(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو إسحاق ، قال: ليس ابو عبيدة ذكره، ولكن عبد الرحمن بن الاسود ، عن ابيه ، عن عبد الله ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم" اتى الخلاء، وقال:" ائتني بثلاثة احجار" فالتمست، فوجدت حجرين، ولم اجد الثالث، فاتيته بحجرين وروثة، فاخذ الحجرين، والقى الروثة، وقال:" إنها ركس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، قَالَ: لَيْسَ أَبُو عُبَيْدَةَ ذَكَرَهُ، وَلَكِنْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" أَتَى الْخَلَاءَ، وَقَالَ:" ائْتِنِي بِثَلَاثَةِ أَحْجَار" ٍفَالْتَمَسْتُ، فَوَجَدْتُ حَجَرَيْنِ، وَلَمْ أَجِدْ الثَّالِثَ، فَأَتَيْتُهُ بِحَجَرَيْنِ وَرَوْثَةٍ، فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ، وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ، وَقَالَ:" إِنَّهَا رِكْسٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لئے نکلے تو مجھ سے فرمایا کہ ”میرے پاس تین پتھر تلاش کر کے لاؤ“، میں دو پتھر اور لید کا ایک خشک ٹکڑا لا سکا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پتھر لے لئے اور لید کے ٹکڑے کو پھینک کر فرمایا: ”یہ ناپاک ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، زهير - وإن سمع من أبى إسحاق السبيعي بعد الاختلاط - روايته هذه مما انتقاه البخاري من حديثه فى صحيحه خ: 156.
(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا حماد بن زيد ، حدثنا عاصم بن بهدلة ، عن ابي وائل ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم غنائم حنين بالجعرانة، قال: فازدحموا عليه، قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن عبدا من عباد الله بعثه الله عز وجل إلى قومه، فكذبوه وشجوه، فجعل يمسح الدم عن جبينه، ويقول: رب اغفر لقومي، فإنهم لا يعلمون". قال: قال عبد الله: فكاني انظر إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح جبهته، يحكي الرجل.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَنَائِمَ حُنَيْنٍ بِالْجِعِرَّانَةِ، قَالَ: فَازْدَحَمُوا عَلَيْهِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ عَبْدًا مِنْ عِبَادِ اللَّهِ بَعَثَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَى قَوْمِهِ، فَكَذَّبُوهُ وَشَجُّوهُ، فَجَعَلَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ جَبِينِهِ، وَيَقُولُ: رَبِّ اغْفِرْ لِقَوْمِي، فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُونَ". قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ جَبْهَتَهُ، يَحْكِي الرَّجُلَ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جعرانہ میں غزوہ حنین کا مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے، لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہو گئے، حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ایک نبی کے متعلق بیان فرما رہے تھے جنہیں ان کی قوم نے مارا اور وہ اپنے چہرے سے خون پونچھتے جا رہے تھے اور کہتے جا رہے تھے کہ پروردگار! میری قوم کو معاف فرما دے، یہ مجھے جانتے نہیں ہیں، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ منظر اب بھی میری نگاہوں کے سامنے ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ واقعہ بیان کرتے ہوئے اپنی پیشانی کو صاف فرما رہے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن ابي عدي ، ويزيد ، قالا: اخبرنا ابن عون ، عن عمرو بن سعيد ، عن حميد بن عبد الرحمن ، قال: قال ابن مسعود : كنت لا احبس عن ثلاث وقال ابن عون: فنسي عمرو واحدة، ونسيت انا اخرى، وبقيت هذه: عن النجوى، عن كذا، وعن كذا، قال: فاتيته، وعنده مالك بن مرارة الرهاوي، قال: فادركت من آخر حديثه، وهو يقول: يا رسول الله، إني رجل قد قسم لي من الجمال ما ترى، فما احب ان احدا من الناس فضلني بشراكين فما فوقهما، افليس ذلك هو البغي؟ قال:" ليس ذلك بالبغي، ولكن البغي من سفه الحق او بطر الحق، وغمط الناس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، وَيَزِيدُ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَ: قَالَ ابْنُ مَسْعُودٍ : كُنْتُ لَا أُحْبَسُ عَنْ ثَلَاثٍ وَقَالَ ابْنُ عَوْنٍ: فَنَسِيَ عَمْرٌو وَاحِدَةً، وَنَسِيتُ أَنَا أُخْرَى، وَبَقِيَتْ هَذِهِ: عَنِ النَّجْوَى، عَنْ كَذَا، وَعَنْ كَذَا، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، وَعِنْدَهُ مَالِكُ بْنُ مُرَارَةَ الرَّهَاوِيُّ، قَالَ: فَأَدْرَكْتُ مِنْ آخِرِ حَدِيثِهِ، وَهُوَ يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي رَجُلٌ قَدْ قُسِمَ لِي مِنَ الْجَمَالِ مَا تَرَى، فَمَا أُحِبُّ أَنَّ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ فَضَلَنِي بِشِرَاكَيْنِ فَمَا فَوْقَهُمَا، أَفَلَيْسَ ذَلِكَ هُوَ الْبَغْيَ؟ قَالَ:" لَيْسَ ذَلِكَ بِالْبَغْيِ، وَلَكِنَّ الْبَغْيَ مَنْ سَفِهَ الْحَقَّ أَوْ بَطِرَ الْحَقَّ، وَغَمَطَ النَّاسَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں سرگوشی سے کوئی حجاب محسوس نہیں کرتا تھا اور نہ فلاں فلاں چیز سے، راوی کہتے ہیں کہ ایک چیز میرے استاذ بھول گئے اور ایک میں بھول گیا، میں ایک مرتبہ استاذ صاحب کے پاس آیا تو وہاں مالک بن مرارہ رہاوی بھی موجود تھے، میں نے انہیں حدیث کے آخر میں یہ بیان کرتے ہوئے پایا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ ملاحظہ فرما ہی رہے ہیں کہ میرے حصے میں کتنے اونٹ آئے ہیں، میں نہیں چاہتا کہ کوئی شخص اس تعداد میں مجھ سے دو چار تسمے بھی آگے بڑھے، کیا یہ تکبر تو نہیں ہے؟ فرمایا: ”نہیں، یہ تکبر نہیں ہے، تکبر یہ ہے کہ انسان حق بات قبول کرنے سے انکار کر دے اور لوگوں کو حقیر سمجھے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن ثبت سماع حميد بن عبدالرحمن الحميري من ابن مسعود، وتقدم الكلام فى ذلك برقم: 3644.
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن منصور ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: ذكر لرسول الله صلى الله عليه وسلم رجل نام ليلة حتى اصبح، قال:" ذاك رجل بال الشيطان في اذنه او اذنيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: ذُكِرَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ نَامَ لَيْلَةً حَتَّى أَصْبَحَ، قَالَ:" ذَاكَ رَجُلٌ بَالَ الشَّيْطَانُ فِي أُذُنِهِ أَوْ أُذُنَيْهِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ فلاں شخص رات کو نماز سے غافل ہو کر سوتا رہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے کان میں شیطان نے پیشاب کر دیا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن منصور ، عن ابي وائل ، قال: كان عبد الله مما يذكر كل يوم الخميس، فقيل له: لوددنا انك ذكرتنا كل يوم، قال: إني اكره ان املكم، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان" يتخولنا بالموعظة، كراهية السآمة علينا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ مِمَّا يُذَكِّرُ كُلَّ يَوْمِ الْخَمِيسِ، فَقِيلَ لَهُ: لَوَدِدْنَا أَنَّكَ ذَكَّرْتَنَا كُلَّ يَوْمٍ، قَالَ: إِنِّي أَكْرَهُ أَنْ أُمِلَّكُمْ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ" يَتَخَوَّلُنَا بِالْمَوْعِظَةِ، كَرَاهِيَةَ السَّآمَةِ عَلَيْنَا".
ابووائل کہتے ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہر جمعرات کو وعظ فرمایا کرتے تھے، ان سے کسی نے کہا: ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں روزانہ وعظ فرمایا کریں، انہوں نے فرمایا: میں تمہیں اکتاہٹ میں مبتلا کرنا اچھا نہیں سمجھتا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی وعظ و نصیحت میں اسی وجہ سے بعض دنوں کو خالی چھوڑ دیتے تھے کہ وہ بھی ہمارے اکتا جانے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا جرير ، عن ليث ، عن محمد بن عبد الرحمن بن يزيد ، عن ابيه ، قال: كنت مع عبد الله حتى انتهى إلى جمرة العقبة، فقال:" فناولته سبعة احجار، فقال لي: خذ بزمام الناقة، قال: ثم عاد إليها، فرمى بها من بطن الوادي بسبع حصيات وهو راكب، يكبر مع كل حصاة، وقال: اللهم اجعله حجا مبرورا، وذنبا مغفورا، ثم قال: هاهنا كان يقوم الذي انزلت عليه سورة البقرة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ حَتَّى انْتَهَى إِلَى جَمْرَةِ الْعَقَبَةِ، فَقَالَ:" فَنَاوَلْتُهُ سَبْعَةَ أَحْجَارٍ، فَقَالَ لِي: خُذْ بِزِمَامِ النَّاقَةِ، قَالَ: ثُمَّ عَادَ إِلَيْهَا، فَرَمَى بِهَا مِنْ بَطْنِ الْوَادِي بِسَبْعِ حَصَيَاتٍ وَهُوَ رَاكِبٌ، يُكَبِّرُ مَعَ كُلِّ حَصَاةٍ، وَقَالَ: اللَّهُمَّ اجْعَلْهُ حَجًّا مَبْرُورًا، وَذَنْبًا مَغْفُورًا، ثُمَّ قَالَ: هَاهُنَا كَانَ يَقُومُ الَّذِي أُنْزِلَتْ عَلَيْهِ سُورَةُ الْبَقَرَةِ".
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ حج کے موقع پر میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، جب وہ جمرہ عقبہ کے قریب پہنچے تو فرمایا کہ مجھے کچھ کنکریاں دو، میں نے انہیں سات کنکریاں دیں، پھر انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ اونٹنی کی لگام پکڑ لو، پھر پیچھے ہٹ کر انہوں نے بطن وادی سے جمرہ عقبہ کو سواری ہی کی حالت میں سات کنکریاں ماریں، اور ہر کنکری پر تکبیر کہتے رہے اور یہ دعا کرتے رہے کہ اے اللہ! اسے حج مبرور بنا اور گناہوں کو معاف فرما، پھر فرمایا کہ وہ ذات بھی یہیں کھڑی ہوئی تھی جس پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔
حكم دارالسلام: صحيح دون قوله: اللهم اجعله حجا مبرورا، وذنبا مغفورا وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث.
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا سيار ، عن ابي وائل ، قال: جاء رجل إلى عبد الله بن مسعود، فقال: إني قرات البارحة المفصل في ركعة، فقال عبد الله : انثرا كنثر الدقل، وهذا كهذ الشعر؟ إني لاعلم النظائر التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يقرن بينهن سورتين في ركعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: إِنِّي قَرَأْتُ الْبَارِحَةَ الْمُفَصَّلَ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : أَنَثْرًا كَنَثْرِ الدَّقَلِ، وَهَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ؟ إِنِّي لَأَعْلَمُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْرُنُ بَيْنَهُنَّ سُورَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ".
ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ (بنو بجیلہ کا ایک آدمی) - جس کا نام نہیک بن سنان تھا - سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں نے آج رات ایک رکعت میں مفصلات پڑھ لیں، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گھٹیا اشعار کی طرح؟ یا ردی قسم کی نثر کی طرح؟ میں ایسی مثالیں بھی جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھی ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج ، حدثنا سفيان ، حدثنا منصور ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن ابن مسعود ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غار، فانزلت عليه والمرسلات عرفا، فجعلنا نتلقاها منه، فخرجت حية من جانب الغار، فقال:" اقتلوها"، فتبادرناها، فسبقتنا، فقال:" إنها وقيت شركم، كما وقيتم شرها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَارٍ، فَأُنْزِلَتْ عَلَيْهِ وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا، فَجَعَلْنَا نَتَلَقَّاهَا مِنْهُ، فَخَرَجَتْ حَيَّةٌ مِنْ جَانِبِ الْغَارِ، فَقَالَ:" اقْتُلُوهَا"، فَتَبَادَرْنَاهَا، فَسَبَقَتْنَا، فَقَالَ:" إِنَّهَا وُقِيَتْ شَرَّكُمْ، كَمَا وُقِيتُمْ شَرَّهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غار میں تھے، وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ مرسلات نازل ہو گئی، ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر اسے یاد کرنے لگے، اچانک ایک سانپ اپنے بل سے نکل آیا، ہم جلدی سے آگے بڑھے لیکن وہ ہم پر سبقت لے گیا اور اپنے بل میں گھس گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”وہ تمہارے شر سے بچ گیا جیسے تم اس کے شر سے بچ گئے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق بن سلمة ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: كنا إذا جلسنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في الصلاة، قلنا: السلام على الله قبل عباده، السلام على جبريل، السلام على ميكائيل، السلام على فلان، السلام على فلان، قال: فسمعنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن الله هو السلام، فإذا جلس احدكم في الصلاة، فليقل: التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين فإذا قالها، اصابت كل عبد صالح في السماء والارض، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله، ثم يتخير بعد من الدعاء ما شاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كُنَّا إِذَا جَلَسْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الصَّلَاةِ، قُلْنَا: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ قَبْلَ عِبَادِهِ، السَّلَامُ عَلَى جِبْرِيلَ، السَّلَامُ عَلَى مِيكَائِيلَ، السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ، السَّلَامُ عَلَى فُلَانٍ، قَالَ: فَسَمِعَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ، فَإِذَا جَلَسَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ، فَلْيَقُلْ: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ فَإِذَا قَالَهَا، أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، ثُمَّ يَتَخَيَّرُ بَعْدُ مِنَ الدُّعَاءِ مَا شَاءَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگ جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو ہم کہتے تھے کہ اللہ کو اس کے بندوں کی طرف سے سلام ہو، جبرئیل علیہ السلام کو سلام ہو، میکائیل علیہ السلام کو سلام ہو، فلاں اور فلاں کو سلام ہو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں یہ کہتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ ”اللہ تو خود سراپا سلام ہے، اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص تشہد میں بیٹھے تو اسے یوں کہنا چاہئے: «التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ»”تمام قولی، فعلی اور بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکت کا نزول ہو، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو“، - جب وہ یہ جملہ کہہ لے گا تو یہ آسمان و زمین میں ہر نیک بندے کو شامل ہو جائے گا، - ”میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“، پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عبد الله بن مرة ، عن مسروق ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يحل دم امرئ يشهد ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، إلا بإحدى ثلاث: الثيب الزاني، والنفس بالنفس، والتارك لدينه، المفارق للجماعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ، وَالتَّارِكُ لِدِينِهِ، الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو مسلمان اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا پیغمبر ہوں، اس کا خون حلال نہیں ہے، سوائے تین میں سے کسی ایک صورت کے، یا تو شادی شدہ ہو کر بدکاری کرے، یا قصاصا قتل کرنا پڑے، یا وہ شخص جو اپنے دین کو ہی ترک کر دے اور جماعت سے جدا ہو جائے۔“