عبداللہ بن معقل کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں میرے والد حاضر تھے، انہوں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”ندامت بھی توبہ ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن الاعمش ، ومنصور ، وحصين بن عبد الرحمن ، وابو هاشم ، وحماد ، عن ابي وائل ، وعن ابي إسحاق ، عن ابي الاحوص ، والاسود ، عن عبد الله ، قال: كنا لا ندري ما نقول في الصلاة، نقول: السلام على الله، السلام على جبريل، السلام على ميكائيل، قال: فعلمنا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" إن الله هو السلام، فإذا جلستم في ركعتين، فقولوا: التحيات لله، والصلوات والطيبات، السلام عليك ايها النبي ورحمة الله وبركاته، السلام علينا وعلى عباد الله الصالحين"، قال ابو وائل في حديثه: عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا قلتها، اصابت كل عبد صالح في السماء وفي الارض"، وقال ابو إسحاق في حديث عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا قلتها، اصابت كل ملك مقرب، او نبي مرسل، او عبد صالح، اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، وَمَنْصُورٍ ، وَحُصَيْنِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، وَأَبُو هَاشِمٍ ، وحماد ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، وَعَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، وَالْأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا لَا نَدْرِي مَا نَقُولُ فِي الصَّلَاةِ، نَقُولُ: السَّلَامُ عَلَى اللَّهِ، السَّلَامُ عَلَى جِبْرِيلَ، السَّلَامُ عَلَى مِيكَائِيلَ، قَالَ: فَعَلَّمَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ هُوَ السَّلَامُ، فَإِذَا جَلَسْتُمْ فِي رَكْعَتَيْنِ، فَقُولُوا: التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ، وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ، السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ، السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ"، قَالَ أَبُو وَائِلٍ فِي حَدِيثِهِ: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا قُلْتَهَا، أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَفِي الْأَرْضِ"، وَقَالَ أَبُو إِسْحَاقَ فِي حَدِيثِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا قُلْتَهَا، أَصَابَتْ كُلَّ مَلَكٍ مُقَرَّبٍ، أَوْ نَبِيٍّ مُرْسَلٍ، أَوْ عَبْدٍ صَالِحٍ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہم لوگ جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو ہم کہتے تھے کہ اللہ کو اس کے بندوں کی طرف سے سلام ہو، جبرئیل کو سلام ہو، میکائیل کو سلام ہو، فلاں اور فلاں کو سلام ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں یہ کہتے ہوئے سنا تو فرمایا کہ اللہ تو خود سراپا سلام ہے، اس لئے جب تم میں سے کوئی شخص تشہد میں بیٹھے تو یوں کہنا چاہئے: «”التَّحِيَّاتُ لِلّٰهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللّٰهِ الصَّالِحِينَ“ - إِذَا قُلْتَهَا أَصَابَتْ كُلَّ عَبْدٍ صَالِحٍ فِي السَّمَاءِ وَفِي الْأَرْضِ - ”أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ“»”تمام قولی، فعلی اور بدنی عبادتیں اللہ ہی کے لئے ہیں، اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ پر اللہ کی سلامتی، رحمت اور برکت کا نزول ہو، ہم پر اور اللہ کے نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو“، - جب وہ یہ جملہ کہہ لے گا تو یہ آسمان و زمین میں ہر نیک بندے کو شامل ہو جائے گا - ”میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں“، پھر اس کے بعد جو چاہے دعا مانگے۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہمارا گزر ایک ایسی جگہ پر ہوا جہاں چیونٹیاں بہت زیادہ تھیں، ایک شخص نے چیونٹیوں کے ایک بل کو آگ لگا دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی انسان کے لئے یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ اللہ کے عذاب جیسا عذاب دے۔“
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد صحيح على شرط مسلم إن ثبت سماع عبدالرحمن بن عبدالله بن مسعود لهذا الحديث من أبيه، فقد سمع من أبيه شيئا يسيرا.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن منصور ، والاعمش ، عن ذر ، عن وائل بن مهانة ، عن ابن مسعود ، قال: خطبنا النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" تصدقن يا معشر النساء، فإنكن اكثر اهل جهنم يوم القيامة"، فقامت امراة ليست من علية النساء، فقالت: يا رسول الله، لم نحن اكثر اهل جهنم؟ قال:" لانكن تكثرن اللعن، وتكفرن العشير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، والأعمش ، عَنْ ذَرٍّ ، عَنْ وَائِلِ بْنِ مَهَانَةَ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: خَطَبَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" تَصَدَّقْنَ يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، فَإِنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ جَهَنَّمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"، فَقَامَتْ امْرَأَةٌ لَيْسَتْ مِنْ عِلْيَةِ النِّسَاءِ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ نَحْنُ أَكْثَرُ أَهْلِ جَهَنَّمَ؟ قَالَ:" لِأَنَّكُنَّ تُكْثِرْنَ اللَّعْنَ، وَتَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اے گروہ نسواں! صدقہ دیا کرو کیونکہ تم جہنم میں اکثریت ہو۔“ ایک عورت - جو اونچی عورتوں میں سے نہ تھی - کھڑی ہو کر کہنے لگی: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کی کیا وجہ ہے؟ فرمایا: ”اس کی وجہ یہ ہے کہ تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری و نافرمانی کرتی ہو۔“
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين لحال وائل بن مهانة.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا سفيان ، عن منصور ، عن ابي وائل ، عن ابن مسعود ، يرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" تعاهدوا القرآن، فإنه اشد تفصيا من صدور الرجال من النعم من عقلها، بئسما لاحدهم ان يقول: نسيت آية كيت وكيت، بل هو نسي".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" تَعَاهَدُوا الْقُرْآنَ، فَإِنَّهُ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ مِنَ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِهَا، بِئْسَمَا لِأَحَدِهِمْ أَنْ يَقُولَ: نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ، بَلْ هُوَ نُسِّيَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس قرآن کی حفاظت کیا کرو کیونکہ یہ لوگوں کے سینوں سے اتنی تیزی سے نکل جاتا ہے کہ جانور بھی اپنی رسی چھڑا کر اتنی تیزی سے نہیں بھاگتا، اور فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ”یہ بہت بری بات ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ میں فلاں آیت بھول گیا، بلکہ یوں کہے کہ وہ اسے بھلا دی گئی۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، قوله: بئسما لأحدهم أن ..... أخرجه البخاري: 5039.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن ابي إسحاق ، عن ابي الاحوص ، عن ابن مسعود ، قال: جاء نفر إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالوا: يا رسول الله، إن صاحبا لنا اشتكى، افنكويه؟ فسكت ساعة، ثم قال:" إن شئتم فاكووه، وإن شئتم فارضفوه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: جَاءَ نَفَرٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ صَاحِبًا لَنَا اشْتَكَى، أَفَنَكْوِيهِ؟ فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:" إِنْ شِئْتُمْ فَاكْوُوهُ، وَإِنْ شِئْتُمْ فَارْضِفُوهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمارے ایک ساتھی کو کچھ بیماری ہے، کیا ہم داغ کر اس کا علاج کر سکتے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب دینے سے تھوڑی دیر سکوت فرمایا، اور کچھ دیر بعد فرمایا: ”چاہو تو اسے داغ دو اور چاہو تو پتھر گرم کر کے لگاؤ۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن ابي إسحاق ، عن ابي الاحوص ، عن ابن مسعود ، قال: إني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" إن العبد ليكذب حتى يكتب عند الله كذابا، او يصدق حتى يكتب عند الله صديقا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ الْعَبْدَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عند الله كَذَّابًا، أَوْ يَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ عند الله صِدِّيقًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے ”صدیق“ لکھ دیا جاتا ہے، اور اسی طرح انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے تو اللہ کے یہاں اسے ”کذاب“ لکھ دیا جاتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى بن عبيد ، حدثنا الاعمش ، عن عمارة ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، قال: قال عبد الله : كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم شبابا ليس لنا شيء، فقال:" يا معشر الشباب، من استطاع منكم الباءة فليتزوج، فإنه اغض للبصر، واحصن للفرج، ومن لم يستطع، فعليه بالصوم، فإن الصوم له وجاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَابًا لَيْسَ لَنَا شَيْءٌ، فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ، مَنْ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ، فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم نوجوان ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے، ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا، ہم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”اے گروہ نوجواناں! تم میں سے جس میں نکاح کرنے کی صلاحیت ہو، اسے شادی کر لینی چاہیے کیونکہ نکاح نگاہوں کو جھکانے والا اور شرمگاہ کی حفاظت کرنے والا ہے، اور جو شخص نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتا اسے روزہ رکھنا اپنے اوپر لازم کر لینا چاہیے کیونکہ روزہ انسانی شہوت کو توڑ دیتا ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، وابن ابي زائدة ، قالا: حدثنا الاعمش ، عن عمارة ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، قال دخل الاشعث بن قيس على عبد الله يوم عاشوراء، وهو يتغدى، فقال: يا ابا محمد، ادن للغداء، قال: اوليس اليوم عاشوراء؟ قال: وتدري ما يوم عاشوراء؟ إنما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يصومه قبل ان ينزل رمضان، فلما انزل رمضان ترك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، وابن أبي زائدة ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ عُمَارَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ دَخَلَ الْأَشْعَثُ بْنُ قَيْسٍ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ يَوْمَ عَاشُورَاءَ، وَهُوَ يَتَغَدَّى، فَقَالَ: يَا أَبَا مُحَمَّدٍ، ادْنُ لِلْغَدَاءِ، قَالَ: أَوَلَيْسَ الْيَوْمُ عَاشُورَاءَ؟ قَالَ: وَتَدْرِي مَا يَوْمُ عَاشُورَاءَ؟ إِنَّمَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَصُومُهُ قَبْلَ أَنْ يَنْزِلَ رَمَضَانُ، فَلَمَّا أُنْزِلَ رَمَضَانُ تُرِكَ".
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ دس محرم کے دن اشعث بن قیس سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، وہ اس وقت کھانا کھا رہے تھے، کہنے لگے اے ابومحمد! کھانے کے لئے آگے بڑھو، اشعث کہنے لگے کہ آج یوم عاشورہ نہیں ہے؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تمہیں معلوم بھی ہے کہ یوم عاشورہ کیا چیز ہے؟ رمضان کے روزوں کا حکم نازل ہونے سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کا روزہ رکھتے تھے، جب رمضان میں روزوں کا حکم نازل ہوا تو یہ روزہ متروک ہو گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا يعلى ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: كنا جلوسا عند عبد الله ، ومعنا زيد بن حدير، فدخل علينا خباب، فقال: يا ابا عبد الرحمن، اكل هؤلاء يقرا كما تقرا؟ فقال: إن شئت امرت بعضهم فقرا عليك، قال: اجل، فقال لي: اقرا، فقال ابن حدير: تامره يقرا، وليس باقرئنا! فقال: اما والله إن شئت" لاخبرنك ما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لقومك وقومه، قال: فقرات خمسين آية من مريم، فقال خباب: احسنت، فقال عبد الله:" ما اقرا شيئا إلا هو قراه، ثم قال عبد الله لخباب: اما آن لهذا الخاتم ان يلقى، قال: اما إنك لا تراه علي بعد اليوم، والخاتم ذهب".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ عَبْدِ اللَّهِ ، وَمَعَنَا زَيْدُ بْنُ حُدَيْرٍ، فَدَخَلَ عَلَيْنَا خَبَّابٌ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَكُلُّ هَؤُلَاءِ يَقْرَأُ كَمَا تَقْرَأُ؟ فَقَالَ: إِنْ شِئْتَ أَمَرْتَ بَعْضَهُمْ فَقَرَأَ عَلَيْكَ، قَالَ: أَجَلْ، فَقَالَ لِي: اقْرَأْ، فَقَالَ ابْنُ حُدَيْرٍ: تَأْمُرُهُ يَقْرَأُ، وَلَيْسَ بِأَقْرَئِنَا! فَقَالَ: أَمَا وَاللَّهِ إِنْ شِئْتَ" لَأُخْبِرَنَّكَ مَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِقَوْمِكَ وَقَوْمِهِ، قَالَ: فَقَرَأْتُ خَمْسِينَ آيَةً مِنْ مَرْيَمَ، فَقَالَ خَبَّابٌ: أَحْسَنْتَ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ:" مَا أَقْرَأُ شَيْئًا إِلَّا هُوَ قَرَأَهُ، ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ لِخَبَّابٍ: أَمَا آنَ لِهَذَا الْخَاتَمِ أَنْ يُلْقَى، قَالَ: أَمَا إِنَّكَ لَا تَرَاهُ عَلَيَّ بَعْدَ الْيَوْمِ، وَالْخَاتَمُ ذَهَبٌ".
علقمہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ہمارے ساتھ زید بن حدیر بھی تھے، تھوڑی دیر بعد سیدنا خباب رضی اللہ عنہ بھی تشریف لے آئے اور کہنے لگے: اے ابوعبدالرحمن! کیا یہ سب لوگ اسی طرح قرآن پڑھتے ہیں جیسے آپ پڑھتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: اگر آپ چاہیں تو ان میں سے کسی کو پڑھنے کا حکم دیں، وہ آپ کو پڑھ کر سنا دے گا، انہوں نے کہا: اچھا، پھر مجھ سے فرمایا کہ تم پڑھ کر سناؤ، زید بن حدیر کہنے لگے کہ آپ ان سے پڑھنے کو کہہ رہے ہیں حالانکہ یہ ہم میں کوئی بڑے قاری نہیں ہیں؟ انہوں نے فرمایا: خبردار! اگر تم چاہو تو میں تمہیں بتا سکتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہاری قوم اور اس کی قوم کے متعلق کیا فرمایا ہے؟ بہرحال! میں نے سورہ مریم کی پچاس آیات انہیں پڑھ کر سنائیں، سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے میری تحسین فرمائی، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرمانے لگے کہ میں جو کچھ پڑھ سکتا ہوں، وہی یہ بھی پڑھ سکتا ہے، پھر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے سیدنا خباب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: کیا اب بھی اس انگوٹھی کو اتار پھینکنے کا وقت نہیں آیا؟ سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: آج کے بعد آپ اسے میرے ہاتھ میں نہیں دیکھیں گے، وہ انگوٹھی سونے کی تھی۔