(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد مولى بني هاشم، حدثنا محمد بن راشد ، حدثنا سليمان بن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" عقل شبه العمد مغلظة، مثل عقل العمد، ولا يقتل صاحبه، ومن حمل علينا السلاح فليس منا، ولا رصد بطريق".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" عَقْلُ شِبْهِ الْعَمْدِ مُغَلَّظَةٌ، مِثْلُ عَقْلِ الْعَمْدِ، وَلَا يُقْتَلُ صَاحِبُهُ، وَمَنْ حَمَلَ عَلَيْنَا السِّلَاحَ فَلَيْسَ مِنَّا، وَلَا رَصَدَ بِطَرِيقٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”قتل شبہ عمد کی دیت مغلظ ہے جیسے قتل عمد کی دیت ہوتی ہے البتہ شبہ عمد میں قاتل کو قتل نہیں کیا جائے گا اور جو ہم پر اسلحہ اٹھاتا ہے یا راستہ میں گھات لگاتا ہے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ عرفہ کی شام اہل عرفہ کے ذریعے اپنے فرشتوں کے سامنے فخر فرماتا ہے اور کہتا ہے کہ میرے ان بندوں کو دیکھو جو میرے پاس پرا گندہ حال اور غبار آلود ہو کر آئے ہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا محمد بن راشد ، حدثنا سليمان بن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من قتل خطا، فديته مائة من الإبل، ثلاثون ابنة مخاض، وثلاثون ابنة لبون، وثلاثون جذعة، وعشرة بني لبون ذكران"، فكان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقومها على اثمان الإبل، فإذا هانت نقص من قيمتها، وإذا غلت، رفع في قيمتها، على نحو الزمان ما كانت، فبلغت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ما بين اربع مائة دينار إلى ثمان مائة دينار، او عدلها من الورق، ثمانية آلاف.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ قُتِلَ خَطَأً، فَدِيَتُهُ مِائَةٌ مِنَ الْإِبِلِ، ثَلَاثُونَ ابْنَةَ مَخَاضٍ، وَثَلَاثُونَ ابْنَةَ لَبُونٍ، وَثَلَاثُونَ جَذَعَةً، وَعَشَرَةُ بَنِي لَبُونٍ ذُكْرَانٍ"، فَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يُقَوِّمُهَا عَلَى أَثْمَانِ الْإِبِلِ، فَإِذَا هَانَتْ نَقَصَ مِنْ قِيمَتِهَا، وَإِذَا غَلَتْ، رَفَعَ فِي قِيمَتِهَا، عَلَى نَحْوِ الزَّمَانِ مَا كَانَتْ، فَبَلَغَتْ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا بَيْنَ أَرْبَعِ مِائَةِ دِينَارٍ إِلَى ثَمَانِ مِائَةِ دِينَارٍ، أَوْ عِدْلَهَا مِنَ الْوَرِقِ، ثَمَانِيَةَ آلَافٍ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”خطاء قتل ہونے والے کی دیت سو اونٹ ہے جن میں ٣٠ بنت مخاض ٣٠ بنت لبون ٣٠ حقے اور دس ابن لبون مذکر اونٹ شامل ہوں گے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہروالوں پر اس کی قیمت چار سو دیناریا اس کے برابر چاندی مقرر فرماتے تھے اور قیمت کا تعین اونٹوں کی قیمت کے اعتبار سے کرتے تھے جب اونٹوں کی قیمت بڑھ جاتی تو دیت کی مقدار مذکور میں اضافہ فرما دیتے اور جب کم ہوجاتی تو اس میں بھی کمی فرما دیتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں یہ قیمت چار سو دینار سے آٹھ سو دینارتک بھی پہنچی ہے اور اس کے برابر چاندی کی قیمت آٹھ ہزار درہم تک پہنچی ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایا: ”ہے کہ دیت کا مال مقتول کے ورثاء کے درمیان ان کے حصوں کے تناسب سے تقسیم ہو گا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو سعيد ، حدثنا محمد بن راشد ، حدثنا سليمان بن موسى ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم،" قضى في الانف إذا جدع كله الدية كاملة، وإذا جدعت ارنبته نصف الدية، وفي العين نصف الدية، وفي اليد نصف الدية، وفي الرجل نصف الدية، وقضى ان يعقل عن المراة عصبتها من كانوا، ولا يرثوا منها إلا ما فضل عن ورثتها، وإن قتلت، فعقلها بين ورثتها، وهم يقتلون قاتلها، وقضى ان عقل اهل الكتاب نصف عقل المسلمين وهم اليهود، والنصارى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَاشِدٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ مُوسَى ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،" قَضَى فِي الْأَنْفِ إِذَا جُدِعَ كُلُّهُ الدِّيَةَ كَامِلَةً، وَإِذَا جُدِعَتْ أَرْنَبَتُهُ نِصْفَ الدِّيَةِ، وَفِي الْعَيْنِ نِصْفَ الدِّيَةِ، وَفِي الْيَدِ نِصْفَ الدِّيَةِ، وَفِي الرِّجْلِ نِصْفَ الدِّيَةِ، وَقَضَى أَنْ يَعْقِلَ عَنِ الْمَرْأَةِ عَصَبَتُهَا مَنْ كَانُوا، وَلَا يَرِثُوا مِنْهَا إِلَّا مَا فَضَلَ عَنْ وَرَثَتِهَا، وَإِنْ قُتِلَتْ، فَعَقْلُهَا بَيْنَ وَرَثَتِهَا، وَهُمْ يَقْتُلُونَ قَاتِلَهَا، وَقَضَى أَنَّ عَقْلَ أهل الكتاب نِصْفُ عَقْلِ الْمُسْلِمِينَ وَهُمْ الْيَهُودُ، وَالنَّصَارَى".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ناک کے متعلق یہ فیصلہ فرمایا: ”کہ اگر اسے مکمل طور پر کاٹ دیا جائے تو پوری دیت واجب ہو گی اور اگر صرف نرم حصہ کاٹا ہو تو نصف دیت واجب ہو گی ایک آنکھ کی دیت نصف قرار دی ہے یعنی پچاس اونٹ یا اس کے برابر سونا چاندی یا سو گائے یا ہزاربکر یاں، نیز ایک پاؤں کی دیت بھی نصف اور ایک ہاتھ کی دیت بھی نصف قرار دی ہے۔ اور یہ فیصلہ فرمایا: ”ہے کہ عورت کی جانب سے اس کے عصبہ دیت ادا کر یں گے خواہ وہ کوئی بھی ہوں اور وہ چیز کے وراث ہوں گے جو اس کی وراثت میں سے باقی بچے گی اور اگر کسی نے عورت کو قتل کر دیا ہو تو اس کی دیت اس کے ورثاء میں تقسیم کی جائے گی اور وہ اس کے قاتل کو قتل کر سکیں گے نیز یہ فیصلہ بھی فرمایا: ”کہ اہل کتاب یعنی یہود و نصاریٰ کی دیت مسلمانوں کی دیت سے نصف ہو گی۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں اور اس میں اللہ کا ذکر نہ کر یں قیامت کے دن وہ اس پر حسرت و افسوس کر یں گے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن على خطأ فى تسمية صحابيه.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے پوچھا یا رسول اللہ! اگر کوئی شخص کسی باغ میں داخل ہو کر خوشوں سے توڑ کر پھل چوری کر لے تو کیا حکم ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے جو پھل کھا لئے اور انہیں چھپا کر نہیں رکھا ان پر کوئی چیز واجب نہیں ہو گی۔
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا محمد بن ابي الوضاح ، حدثني العلاء بن عبد الله بن رافع ، حدثنا حنان بن خارجة ، عن عبد الله بن عمرو ، قال: جاء اعرابي علوي جريء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، اخبرنا عن الهجرة، إليك اينما كنت، او لقوم خاصة، ام إلى ارض معلومة، ام إذا مت انقطعت؟ قال: فسكت عنه يسيرا، ثم قال:" اين السائل؟" قال: ها هو ذا يا رسول الله، قال:" الهجرة ان تهجر الفواحش ما ظهر منها وما بطن، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، ثم انت مهاجر وإن مت بالحضر". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثم ثم قال عبد الله بن عمرو ، ابتداء من نفسه جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله اخبرنا عن ثياب اهل الجنة، خلقا تخلق، ام نسجا تنسج؟ فضحك بعض القوم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" مم تضحكون؟ من جاهل يسال عالما؟!"، ثم اكب رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال:" اين السائل؟" قال: هو ذا انا يا رسول الله، قال:" لا، بل تشقق عنها ثمر الجنة، ثلاث مرات".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي الْوَضَّاحِ ، حَدَّثَنِي الْعَلَاءُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا حَنَانُ بْنُ خَارِجَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ عَلَوِيٌّ جَرِيءٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَخْبِرْنَا عَنِ الْهِجْرَةِ، إِلَيْكَ أَيْنَمَا كُنْتَ، أَوْ لِقَوْمٍ خَاصَّةً، أَمْ إِلَى أَرْضٍ مَعْلُومَةٍ، أَمْ إِذَا مُتَّ انْقَطَعَتْ؟ قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ يَسِيرًا، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ؟" قَالَ: هَا هُوَ ذَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" الْهِجْرَةُ أَنْ تَهْجُرَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، ثُمَّ أَنْتَ مُهَاجِرٌ وَإِنْ مُتَّ بِالْحَضَرِ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) ثُمَّ ثُمَّ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو ، ابْتِدَاءً مِنْ نَفْسِهِ جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَخْبِرْنَا عَنْ ثِيَابِ أَهْلِ الْجَنَّةِ، خَلْقًا تُخْلَقُ، أَمْ نَسْجًا تُنْسَجُ؟ فَضَحِكَ بَعْضُ الْقَوْمِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِمَّ تَضْحَكُونَ؟ مِنْ جَاهِلٍ يَسْأَلُ عَالِمًا؟!"، ثُمَّ أَكَبَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ؟" قَالَ: هُوَ ذَا أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ:" لَا، بَلْ تَشَقَّقُ عَنْهَا ثَمَرُ الْجَنَّةِ، ثَلَاثَ مَرَّاتٍ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں ایک سخت طبیعت کا جری دیہاتی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! آپ کی ہجرت کہاں کی جائے؟ آیا جہاں کہیں بھی آپ ہوں یا کسی معین علاقے کی طرف؟ یا یہ حکم ایک خاص قوم کے لئے ہے یا یہ کہ آپ کے وصال کے بعد ہجرت منقطع ہو جائے گی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تھوڑی دیرتک سکوت فرمایا: ”پھر پوچھا کہ ہجرت کے متعلق سوال کر نے والا شخص کہاں ہے؟ اس نے کہا یا رسول اللہ!! میں یہاں ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرتے رہو تو تم مہاجر ہو خواہ تمہاری موت حضرمہ جو یمامہ کا ایک علاقہ ہے ہی میں آئے۔ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے خود ابتداء کرتے ہوئے فرمایا: ”کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ!! یہ بتائیے کہ جنتیوں کے کپڑے بنے جائیں گے یا جنت کا پھل چیر کر نکالے جائیں گے؟ لوگوں کو اس دیہاتی کے سوال پر تعجب ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں کس بات پر تعجب ہو رہا ہے ایک ناواقف آدمی ایک عالم سے سوال کر رہا ہے۔ پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا: ”اہل جت کے کپڑوں کے متعلق پوچھنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں یہاں ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”کہ اہل جنت کے کپڑے جنت کے پھل سے چیر کر نکالے جائیں گے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، حنان بن خارجة مجهول الحال.
(حديث مرفوع) حدثنا معمر بن سليمان الرقي ، حدثنا الحجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" من مثل به او حرق بالنار، فهو حر، وهو مولى الله ورسوله"، قال: فاتي برجل قد خصي، يقال له: سندر، فاعتقه، ثم اتى ابا بكر بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصنع إليه خيرا، ثم اتى عمر بعد ابي بكر، فصنع إليه خيرا، ثم إنه اراد ان يخرج إلى مصر، فكتب له عمر إلى عمرو بن العاص ان اصنع به خيرا، او احفظ وصية رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" مَنْ مُثِّلَ بِهِ أَوْ حُرِّقَ بِالنَّارِ، فَهُوَ حُرٌّ، وَهُوَ مَوْلَى اللَّهِ وَرَسُولِهِ"، قَالَ: فَأُتِيَ بِرَجُلٍ قَدْ خُصِيَ، يُقَالُ لَهُ: سَنْدَرٌ، فَأَعْتَقَهُ، ثُمَّ أَتَى أَبَا بَكْرٍ بَعْدَ وَفَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَنَعَ إِلَيْهِ خَيْرًا، ثُمَّ أَتَى عُمَرَ بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ، فَصَنَعَ إِلَيْهِ خَيْرًا، ثُمَّ إِنَّهُ أَرَادَ أَنْ يَخْرُجَ إِلَى مِصْرَ، فَكَتَبَ لَهُ عُمَرُ إِلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ أَنْ اصْنَعْ بِهِ خَيْرًا، أَوْ احْفَظْ وَصِيَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کا مثلہ کیا جائے یا آگ میں جلا دیا جائے وہ آزاد ہے اور اللہ اور اس کے رسول کا آزاد کر دہ ہے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سندر نامی ایک آدمی کو لایا گیا جسے خصی کر دیا گیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے آزاد کر دیا جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہو گیا تو وہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کا ذکر کیا انہوں نے اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا پھر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خلیفہ مقرر ہوئے تو وہ پھر آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت کا ذکر کیا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بھی اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا فرمایا: ”ہاں! تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس نے مصر جانا چاہا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے گورنر سیدنا عمرو بن عاص کے نام اس مضمون کا خط لکھ دیا کہ اس کے ساتھ اچھاسلوک کرنا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت یاد رکھنا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحجاج.
(حديث مرفوع) حدثنا معمر بن سليمان ، حدثنا الحجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، الرجل يغيب لا يقدر على الماء ايجامع اهله، قال:" نعم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مَعْمَرُ بْنُ سُلَيْمَانَ ، حَدَّثَنَا الْحَجَّاجُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الرَّجُلُ يَغِيبُ لَا يَقْدِرُ عَلَى الْمَاءِ أَيُجَامِعُ أَهْلَهُ، قَالَ:" نَعَمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! ایک آدمی غائب رہتا ہے وہ پانی استعمال کر نے پر بھی قدرت نہیں رکھتا کیا وہ اپنی بیوی سے ہم بستری کر سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں!
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف لضعف الحجاج.