(حديث مرفوع) حدثنا بهز ، حدثنا همام ، عن قتادة ، عن يزيد اخي مطرف، عن عبد الله بن عمرو ، انه سال النبي صلى الله عليه وسلم، في كم اقرا القرآن؟ فذكر الحديث، قال يحيى قال:" في سبع، لا يفقه من قراه في اقل من ثلاث"، وقال: كيف اصوم؟ قال:" صم من كل شهر ثلاثة ايام، من كل عشرة ايام يوما، ويكتب لك اجر تسعة ايام"، قال: إني اقوى من ذلك، قال:" صم من كل عشرة يومين، ويكتب لك اجر ثمانية ايام"، حتى بلغ خمسة ايام.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ يَزِيدَ أَخِي مُطَرِّفٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي كَمْ أَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ يَحْيَى قَالَ:" فِي سَبْعٍ، لَا يَفْقَهُ مَنْ قَرَأَهُ فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثٍ"، وَقَالَ: كَيْفَ أَصُومُ؟ قَالَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، مِنْ كُلِّ عَشَرَةِ أَيَّامٍ يَوْمًا، وَيُكْتَبُ لَكَ أَجْرُ تِسْعَةِ أَيَّامٍ"، قَالَ: إِنِّي أَقْوَى مِنْ ذَلِكَ، قَالَ:" صُمْ مِنْ كُلِّ عَشَرَةٍ يَوْمَيْنِ، وَيُكْتَبُ لَكَ أَجْرُ ثَمَانِيَةِ أَيَّامٍ"، حَتَّى بَلَغَ خَمْسَةَ أَيَّامٍ.
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا میں کتنے دن میں ایک قرآن پڑھا کروں؟ پھر انہوں نے مکمل حدیث ذکر کی اور کہا کہ سات دن میں اور تین دن سے کم میں پڑھنے والا اسے نہیں سمجھتا میں نے پوچھا کہ روزے کس طرح رکھوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے تین روزے رکھا کرو ایک روزہ دس دن کی طرف سے ہو جائے گا اور تمہارے لئے نو ایام کا اجر مزید لکھا جائے گا میں نے عرض کیا کہ مجھ میں اس سے زیادہ طاقت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دس دن میں دو روزے رکھ لیا کرو اور تمہارے لئے آٹھ ایام کا اجر لکھا جائے گا یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پانچ دن تک پہنچ گئے۔
(حديث مرفوع) حدثنا إسحاق بن يوسف ، حدثنا سفيان ، عن الحسن بن عمرو ، عن ابن مسلم ، قال عبد الله بن احمد: وكان في كتاب ابي، عن الحسن بن مسلم، فضرب على الحسن، وقال: عن ابن مسلم، وإنما هو: محمد بن مسلم ابو الزبير، اخطا الازرق، عن عبد الله بن عمرو ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" إذا رايت امتي لا يقولون للظالم منهم انت ظالم، فقد تودع منهم".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ ابْنِ مُسْلِمٍ ، قَالَ عَبْد اللَّهِ بْن أَحْمَد: وَكَانَ فِي كِتَابِ أَبِي، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ مُسْلِمٍ، فَضَرَبَ عَلَى الْحَسَنِ، وَقَالَ: عَنِ ابْنِ مُسْلِمٍ، وَإِنَمَا هُوَ: مُحَمَّدُ بْنُ مُسْلِمٍ أَبُو الزُّبَيْرِ، أَخْطَأَ الأزرق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا رَأَيْتَ أُمَّتِي لَا يَقُولُونَ لِلظَّالِمِ مِنْهُمْ أَنْتَ ظَالِمٌ، فَقَدْ تُوُدِّعَ مِنْهُمْ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میری امت کو دیکھو کہ وہ ظالم کو ظالم کہنے سے ڈر رہی ہے تو ان سے رخصت ہو گئی (ضمیر کی زندگی یا دعاؤں کی قبولیت)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو الزبير لم يسمع من عبد الله بن عمرو
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے ایک مرتبہ بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ!! مجالس ذکر کی غنیمت کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجالس ذکر کی غنیمت جنت ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، ابن لهيعة ضعيف، وراشد بن يحيى المعافري مجهول
(حديث مرفوع) (حديث موقوف) حدثنا عبد الملك بن عمرو ، قال:" لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم الراشي والمرتشي".(حديث مرفوع) (حديث موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو ، قَالَ:" لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّاشِيَ وَالْمُرْتَشِيَ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رشوت لینے اور دینے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔
(حديث مرفوع) حدثنا هشيم ، اخبرنا عامر الاحول ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا نذر لابن آدم فيما لا يملك، ولا عتق لابن آدم فيما لا يملك، ولا طلاق له فيما لا يملك، ولا يمين فيما لا يملك".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا عَامِرٌ الْأَحْوَلُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا نَذْرَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا عِتْقَ لِابْنِ آدَمَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا طَلَاقَ لَهُ فِيمَا لَا يَمْلِكُ، وَلَا يَمِينَ فِيمَا لَا يَمْلِكُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان جس خاتون کا (نکاح یا خرید کے ذریعے) مالک نہ ہو اسے طلاق دینے کا بھی حق نہیں رکھتا اپنے غیر مملوک کو آزاد کر نے کا بھی انسان کو کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی غیر مملوک چیز کی منت ماننے کا اختیار ہے اور نہ ہی غیر مملوک چیز میں اس کی قسم کا کوئی اعتبار ہے۔
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انسان جس چیز کا (نکاح یاخرید کے ذریعے) مالک نہ ہو اسے طلاق دینے، بیچنے، آزاد کر نے یا منت پوری کر نے کا اختیار نہیں رکھتا۔
(حديث مرفوع) حدثنا ابو معاوية ، حدثنا حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ،" ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، وقف عند الجمرة الثانية اكثر مما وقف عند الجمرة الاولى، ثم اتى جمرة العقبة فرماها ولم يقف عندها".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ،" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَفَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الثَّانِيَةِ أَكْثَرَ مِمَّا وَقَفَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْأُولَى، ثُمَّ أَتَى جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ فَرَمَاهَا وَلَمْ يَقِفْ عِنْدَهَا".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ ثانیہ کے پاس جمرہ اولیٰ کی نسبت زیادہ دیر ٹھہرے رہے پھر جمرہ عقبہ پر تشریف لا کر رمی کی اور وہاں نہیں ٹھہرے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، حجاج بن أرطاة مدلس وقد عنعن
(حديث مرفوع) حدثنا إسماعيل بن محمد بن جحادة ، حدثنا حجاج ، عن عمرو بن شعيب ، عن ابيه ، عن جده ، قال: انا" رايت النبي صلى الله عليه وسلم، ينفتل عن يمينه، وعن شماله في الصلاة، ويشرب قائما وقاعدا، ويصلي حافيا وناعلا، ويصوم في السفر ويفطر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ ، حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: أَنَا" رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَنْفَتِلُ عَنْ يَمِينِهِ، وَعَنْ شِمَالِهِ فِي الصَّلَاةِ، وَيَشْرَبُ قَائِمًا وَقَاعِدًا، وَيُصَلِّي حَافِيًا وَنَاعِلًا، وَيَصُومُ فِي السَّفَرِ وَيُفْطِرُ".
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ دائیں بائیں جانب سے واپس چلے جاتے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برہنہ پا اور جوتی پہن کر بھی نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھڑے ہو کر اور بیٹھ کر بھی پانی پیتے ہوئے دیکھا ہے اور سفر میں روزہ رکھتے ہوئے اور ناغہ کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف حجاج
سیدنا ابن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میری امت کو دیکھو کہ وہ ظالم کو ظالم کہنے سے ڈر رہی ہے تو ان سے رخصت ہو گئی (ضمیر کی زندگی یا دعاؤں کی قبولیت)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، أبو الزبير لم يسمع من عبد الله بن عمرو