قبیصہ بن جابر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں بنو اسد کی ایک بوڑھی عورت کو لے کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا . . . تو وہ فرمانے لگے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”موچنے سے بالوں کو نوچنے والی، دانتوں میں خلا پیدا کروانے والی، اور جسم گودنے والی عورتوں پر لعنت ہے جو اللہ کی تخلیق کو بگاڑتی ہیں۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 5948، م: 2125، وهذا إسناد حسن.
(حديث مرفوع) حدثنا هشام بن عبد الملك ، حدثنا ابو عوانة ، عن حصين ، قال: حدثني إبراهيم ، عن نهيك بن سنان السلمي ، انه اتى عبد الله بن مسعود ، فقال: قرات المفصل الليلة في ركعة، فقال: هذا مثل هذ الشعر، او نثرا مثل نثر الدقل؟ إنما فصل لتفصلوا، لقد علمت النظائر التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم" يقرن، عشرين سورة: الرحمن والنجم، على تاليف ابن مسعود، كل سورتين في ركعة، وذكر الدخان، وعم يتساءلون في ركعة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ ، عَنْ نَهِيكِ بْنِ سِنَانٍ السُّلَمِيِّ ، أَنَّهُ أَتَى عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ: قَرَأْتُ الْمُفَصَّلَ اللَّيْلَةَ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ: هَذًّا مِثْلَ هَذِّ الشِّعْرِ، أَوْ نَثْرًا مِثْلَ نَثْرِ الدَّقَلِ؟ إِنَّمَا فُصِّلَ لِتُفَصِّلُوا، لَقَدْ عَلِمْتُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَقْرُنُ، عِشْرِينَ سُورَةً: الرَّحْمَنُ وَالنَّجْمُ، عَلَى تَأْلِيفِ ابْنِ مَسْعُودٍ، كُلُّ سُورَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ، وَذَكَرَ الدُّخَانَ، وَعَمَّ يَتَسَاءَلُونَ فِي رَكْعَةٍ".
ابراہیم رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ (بنو بجیلہ کا ایک آدمی) - جس کا نام نہیک بن سنان تھا - سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: میں ایک رکعت میں مفصلات پڑھ لیتا ہوں، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: گھٹیا اشعار کی طرح؟ یا ردی قسم کی نثر کی طرح؟ حالانکہ انہیں مفصلات اسی بناء پر قرار دیا گیا ہے تاکہ تم انہیں جدا جدا کر کے پڑھ سکو، میں ایسی مثالیں بھی جانتا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رکعت میں دو سورتیں پڑھی ہیں۔ اور اس سے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے جمع کردہ مصحف کے مطابق مفصلات کی ابتدائی بیس سورتیں مراد ہیں جن میں سورہ رحمٰن اور سورہ نجم شامل ہیں، ایک رکعت میں یہ دو سورتیں اور ایک رکعت میں سورہ دخان اور سورہ نباء۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ہر دھوکہ باز کے لئے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا، اور بتایا جائے گا کہ یہ فلاں آدمی کی دھوکے بازی ہے۔“
(حديث مرفوع) حدثنا سليمان بن داود ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، قال: سمعت ابا وائل يحدث، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" بئسما لاحدكم او بئسما لاحدهم ان يقول: نسيت آية كيت وكيت، بل هو نسي، استذكروا القرآن، فوالذي نفسي بيده، لهو اشد تفصيا من صدور الرجال، من النعم من عقلها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" بِئْسَمَا لِأَحَدِكُمْ أَوْ بِئْسَمَا لِأَحَدِهِمْ أَنْ يَقُولَ: نَسِيتُ آيَةَ كَيْتَ وَكَيْتَ، بَلْ هُوَ نُسِّيَ، اسْتَذْكِرُوا الْقُرْآنَ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَهُوَ أَشَدُّ تَفَصِّيًا مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ، مِنَ النَّعَمِ مِنْ عُقُلِهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”تم میں سے کسی آدمی کی یہ بات انتہائی بری ہے کہ وہ یوں کہے کہ میں فلاں فلاں آیت بھول گیا، بلکہ اسے یوں کہنا چاہئے کہ اسے فلاں آیت بھلا دی گئی۔ اس قرآن کی حفاظت کیا کرو کیونکہ یہ لوگوں کے سینوں سے اتنی تیزی سے نکل جاتا ہے کہ جانور بھی اپنی رسی چھڑا کر اتنی تیزی سے نہیں بھاگتا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا صفوان بن عيسى ، اخبرنا الحارث بن عبد الرحمن ، عن مجاهد ، عن ابن سخبرة ، قال: غدوت مع عبد الله بن مسعود ، من منى إلى عرفات، فكان يلبي، قال: وكان عبد الله رجلا آدم، له ضفران، عليه مسحة اهل البادية، فاجتمع عليه غوغاء من غوغاء الناس، قالوا: يا اعرابي، إن هذا ليس يوم تلبية، إنما هو يوم تكبير!! قال: فعند ذلك التفت إلي، فقال: اجهل الناس ام نسوا! والذي بعث محمدا صلى الله عليه وسلم بالحق، لقد خرجت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم،" فما ترك التلبية حتى رمى جمرة العقبة، إلا ان يخلطها بتكبير او تهليل".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى ، أَخْبَرَنَا الْحَارِثُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ سَخْبَرَةَ ، قَالَ: غَدَوْتُ مَعَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، مِنْ مِنًى إِلَى عَرَفَاتٍ، فَكَانَ يُلَبِّي، قَالَ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ رَجُلًا آدَمَ، لَهُ ضَفْرَانِ، عَلَيْهِ مَسْحَةُ أَهْلِ الْبَادِيَةِ، فَاجْتَمَعَ عَلَيْهِ غَوْغَاءُ مِنْ غَوْغَاءِ النَّاسِ، قَالُوا: يَا أَعْرَابِيُّ، إِنَّ هَذَا لَيْسَ يَوْمَ تَلْبِيَةٍ، إِنَّمَا هُوَ يَوْمُ تَكْبِيرٍ!! قَالَ: فَعِنْدَ ذَلِكَ الْتَفَتَ إِلَيَّ، فَقَالَ: أَجَهِلَ النَّاسُ أَمْ نَسُوا! وَالَّذِي بَعَثَ مُحَمَّدًا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَقِّ، لَقَدْ خَرَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" فَمَا تَرَكَ التَّلْبِيَةَ حَتَّى رَمَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ، إِلاَّ أَنْ يَخْلِطَهَا بِتَكْبِيرٍ أَوْ تَهْلِيلٍ".
ابن سخبرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ حج کے موقع پر میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ہمراہ منیٰ سے عرفات کی طرف روانہ ہوا، وہ راستے بھر تلبیہ کہتے رہے، وہ گھنگھریالے بالوں والے گندم گوں رنگت کے مالک تھے، ان کی دو مینڈھیاں تھیں اور اہل دیہات کی طرح انہوں نے کمبل اپنے اوپر لے رکھا تھا، انہیں تلبیہ پڑھتے ہوئے دیکھ کر بہت سے لوگ ان کے گرد جمع ہو کر کہنے لگے: اے دیہاتی! آج تلبیہ کا دن نہیں ہے، آج تو تکبیر کا دن ہے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: لوگ ناواقف ہیں یا بھول گئے ہیں، اس ذات کی قسم جس نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کی رمی تک تلبیہ کو ترک نہیں فرمایا، البتہ درمیان درمیان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تہلیل و تکبیر بھی کہہ لیتے تھے۔
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن عمرو بن ميمون ، عن عبد الله ، قال: ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم دعا على قريش غير يوم واحد، فإنه كان يصلي ورهط من قريش جلوس، وسلى جزور قريب منه، فقالوا: من ياخذ هذا السلى، فيلقيه على ظهره، قال: فقال عقبة بن ابي معيط: انا، فاخذه فالقاه على ظهره، فلم يزل ساجدا، حتى جاءت فاطمة صلوات الله عليها، فاخذته عن ظهره، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اللهم عليك الملا من قريش، اللهم عليك بعتبة بن ربيعة، اللهم عليك بشيبة بن ربيعة، اللهم عليك بابي جهل بن هشام، اللهم عليك بعقبة بن ابي معيط، اللهم عليك بابي بن خلف او امية بن خلف"، قال: قال عبد الله: فلقد رايتهم قتلوا يوم بدر جميعا، ثم سحبوا إلى القليب غير ابي، او امية، فإنه كان رجلا ضخما، فتقطع.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعَا عَلَى قُرَيْشٍ غَيْرَ يَوْمٍ وَاحِدٍ، فَإِنَّهُ كَانَ يُصَلِّي وَرَهْطٌ مِنْ قُرَيْشٍ جُلُوسٌ، وَسَلَى جَزُورٍ قَرِيبٌ مِنْهُ، فَقَالُوا: مَنْ يَأْخُذُ هَذَا السَّلَى، فَيُلْقِيَهُ عَلَى ظَهْرِهِ، قَالَ: فَقَالَ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي مُعَيْطٍ: أَنَا، فَأَخَذَهُ فَأَلْقَاهُ عَلَى ظَهْرِهِ، فَلَمْ يَزَلْ سَاجِدًا، حَتَّى جَاءَتْ فَاطِمَةُ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهَا، فَأَخَذَتْهُ عَنْ ظَهْرِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ عَلَيْكَ الْمَلَأَ مِنْ قُرَيْشٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِعُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِشَيْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأَبِي جَهْلِ بْنِ هِشَامٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بعُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ، اللَّهُمَّ عَلَيْكَ بِأُبَيِّ بْنِ خَلَفٍ أَوْ أُمَيَّةَ بْنِ خَلَفٍ"، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَلَقَدْ رَأَيْتُهُمْ قُتِلُوا يَوْمَ بَدْرٍ جَمِيعًا، ثُمَّ سُحِبُوا إِلَى الْقَلِيبِ غَيْرَ أُبَيٍّ، أَوْ أُمَيَّةَ، فَإِنَّهُ كَانَ رَجُلًا ضَخْمًا، فَتَقَطَّعَ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک دن کے علاوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کے خلاف بد دعا کرتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے، دائیں بائیں قریش کے کچھ لوگ موجود تھے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ایک اونٹ کی اوجھڑی پڑی ہوئی تھی، قریش کے لوگ کہنے لگے کہ یہ اوجھڑی لے کر ان کی پشت پر کون ڈالے گا، عقبہ بن ابی معیط نے اپنے آپ کو پیش کر دیا، اور وہ اوجھڑی لے آیا اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت پر ڈال دیا، جس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر نہ اٹھا سکے، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو پتہ چلا تو وہ جلدی سے آئیں اور اسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت سے اتار کر دور پھینکا اور یہ گندی حرکت کرنے والے کو بد دعائیں دینے لگیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے فارغ ہونے کے بعد فرمایا: ”اے اللہ! قریش کے ان سرداروں کی پکڑ فرما، اے اللہ! عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، ابوجہل، عقبہ بن ابی معیط، ابی بن خلف، یا امیہ بن خلف کی پکڑ فرما۔“ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان سب کو دیکھا کہ یہ غزوہ بدر کے موقع پر مارے گئے اور انہیں گھسیٹ کر ایک کنوئیں میں ڈال دیا گیا، سوائے امیہ یا ابی کے جس کے اعضا کٹ چکے تھے، اسے کنوئیں میں نہیں ڈالا گیا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ازهر بن سعد ، اخبرنا ابن عون ، عن إبراهيم ، عن عبيدة ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" خير الناس اقراني الذين يلوني، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم قال: ولا ادري اقال في الثالثة، او في الرابعة، ثم يخلف بعدهم خلف تسبق شهادة احدهم يمينه، ويمينه شهادته".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ سَعْدٍ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" خَيْرُ النَّاسِ أقَرانِي الَّذِينَ يَلُونِي، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ قَالَ: وَلاَ أَدْرِي أَقَالَ فِي الثَّالِثَةِ، أَوْ فِي الرَّابِعَةِ، ثُمَّ يَخْلُفُ بَعْدَهُمْ خَلْفٌ تَسْبِقُ شَهَادَةُ أَحَدِهِمْ يَمِينَهُ، وَيَمِينُهُ شَهَادَتَهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لوگوں میں سب سے بہترین وہ ہیں جو میرے زمانہ میں ہیں، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، پھر وہ جو ان کے بعد ہوں گے، اس کے بعد ایک ایسی قوم آئے گی جس کی گواہی قسم سے آگے بڑھ جائے گی اور قسم گواہی سے آگے بڑھ جائے گی۔“
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا همام ، قال: حدثنا عاصم ، عن زر ، عن ابن مسعود ،" ان الامم عرضت على النبي صلى الله عليه وسلم، قال: فعرضت عليه امته، فاعجبته كثرتهم، فقيل: إن مع هؤلاء سبعين الفا يدخلون الجنة بغير حساب".حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ،" أَنَّ الْأُمَمَ عُرِضَتْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَعُرِضَتْ عَلَيْهِ أُمَّتُهُ، فَأَعْجَبَتْهُ كَثْرَتُهُمْ، فَقِيلَ: إِنَّ مَعَ هَؤُلَاءِ سَبْعِينَ أَلْفًا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ بِغَيْرِ حِسَابٍ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ساری امتوں کو پیش کیا گیا، پھر ان کی امت کو پیش کیا گیا جس کی کثرت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت اچھی لگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ ان لوگوں کے ساتھ ستر ہزار آدمی ایسے بھی ہیں جو جنت میں بلا حساب کتاب داخل ہوں گے۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الصمد ، حدثنا حماد ، عن عاصم ، عن زر ، عن ابن مسعود ، قال: كانوا يوم بدر بين كل ثلاثة نفر بعير، وكان زميل النبي صلى الله عليه وسلم علي، وابو لبابة، قال: وكان إذا كانت عقبة النبي صلى الله عليه وسلم، قالا له: اركب حتى نمشي عنك، فيقول:" ما انتما باقوى مني، وما انا باغنى عن الاجر منكما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كَانُوا يَوْمَ بَدْرٍ بَيْنَ كُلِّ ثَلَاثَةِ نَفَرٍ بَعِيرٌ، وَكَانَ زَمِيلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيٌّ، وَأَبُو لُبَابَةَ، قَالَ: وَكَانَ إِذَا كَانَتْ عُقْبَةُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَا لَهُ: ارْكَبْ حَتَّى نَمْشِيَ عَنْكَ، فَيَقُولُ:" مَا أَنْتُمَا بِأَقْوَى مِنِّي، وَمَا أَنَا بِأَغْنَى عَنِ الْأَجْرِ مِنْكُمَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن ہم تین تین آدمی ایک ایک اونٹ پر سوار تھے، اس طرح سیدنا ابولبابہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باری پیدل چلنے کی آئی تو یہ دونوں حضرات کہنے لگے کہ ہم آپ کی جگہ پیدل چلتے ہیں (آپ سوار رہیں)، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو اور نہ ہی میں تم سے ثواب کے معاملے میں مستغنی ہوں۔“