حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: ابو إسحاق اخبرنا، عن ابي الاحوص ، قال: كان عبد الله يقول:" إن الكذب لا يصلح منه جد ولا هزل وقال عفان مرة: جد ولا يعد الرجل صبيا، ثم لا ينجز له". قال: وإن محمدا قال لنا:" لا يزال الرجل يصدق حتى يكتب عند الله صديقا، ولا يزال الرجل يكذب حتى يكتب عند الله كذابا".حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَبُو إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا، عَنْ أَبِي الْأَحْوَصِ ، قَالَ: كَانَ عَبْدُ اللَّهِ يَقُولُ:" إِنَّ الْكَذِبَ لَا يَصْلُحُ مِنْهُ جِدٌّ وَلَا هَزْلٌ وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً: جِدٌّ وَلَا يَعِدُ الرَّجُلُ صَبِيًّا، ثُمَّ لَا يُنْجِزُ لَهُ". قَالَ: وَإِنَّ مُحَمَّدًا قَالَ لَنَا:" لَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ صِدِّيقًا، وَلَا يَزَالُ الرَّجُلُ يَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ سنجیدگی یا مذاق کسی صورت میں بھی جھوٹ بولنا صحیح نہیں ہے، اور کوئی شخص کسی بچے سے ایسا وعدہ نہ کرے جسے وہ پورا نہ کرے، اور ہم سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ”انسان مسلسل سچ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ کے یہاں اسے صدیق لکھ دیا جاتا ہے، اور اسی طرح انسان مسلسل جھوٹ بولتا رہتا ہے تو اللہ کے یہاں اسے کذاب لکھ دیا جاتا ہے۔“
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، المرفوع منه أخرجه مسلم: 2606، وأبو يعلى بقسميه الموقوف والمرفوع مطولا: 5363.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح تلبیہ پڑھا کرتے تھے: «لَبَّيْكَ اللّٰهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ» ۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، أبان بن تغلب لا تعلم روايته عن أبى إسحاق السبيعي هل كانت قبل التغير أو بعده ، وقد خالفه شعبة فرواه عن أبى إسحاق موقوفا، وهذا أصح.
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن محمد بن ابي شيبة ، قال عبد الله بن احمد: وسمعته انا من عثمان بن ابي شيبة، حدثنا عبد الله بن إدريس ، عن الاعمش ، عن عبد الله بن مرة ، عن مسروق ، عن عبد الله ، قال: بينما النبي صلى الله عليه وسلم في حرث، متوكئا على عسيب، فقام إليه نفر من اليهود، فسالوه عن الروح؟ فسكت، ثم تلا هذه الآية عليهم:" ويسالونك عن الروح قل الروح من امر ربي وما اوتيتم من العلم إلا قليلا سورة الإسراء آية 85".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ ، قال عبد الله بن أحمد: وَسَمِعْتُهُ أَنَا مِنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: بَيْنَمَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ، مُتَوَكِّئًا عَلَى عَسِيبٍ، فَقَامَ إِلَيْهِ نَفَرٌ مِنْ الْيَهُودِ، فَسَأَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ؟ فَسَكَتَ، ثُمَّ تَلاَ هَذِهِ الآَيَةَ عَلَيْهِمْ:" وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کے کسی کھیت میں چل رہے تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی لاٹھی ٹیکتے جا رہے تھے، چلتے چلتے یہودیوں کی ایک جماعت پر سے گزر ہوا، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے متعلق دریافت کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی: «﴿وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيلًا﴾»[الإسراء: 85]”یہ لوگ آپ سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، آپ فرما دیجئے کہ روح تو میرے رب کا حکم ہے اور تمہیں بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔“
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، اخبرنا ثابت ، عن انس بن مالك ، عن ابن مسعود ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" آخر من يدخل الجنة رجل، فهو يمشي مرة، ويكبو مرة، وتسقفه النار مرة، فإذا جاوزها، التفت إليها، فقال: تبارك الذي انجاني منك، لقد اعطاني الله شيئا ما اعطاه احدا من الاولين والآخرين، فترفع له شجرة، فيقول: اي رب، ادنني من هذه الشجرة، فاستظل بظلها، فاشرب من مائها، فيقول له الله: يا ابن آدم، فلعلي إذا اعطيتكها سالتني غيرها، فيقول: لا يا رب، ويعاهده ان لا يساله غيرها، قال: وربه عز وجل يعذره، لانه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فيستظل بظلها، ويشرب من مائها، ثم ترفع له شجرة هي احسن من الاولى، فيقول: اي رب، هذه فلاشرب من مائها، واستظل بظلها، لا اسالك غيرها، فيقول: ابن آدم، الم تعاهدني ان لا تسالني غيرها؟ فيقول: لعلي إن ادنيتك منها تسالني غيرها؟ فيعاهده ان لا يساله غيرها، وربه عز وجل يعذره، لانه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فيستظل بظلها، ويشرب من مائها، ثم ترفع له شجرة عند باب الجنة، هي احسن من الاوليين، فيقول: اي رب، ادنني من هذه الشجرة، فاستظل بظلها، واشرب من مائها، لا اسالك غيرها، فيقول: يا ابن آدم، الم تعاهدني ان لا تسالني غيرها؟ قال: بلى، اي رب، هذه لا اسالك غيرها، فيقول: لعلي إن ادنيتك منها تسالني غيرها، فيعاهده ان لا يساله غيرها، وربه يعذره، لانه يرى ما لا صبر له عليه، فيدنيه منها، فإذا ادناه منها، سمع اصوات اهل الجنة، فيقول: اي رب ادخلنيها، فيقول: يا ابن آدم، ما يصريني منك؟ ايرضيك ان اعطيك الدنيا، ومثلها معها؟ فيقول: اي رب، اتستهزئ بي، وانت رب العالمين؟ فضحك ابن مسعود، فقال: الا تسالوني مما اضحك؟ فقالوا: مم تضحك؟ فقال: هكذا ضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال:" الا تسالوني مم اضحك؟"، فقالوا: مم تضحك يا رسول الله؟ قال:" من ضحك ربي حين قال: اتستهزئ مني وانت رب العالمين؟ فيقول: إني لا استهزئ منك، ولكني على ما اشاء قدير".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" آخِرُ مَنْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ رَجُلٌ، فَهُوَ يَمْشِي مَرَّةً، وَيَكْبُو مَرَّةً، وَتَسْقَفُهُ النَّارُ مَرَّةً، فَإِذَا جَاوَزَهَا، الْتَفَتَ إِلَيْهَا، فَقَالَ: تَبَارَكَ الَّذِي أَنْجَانِي مِنْكِ، لَقَدْ أَعْطَانِي اللَّهُ شَيْئًا مَا أَعْطَاهُ أَحَدًا مِنَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ، فَتُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، فَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، فَيَقُولُ لَهُ اللَّهُ: يَا ابْنَ آدَمَ، فَلَعَلِّي إِذَا أَعْطَيْتُكَهَا سَأَلْتَنِي غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: لَا يَا رَبِّ، وَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا، قَالَ: وَرَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَعْذُرُهُ، لَأنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا، وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الْأُولَى، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، هَذِهِ فَلَأَشْرَبْ مِنْ مَائِهَا، وَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: ابْنَ آدَمَ، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا؟ فَيَقُولُ: لَعَلِّي إِنْ أَدْنَيْتُكَ مِنْهَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا؟ فَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَعْذُرُهُ، لِأنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَيَسْتَظِلُّ بِظِلِّهَا، وَيَشْرَبُ مِنْ مَائِهَا، ثُمَّ تُرْفَعُ لَهُ شَجَرَةٌ عِنْدَ بَابِ الْجَنَّةِ، هِيَ أَحْسَنُ مِنَ الْأُولَيَيْنِ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَدْنِنِي مِنْ هَذِهِ الشَّجَرَةِ، فَأَسْتَظِلَّ بِظِلِّهَا، وَأَشْرَبَ مِنْ مَائِهَا، لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ، أَلَمْ تُعَاهِدْنِي أَنْ لَا تَسْأَلَنِي غَيْرَهَا؟ قَالَ: بَلَى، أَيْ رَبِّ، هَذِهِ لَا أَسْأَلُكَ غَيْرَهَا، فَيَقُولُ: لَعَلِّي إِنْ أَدْنَيْتُكَ مِنْهَا تَسْأَلُنِي غَيْرَهَا، فَيُعَاهِدُهُ أَنْ لَا يَسْأَلَهُ غَيْرَهَا، وَرَبُّهُ يَعْذُرُهُ، لِأَنَّهُ يَرَى مَا لَا صَبْرَ لَهُ عَلَيْهِ، فَيُدْنِيهِ مِنْهَا، فَإِذَا أَدْنَاهُ مِنْهَا، سَمِعَ أَصْوَاتَ أَهْلِ الْجَنَّةِ، فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ أَدْخِلْنِيهَا، فَيَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ، مَا يَصْرِينِي مِنْكَ؟ أَيُرْضِيكَ أَنْ أُعْطِيَكَ الدُّنْيَا، وَمِثْلَهَا مَعَهَا؟ فَيَقُولُ: أَيْ رَبِّ، أَتَسْتَهْزِئُ بِي، وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَضَحِكَ ابْنُ مَسْعُودٍ، فَقَالَ: أَلَا تَسْأَلُونِي مِمَّا أَضْحَكُ؟ فَقَالُوا: مِمَّ تَضْحَكُ؟ فَقَالَ: هَكَذَا ضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَلَا تَسْأَلُونِي مِمَّ أَضْحَكُ؟"، فَقَالُوا: مِمَّ تَضْحَكُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" مِنْ ضَحِكِ رَبِّي حِينَ قَالَ: أَتَسْتَهْزِئُ مِنِّي وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِينَ؟ فَيَقُولُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ مِنْكَ، وَلَكِنِّي عَلَى مَا أَشَاءُ قَدِيرٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”سب سے آخر میں جنت میں داخل ہونے والا وہ آدمی ہو گا جو پل صراط پر چلتے ہوئے کبھی اوندھا گر جاتا ہو گا، کبھی چلنے لگتا ہو گا اور کبھی آگ کی لپٹ اسے جھلسا دیتی ہو گی، جب وہ پل صراط کو عبور کر چکے گا تو اس کی طرف پلٹ کر دیکھے گا اور کہے گا کہ بڑی بابرکت ہے وہ ذات جس نے مجھے تجھ سے نجات دی، اللہ نے یہ مجھے ایسی نعمت عطا فرمائی ہے جو اولین و آخرین میں سے کسی کو نہیں دی۔ اس کے بعد اس کی نظر ایک درخت پر پڑے گی جو اسی کی وجہ سے وہاں لایا گیا ہو گا، وہ اسے دیکھ کر کہے گا کہ پروردگار! مجھے اس درخت کے قریب کر دے تاکہ میں اس کا سایہ حاصل کر سکوں اور اس کا پانی پی سکوں، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: ”اے میرے بندے! اگر میں نے تجھے اس درخت کے قریب کر دیا تو تو مجھ سے کچھ اور بھی مانگے گا؟“ وہ عرض کرے گا: نہیں، پروردگار! اور اللہ سے کسی اور چیز کا سوال نہ کرنے کا وعدہ کرے گا حالانکہ پروردگار کے علم میں یہ بات ہو گی کہ وہ اس سے مزید کچھ اور بھی مانگے گا، کیونکہ اس کے سامنے چیزیں ہی ایسی آئیں گی جن پر صبر نہیں کیا جا سکتا، تاہم اسے اس درخت کے قریب کر دیا جائے گا۔ کچھ دیر بعد اس کی نظر اس سے بھی زیادہ خوبصورت درخت پر پڑے گی اور حسب سابق سوال جواب ہوں گے، اللہ تعالیٰ فرمائیں گے کہ ”بندے! کیا تو نے مجھ سے وعدہ نہیں کیا تھا کہ اس کے علاوہ کچھ اور نہیں مانگے گا؟“ وہ عرض کرے گا: پروردگار! بس اس مرتبہ اور، اس کے علاوہ کچھ اور نہیں مانگوں گا، تین مرتبہ اس طرح ہونے کے بعد وہ جنت کے دروازے کے قریب پہنچ چکا ہو گا، اور اس کے کانوں میں اہل جنت کی آوازیں پہنچ رہی ہوں گی، وہ عرض کرے گا: پروردگار! جنت، جنت، اللہ تعالی اس سے فرمائیں گے کہ ”اے بندے! کیا تو نے مجھ سے اس کا وعدہ نہیں کیا تھا کہ اب کچھ اور نہیں مانگے گا؟“ وہ عرض کرے گا: پروردگار! مجھے جنت میں داخلہ عطا فرما، اللہ تعالیٰ اس سے فرمائیں گے کہ ”اے بندے! تجھ سے میرا پیچھا کیا چیز چھڑائے گی؟ کیا تو اس بات پر راضی ہے کہ تجھے جنت میں دنیا اور اس کے برابر مزید دے دیا جائے؟“ وہ عرض کرے گا کہ پروردگار! تو رب العزت ہو کر مجھ سے مذاق کرتا ہے؟“ اتنا کہہ کر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اتنا ہنسے کہ ان کے دندان ظاہر ہو گئے، پھر کہنے لگے کہ تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟ لوگوں نے کہا کہ آپ خود ہی اپنے ہنسنے کی وجہ بتا دیجئے، انہوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہنسنے کی وجہ سے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس موقع پر مسکرائے تھے اور ہم سے فرمایا تھا کہ ”تم مجھ سے ہنسنے کی وجہ کیوں نہیں پوچھتے؟“ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ خود ہی اپنے مسکرانے کی وجہ بتا دیجئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پروردگار کے ہنسنے کی وجہ سے، جب اس نے یہ عرض کیا کہ پروردگار! آپ رب العزت ہو کر مجھ سے مذاق کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ میں تجھ سے مذاق نہیں کر رہا، لیکن میں جو چاہوں، وہ کرنے پر قادر ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا عاصم بن بهدلة ، عن زر بن حبيش ، عن عبد الله بن مسعود ، قال: كنا يوم بدر كل ثلاثة على بعير، كان ابو لبابة، وعلي بن ابي طالب، زميلي رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وكانت عقبة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فقالا: نحن نمشي عنك، فقال:" ما انتما باقوى مني، ولا انا باغنى عن الاجر منكما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، عَنْ زِرِّ بْنِ حُبَيْشٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، قَالَ: كُنَّا يَوْمَ بَدْرٍ كُلُّ ثَلَاثَةٍ عَلَى بَعِيرٍ، كَانَ أَبُو لُبَابَةَ، وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ، زَمِيلَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَكَانَتْ عُقْبَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَقَالَا: نَحْنُ نَمْشِي عَنْكَ، فَقَالَ:" مَا أَنْتُمَا بِأَقْوَى مِنِّي، وَلَا أَنَا بِأَغْنَى عَنِ الْأَجْرِ مِنْكُمَا".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ غزوہ بدر کے دن ہم تین تین آدمی ایک ایک اونٹ پر سوار تھے، اس طرح سیدنا ابولبابہ رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باری پیدل چلنے کی آئی تو یہ دونوں حضرات کہنے لگے کہ ہم آپ کی جگہ پیدل چلتے ہیں (آپ سوار رہیں) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہو اور نہ ہی میں تم سے ثواب کے معاملے میں مستغنی ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال سليمان الاعمش اخبرني، قال: سمعت ابا وائل ، قال: سمعت عبد الله ، يقول: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسمة، فقال رجل من القوم: إن هذه القسمة ما يراد بها وجه الله، عز وجل!! قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فحدثته، قال: فغضب حتى رايت الغضب في وجهه، فقال:" يرحم الله موسى، قد اوذي باكثر من ذلك، فصبر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ ، يَقُولُ: قَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِسْمَةً، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: إِنَّ هَذِهِ الْقِسْمَةَ مَا يُرَادُ بِهَا وَجْهُ اللَّهِ، عَزَّ وَجَلَّ!! قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَدَّثْتُهُ، قَالَ: فَغَضِبَ حَتَّى رَأَيْتُ الْغَضَبَ فِي وَجْهِهِ، فَقَالَ:" يَرْحَمُ اللَّهُ مُوسَى، قَدْ أُوذِيَ بِأَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، فَصَبَرَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ چیزیں تقسیم فرمائیں، ایک آدمی کہنے لگا کہ یہ تقسیم ایسی ہے جس سے اللہ کی رضا حاصل کرنا مقصود نہیں ہے، میں نے بارگاہ رسالت میں حاضر ہو کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کر دی جس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور کا رنگ سرخ ہو گیا، پھر فرمایا: ”موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوں، انہیں اس سے بھی زیادہ ستایا گیا تھا لیکن انہوں نے صبر ہی کیا تھا۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: زبيد ، ومنصور ، وسليمان اخبروني، انهم سمعوا ابا وائل يحدث، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" سباب المسلم فسوق، وقتاله كفر"، قال زبيد: فقلت لابي وائل مرتين: اانت سمعته من عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: زُبَيْدٌ ، وَمَنْصُورٌ ، وَسُلَيْمَانُ أخبروني، أنهم سمعوا أبا وائل يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ"، قَالَ زُبَيْدٌ: فَقُلْتُ لِأَبِي وَائِلٍ مَرَّتَيْنِ: أَأَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ.
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا فسق، اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔“ راوی کہتے ہیں کہ میں نے ابووائل سے پوچھا: کیا آپ نے یہ بات سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے خود سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں!
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، قال: ابو إسحاق اخبرنا، قال: سمعت ابا الاحوص ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه كان يقول:" اللهم إني اسالك التقى، والهدى، والعفاف، والغنى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: أَبُو إِسْحَاقَ أَخْبَرَنَا، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْأَحْوَصِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ:" اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ التُّقَى، وَالْهُدَى، وَالْعَفَافَ، وَالْغِنَى".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: «اللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ التُّقَى وَالْهُدَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى»”اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقوی، عفت اور غناء (مخلوق کے سامنے عدم احتیاج) کا سوال کرتا ہوں۔“
(حديث مرفوع) حدثنا عفان ، حدثنا مسعود بن سعد ، حدثنا خصيف ، عن ابي عبيدة ، عن ابيه ، قال كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم في صدقة البقر:" إذا بلغ البقر ثلاثين، ففيها تبيع من البقر، جذع او جذعة، حتى تبلغ اربعين، فإذا بلغت اربعين، ففيها بقرة مسنة، فإذا كثرت البقر، ففي كل اربعين من البقر، بقرة مسنة".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا مَسْعُودُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنَا خُصَيْفٌ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ كَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي صَدَقَةِ الْبَقَرِ:" إِذَا بَلَغَ الْبَقَرُ ثَلَاثِينَ، فَفِيهَا تَبِيعٌ مِنَ الْبَقَرِ، جَذَعٌ أَوْ جَذَعَةٌ، حَتَّى تَبْلُغَ أَرْبَعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ، فَفِيهَا بَقَرَةٌ مُسِنَّةٌ، فَإِذَا كَثُرَتْ الْبَقَرُ، فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ مِنَ الْبَقَرِ، بَقَرَةٌ مُسِنَّةٌ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط میں گائے کی زکوٰۃ کے متعلق تحریر فرمایا تھا کہ ”گائے کی تعداد جب تیس تک پہنچ جائے تو اس میں ایک سالہ مذکر یا مؤنث گائے بطور زکوٰۃ واجب ہو گی، اور یہ حکم اس وقت تک رہے گا جب تک ان کی تعداد چالیس تک نہ پہنچ جائے، جب یہ تعداد چالیس تک پہنچ جائے تو اس میں دو سالہ گائے واجب ہو گی، اس کے بعد ہر چالیس میں ایک ”دو سالہ گائے“ واجب ہو گی۔“
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه، أبو عبيدة لم يسمع من أبيه ابن مسعود، وخصيف سيئ الحفظ.