(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو إسحاق ، قال: ليس ابو عبيدة ذكره، ولكن عبد الرحمن بن الاسود ، عن ابيه ، انه سمع عبد الله بن مسعود ، يقول: اتى النبي صلى الله عليه وسلم الغائط،" وامرني ان آتيه بثلاثة احجار، فوجدت حجرين، ولم اجد الثالث، فاخذت روثة، فاتيت بهن النبي صلى الله عليه وسلم، فاخذ الحجرين، والقى الروثة، وقال: هذه ركس".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، قَالَ: لَيْسَ أَبُو عُبَيْدَةَ ذَكَرَهُ، وَلَكِنْ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْغَائِطَ،" وَأَمَرَنِي أَنْ آتِيَهُ بِثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، فَوَجَدْتُ حَجَرَيْنِ، وَلَمْ أَجِدْ الثَّالِثَ، فَأَخَذْتُ رَوْثَةً، فَأَتَيْتُ بِهِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ الْحَجَرَيْنِ، وَأَلْقَى الرَّوْثَةَ، وَقَالَ: هَذِهِ رِكْسٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضا حاجت کے لئے نکلے تو مجھ سے فرمایا کہ ”میرے پاس تین پتھر تلاش کر کے لاؤ“، میں دو پتھر اور لید کا ایک خشک ٹکڑا لا سکا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں پتھر لے لئے اور لید کے ٹکڑے کو پھینک کر فرمایا: ”یہ ناپاک ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 156، زهير - وإن سمع من أبى إسحاق بعد الاختلاط - روايته هذه مما انتقاه البخاري من مروياته.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا زهير ، عن ابي إسحاق ، عن الاسود بن يزيد ، وعلقمة ، عن عبد الله ، ان رجلا اتاه، فقال: قرات المفصل في ركعة، فقال: بل هذذت كهذ الشعر، او كنثر الدقل، لكن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يفعل كما فعلت، كان" يقرا النظر الرحمن، والنجم، في ركعة"، قال: فذكر ابو إسحاق عشر ركعات، بعشرين سورة على تاليف عبد الله، آخرهن إذا الشمس كورت، والدخان.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، وَعَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ رَجُلًا أَتَاهُ، فَقَالَ: قَرَأْتُ الْمُفَصَّلَ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ: بَلْ هَذَذْتَ كَهَذِّ الشِّعْرِ، أَوْ كَنَثْرِ الدَّقَلِ، لَكِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَفْعَلْ كَمَا فَعَلْتَ، كَانَ" يَقْرَأُ النُّظُرَ الرَّحْمَنَ، وَالنَّجْمَ، فِي رَكْعَةٍ"، قَالَ: فَذَكَرَ أَبُو إِسْحَاقَ عَشْرَ رَكَعَاتٍ، بِعِشْرِينَ سُورَةً عَلَى تَأْلِيفِ عَبْدِ اللَّهِ، آخِرُهُنَّ إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ، وَالدُّخَانُ.
ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ (بنو بجیلہ کا ایک آدمی) - جس کا نام نہیک بن سنان تھا - سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں ایک رکعت میں مفصلات پڑھ لیتا ہوں، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گھٹیا اشعار کی طرح؟ یا ردی قسم کی نثر کی طرح؟ حالانکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایسا نہیں کرتے تھے بلکہ ایک جیسی سورتوں مثلا سورہ رحمان اور سورہ نجم کو ایک رکعت میں پڑھ لیتے تھے، پھر ابواسحاق نے دس رکعتوں کا بیس سورتوں کے ساتھ تذکرہ کیا، اور اس سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے جمع کردہ مصحف کے مطابق مفصلات کی ابتدائی بیس سورتیں مراد ہیں، جن کا اختتام سورہ تکویر اور سورہ دخان پر ہوا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، زهير بن معاوية - وإن سمع من أبى إسحاق السبيعي بعد الاختلاط - متابع، وأبو إسحاق لم يسمع من علقمة النخعي، لكنه متابع بالأسود بن يزيد، وقد سمع منه.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن آدم ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، قال: كنت مع عبد الله بن مسعود بجمع، فصلى الصلاتين، كل صلاة وحدها باذان وإقامة، والعشاء بينهما، وصلى الفجر حين سطع الفجر، او قال: حين قال قائل: طلع الفجر، وقال قائل: لم يطلع، ثم قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" إن هاتين الصلاتين تحولان عن وقتهما في هذا المكان، لا يقدم الناس جمعا حتى يعتموا، وصلاة الفجر هذه الساعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ بِجَمْعٍ، فَصَلَّى الصَّلَاتَيْنِ، كُلَّ صَلَاةٍ وَحْدَهَا بِأَذَانٍ وَإِقَامَةٍ، وَالْعَشَاءُ بَيْنَهُمَا، وَصَلَّى الْفَجْرَ حِينَ سَطَعَ الْفَجْرُ، أَوْ قَالَ: حِينَ قَالَ قَائِلٌ: طَلَعَ الْفَجْرُ، وَقَالَ قَائِلٌ: لَمْ يَطْلُعْ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ تُحَوَّلَانِ عَنْ وَقْتِهِمَا فِي هَذَا الْمَكَانِ، لاَ يَقْدَمُ النَّاسُ جَمْعًا حَتَّى يُعْتِمُوا، وَصَلاَةُ الْفَجْرِ هَذِهِ السَّاعَةُ".
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ میں مزدلفہ کے میدان میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا، انہوں نے دو نمازیں پڑھیں، ہر نماز تنہا ایک اذان اور اقامت کے ساتھ پڑھی اور ان دونوں کے درمیان کھانا بھی کھایا، اور فجر کی نماز اس وقت پڑھی جب طلوع فجر ہو گئی (یا راوی نے یہ کہا کہ بعض لوگ کہہ رہے تھے کہ صبح صادق ہو گئی ہے اور بعض کہہ رہے تھے کہ ابھی نہیں ہوئی) پھر انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا کہ ”صرف اس جگہ پر ان دو نمازوں کا وقت بدل دیا گیا ہے، لوگ مزدلفہ میں رات کے وقت آتے ہیں اور فجر کی نماز اس وقت پڑھی جائے۔“
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس طرح پڑھائی تھی: «﴿إِنِّي أَنَا الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِينُ﴾»
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى ، حدثنا إسرائيل ، عن ابي إسحاق ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، عن عبد الله ، في قوله عز وجل: ما كذب الفؤاد ما راى سورة النجم آية 11، قال:" راى رسول الله صلى الله عليه وسلم جبريل في حلة من رفرف، قد ملا ما بين السماء والارض".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى سورة النجم آية 11، قَالَ:" رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلَ فِي حُلَّةٍ مِنْ رَفْرَفٍ، قَدْ مَلَأَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اس ارشاد باری تعالیٰ: «﴿مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَى﴾» [النجم: 11]”دل نے جھوٹ نہیں بولا جو دیکھا“ کی تفسیر میں مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبرئیل علیہ السلام کو باریک ریشمی حلے میں دیکھا کہ انہوں نے آسمان و زمین کے درمیان تمام حصے کو پر کر رکھا تھا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر و سیدنا عمر رضی اللہ عنہما ہر مرتبہ جھکتے اٹھتے، کھڑے اور بیٹھتے وقت تکبیر کہتے تھے، اور دائیں بائیں اس طرح سلام پھیرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک رخساروں کی سفیدی دکھائی دیتی تھی۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوال پوچھا کہ بارگاہ الٰہی میں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کون سا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے وقت پر نماز پڑھنا، والدین کے ساتھ حسن سلوک، اللہ کے راستے میں جہاد“، اگر میں مزید سوالات کرتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے ان کا جواب بھی مرحمت فرماتے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 527، م: 85، أبو عبيدة - وإن لم يسمع من أبيه ابن مسعود - متابع.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز سکھاتے ہوئے تکبیر کہی اور رفع یدین کیا، پھر رکوع کیا تو اپنے ہاتھوں کو جوڑ کر گھٹنوں کے درمیان کر لیا، سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ میرے بھائی نے سچ کہا ہے، ہم پہلے اسی طرح کرتے تھے لیکن بعد میں ہمیں گھٹنے پکڑنے کا حکم دے دیا گیا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی نماز پڑھائی، مجھے یہ یاد نہیں کہ اس میں کچھ کمی ہو گئی یا بیشی؟ بہرحال! جب سلام پھیرا تو سہو کے دو سجدے کر لئے۔