حدثنا ابو نعيم ، حدثنا ابو عميس ، قال: سمعت علي بن الاقمر يذكر، عن ابي الاحوص ، عن عبد الله ، انه قال: من سره ان يلقى الله غدا مسلما، فليحافظ على هؤلاء الصلوات حيث ينادى بهن، فإن الله شرع لنبيكم سنن الهدى، وإنهن من سنن الهدى، ولو انكم صليتم في بيوتكم كما يصلي هذا المتخلف في بيته، لتركتم سنة نبيكم، ولو انكم تركتم سنة نبيكم لضللتم، وما من رجل يتطهر فيحسن الطهور، ثم يعمد إلى مسجد من هذه المساجد، إلا كتب الله له بكل خطوة يخطوها حسنة، ويرفع له بها درجة، ويحط عنه بها سيئة، ولو رايتنا، وما يتخلف عنها إلا منافق معلوم النفاق، ولقد كان الرجل يؤتى به يهادى بين الرجلين، حتى يقام في الصف".حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيَّ بْنَ الْأَقْمَرِ يَذْكُرُ، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّهُ قَالَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَلْقَى اللَّهَ غَدًا مُسْلِمًا، فَلْيُحَافِظْ عَلَى هَؤُلَاءِ الصَّلَوَاتِ حَيْثُ يُنَادَى بِهِنَّ، فَإِنَّ اللَّهَ شَرَعَ لِنَبِيِّكُمْ سُنَنَ الْهُدَى، وَإِنَّهُنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى، وَلَوْ أَنَّكُمْ صَلَّيْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ كَمَا يُصَلِّي هَذَا الْمُتَخَلِّفُ فِي بَيْتِهِ، لَتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ، وَلَوْ أَنَّكُمْ تَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ لَضَلَلْتُمْ، وَمَا مِنْ رَجُلٍ يَتَطَهَّرُ فَيُحْسِنُ الطُّهُورَ، ثُمَّ يَعْمِدُ إِلَى مَسْجِدٍ مِنْ هَذِهِ الْمَسَاجِدِ، إِلَّا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ بِكُلِّ خُطْوَةٍ يَخْطُوهَا حَسَنَةً، وَيَرْفَعُ لَهُ بِهَا دَرَجَةً، وَيَحُطُّ عَنْهُ بِهَا سَيِّئَةً، وَلَوْ رَأَيْتُنَا، وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنْهَا إِلَّا مُنَافِقٌ مَعْلُومُ النِّفَاقِ، وَلَقَدْ كَانَ الرَّجُلُ يُؤْتَى بِهِ يُهَادَى بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ، حَتَّى يُقَامَ فِي الصَّفِّ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ کل قیامت کے دن اللہ سے اس کی ملاقات اسلام کی حالت میں ہو تو اسے ان فرض نمازوں کی پابندی کرنی چاہئے جب بھی ان کی طرف پکارا جائے، کیونکہ یہ سنن ہدی میں سے ہیں اور اللہ نے تمہارے پیغمبر کے لئے سنن ہدی کو مشروع قرار دیا ہے، تم اگر اپنے گھروں میں اس طرح نماز پڑھنے لگے جیسے یہ پیچھے رہ جانے والے اپنے گھروں میں پڑھ لیتے ہیں تو تم اپنے نبی کی سنت کے تارک ہو گے، اور جب تم اپنے نبی کی سنت کو چھوڑو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے، جو شخص وضو کرے اور اچھی طرح کرے، پھر کسی بھی مسجد کی طرف روانہ ہو جائے، وہ جو قدم بھی اٹھائے گا، اس کا ایک درجہ بلند کیا جائے گا، ایک گناہ معاف کیا جائے گا اور ایک نیکی لکھی جائے گی، اور میں نے دیکھا ہے کہ جماعت کی نماز سے وہی شخص پیچھے رہتا تھا جو منافق ہوتا تھا اور اس کا نفاق سب کے علم میں ہوتا تھا، نیز یہ بھی کہ ایک شخص کو دو آدمیوں کے سہارے پر مسجد میں لایا جاتا اور صف میں کھڑا کر دیا جاتا تھا۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے رات کے وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنا طویل قیام کیا کہ میں اپنے دل میں برا ارادہ کرنے لگا۔ ان کے شاگرد کہتے ہیں کہ ہم نے پوچھا: آپ نے کیا ارادہ کیا تھا؟ فرمایا کہ میں بیٹھ جاؤں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑا چھوڑ دوں۔
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جہنم کی آگ پر ہر اس شخص کو حرام قرا دے دیا گیا ہے جو باوقار ہو، نرم خو ہو، سہولت پسند طبیعت کا ہو (جھگڑالو نہ ہو) اور لوگوں کے قریب ہو۔“
حكم دارالسلام: حسن بشواهده، وهذا إسناد ضعيف، عبدالله بن عمرو الأودي لم يرو عنه غير موسى بن عقبة، ولم يؤثر توثيقه عن غير ابن حبان.
(حديث مرفوع) حدثنا موسى بن داود ، اخبرنا زهير ، عن ابي الحارث يحيى التيمي ، عن ابي ماجد الحنفي ، عن عبد الله ، قال: سالنا نبينا صلى الله عليه وسلم عن السير بالجنازة؟ فقال:" السير ما دون الخبب، فإن يك خيرا، يعجل او تعجل إليه، وإن يك سوى ذلك، فبعدا لاهل النار، الجنازة متبوعة ولا تتبع، ليس منا من تقدمها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ دَاوُدَ ، أَخْبَرَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ أَبِي الْحَارِثِ يَحْيَى التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي مَاجِدٍ الْحَنَفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: سَأَلْنَا نَبِيَّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّيْرِ بِالْجِنَازَةِ؟ فَقَالَ:" السَّيْرُ مَا دُونَ الْخَبَبِ، فَإِنْ يَكُ خَيْرًا، يُعَجَّلْ أَوْ تُعَجَّلْ إِلَيْهِ، وَإِنْ يَكُ سِوَى ذَلِكَ، فَبُعْدًا لأَهْلِ النَّارِ، الْجِنَازَةُ مَتْبُوعَةٌ وَلاَ تَتْبَعُ، لَيْسَ مِنَّا مَنْ تَقَدَّمَهَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جنازے کے ساتھ چلنے کے متعلق دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ رفتار جو دوڑنے کے زمرے میں نہ آتی ہو، اگر وہ نیکوکار رہا ہو گا تو اس کے اچھے انجام کی طرف اسے جلد لے جایا جا رہا ہو گا، اور اگر وہ ایسا نہ ہوا تو اہل جہنم کو دور ہی ہو جانا چاہئے، اور جنازہ کو متبوع ہونا چاہئے نہ کہ تابع (جنازے کو آگے اور چلنے والوں کو اس کے پیچھے ہونا چاہئے)۔“
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة أبى ماجد الحنفي.
(حديث مرفوع) حدثنا يحيى بن سعيد ، عن ابن عجلان ، قال: حدثني عون بن عبد الله ، قال: قال عبد الله : إذا حدثتم عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حديثا،" فظنوا برسول الله صلى الله عليه وسلم الذي هو اهياه واهداه واتقاه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ عَجْلاَنَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَوْنُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : إِذَا حُدِّثْتُمْ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا،" فَظُنُّوا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي هُوَ أَهْيَاهُ وَأَهْدَاهُ وَأَتْقَاهُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب تمہارے سامنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی حدیث بیان کی جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق وہ گمان کرو جو درستگی، ہدایت اور تقوی پر مبنی ہو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، عون لم يسمع من عم أبيه ابن مسعود.
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ حج کیا، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جمرہ عقبہ کو سات کنکریاں ماریں اور بیت اللہ کو اپنی بائیں طرف رکھا اور منیٰ کو دائیں طرف اور فرمایا: یہی وہ جگہ ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔
عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بطن وادی سے جمرہ عقبہ کی رمی کرتے ہوئے پہاڑ کو اپنی پشت پر رکھا اور رمی کرنے کے بعد فرمایا: یہی وہ جگہ ہے جہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر سورہ بقرہ نازل ہوئی تھی۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم ، حدثنا زائدة ، حدثنا عاصم ، عن زر ، عن عبد الله ، قال: لحق بالنبي صلى الله عليه وسلم عبد اسود، فمات، فاتي به النبي صلى الله عليه وسلم، فقال:" انظروا هل ترك شيئا؟" قالوا: ترك دينارين، قال:" كيتان".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ ، عَنْ زِرٍّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: لَحِقَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدٌ أَسْوَدُ، فَمَاتَ، فَأُتِيَ بِهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" انْظُرُوا هَلْ تَرَكَ شَيْئًا؟" قَالُوا: تَرَكَ دِينَارَيْنِ، قَالَ:" كَيَّتَانِ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک سیاہ فام غلام آ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے مل گیا، کچھ عرصے بعد اس کا انتقال ہو گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ دیکھو کہ اس نے کچھ چھوڑا بھی ہے؟“ لوگوں نے بتایا کہ اس نے ترکہ میں دو دینار چھوڑے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ جہنم کے دو انگارے ہیں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا اسباط ، وابن فضيل ، المعنى قالا: حدثنا مطرف ، عن ابي الجهم ، عن ابي الرضراض ، عن ابن مسعود ، قال: كنت اسلم على النبي صلى الله عليه وسلم وهو في الصلاة، فيرد علي، فسلمت عليه ذات يوم، فلم يرد علي شيئا، فوجدت في نفسي، فقلت: يا رسول الله، كنت اسلم عليك، وانت في الصلاة، فترد علي، وإني سلمت عليك، فلم ترد علي شيئا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله يحدث في امره ما يشاء".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَسْبَاطٌ ، وَابْنُ فُضَيْلٍ ، المعنى قَالَا: حَدَّثَنَا مُطَرِّفٌ ، عَنْ أَبِي الْجَهْمِ ، عَنْ أَبِي الرَّضْرَاضِ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كُنْتُ أُسَلِّمُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ، فَيَرُدُّ عَلَيَّ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ذَاتَ يَوْمٍ، فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا، فَوَجَدْتُ فِي نَفْسِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنْتُ أُسَلِّمُ عَلَيْكَ، وَأَنْتَ فِي الصَّلَاةِ، فَتَرُدُّ عَلَيَّ، وَإِنِّي سَلَّمْتُ عَلَيْكَ، فَلَمْ تَرُدَّ عَلَيَّ شَيْئًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ يُحْدِثُ فِي أَمْرِهِ مَا يَشَاءُ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دوران نماز سلام کرتا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جواب دے دیتے تھے، لیکن ایک دن میں نے انہیں سلام کیا تو انہوں نے جواب نہ دیا، مجھے اس کا بڑا رنج ہوا، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پہلے تو میں دوران نماز آپ کو سلام کرتا تھا تو آپ جواب دے دیتے تھے؟ فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اپنے معاملات میں جس طرح چاہتا ہے، نیا حکم بھیج دیتا ہے۔“
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات.
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الوهاب بن عطاء ، انبانا سعيد بن ابي عروبة ، عن قتادة ، عن عزرة ، عن الحسن العرني ، عن يحيى بن الجزار ، عن مسروق ، ان امراة جاءت إلى ابن مسعود ، فقالت: انبئت انك تنهى عن الواصلة? قال: نعم، فقالت: اشيء تجده في كتاب الله، ام سمعته عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟! فقال: اجده في كتاب الله، وعن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: والله لقد تصفحت ما بين دفتي المصحف، فما وجدت فيه الذي تقول! قال: فهل وجدت فيه وما آتاكم الرسول فخذوه وما نهاكم عنه فانتهوا سورة الحشر آية 7، قالت: نعم، قال: فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم" نهى عن النامصة، والواشرة، والواصلة، والواشمة، إلا من داء"، قالت المراة: فلعله في بعض نسائك؟ قال لها: ادخلي، فدخلت ثم خرجت، فقالت: ما رايت باسا، قال: ما حفظت إذا وصية العبد الصالح: وما اريد ان اخالفكم إلى ما انهاكم عنه سورة هود آية 88.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَطَاءٍ ، أَنْبَأَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَزْرَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ الْعُرَنِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ الجَزَّارِ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، أَنَّ امْرَأَةً جَاءَتْ إِلَى ابْنِ مَسْعُودٍ ، فَقَالَتْ: أُنْبِئْتُ أَنَّكَ تَنْهَى عَنِ الْوَاصِلَةِ? قَالَ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: أَشَيْءٌ تَجِدُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ، أَمْ سَمِعْتَهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟! فَقَالَ: أَجِدُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَعَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: وَاللَّهِ لَقَدْ تَصَفَّحْتُ مَا بَيْنَ دَفَّتَيْ الْمُصْحَفِ، فَمَا وَجَدْتُ فِيهِ الَّذِي تَقُولُ! قَالَ: فَهَلْ وَجَدْتِ فِيهِ وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا سورة الحشر آية 7، قَالَتْ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى عَنِ النَّامِصَةِ، وَالْوَاشِرَةِ، وَالْوَاصِلَةِ، وَالْوَاشِمَةِ، إِلَّا مِنْ دَاءٍ"، قَالَتْ الْمَرْأَةُ: فَلَعَلَّهُ فِي بَعْضِ نِسَائِكَ؟ قَالَ لَهَا: ادْخُلِي، فَدَخَلَتْ ثُمَّ خَرَجَتْ، فَقَالَتْ: مَا رَأَيْتُ بَأْسًا، قَالَ: مَا حَفِظْتُ إِذًا وَصِيَّةَ الْعَبْدِ الصَّالِحِ: وَمَا أُرِيدُ أَنْ أُخَالِفَكُمْ إِلَى مَا أَنْهَاكُمْ عَنْهُ سورة هود آية 88.
مسروق کہتے ہیں کہ ایک عورت سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک مرتبہ آئی اور کہنے لگی کہ مجھے پتہ چلا ہے، آپ عورتوں کو بالوں کے ساتھ دوسرے بال ملانے سے منع کرتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: ایسا ہی ہے، اس عورت نے پوچھا کہ یہ حکم آپ کو قرآن میں ملتا ہے یا آپ نے اس حوالے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فرمان سنا ہے؟ فرمایا: مجھے یہ حکم قرآن میں بھی ملتا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں بھی ملتا ہے، وہ عورت کہنے لگی: واللہ! میں تو دو گتوں کے درمیان جو مصحف ہے اسے خوب اچھی طرح کھنگال چکی ہوں، مجھے تو اس میں یہ حکم کہیں نہیں ملا؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا اس میں تمہیں یہ آیت ملی: «﴿وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا﴾»[الحشر: 7]”اللہ کے پیغمبر تمہیں جو حکم دیں اس پر عمل کرو اور جس سے منع کریں اس سے رک جاؤ؟“ اس نے کہا: جی ہاں! فرمایا: پھر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان چیزوں سے منع کرتے ہوئے سنا ہے: ”موچنے سے بالوں کو نوچنے والی، دانتوں کو باریک کرنے والی، دوسرے کے بالوں کو اپنے بالوں کے ساتھ ملانے والی اور جسم گودنے والی سے، ہاں! اگر کوئی بیماری ہو تو دوسری بات ہے۔“ وہ عورت کہنے لگی کہ اگر آپ کے گھر کی عورتیں یہ کام کرتی ہوں تو؟ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: جا کر دیکھ لو، وہ عورت ان کے گھر چلی گئی، پھر آ کر کہنے لگی کہ مجھے تو وہاں کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی، انہوں نے فرمایا: اگر ایسا ہو تو میں عبد صالح حضرت شعیب علیہ السلام کی یہ نصیحت یاد نہ رکھتا کہ ”میں تمہیں جس چیز سے روکتا ہوں، میں خود اس کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا (کہ میں تمہیں ایک کام سے روکوں اور خود وہی کام کرتا رہوں)۔“
حكم دارالسلام: إسناده قوي، خ: 5948، م: 2125. عبدالوهاب بن عطاء الخفاف: فيه كلام خفيف، وقد عرف بصحبته السعيد بن أبى عروبة، وسمع منه قبل الاختلاط، وكتب كتبه.