(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، وابن نمير ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن عمارة ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، عن عبد الله ، قال: ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى صلاة قط إلا لميقاتها، إلا صلاتين: صلاة المغرب، وصلاة العشاء بجمع، وصلى الفجر، يومئذ قبل ميقاتها، وقال ابن نمير: العشاءين، فإنه صلاهما بجمع جميعا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وابن نمير ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى صَلَاةً قَطُّ إِلَّا لِمِيقَاتِهَا، إِلَّا صَلَاتَيْنِ: صَلَاةَ الْمَغْرِبِ، وَصَلَاةَ الْعِشَاءِ بِجَمْعٍ، وَصَلَّى الْفَجْرَ، يَوْمَئِذٍ قَبْلَ مِيقَاتِهَا، وقَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ: الْعِشَاءَيْنِ، فَإِنَّهُ صَلَّاهُمَا بِجَمْعٍ جَمِيعًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی بےوقت نماز پڑھتے ہوئے نہیں دیکھا، البتہ مزدلفہ میں مغرب اور عشا کو اور اسی دن کی فجر کو اپنے وقت سے آگے پیچھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن عمارة ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، عن عبد الله ، قال: كنت مستترا باستار الكعبة، قال: فجاء ثلاثة نفر، كثير شحم بطونهم، قليل فقه قلوبهم، قرشي، وختناه ثقفيان، او ثقفي وختناه قرشيان، فتكلموا بكلام لم افهمه، فقال بعضهم: اترون ان الله عز وجل يسمع كلامنا هذا؟! فقال الآخران: إنا إذا رفعنا اصواتنا سمعه، وإذا لم نرفع اصواتنا لم يسمعه، قال: وقال الآخر: إن سمع منه شيئا، سمعه كله، قال: فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، قال: فانزل الله عز وجل: وما كنتم تستترون ان يشهد عليكم سمعكم ولا ابصاركم إلى قوله وذلكم ظنكم الذي ظننتم بربكم ارداكم فاصبحتم من الخاسرين سورة فصلت آية 22 - 23".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنْتُ مُسْتَتِرًا بِأَسْتَارِ الْكَعْبَةِ، قَالَ: فَجَاءَ ثَلَاثَةُ نَفَرٍ، كَثِيرٌ شَحْمُ بُطُونِهِمْ، قَلِيلٌ فِقْهُ قُلُوبِهِمْ، قُرَشِيٌّ، وَخَتَنَاهُ ثَقَفِيَّانِ، أَوْ ثَقَفِيٌّ وَخَتَنَاهُ قُرَشِيَّانِ، فَتَكَلَّمُوا بِكَلَامٍ لَمْ أَفْهَمْهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: أَتَرَوْنَ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَسْمَعُ كَلَامَنَا هَذَا؟! فَقَالَ الْآخَرَانِ: إِنَّا إِذَا رَفَعْنَا أَصْوَاتَنَا سَمِعَهُ، وَإِذَا لَمْ نَرْفَعْ أَصْوَاتَنَا لَمْ يَسْمَعْهُ، قَالَ: وَقَالَ الْآخَرُ: إِنْ سَمِعَ مِنْهُ شَيْئًا، سَمِعَهُ كُلَّهُ، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلا أَبْصَارُكُمْ إِلَى قَوْلِهِ وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ سورة فصلت آية 22 - 23".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں غلاف کعبہ سے چمٹا ہوا تھا کہ تین آدمی آئے، ان میں سے ایک قریشی تھا اور دو قبیلہ ثقیف کے جو اس کے داماد تھے، یا ایک ثقفی اور دو قریشی، ان کے پیٹ میں چربی زیادہ تھی لیکن دلوں میں سمجھ بوجھ بہت کم تھی، وہ چپکے چپکے باتیں کرنے لگے جنہیں میں نہ سن سکا، اتنی دیر میں ان میں سے ایک نے کہا: تمہارا کیا خیال ہے، کیا اللہ ہماری ان باتوں کو سن رہا ہے؟ دوسرا کہنے لگا: میرا خیال ہے کہ جب ہم اونچی آواز سے باتیں کرتے ہیں تو وہ انہیں سنتا ہے، اور جب ہم اپنی آوازیں بلند نہیں کرتے تو وہ انہیں نہیں سن پاتا، تیسرا کہنے لگا: اگر وہ کچھ سن سکتا ہے تو سب کچھ بھی سن سکتا ہے۔ میں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کی تو اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿وَمَا كُنْتُمْ تَسْتَتِرُونَ أَنْ يَشْهَدَ عَلَيْكُمْ سَمْعُكُمْ وَلَا أَبْصَارُكُمْ وَلَا جُلُودُكُمْ . . . . . وَذَلِكُمْ ظَنُّكُمُ الَّذِي ظَنَنْتُمْ بِرَبِّكُمْ أَرْدَاكُمْ فَأَصْبَحْتُمْ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾» [فصلت: 22-23]”اور تم جو چیزیں چھپاتے ہو کہ تمہارے کان، آنکھیں اور کھالیں تم پر گواہ نہ بن سکیں . . . . . یہ اپنے رب کے ساتھ تمہارا گھٹیا خیال ہے، اور تم نقصان اٹھانے والے ہو گئے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن شقيق ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من حلف على يمين، ليقتطع بها مال امرئ مسلم، لقي الله عز وجل وهو عليه غضبان". فقال الاشعث: في والله كان ذاك، كان بيني وبين رجل من اليهود ارض، فجحدني، فقدمته إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الك بينة؟"، قلت: لا، فقال لليهودي:" احلف"، فقلت: يا رسول الله، إذن يحلف فيذهب مالي، فانزل الله عز وجل: إن الذين يشترون بعهد الله وايمانهم ثمنا قليلا سورة آل عمران آية 77 إلى آخر الآية.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ حَلَفَ عَلَى يَمِينٍ، لِيَقْتَطِعَ بِهَا مَالَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ، لَقِيَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَهُوَ عَلَيْهِ غَضْبَانُ". فَقَالَ الْأَشْعَثُ: فِيَّ وَاللَّهِ كَانَ ذَاكَ، كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَ رَجُلٍ مِنْ الْيَهُودِ أَرْضٌ، فَجَحَدَنِي، فَقَدَّمْتُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَلَكَ بَيِّنَةٌ؟"، قُلْتُ: لَا، فَقَالَ لِلْيَهُودِيِّ:" احْلِفْ"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِذَنْ يَحْلِفَ فَيَذْهَبَ مَالِي، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلا سورة آل عمران آية 77 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ.
سیدنا ابن مسعودرضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص جھوٹی قسم کھا کر کسی مسلمان کا مال ہتھیا لے، وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اللہ اس سے ناراض ہو گا“، یہ سن کر سیدنا اشعث رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ یہ ارشاد واللہ میرے واقعے میں نازل ہوا تھا جس کی تفصیل یہ ہے کہ میرے اور ایک یہودی کے درمیان کچھ زمین مشترک تھی، یہودی میرے حصے کا منکر ہو گیا، میں اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس گواہ ہیں؟“ میں نے عرض کیا: نہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی سے فرمایا کہ ”تم قسم کھاؤ“، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو قسم کھا کر میرا مال لے جائے گا، اس پر اللہ نے یہ آیت آخر تک نازل فرمائی کہ «﴿إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللّٰهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا . . . . .﴾»[آل عمران: 77]”جو لوگ اللہ کے وعدے اور اپنی قسم کو معمولی سی قیمت کے عوض بیچ دیتے ہیں . . . . .۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چت لیٹ کر سویا کرتے تھے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خراٹے لینے لگتے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہو کر تازہ وضو کئے بغیر ہی نماز پڑھا دیتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحجاج، وله شاهد من حديث ابن عباس عند البخاري: 138، ومسلم: 763.
(حديث مرفوع) حدثنا ابن فضيل ، حدثنا ليث ، عن عبد الرحمن بن الاسود ، عن ابيه ، عن عبد الله ، قال: خرج النبي صلى الله عليه وسلم لحاجة له، فقال:" ائتني بشيء استنجي به، ولا تقربني حائلا ولا رجيعا"، ثم اتيته بماء فتوضا، ثم قام فصلى، فحنا، ثم طبق يديه حين ركع، وجعلهما بين فخذيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِحَاجَةٍ لَهُ، فَقَالَ:" ائْتِنِي بِشَيْءٍ أَسْتَنْجِي بِهِ، وَلَا تُقْرِبْنِي حَائِلًا وَلَا رَجِيعًا"، ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِمَاءٍ فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى، فَحَنَا، ثُمَّ طَبَّقَ يَدَيْهِ حِينَ رَكَعَ، وَجَعَلَهُمَا بَيْنَ فَخِذَيْهِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کے لئے باہر نکلے تو مجھ سے فرمایا: ”کوئی چیز لے کر آؤ جس سے میں استنجا کر سکوں، لیکن دیکھو بدلی ہوئی رنگ والا پانی یا گوبر نہ لانا“، پھر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وضو کا پانی بھی لایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور نماز پڑھنے کھڑے ہو گئے، اس نماز میں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے لئے اپنی کمر جھکائی تو دونوں ہاتھوں سے تطبیق کی اور اپنے ہاتھوں کو اپنی رانوں کے بیچ میں کر لیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو إسحاق ، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، قال: اتينا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجل نستاذنه ان نكويه، فسكت، ثم سالناه مرة اخرى، فسكت، ثم سالناه الثالثة؟ فقال:" ارضفوه إن شئتم" كانه غضبان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: أَتَيْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجُلٍ نَسْتَأْذِنُهُ أَنْ نَكْوِيَهُ، فَسَكَتَ، ثُمَّ سَأَلْنَاهُ مَرَّةً أُخْرَى، فَسَكَتَ، ثُمَّ سَأَلْنَاهُ الثَّالِثَةَ؟ فَقَالَ:" ارْضِفُوهُ إِنْ شِئْتُمْ" كَأَنَّهُ غَضْبَانُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمارے ایک ساتھی کو کچھ بیماری ہے، کیا ہم داغ کر اس کا علاج کر سکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب دینے سے سکوت فرمایا، ہم نے پھر پوچھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سکوت فرمایا اور کچھ دیر بعد فرمایا: ”اسے پتھر گرم کر کے لگاؤ“، گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، زهير - وإن سمع من أبى إسحاق السبيعي بعد الاختلاط - متابع.
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو إسحاق ، عن عبد الرحمن بن الاسود ، عن علقمة ، والاسود ، عن عبد الله ، قال: انا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم" يكبر في كل رفع ووضع، وقيام وقعود، ويسلم عن يمينه وعن يساره: السلام عليكم ورحمة الله، السلام عليكم ورحمة الله، حتى يبدو جانب خده"، ورايت ابا بكر، وعمر يفعلان ذلك.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، وَالْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: أَنَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُكَبِّرُ فِي كُلِّ رَفْعٍ وَوَضْعٍ، وَقِيَامٍ وَقُعُودٍ، وَيُسَلِّمُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَةُ اللَّهِ، حَتَّى يَبْدُوَ جَانِبُ خَدِّهِ"، وَرَأَيْتُ أَبَا بَكْرٍ، وَعُمَرَ يَفْعَلَانِ ذَلِكَ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ وہ ہر مرتبہ جھکتے اٹھتے، کھڑے اور بیٹھتے وقت تکبیر کہتے تھے، اور دائیں بائیں اس طرح سلام پھیرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک رخساروں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی، اور میں نے سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کو بھی اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔