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا خُصَيْفٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ:" إِذَا شَكَكْتَ فِي صَلَاتِكَ، وَأَنْتَ جَالِسٌ، فَلَمْ تَدْرِ ثَلَاثًا صَلَّيْتَ أَمْ أَرْبَعًا، فَإِنْ كَانَ أَكْبَرُ ظَنِّكَ أَنَّكَ صَلَّيْتَ ثَلَاثًا، فَقُمْ فَارْكَعْ رَكْعَةً، ثُمَّ سَلِّمْ، ثُمَّ اسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ تَشَهَّدْ، ثُمَّ سَلِّمْ، وَإِنْ كَانَ أَكْبَرُ ظَنِّكَ أَنَّكَ صَلَّيْتَ أَرْبَعًا، فَسَلِّمْ، ثُمَّ اسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ، ثُمَّ تَشَهَّدْ، ثُمَّ سَلِّمْ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اگر تمہیں نماز پڑھتے ہوئے یہ شک ہو جائے کہ تم نے تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار؟ تو اگر تمہارا غالب گمان یہ ہو کہ تم نے تین رکعتیں پڑھیں ہیں تو کھڑے ہو کر ایک رکعت پڑھ کر سلام پھیر دو اور سہو کے دو سجدے کر لو اور تشہد پڑھ کر سلام پھیر دو، لیکن تمہارا غالب گمان یہ ہو کہ تم نے چار رکعتیں پڑھی ہیں تو تم تشہد پڑھ لو اور سلام پھیرنے سے پہلے بیٹھے بیٹھے سہو کے دو سجدے کر لو، پھر دوبارہ تشہد پڑھ کر سلام پھیرو۔“
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن يزيد ، قال: اخبرنا العوام ، حدثنا ابو محمد ، مولى لعمر بن الخطاب، عن ابي عبيدة بن عبد الله ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من قدم ثلاثة لم يبلغوا الحنث، كانوا له حصنا حصينا من النار"، فقال ابو الدرداء: قدمت اثنين؟ قال:" واثنين"، فقال ابي بن كعب ابو المنذر سيد القراء: قدمت واحدا، قال:" وواحد، ولكن ذاك في اول صدمة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ ، مَوْلًى لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَدَّمَ ثَلَاثَةً لَمْ يَبْلُغُوا الْحِنْثَ، كَانُوا لَهُ حِصْنًا حَصِينًا مِنَ النَّارِ"، فَقَالَ أَبُو الدَّرْدَاءِ: قَدَّمْتُ اثْنَيْنِ؟ قَالَ:" وَاثْنَيْنِ"، فَقَالَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ أَبُو الْمُنْذِرِ سَيِّدُ الْقُرَّاءِ: قَدَّمْتُ وَاحِدًا، قَالَ:" وَوَاحِدٌ، وَلَكِنْ ذَاكَ فِي أَوَّلِ صَدْمَةٍ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جن مسلمان میاں بیوی کے تین بچے بلوغت کو پہنچنے سے پہلے ہی فوت ہو جائیں، وہ ان کے لئے جہنم سے حفاظت کا ایک مضبوط قلعہ بن جائیں گے۔“ کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! اگر کسی کے دو بچے فوت ہوئے ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر بھی یہی حکم ہے“، سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے تو دو بچے آگے بھیجے ہیں؟ فرمایا: ”پھر بھی یہی حکم ہے۔“ سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ - جو سید القراء کے نام سے مشہور ہیں - عرض کرنے لگے کہ میرا صرف ایک بچہ فوت ہوا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا بھی یہ حکم ہے لیکن اس چیز کا تعلق تو صدمہ کے ابتدائی لمحات سے ہے (کہ اس وقت کون صبر کرتا ہے اور کون جزع فزع؟ کیونکہ بعد میں تو سب ہی صبر کرلیتے ہیں)۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من ابن مسعود، ولجهالة حال أبى محمد.
(حديث موقوف) حدثنا هشيم ، اخبرنا خالد ، عن ابن سيرين ، ان انس بن مالك " شهد جنازة رجل من الانصار، قال: فاظهروا الاستغفار، فلم ينكر ذلك انس"، قال هشيم: قال: خالد في حديثه: وادخلوه من قبل رجل القبر، وقال: هشيم مرة: إن رجلا من الانصار مات بالبصرة، فشهده انس بن مالك، فاظهروا له الاستغفار.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ ، أَنَّ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ " شَهِدَ جِنَازَةَ رَجُلٍ مِنَ الْأَنْصَارِ، قَالَ: فَأَظْهَرُوا الِاسْتِغْفَارَ، فَلَمْ يُنْكِرْ ذَلِكَ أَنَسٌ"، قَالَ هُشَيْمٌ: قَالَ: خَالِدٌ فِي حَدِيثِهِ: وَأَدْخَلُوهُ مِنْ قِبَلِ رِجْلِ الْقَبْرِ، وَقَالَ: هُشَيْمٌ مَرَّةً: إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْأَنْصَارِ مَاتَ بِالْبَصْرَةِ، فَشَهِدَهُ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، فَأَظْهَرُوا لَهُ الِاسْتِغْفَارَ.
ابن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کسی انصاری کے جنازے میں شریک ہوئے، لوگوں نے وہاں بلند آواز سے استغفار کرنا شروع کر دیا لیکن سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی، دوسرے راوی کے مطابق لوگوں نے اسے قبر کی پائنتی کی جانب سے داخل کیا اور انہوں نے اس پر کوئی نکیر نہ فرمائی۔
ابن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کسی انصاری کے جنازے میں شریک ہوئے، ان کے حکم پر میت کو لوگوں نے قبر کی پائنتی کی جانب سے داخل کیا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تم میں سے کوئی شخص شیطان کو اپنی ذات پر ایک حصہ کے برابر بھی قدرت نہ دے، اور یہ نہ سمجھے کہ اس کے ذمے دائیں طرف سے ہی واپس جانا ضروری ہے، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی واپسی اکثر بائیں جانب سے ہوتی تھی۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”یہ بہت بری بات ہے کہ تم میں سے کوئی شخص یہ کہے کہ میں فلاں آیت بھول گیا، بلکہ یوں کہے کہ وہ اسے بھلا دی گئی۔“