(حديث مرفوع) حدثنا ابو كامل ، ويزيد ، اخبرنا المسعودي ، عن الحسن بن سعد ، عن عبدة النهدي ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله لم يحرم حرمة، إلا وقد علم انه سيطلعها منكم مطلع، الا وإني ممسك بحجزكم ان تهافتوا في النار كتهافت الفراش والذباب"، قال يزيد:" الفراش او الذباب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، وَيَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ عَبْدَةَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ لَمْ يُحَرِّمْ حُرْمَةً، إِلَّا وَقَدْ عَلِمَ أَنَّهُ سَيَطَّلِعُهَا مِنْكُمْ مُطَّلِعٌ، أَلَا وَإِنِّي مُمْسِكٌ بِحُجَزِكُمْ أَنْ تَهَافَتُوا فِي النَّارِ كَتَهَافُتِ الْفَرَاشِ وَالذُّبَابِ"، قَالَ يَزِيدُ:" الْفَرَاشِ أَوْ الذُّبَابِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ نے جس چیز کو بھی حرام قرار دیا ہے، وہ جانتا ہے کہ اسے تم میں سے جھانک کر دیکھنے والے دیکھیں گے، آگاہ رہو کہ میں تمہیں جہنم کی آگ میں گرنے سے بچانے کے لئے تمہاری کمر سے پکڑ کر کھینچ رہا ہوں اور تم اس میں ایسے گر رہے ہو جیسے پروانے گرتے ہیں یا مکھی۔“
حكم دارالسلام: حديث حسن، أبو كامل ويزيد- و إن سمعا من المسعودي بعد الاختلاط - متابعان، و رجال الإسناد ثقات غير أن المسعودي صدوق اختلط بآخرة، ومن سمع منه ببغداد فبعد الاختلاط.
(حديث مرفوع) حدثنا ابو كامل ، حدثنا حماد ، عن عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، عن ابن مسعود ؛ ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان زميله يوم بدر علي، وابو لبابة، فإذا حانت عقبة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالا: اركب يا رسول الله، حتى نمشي عنك، فيقول:" ما انتما باقوى مني، ولا انا باغنى عن الاجر منكما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ؛ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ زَمِيلَهُ يَوْمَ بَدْرٍ عَلِيٌّ، وَأَبُو لُبَابَةَ، فَإِذَا حَانَتْ عُقْبَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَا: ارْكَبْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، حَتَّى نَمْشِيَ عَنْكَ، فَيَقُولُ:" مَا أَنْتُمَا بِأَقْوَى مِنِّي، وَلَا أَنَا بِأَغْنَى عَنِ الْأَجْرِ مِنْكُمَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن ہم تین تین آدمی ایک ایک اونٹ پر سوار تھے، اس طرح سیدنا ابولبابہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باری پیدل چلنے کی آئی تو یہ دونوں حضرات کہنے لگے کہ ہم آپ کی جگہ پیدل چلتے ہیں (آپ سوار رہیں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو اور نہ ہی میں تم سے ثواب کے معاملے میں مستغنی ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابن فضيل ، حدثنا هارون بن عنترة ، عن عبد الرحمن بن الاسود ، قال: استاذن علقمة، والاسود على عبد الله قال: إنه سيليكم امراء يشتغلون عن وقت الصلاة، فصلوها لوقتها، ثم قام" فصلى بيني وبينه"، ثم قال: هكذا رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَنْتَرَة ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، قَالَ: اسْتَأْذَنَ عَلْقَمَةُ، وَالْأَسْوَدُ عَلَى عبد الله قَالَ: إِنَّهُ سَيَلِيكُمْ أُمَرَاءُ يَشْتَغِلُونَ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ، فَصَلُّوهَا لِوَقْتِهَا، ثُمَّ قَامَ" فَصَلَّى بَيْنِي وَبَيْنَهُ"، ثُمّ قَالَ: هَكَذَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ عنقریب حکومت کی باگ دوڑ کچھ ایسے لوگوں کے ہاتھ میں آ جائے گی جو نماز کو اس کے وقت مقررہ سے ہٹا دیں گے، لیکن تم نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا، پھر کھڑے ہو کر وہ درمیان میں نماز پڑھنے لگے اور فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: لما نزلت هذه الآية: الذين آمنوا ولم يلبسوا إيمانهم بظلم سورة الانعام آية 82، قالوا: يا رسول الله، فاينا لا يظلم نفسه؟ قال: ليس ذاك،" هو الشرك، الم تسمعوا ما قال لقمان لابنه: لا تشرك بالله إن الشرك لظلم عظيم سورة لقمان آية 13".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ سورة الأنعام آية 82، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيُّنَا لَا يَظْلِمُ نَفْسَهُ؟ قَالَ: لَيْسَ ذَاكَ،" هُوَ الشِّرْكَ، أَلَمْ تَسْمَعُوا مَا قَالَ لُقْمَانُ لِابْنِهِ: لا تُشْرِكْ بِاللَّهِ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ سورة لقمان آية 13".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی: «﴿الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُمْ بِظُلْمٍ . . . . .﴾»[الأنعام: 82]”وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ مخلوط نہیں کیا . . . . .“ تو لوگوں پر یہ بات بڑی شاق گزری اور وہ کہنے لگے: یا رسول اللہ! ہم میں سے کون شخص ہے جس نے اپنی جان پر ظلم نہ کیا ہو؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کا وہ مطلب نہیں ہے جو تم مراد لے رہے ہو، کیا تم نے وہ بات نہیں سنی جو عبد صالح (حضرت لقمان علیہ السلام) نے اپنے بیٹے سے فرمائی تھی کہ ”پیارے بیٹے! اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا کیونکہ شرک بہت بڑاظلم ہے“، اس آیت میں بھی شرک ہی مراد ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم، فإما زاد وإما نقص قال إبراهيم: وإما جاء نسيان ذلك من قبلي، فقلنا: يا رسول الله، احدث في الصلاة شيء؟ قال:" وما ذاك؟" قلنا: صليت قبل كذا وكذا، قال:" إنما انا بشر، انسى كما تنسون، فإذا نسي احدكم فليسجد سجدتين"، ثم تحول فسجد سجدتين.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: صَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِمَّا زَادَ وَإِمَّا نَقَصَ قَالَ إِبْرَاهِيمُ: وَإِمَّا جَاءَ نِسْيَانُ ذَلِكَ مِنْ قِبَلِي، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَحَدَثَ فِي الصَّلَاةِ شَيْءٌ؟ قَالَ:" وَمَا ذَاكَ؟" قُلْنَا: صَلَّيْتَ قَبْلُ كَذَا وَكَذَا، قَالَ:" إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ، أَنْسَى كَمَا تَنْسَوْنَ، فَإِذَا نَسِيَ أَحَدُكُمْ فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ"، ثُمَّ تَحَوَّلَ فَسَجَدَ سَجْدَتَيْنِ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھائی، مجھے یہ یاد نہیں کہ اس میں کچھ کمی ہو گئی یا بیشی؟ بہرحال! جب سلام پھیرا تو کسی نے پوچھا: یا رسول اللہ! کیا نماز کے بارے کوئی نیا حکم نازل ہو گیا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، کیا ہوا؟“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: آپ نے تو اس اس طرح نماز پڑھائی ہے، یہ سن کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پاؤں موڑے اور سہو کے دو سجدے کر لئے، پھر جب سلام پھیر کر فارغ ہوئے تو فرمایا: ”میں بھی انسان ہوں، جس طرح تم بھول جاتے ہو، میں بھی بھول سکتا ہوں، اور تم میں سے کسی کو جب کبھی اپنی نماز میں شک پیدا ہو جائے تو وہ خوب غور کر کے محتاط رائے کو اختیار کر لے اور سلام پھیر کر سہو کے دو سجدے کر لے۔“
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا ابن نمير ، ويعلى ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: اتى عبد الله الشام، فقال له ناس من اهل حمص: اقرا علينا، فقرا عليهم سورة يوسف، فقال رجل من القوم: والله ما هكذا انزلت! فقال عبد الله ويحك!! والله لقد" قراتها على رسول الله صلى الله عليه وسلم هكذا"، فقال:" احسنت"، فبينا هو يراجعه، إذ وجد منه ريح الخمر، فقال: اتشرب الرجس، وتكذب بالقرآن؟ والله لا تزاولني حتى اجلدك، فجلده الحد".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، وَيَعْلَى ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: أَتَى عَبْدُ اللَّهِ الشَّامَ، فَقَالَ لَهُ نَاسٌ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ: اقْرَأْ عَلَيْنَا، فَقَرَأَ عَلَيْهِمْ سُورَةَ يُوسُفَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: وَاللَّهِ مَا هَكَذَا أُنْزِلَتْ! فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ وَيْحَكَ!! وَاللَّهِ لَقَدْ" قَرَأْتُهَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَكَذَا"، فَقَالَ:" أَحْسَنْتَ"، فَبَيْنَا هُوَ يُرَاجِعُهُ، إِذْ وَجَدَ مِنْهُ رِيحَ الْخَمْرِ، فَقَالَ: أَتَشْرَبُ الرِّجْسَ، وَتُكَذِّبُ بِالْقُرْآنِ؟ وَاللَّهِ لَا تُزَاوِلُنِي حَتَّى أَجْلِدَكَ، فَجَلَدَهُ الْحَدَّ".
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ شام کے وقت تشریف لائے اور اہل حمص کے کچھ لوگوں کی فرمائش پر ان کے سامنے سورہ یوسف کی تلاوت فرمائی، ایک آدمی کہنے لگا کہ واللہ! یہ سورت اس طرح نازل نہیں ہوئی ہے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: افسوس! اللہ کی قسم میں نے یہ سورت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اسی طرح پڑھی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میری تحسین فرمائی تھی، اسی دوران وہ اس کے قریب گئے تو اس کے منہ سے شراب کی بدبو آئی، انہوں نے فرمایا کہ تو حق کی تکذیب کرتا ہے اور شراب بھی پیتا ہے؟ واللہ! میں تجھ پر حد جاری کئے بغیر تجھے نہیں چھوڑوں گا، چنانچہ انہوں نے اس پر حد جاری کی۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، اخبرنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، قال: قال عبد الله لما راى عثمان صلى بمنى اربع ركعات:" صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم ركعتين"، وخلف ابي بكر ركعتين، وخلف عمر ركعتين، ليت حظي من اربع ركعتان متقبلتان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ لَمَّا رَأَى عُثْمَانَ صَلَّى بِمِنًى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ:" صَلَّيْتُ خَلْفَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ"، وَخَلْفَ أَبِي بَكْرٍ رَكْعَتَيْنِ، وخلف عُمَرَ رَكْعَتَيْنِ، لَيْتَ حَظِّي مِنْ أَرْبَعٍ رَكْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ.
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ جب سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے میدان منیٰ میں چار رکعتیں پڑھیں تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی اور سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی منیٰ میں دو رکعتیں پڑھی ہیں، کاش! ان چار رکعتوں کی بجائے مجھے دو مقبول رکعتوں کا ہی حصہ مل جائے۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابن نمير ، اخبرنا الاعمش ، عن عمارة بن عمير ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، قال: قال: دخلنا على عبد الله ، وعنده علقمة، والاسود، فحدث حديثا لا اراه حدثه إلا من اجلي، كنت احدث القوم سنا، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم شباب لا نجد شيئا، فقال:" يا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة فليتزوج، فإنه اغض للبصر، واحصن للفرج، ومن لم يستطع، فعليه بالصوم، فإنه له وجاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، أَخْبَرَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: قَالَ: دَخَلْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ ، وَعِنْدَهُ عَلْقَمَةُ، وَالْأَسْوَدُ، فَحَدَّثَ حَدِيثًا لَا أُرَاهُ حَدَّثَهُ إِلَّا مِنْ أَجْلِي، كُنْتُ أَحْدَثَ الْقَوْمِ سِنًّا، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَابٌ لَا نَجِدُ شَيْئًا، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نوجوان ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا، ہم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے گروہ نوجواناں! تم میں سے جس میں نکاح کرنے کی صلاحیت ہو، اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ نکاح نگاہوں کو جھکانے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے، اور جو شخص نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اسے روزہ رکھنا اپنے اوپر لازم کر لینا چاہیے کیونکہ روزہ انسانی شہوت کو توڑ دیتا ہے۔“