ابوالاحوص جشمی کہتے ہیں کہ ایک دن سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، اچانک ان کی نظر ایک سانپ پر پڑی جو دیوار پر چل رہا تھا، انہوں نے اپنی تقریر روکی اور اسے اپنی چھڑی سے مار دیا یہاں تک کہ وہ مر گیا، پھر فرمایا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”جو شخص کسی سانپ کو مارے، گویا اس نے کسی مباح الدم مشرک کو قتل کیا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو الأعين العبدي ضعفه ابن معين، وقال أبو حاتم: مجهول، وقال ابن حبان فى المجروحين 3/ 150: لا يجوز الاحتجاج به.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، وروح ، قالا: حدثنا داود بن ابي الفرات ، قال: حدثنا محمد بن زيد ، عن ابي الاعين العبدي ، عن ابي الاحوص الجشمي ، عن ابن مسعود ، قال: سالنا رسول الله صلى الله عليه وسلم عن القردة والخنازير، اهي من نسل اليهود؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله عز وجل لم يلعن قوما قط، قال روح: فمسخهم فيكون لهم نسل، حتى يهلكهم، ولكن هذا خلق كان، فلما غضب الله عز وجل على اليهود مسخهم، فجعلهم مثلهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، وَرَوْحٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي الْأَعْيَنِ الْعَبْدِيِّ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ الْجُشَمِيِّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: سَأَلْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْقِرَدَةِ وَالْخَنَازِيرِ، أَهِيَ مِنْ نَسْلِ الْيَهُودِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَمْ يَلْعَنْ قَوْمًا قَطُّ، قَالَ رَوْحٌ: فَمَسَخَهُمْ فَيَكُونَ لَهُمْ نَسْلٌ، حَتَّى يُهْلِكَهُمْ، وَلَكِنَّ هَذَا خَلْقٌ كَانَ، فَلَمَّا غَضِبَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى الْيَهُودِ مَسَخَهُمْ، فَجَعَلَهُمْ مِثْلَهُمْ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ یہ بندر اور خنزیر کیا یہودیوں کی نسل میں سے ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ نے جس قوم کو بھی ملعون قرار دے کر ان کی شکلوں کو مسخ کیا تو انہیں ہلاک کرنے کے بعد ان کی نسل کو باقی نہیں رکھا، لیکن یہ مخلوق پہلے سے موجود تھی، جب یہودیوں پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور اس نے ان کی شکلوں کو مسخ کیا تو انہیں ان جیسا بنا دیا۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو الأعين العبدي ضعيف.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، قال: حدثنا عبد العزيز بن مسلم ، حدثنا ابو إسحاق الهمداني ، عن ابي الاحوص ، عن ابن مسعود ، قال: قلت: يا رسول الله، اي الاعمال احب إلى الله عز وجل؟ قال:" صل الصلاة لمواقيتها"، قلت: ثم اي؟ قال:" بر الوالدين"، قلت: ثم اي؟ قال:" ثم الجهاد في سبيل الله"، ولو استزدته، لزادني.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ الْهَمْدَانِيُّ ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْأَعْمَالِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ:" صَلِّ الصَّلَاةَ لِمَوَاقِيتِهَا"، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ:" بِرُّ الْوَالِدَيْنِ"، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ:" ثُمَّ الْجِهَادُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ"، وَلَوْ اسْتَزَدْتُهُ، لَزَادَنِي.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ بارگاہ الٰہی میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے وقت پر نماز پڑھنا“، میں نے پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: ”والدین کے ساتھ حسن سلوک“، میں نے پوچھا: اس کے بعد؟ فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد“، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ باتیں مجھ سے بیان فرمائیں، اگر میں مزید سوالات کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ان کا جواب بھی مرحمت فرماتے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا مهدي ، حدثنا واصل ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال:" إني لاحفظ القرائن التي كان يقرن بينهن رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثماني عشرة سورة من المفصل، وسورتين من آل حم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيٌّ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" إِنِّي لَأَحْفَظُ الْقَرَائِنَ الَّتِي كَانَ يَقْرُنُ بَيْنَهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثَمَانِي عَشْرَةَ سُورَةً مِنَ الْمُفَصَّلِ، وَسُورَتَيْنِ مِنْ آلِ حم".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں ایسی مثالیں بھی جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھی ہیں، جن میں مفصلات کی اٹھارہ سورتیں اور آل حمٓ کی دو سورتیں شامل ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن حماد ، حدثنا ابو عوانة ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: كنا جلوسا عشية الجمعة في المسجد، قال: فقال رجل من الانصار: احدنا راى مع امراته رجلا فقتله، قتلتموه، وإن تكلم جلدتموه، وإن سكت، سكت على غيظ، والله لئن اصبحت صالحا، لاسالن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فساله، فقال: يا رسول الله، إن احدنا راى مع امراته رجلا، فقتله قتلتموه، وإن تكلم جلدتموه، وإن سكت سكت على غيظ، اللهم احكم. قال:" فانزلت آية اللعان"، قال: فكان ذاك الرجل اول من ابتلي به.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عَشِيَّةَ الْجُمُعَةِ فِي الْمَسْجِدِ، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ: أَحَدُنَا رَأَى مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا فَقَتَلَهُ، قَتَلْتُمُوهُ، وَإِنْ تَكَلَّمَ جَلَدْتُمُوهُ، وَإِنْ سَكَتَ، سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، وَاللَّهِ لَئِنْ أَصْبَحْتُ صَالِحًا، لَأَسْأَلَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَسَأَلَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنْ أَحَدُنَا رَأَى مَعَ امْرَأَتِهِ رَجُلًا، فَقَتَلَهُ قَتَلْتُمُوهُ، وَإِنْ تَكَلَّمَ جَلَدْتُمُوهُ، وَإِنْ سَكَتَ سَكَتَ عَلَى غَيْظٍ، اللَّهُمَّ احْكُمْ. قَالَ:" فَأُنْزِلَتْ آيَةُ اللِّعَانِ"، قَالَ: فَكَانَ ذَاكَ الرَّجُلُ أَوَّلَ مَنْ ابْتُلِيَ بِهِ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ جمعہ کے دن شام کے وقت مسجد نبوی میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک انصاری کہنے لگا: اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی غیر مرد کو دیکھے اور اسے قتل کر دے تو تم اسے بدلے میں قتل کر دیتے ہو، اگر وہ زبان ہلاتا ہے تو تم اسے کوڑے مارتے ہو، اور اگر وہ سکوت اختیار کرتا ہے تو غصے کی حالت میں سکوت کرتا ہے، واللہ! اگر میں صبح کے وقت صحیح ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھ کر رہوں گا، چنانچہ اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مسئلہ پوچھا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے ساتھ کسی اجنبی مرد کو دیکھتا ہے اور اسے قتل کر دیتا ہے تو بدلے میں آپ اسے قتل کر دیتے ہیں، اگر وہ بولتا ہے تو آپ اسے کوڑے لگاتے ہیں، اور اگر وہ خاموش رہتا ہے تو غصے کی حالت میں خاموش رہتا ہے؟ اے اللہ! تو فیصلہ فرما، چنانچہ آیت لعان نازل ہوئی اور اس میں سب سے پہلے وہی شخص مبتلا ہوا (اسی کے ساتھ یہ واقعہ پیش آ گیا)۔
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو بطن وادی سے جمرہ عقہ کی رمی کرتے ہوئے دیکھا ہے، جس کے بعد انہوں نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، یہی وہ جگہ ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بھی اور سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ بھی منیٰ میں دو رکعتیں پڑھی ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1657، وقد تقدم برقم: 3593، وفيه التصريح بأن هذه الصلاة كانت بمنى.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في غار، فنزلت: والمرسلات عرفا، قال: فإنا نتلقاها من فيه، فخرجت حية من جحرها، فابتدرناها، فسبقتنا، فدخلت جحرها، فقال:" وقيت شركم ووقيتم شرها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَارٍ، فَنَزَلَتْ: وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفًا، قَالَ: فَإِنَّا نَتَلَقَّاهَا مِنْ فِيهِ، فَخَرَجَتْ حَيَّةٌ مِنْ جُحْرِهَا، فَابْتَدَرْنَاهَا، فَسَبَقَتْنَا، فَدَخَلَتْ جُحْرَهَا، فَقَالَ:" وُقِيَتْ شَرَّكُمْ وَوُقِيتُمْ شَرَّهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غار میں تھے، وہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ مرسلات نازل ہو گئی، ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن کر اسے یاد کرنے لگے، اچانک ایک سانپ اپنے بل سے نکل آیا، ہم جلدی سے آگے بڑھے لیکن وہ ہم پر سبقت لے گیا اور اپنے بل میں گھس گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”وہ تمہارے شر سے بچ گیا جیسے تم اس کے شر سے بچ گئے۔“