سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے باپ کے علاوہ کسی اور کی طرف اپنی نسبت کرتا ہے وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا حالانکہ جنت کی خوشبو تو ستر سال کی مسافت سے آتی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن الحكم ، سمعت سيفا يحدث، عن رشيد الهجري ، عن ابيه ، ان رجلا قال لعبد الله بن عمرو حدثني ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، ودعني وما وجدت في وسقك يوم اليرموك، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْحَكَمِ ، سَمِعْتُ سَيْفًا يُحَدِّثُ، عَنْ رُشَيْدٍ الْهَجَرِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو حَدِّثْنِي مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَدَعْنِي وَمَا وَجَدْتَ فِي وَسْقِكَ يَوْمَ الْيَرْمُوكِ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ".
رشید ہجیری کے والد سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ عرض کیا کہ جنگ یرموک کے دن آپ کو مجھ سے جو ایذاء پہنچی اس سے درگزر کیجئے اور مجھے کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو انہوں نے فرمایا: ”کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسلمان وہ ہوتا ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده غاية فى الضعف، سيف مجهول، ورشيد الهجري ضعيف، وأبوه مبهم غير معروف، وقد سلف متن الحديث بأسانيد صحيحة برقم: 6487 ، و 6515
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، عن عبد الله بن الحارث ، عن ابي كثير ، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إياكم والظلم، فإن الظلم ظلمات يوم القيامة، وإياكم والفحش، فإن الله لا يحب الفحش ولا التفحش، وإياكم والشح فإنه اهلك من كان قبلكم، امرهم بالقطيعة فقطعوا، وبالبخل فبخلوا، وبالفجور ففجروا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال: فقام رجل فقال: يا رسول الله، اي الإسلام افضل؟ قال:" ان يسلم المسلمون من لسانك ويدك". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قال ذلك الرجل او رجل آخر: يا رسول الله، فاي الهجرة افضل؟ قال:" ان تهجر ما كره الله، والهجرة هجرتان: هجرة الحاضر والبادي، فاما البادي فيطيع إذا امر، ويجيب إذا دعي، واما الحاضر فاعظمهما بلية، واعظمهما اجرا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِيَّاكُمْ وَالظُّلْمَ، فَإِنَّ الظُّلْمَ ظُلُمَاتٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْفُحْشَ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْفُحْشَ وَلَا التَّفَحُّشَ، وَإِيَّاكُمْ وَالشُّحَّ فَإِنَّهُ أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، أَمَرَهُمْ بِالْقَطِيعَةِ فَقَطَعُوا، وَبِالْبُخْلِ فَبَخِلُوا، وَبِالْفُجُورِ فَفَجَرُوا". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَنْ يَسْلَمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِكَ وَيَدِكَ". (حديث مرفوع) (حديث موقوف) قَالَ ذَلِكَ الرَّجُلُ أَوْ رَجُلٌ آخَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَيُّ الْهِجْرَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَنْ تَهْجُرَ مَا كَرِهَ اللَّهُ، وَالْهِجْرَةُ هِجْرَتَانِ: هِجْرَةُ الْحَاضِرِ وَالْبَادِي، فَأَمَّا الْبَادِي فَيُطِيعُ إِذَا أُمِرَ، وَيُجِيبُ إِذَا دُعِيَ، وَأَمَّا الْحَاضِرُ فَأَعْظَمُهُمَا بَلِيَّةً، وَأَعْظَمُهُمَا أَجْرًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظلم سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہو گا بےحیائی سے اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ اللہ بےتکلف یا بتکلف کسی نوعیت کی بےحیائی پسند نہیں بخل سے بھی اپنے آپ کو بچاؤ کیونکہ بخل نے تم سے پہلے لوگوں کو بھی ہلاک کر دیا تھا اسی بخل نے انہیں قطع رحمی کا راستہ دکھایا سو انہوں نے رشتے ناطے توڑ دیئے اسی بخل نے انہیں اپنی دولت اور چیزیں اپنے پاس سمیٹ کر رکھنے کا حکم دیا سو انہوں نے ایسا ہی کیا اسی بخل نے انہیں گناہوں کا راستہ دکھایا سو وہ گناہ کر نے لگے۔ اسی دوران ایک آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ!! کون سا مسلمان افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کہ دوسرے مسلمان جس کی زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں ایک اور آدمی نے کھڑے ہو کر پوچھا یا رسول اللہ! کون سی ہجرت افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تم ان چیزوں کو چھوڑ دو جو تمہارے رب کو ناگوار گزریں اور ہجرت کی دو قسمیں ہیں شہری کی ہجرت اور دیہاتی کی ہجرت دیہاتی کی ہجرت تو یہ ہے کہ جب اسے دعوت ملے تو قبول کر لے اور جب حکم ملے تو اس کی اطاعت کرے اور شہری کی آزمائش بھی زیادہ ہوتی ہے اور اس کا اجر بھی زیادہ ہوتا ہے۔
مسروق رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھا ہوا تھا وہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا تذکر ہ کر نے لگے اور فرمایا: ”کہ ایسا آدمی ہے جس میں ہمیشہ محبت کرتا رہوں گا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ چار آدمیوں سے قرآن سیکھو اور ان میں سب سے پہلے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا نام لیا پھر سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا پھر سیدنا ابو حذیفہ رضی اللہ عنہ کے آزاد کر دہ غلام سالم رضی اللہ عنہ کا اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، حدثنا رجل في بيت ابي عبيدة، انه سمع عبد الله بن عمرو ، يحدث عبد الله بن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" من سمع الناس بعمله، سمع الله به سامع خلقه، وصغره وحقره"، قال: فذرفت عينا عبد الله بن عمر.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ فِي بَيْتِ أَبِي عُبَيْدَةَ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرٍو ، يُحَدِّثُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" مَنْ سَمَّعَ النَّاسَ بِعَمَلِهِ، سَمَّعَ اللَّهُ بِهِ سَامِعَ خَلْقِهِ، وَصَغَّرَهُ وَحَقَّرَهُ"، قَالَ: فَذَرَفَتْ عَيْنَا عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص اپنے عمل کے ذریعے لوگوں میں شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے اللہ اسے اس کے حوالے کر دیتا ہے اور اسے ذلیل و رسوا کر دیتا ہے یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، وحجاج ، قالا: حدثنا شعبة ، عن سعد بن إبراهيم ، عن حميد ، قال حجاج: سمعت حميد بن عبد الرحمن، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إن من اكبر الذنب ان يسب الرجل والديه"، قالوا: وكيف يسب الرجل والديه؟ قال:" يسب ابا الرجل فيسب اباه، ويسب امه، فيسب امه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَحَجَّاجٌ ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، قَالَ حَجَّاجٌ: سَمِعْتُ حُمَيْدَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِنَّ مِنْ أَكْبَرِ الذَّنْبِ أَنْ يَسُبَّ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ"، قَالُوا: وَكَيْفَ يَسُبُّ الرَّجُلُ وَالِدَيْهِ؟ قَالَ:" يَسُبُّ أَبَا الرَّجُلِ فَيَسُبُّ أَبَاهُ، وَيَسُبُّ أُمَّهُ، فَيَسُبُّ أُمَّهُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”ایک کبیرہ گناہ یہ بھی ہے کہ ایک آدمی اپنے والدین کو گالیاں دے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! کوئی آدمی اپنے والدین کو کیسے گالیاں دے سکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ کسی کے باپ کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کے باپ کو گالی دے اسی طرح وہ کسی کی ماں کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کی ماں کو گالی دے دے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جو شخص تین دن سے کم وقت میں قرآن پڑھتا ہے اس نے اسے سمجھا نہیں۔
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، سمعت وهب بن جابر ، يقول: إن مولى لعبد الله بن عمرو قال له: إني اريد ان اقيم هذا الشهر هاهنا ببيت المقدس؟ فقال له: تركت لاهلك ما يقوتهم هذا الشهر؟ قال: لا، قال فارجع إلى اهلك فاترك لهم ما يقوتهم، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:" كفى بالمرء إثما ان يضيع من يقوت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، سَمِعْتُ وَهْبَ بْنَ جَابِرٍ ، يَقُولُ: إِنَّ مَوْلًى لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ لَهُ: إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أُقِيمَ هَذَا الشَّهْرَ هَاهُنَا بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ؟ فَقَالَ لَهُ: تَرَكْتَ لِأَهْلِكَ مَا يَقُوتُهُمْ هَذَا الشَّهْرَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ فَارْجِعْ إِلَى أَهْلِكَ فَاتْرُكْ لَهُمْ مَا يَقُوتُهُمْ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" كَفَى بِالْمَرْءِ إِثْمًا أَنْ يُضِيعَ مَنْ يَقُوتُ".
وہب بن جابر کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ کے ایک غلام نے ان سے کہا کہ میں یہاں بیت المقدس میں ایک ماہ قیام کرنا چاہتا ہوں انہوں نے فرمایا: ”کیا تم نے اپنے اہل خانہ کے لئے اس مہینے کی غذائی ضروریات کا انتظام کر دیا ہے؟ اس نے کہا نہیں انہوں نے فرمایا: ”پھر اپنے اہل خانہ کے پاس جا کر ان کے لئے اس کا انتظام کرو کیونکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انسان کے گناہ گار ہونے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ وہ ان لوگوں کو ضائع کر دے جن کی روزی کا وہ ذمہ دار ہو (مثلاً ضعیف والدین اور بیوی بچے)
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن دينار ، عن ابي العباس يحدث، عن عبد الله بن عمرو ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اقرإ القرآن في شهر"، فقلت: إني اطيق اكثر من ذلك، فلم ازل اطلب إليه، حتى قال:" اقرإ القرآن في خمسة ايام، وصم ثلاثة ايام من الشهر"، قلت: إني اطيق اكثر من ذلك، قال:" فصم احب الصوم إلى الله عز وجل، صوم داود عليه السلام، كان يصوم يوما، ويفطر يوما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ يُحَدِّثُ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي شَهْرٍ"، فَقُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، فَلَمْ أَزَلْ أَطْلُبُ إِلَيْهِ، حَتَّى قَالَ:" اقْرَإِ الْقُرْآنَ فِي خَمْسَةِ أَيَّامٍ، وَصُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ مِنَ الشَّهْرِ"، قُلْتُ: إِنِّي أُطِيقُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" فَصُمْ أَحَبَّ الصَّوْمِ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، صَوْمِ دَاوُدَ عَلَيْهِ السَّلَام، كَانَ يَصُومُ يَوْمًا، وَيُفْطِرُ يَوْمًا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: ”مہینے میں ایک قرآن پڑھا کرو میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے میں مسلسل درخواست کرتا رہاحتٰی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پانچ دن میں ایک قرآن پڑھا کرو اور مہینے میں تین روزے رکھا کرو میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر اس طریقے سے روزہ رکھو جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اور سیدنا داؤد (علیہ السلام) کا طریقہ ہے کہ وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن ناغہ کرتے تھے۔